پھر وہی پرانی باتیں کہ عالمگیر ہندوکش تھا، ظالم تھا، ستم گرتھا

اورنگ زیب سے مودی کا موازانہ تاریخ سے ناواقفیت کی دلیل

حسن آزاد

 

مجسمہ سازانیش کپور کے مضمون سے آر ایس ایس نواز افراد بھی برہم
مغلوں کی تاریخ سے ناواقفیت کی بنیاد پر یا یہ کہیے کہ اسلام دشمنی جذبہ کے تحت اورنگ زیب کو ملک میں کسی بیکار سی فلم کا ویلن (villain) بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اورنگ زیب کے حوالے سے اس قدر مغلظات اور ہفوات عام ہیں کہ جس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پایا ہے۔ اس کا اندازہ برطانیہ کے اخبار دی گارجین (The Guardian) میں چھپے بھارتی نژاد مجسمہ ساز انیش کپور کے قلم سے لکھے گئے مضمون سے ہوتا ہے جنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے ان کا انگ زیب سے موازنہ کیا۔
اپنے مضمون میں انیش کپور لکھتے ہیں کہ ’’سترہویں صدی میں اورنگ زیب نے زبردست مذہبی منافرت کی بنیاد پر ہندوؤں کے یادگاروں اور مندروں کو مسمار کیے۔ مودی اس دور کے اورنگ زیب ہیں جن کی حکومت کا موازنہ افغانستان کے طالبان سے کیا جاتا ہے جو سخت نظریاتی جذبے کے ساتھ حکومت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ انیش کپور اپنے دو بڑے عوامی مجسمہ سازی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ شکاگو کے ملینیم پارک میں "کلاؤڈ گیٹ” (Cloud Gate) اور "اسکائی مِرَر” (Sky Mirror) جو نیویارک میں راکفیلر سنٹر میں نصب ہے۔ انیش کپور ممبئی میں پیدا ہوئے، انہوں نے اسرائیل میں الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ کپور اپنے مجسموں کی تشکیل کے بائیومورفک (biomorphic) انداز کے لیے بہت مشہور ہیں۔
اورنگ زیب کا وزیر اعظم مودی سے موازنہ کرنا تاریخی حقائق سے روگردانی کرنے کے مترادف ہے۔ انیش کپور کے اس مضمون پر نیویارک کی رٹگرز یونیورسٹی، نیوارک، نیو جرسی (Rutgers University-Newark) میں جنوبی ایشیا کی تاریخ پڑھانے والی امریکی تاریخ داں آڈری ٹرشکی (Dr. Audrey Truschke) اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’یہ مضمون بھی دوسرے مضامین کی طرح ہی ہے۔ جس میں اورنگ زیب کے حوالے سے فرسودہ اور غلط نظریہ پیش کیے جاتے ہیں اور انہیں ایک تباہ کن مذہبی شدت پسند تسلیم کیاجاتا ہے۔ وسیع پیمانے پر بھارتی معاشرے میں اس دقیانوسی خیالات کی اصل اور اس کے پھیلاؤ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کچھ ذرائع (sources) ہیں ۔۔۔‘‘
ڈاکٹر آڈرے ٹرسچکی اپنے ایک اور ٹویٹ میں اورنگ زیب پر لکھی گئی کتاب کے نام ‘اورنگ زیب، دا مین اینڈ دا متھ’ (Aurangzeb: The Man and the Myth ) شیئر کرتے ہوئے صارفین کو پڑھنے کا مشورہ دیتی ہیں تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔ بی بی سی میں کیے گئے اس کتاب پر تبصرے کے مطابق ‘اورنگ زیب، دا مین اینڈ دا متھ’ میں بتایا گیا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ اورنگ زیب نے مندروں کو اس لیے مسمار کروایا کیونکہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا۔ دراصل اورنگ زیب کی اس شبیہ کے لیے انگریزوں کے زمانے کے مؤرخ ذمہ دار ہیں جو انگریزوں کی ‘پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو’ کی پالیسی کے تحت ہندو مسلم دشمنی کو فروغ دیتے تھے۔
تاریخ میں اورنگ زیب کے حوالے سے تو یہاں تک آتا ہے کہ انہوں نے کئی مندوروں کے لیے زمینیں عطا کی ہیں۔ بی این پانڈے اپنی کتاب ’ہندو مندر اور اورنگ زیب کے فرامین‘ میں اس حوالے سے پوری تفصیل ہے۔ بی این پانڈے رقم طراز ہیں کہ ’’جگمیری شیومندر کے پاس مندر کو جاگیر عطا کرنے کے سلسلے میں اورنگ زیب کے کئی دوسرے فرامین بھی تھے۔ اورنگ زیب کی یہ نئی شبیہ جب میرے سامنے آئی تو میں بہت متعجب ہوا۔ ڈاکٹر سپرو کے ایماء پر میں نے کئی اہم منادر کے مہنتوں کو خطوط لکھے کہ اگر ان کے پاس ان کے مندروں کو جاگیر عطا کرنے کے سلسلے میں اورنگ زیب کے کوئی فرامین ہوں تو مجھے ان کی فوٹو کاپی ارسال کی جائے۔ مجھ پر اس وقت حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب مجھے بڑے مندروں جیسے مہاکالیشور (اجین) بالاجی مندر (چترکوٹ) امانندمندر (گوہاٹی) جین مندر (شترنجیا) اور دوسرے کئی منادر اور گردواروں سے جو شمالی ہند میں بکھرے ہوئے ہیں، کی طرف سے اورنگ زیب کے فرامین کی نقول موصول ہوئیں۔ یہ فرامین 169 تا 1659کے درمیان جاری کیے گیے تھے۔ مندرجہ بالا حقائق سے ہندوؤں اور ان کے مندروں کے تئیں جہاں اورنگ زیب کی سخاوت ظاہر ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ مورخین نے اس کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا وہ محض تعصب کی بنا پر تھا اور تصویر کا محض ایک رخ تھا۔۔۔۔۔‘‘
تمہیں لے دے کے ساری داستان میں یاد ہے اتنا
کہ عالمگیر ہندو کش تھا، ظالم تھا، ستم گرتھا
کچھ اسی انداز میں ڈاکٹر رام پنیانی اپنے ایک لکچر میں بیان کرتے ہیں کہ اگر اورنگ زیب ہندوؤں سے اتنا نفرت کرتا تھا تو پھر اس نے اپنے افسروں میں سے 34 فیصد افسر ہندو کیوں رکھے تھے؟ ڈاکٹر رام پنیانی نے مزید کہا کہ چونکہ وہ تاریخ داں نہیں ہیں اسی لیے انہوں نے اورنگ زیب کے سلسلے میں مؤرخین کی کتابیں پڑھیں تو انہیں کئی چیزوں کا علم ہوا کہ اورنگ زیب نے مندر ومسجد دونوں منہدم کروائے اور اس کی واحد وجہ اپنی حکمرانی کو مضبوط ومستحکم کرنا تھا۔ ہندو دشمنی قطعاً نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ اورنگ زیب نے تقریباً 50 سال تک ملک پر حکومت کی جسے دھرم کے چشمے سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر رام پنیانی مسجد منہدم کروانے کا مشہور واقعہ بھی سناتے ہیں جو یہاں پر ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ قصہ کچھ ہوں ہے کہ گولکنڈہ کے نواب تاناشاہ نے لگان نہیں دیا، لگ بھگ تین برس تک وہاں سے وصولی نہ ہوئی۔ اب تانا شاہ وہاں کا والی تھا مگر اورنگ زیب مہا والی تھا۔ اس نے جب وجہ پوچھی تو تاناشاہ نے کہا کہ ہمارے علاقے میں تین سال سے قحط پڑا ہوا ہے پیداوار ہی نہیں ہوئی تو لگان کہاں سے دیں؟ چنانچہ اورنگ زیب نے اپنے ایک جاسوس کو بھیجا کہ وہ جا کر پتہ لگائے کہ نواب کی دولت کہاں محفوظ کی گئی ہے۔ جاسوس نے خبر دی کہ ساری دولت مسجد کے اندر تہ خانے میں چھپا کر رکھی گئی ہے۔ یوں مسجد کو اورنگ زیب کی فوج نے گرا کے وہاں سے دولت حاصل کر لی۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘ میں بہت ہی منصفانہ تبصرہ کیا ہے جو یہاں رقم کیے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’جس قدر بت خانے توڑے گئے وہ انہی مقامات کے تھے جہاں پُر زور بغاوتیں برپا ہوئیں۔ عالمگیر 25 برس تک دکن میں رہا۔ یہاں ہزاروں بت خانے تھے۔ لیکن تاریخ میں ایک حرف بھی نہیں مل سکتا کہ اس نے یہاں کسی بت خانے کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔‘‘
مختصر یہ کہ اورنگ زیب کی تاریخ سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہی انیش کپور نے پی ایم مودی کو موجودہ وقت کا اورنگ زیب بتایا۔ دراصل انیش کپور نے یہ مضمون ملک میں متنازع سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کی مخالفت میں لکھا ہے۔ اپنے مضمون میں انیش کپور کو چاہیے تھا کہ وہ ملک کے نئے مجوزہ پارلیمانی عمارت کی باریکیوں اور کمیوں پر لکھتے۔ انہوں نے نئے پارلیمنٹ کے مجسمہ ساز بِمل پٹیل (Bimal Patel) کو مقرر کیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے ان کو کم صلاحیت والا بھی بتایا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ متنازع سنٹرل وسٹا پروجیکٹ حکومت ہند کا ایک نیا تعمیراتی منصوبہ ہے جو دلی کے قلب میں راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) سے انڈیا گیٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کو رائے سنا ہلز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس خطے کو برطانوی دور حکومت میں ایڈون لوٹینز اور بربرٹ بیکر نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کے تحت مثلث نما ایک نئی پارلیمنٹ کی عمارت بنائی جائے گی جس میں 12 سو سے زیادہ اراکین پارلیمان کی گنجائش ہو گی۔ راشٹرپتی بھون، انڈیا گیٹ اور مودی کے دور حکومت میں تیار کیا جانے والا نیشنل وار میموریل جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا جبکہ وگیان بھون کو مسمار کر دیا جائے گا۔ اس پروجکٹ میں تقریباً 13,450 کروڑ روپے کا خرچ آئے گا۔
ایسا نہیں کہ انیش کپور کے مودی۔اورنگ زیب موازنے سے صرف دانشور اور تاریخ شناس طبقوں کو تکلیف ہوئی ہے بلکہ آر ایس ایس نواز گروپ بھی ناراض ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اورنگ زیب کو ایک ہندو مخالف بادشاہ مانتے ہیں۔ پھر کیا تھا آر ایس ایس فکر کے حامل صارفین نے انیش کپور کے خلاف ایک محاذ کھول دیا اور انہیں مسلم نواز شخصیت سے تعبیر کیا۔
انشُل سکسینہ لکھتے ہیں کہ ’’انیش کپور کے لیے ملک میں ایک نئی پارلیمنٹ بلڈنگ کی تعمیر جس کا مطالبہ ایک طویل عرصے سے ہو رہا ہے یہ ہندو طالبان ہے۔ لیکن اگر وہی انیش کپور ‘ناراض نوجوان مسلمان’ ہوتے تو وہ داعش میں شامل ہونے کا سوچتے۔‘‘ وہیں ٹویٹر پر ایک صارف انکور سنگھ لکھتے ہیں کہ ’’انیش کپور طویل عرصے سے کانگریس کے لیے پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ 2015 سے وہ ہندو طالبان کہ کر بھارت کو مستقل شرمسار کر رہے ہیں۔ مودی سے ان کی نفرت بہت پرانی ہے‘‘
واضح ہو کہ انیش کپور نے اپنے مضمون میں بار بار متنازع سنٹرل پروجکٹ کے تحت عمارتوں کو منہدم کیے جانے کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف وگیان بھون کو مسمار کیا جائیگا۔ مکرند پرانجپے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لکھتے ہیں کہ ’’حیرت کی بات ہے کہ انیش کپور کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ مسمار کرنے کے لیے مختص کوئی عمارت میراثی یا اسلامی ڈھانچہ ہے ہی نہیں۔ بھارت کو غیر اسلامی بنانے والی بات در اصل مودی کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی باطل اور احمقانہ ایک مہم ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور اورنگ زیب کا موازنہ کرنا کھلی حماقت ہے اور اس وجہ سے بھی غلط ہے کیوں کہ اورنگ زیب ایک بادشاہ ہوتے ہوئے بھی ایک درویش صفت انسان تھا جو قرآن مجید کی کتابت اور ٹوپیوں کی سلائی سے اپنی ضروریات پوری کرتا تھا، یہاں تک کہ اس نے اپنی موت کے وقت وصیت کی کہ اس کی اسی آمدنی سے تجہیز و تکفین کی جائے۔ ایسے زاہد، درویش صفت، قناعت پسند اور عیش وعشرت سے دور بادشاہ کی نہ صرف بھارت بلکہ تاریخِ عالم میں کم مثالیں مل پائیں گی۔ وہیں دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی جمہوری ملک میں ایک منتخب عوام کے خادم ہیں لیکن ان کی ’سوٹ بوٹ ‘ کی سرکار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ناشتے میں مشروم کے استمعال کا قصہ تو ایک کو معلوم ہے۔
اورنگ زیب کے دور میں سیکڑوں جنگیں ہوئیں لیکن فرقہ وارانہ فساد کم ہی ہوئے۔ معروف تاریخ داں ہربنس مکھیا کے مطابق ‘عہد وسطیٰ میں جنگ وجدل اور خون خرابے بہت ہوئے لیکن فساد نہیں ہوئے۔’ بھارت میں تمام تر تاریخی شواہد کی بنیاد پر ‘پہلا فساد مغل بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد اٹھارویں صدی کی دوسری دہائی میں ہوا اور وہ بھی مودی جی کے گجرات میں۔’ وہیں دوسری طرف مودی سرکار میں فرقہ وارانہ فسادات کی بھرمار ہے جن میں 2002 گجرات فساد اور حال ہی میں ہوئے شمال مشرقی دلی فرقہ وارانہ فساد قابل ذکر ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عام طور پر اورنگ زیب کو ہندو مخالف پیش کیا جاتا ہے لیکن انہوں نے متعدد ایسے ٹیکسوں کو معاف کردیا، جن کا تعلق ہندوؤں سے تھا، جیسے گنگا پوجا ٹیکس، گنگا اشنان ٹیکس اور گنگا میں مردوں کو بہانے کا ٹیکس۔ وہیں دوسری طرف مودی حکومت پر الزام ہے کہ متنازع شہریت قانون کو متعارف کرواکے مسلمانوں کو ہی ملک سے بے دخل کرنے کی تیاری میں ہیں۔
لیکن آج ہم جمہوریت اور آئی ٹی کے زمانے میں جی رہے ہیں لہذٰا جدید اصولوں اور نظامِ حکمرانی کے تقاضے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر اپنے بیانیہ کے حق میں استعمال کیا جائے۔
ہر زمان ومکان کا اپنا پس منظر وپیش منظر ہوتا ہے اور اس دور کے حالات کے مجموعی تناظر میں رکھ کر کسی بھی تاریخی واقعہ پر کمنٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درست اور تعصب سے پاک پیغام اجاگر ہو سکے ورنہ موجودہ ظالم وجابر حکمرانوں کا موازنہ کرنے کے لیے جدید زمانے میں بھی مثالوں کی کمی نہیں ہے۔
روانڈا ریڈیو، سربیائی قاتل رہنما راڈوان کراڈزک، ایک بڑا مجرم سربیائی جنرل راتکو ملادِچ، موجودہ کوریائی لیڈر کی آمریت وجبر کے قصے جرمنی کے ہٹلر کے بہت بعد کے زمانے کے ہیں۔ لیکن مغلوں اور اسلامی یا مسلمانوں کی تاریخ سے کیڑے تلاش کرنے کا عمل بتاتا ہے کہ وہ لوگ خود فسطائی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اس طرح کا غیر حقیقی موازنہ کرنے لگے ہیں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021