پرچم لہرانے سے لاش لٹکانے تک ندامت ہی ندامت

کسان تحریک کو بدنام کرنے کی دوسری سازش بھی ناکام

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

درباری میڈیا کے مقابلہ میں غیرجانب دار میڈیا کو دھار تیز کرنے کی ضرورت
ہندوستان کی تاریخ میں پچھلے دس ماہ کے اندر دو ایسے غیر معمولی واقعات رونما ہوئے جنہیں مستقبل کا مورخ نظر انداز نہیں کرسکتا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ میں ان پر خاطر خواہ بحث نہیں ہوئی۔یہ خوش آئند بات ہے کہ فی الحال جانب دار میڈیا کے مقابلے میں ایک متوازی میڈیا بھی کھڑا ہوگیا ہے اگر چہ کہ وہ نسبتاً کمزور نظر آتا ہے مگر اپنی دلیری اور قابل اعتبار ہونے کے سبب باشعور طبقہ میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس دورِ پرآشوب میں جہاں ہر سُو خوف اور حرص کا بول بالا ہے یہ میڈیا دراصل ’ باغی بلکہ انقلابی میڈیا‘ کہلانے کاحقدار ہے اور ایک قابلِ قدر خدمت انجام دے رہا ہے ۔ ان دونوں کے درمیان واضح فرق کے باوجود باغی اور درباری میڈیا میں ایک شئے مشترک ہے۔ یہ نادانستہ طور پر انہیں موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں جو بی جے پی چاہتی ہے ۔ہوتا یہ ہے کہ بی جے پی کا آئی ٹی سیل جب کوئی شوشہ چھوڑ تا ہے تو پہلے جانب دار میڈیا اس پر ڈھول تاشے بجانے لگتا ہے اور پھر باغی میڈیا اس کی چیر پھاڑ میں جٹ جاتا ہے ۔ اس دھینگا مشتی میں باغی میڈیا کوخود موضوع کا انتخاب کرکے جانب دار میڈیا کو اس پر گفتگو کرنے پر مجبور کرنے میں ابھی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ پر پرچم لہرانے کا واقعہ ہو یا سنگھو سرحد کے قریب لاش کو لٹکانے کا سانحہ ، دونوں کی بحث اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی۔
یومِ جمہوریہ بھی یوم آزادی کی مانندقومی دن ہے۔ ایک قوم پرست حکومت کے نزدیک اس کا تقدس غیر معمولی ہونا چاہیے لیکن چونکہ سنگھ قومی دستور سے کسی قسم کی عقیدت نہیں رکھتا اور اسے بدلنے پر تُلا ہوا ہے اس لیے اس کے نفاذ کا دن بھلا کس اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے ؟ اس کے باوجود یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل پر قومی پرچم کے بجائے سکھوں کے مذہبی جھنڈے نشان صاحب کا لہرایا جانا پورے ملک کے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔ اس توہین کو روکنے میں ناکامی کے لیے وزیر داخلہ کا استعفیٰ لیا جانا چا ہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امسال یومِ جمہوریہ کےموقع پرکسانوں نے دلی میں داخل ہوکر ٹریکٹر پریڈ کا اعلان کیا۔ انتظامیہ نے پہلے تو روکا اور پھر جھک کرکچھ خاص راستوں پر جلوس نکالنے کی اجازت دے دی ۔ اس میں لال قلعہ شامل نہیں تھا پھر بھی جانب دار میڈیا نے یہ خبر گرم کردی کہ کسان وہاں پہنچ کر یوم جمہوریہ کی تقریبات میں خلل ڈالیں گے۔ یہ دراصل ماحول سازی کا سامان تھا۔
26؍ جنوری کو کسانوں نے جب دلی کی سڑکوں پر ٹریکٹر پریڈ نکالی تو اس میں کچھ شر پسند عناصر نے رہنماوں کے ہدایات سے انحراف کرکے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ وہ لوگ پہلے تو پولیس سے بھڑ گئے پھر لال قلعہ پہنچ کر سکھوں کا مذہبی پرچم جو اتفاق سے خالصتان کا جھنڈا بھی ہے فصیل کے گنبد پرلہرا دیا ۔ اس دوران لال قلعہ کے احاطہ میں تشدد بھی ہوا جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا۔ اس موقع پر پولیس کا تقریباً خاموش تماشائی بنا رہنا حیرت انگیز تھا مگر کوئی بھی میڈیا اس سازش کا پردہ بروقت فاش نہیں کرسکا۔ حکومت نے راج دیپ سردیسائی سمیت کچھ بڑے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے خوف و ہراس کا ماحول بنا دیا ۔ اسی کے ساتھ بنگلورو کی طالب علم دشا روی کا شوشہ چھوڑ کر میڈیا کی توجہ نفسِ مسئلہ سے ہٹا دی گئی اور ہر کوئی نام نہاد ٹول کِٹ میں الجھ کر پرچم لہرانے کے معاملے کو بھول گیا ۔
دلی پولیس نےبڑی چالاکی سے اس سانحہ کو سکھ فار جسٹس سے جوڑ دیا ۔ 11؍ جنوری کواس کینیڈین تنظیم کی آن لائن میٹنگ میں انڈیا گیٹ اور لال قلعہ پر خالصتانی پرچم لہرانے والے شخص کو انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ دشا روی پر کسانوں کی تحریک کی حمایت میں بنی ٹول کٹ میں ترمیم کرنے اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا الزام لگاکر بین الاقوامی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کو بھی سازش کا حصہ بتایا گیا۔ انتظامیہ نے اس ٹول کٹ کو بغاوت کا سبب بننے والی دستاویز قرار دے کر آئی پی سی کی دفعہ 124 اے ، 153 اے ، 153 ، 120 بی کے تحت مقدمہ درج کرلیا ۔ اس کے باوجو دشا روی کو 23؍ فروری کے دن ایک لاکھ کے مچلکے پر ضمانت مل گئی اور سارا معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔ دشا کے چھوٹنے کا مودی سرکار کے مخالفین نے بڑا جشن منایا مگر وہ بھول گئے کہ اس خیالی سازش کی آڑ میں اصلی سازش کو چھپا یا جا چکا تھا۔
دشا روی کا معاملہ ٹھنڈا ہوا تو دلی کی عدالت میں 8؍ اپریل 2021کو لال قلعہ پر پرچم لہرانے کا مقدمہ زیر سماعت آیا ۔اس کے اندر تشدد کے الزام میں گرفتارپنجابی اداکار دیپ سدھو کی ضمانت زیر بحث تھی۔ اس دوران دیپ سدھو نے وکلا کے توسط سے عدالت کو بتایا کہ پرچم لہرانا کوئی جرم نہیں ہے۔ اس نے فیس بک پر اسے لائیو
کرنے کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہر غلطی جرم نہیں ہوتی ۔ اس طرح ایک بہت بڑے جرم کو عدالت میں معمولی بھول چوک میں بدلنے کی کامیاب کوشش کی گئی ۔ اس مضحکہ خیزدلیل کو سن کرخصوصی جج نیلوفر عابدہ پروین نے سماعت کو 12؍ اپریل تک ملتوی کردیا تاکہ اسے ٹال کر ٹھنڈا کیا جاسکے۔اس کے صرف چار دن بعد یعنی 16؍ اپریل کو سدھو کی ضمانت منظور ہو گئی مگر پھر آثار قدیمہ کے محکمہ (اے ایس آئی) کے ذریعہ درج شدہ ایف آئی آر کی بنیاد پر ا سے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ اس دوسری گرفتاری نے رہائی کا غم تو غلط کیا مگر جب تک مقدمہ خاصہ کمزور ہوچکا تھا ۔
مخالفت کو کم کرنے کے اس حربے کے دس دن بعد موقع پا کر 26؍ اپریل کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ایم ایم ساحل گپتا نے سدھو کو 25 ہزار روپے کے ذاتی مچلکے اور اتنی ہی ضمانتی رقم پر رہا کردیا۔ یعنی دشا روی کے لیے توایک لاکھ کا مچلکہ جبکہ وہ بنگلورو میں تھی اور لال قلعہ پر موجود دیپ سدھو کے لیے ایک چوتھائی رقم! اس کا جواز پیش کرتے ہوئے عدالت نے بتایاکہ ’’ملزم سے 14 دن پولیس تحویل میں تفتیش کی گئی ہے اور وہ تقریباً 70 دنوں سے حراست میں ہے۔‘‘ ایڈیشنل سیشن جج نے ملزم کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسے مزید آزادی سے محروم رکھنا نہ تو منطقی ہے اور نہ ہی قانونی۔‘‘ یہ معاملہ اس شخص کے ساتھ کیا گیا جس نے یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل کے اوپر خالصتانی پرچم لہرا نے میں حصہ لیا تھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بے قصور صدیق کپن پر یو اے پی اے لگانے والی سرکار نے دیپ سدھو کے ساتھ کمال نرمی کا مظاہرہ کیا کیوں کہ وہ اس کا اپنا آدمی تھا اور اسی کی ایماء پر یہ سب کیا گیا تھا۔
اس دوران دیپ سدھو کی تصاویر نہ صرف پنجاب کے بی جے پی رکن پارلیمان سنی دیول بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی زینت بن گئیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اس کالی بھیڑ کو ایک سازش کے تحت کسان تحریک میں اسے بدنام کرنے کی خاطر بھیجا گیا اور جب وہ ناکام ہوگئی تو اسے بچالیا گیا۔دیپ سدھو تو خیر ایک فلمی اداکار ہے لیکن اس سازش کو بروئے کار لانے کی خاطر ایک پیشہ ور مجرم لکھا سدھانہ کی بھی خدمات حاصل کی گئیں۔ امیت شاہ کی دلی پولیس نے اس پر الزام لگایا کہ لکھبیر سنگھ عرف لکھا سدھانا پنجاب کا ایک گینگسٹر ہے۔ لکھاسدھانہ پر اشتعال انگیز تقریر کرکے لوگوں کو اکسانے کا الزام بھی لگایا گیا۔ پولیس کے مطابق دیپ سدھو نے جب 25 ؍جنوری کو سنگھو سرحد پر اشتعال انگیز تقریر کی تھی، تواس وقت لکھا سدھانا بھی وہاں موجود تھا ۔
لکھاسدھانا کے ضمانت کی درخواست جب عدالت میں سماعت کے لیے آئی تو پولیس نے اس کی مخالفت میں کہا کہ سدھانا نے مظاہرین کو لال قلعہ میں گھسنے پر اکسایا تھا اور وہ(ملزم) اس کیس کے اہم ساز ش کنندگان میں سے ایک ہے۔ ان سنگین الزامات کے باوجود اس قومی سانحہ کے پانچ ماہ بعد 17؍ستمبر کو خاموشی کے ساتھ دلی کی روہنی عدالت نے لال قلعہ تشدد کے اس مرکزی ملزم کی پیشگی ضمانت منظور کر لی ۔اس کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے عدالت میں ڈھٹائی سے کہا کہ وہ تفتیشی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہاہے ۔ لکھبیر کے ساتھ عدالتی بے بسی کی بنیادی وجہ اس کے تئیں انتظامیہ کی نرمی تھی۔ اس قدر سنگین ملزم پر یو اے پی اے کا نہ لگنا اور پیشگی ضمانت کا بہ آسانی مل جانا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ یہ عنایت سرکاری سرپرستی کے سبب ہے۔
بھلا ہو کسان تحریک کا کہ وہ اس زبردست سازش کے چنگل سے بچ کر نکل گئی۔ اس کے باوجود یہ بات تسلیم کرنی ہی ہوگی کہ لکھبیر اور دیپ سدھو کے معاملے میں حکومت کی جس طرح گھیرا بندی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوسکی اور باغی میڈیا سرکار کی خاطر خواہ سرزنش نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ نہنگوں کے ذریعہ کسان تحریک کو بدنام کرنے کی دوسری سازش رچی گئی ۔ اتفاق سے اس میں آلہ کار کے طور پر استعمال ہوکر ہلاک ہونے والے کا نام بھی لکھبیر سنگھ تھا۔ 15؍ اکتوبر 2021؍ کو سنگھو کنڈلی سرحد پر ایک 35 سالہ شخص کے بہیمانہ قتل کا معاملہ منظر عام پر آیا ۔اس کا ہاتھ کاٹ کر لاش کو بیریکیڈ پر لٹکادیا گیا تھا۔ اس بد قسمت کے جسم پر تیز دھار ہتھیار سے حملے کے نشانات تھےاور ایک ہاتھ کلائی سے کٹا ہوا تھا۔
موقع واردات پر کسان رہنما تو موجود تھے مگر پولیس کو قریب جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی تاہم ابتداء سے ہی نہنگوں پر قتل کا الزام لگایا گیا جس کی بعد میں تصدیق ہوگئی۔ اس معاملے میں ایک چشم دید گواہ نے بتایا کہ اسے اسٹیج کے 500 میٹر دور قتل کرکے وہاں لٹکایا گیا۔ ایک اور چشم دید گواہ نے بتایا چونکہ نہنگوں کے لباس میں لکھبیر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اس لیے وہ اس کی مدد نہیں کرسکا اور اسے اپنی جان کا خوف لاحق تھا ۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے ویڈیوز سامنے آنے لگے ۔ ان میں نہنگ ہلاک ہونے والے سے بار بار پوچھتے تھے کہ اسے کس نے بھیجا ہے ۔وہ گڑگڑا کر کہتاتھا کہ مجھے مار ڈالو اور گرو کے چرنوں میں بھیج دو ۔ اس کا ہاتھ چونکہ کاٹاجا چکا تھا اور وہ فریاد کر رہا تھا کہ اب یہ درد نہیں سہا جار ہاہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اس کو سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کی سزا دی گئی ۔
اس معاملے میں آگے چل کر چار نہنگوں نے خود سپردگی کی اور یہ کہا کہ 400 سے زیادہ بے حرمتی کے واقعات کے باوجود بھی کسی کو سزا نہیں ملی۔ سب کو پاگل قرار دے کر چھوڑ دیا گیا اس لیے انہوں نے خود سزا دے دی تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرے لیکن اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا ۔ کسان رہنماوں نے گرو گرنتھ صاحب کی بے ادبی کی مذمت کی مگر اس کو ازخود سزا دینے کو غلط کہا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ اس واردات کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے اس موقع پر راکیش ٹکیت نے سب سے پہلے اسے کسانوں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دے دیا۔اس دل دہلا دینے واقعہ کے بعد مہلوک نوجوان کی تفصیل ذرائع ابلاغ میں آنے لگی۔ 35 سالہ لکھبیر کا تعلق ترن تارن کے چیما خورد گاوں سے تھا ۔منشیات کے عادی لکھبیر کی بیوی پانچ سال قبل اپنے تین بچوں کے ساتھ اسے چھوڑ کر میکے چلی گئی تھی۔ مزدوری کرنے والا لکھبیر اپنی پھوپی زاد بیوہ بہن اور اس کی بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔
نہنگوں کی صحبت میں رہنے والے دانے دانے کامحتاج معمولی مزدور کا ازخود بلا وجہ اپنے گاوں سے سنگھو بارڈر پہنچ کر ایسی حرکت کردینا سازش کی جانب اشارہ کررہا تھا ۔ اس کی پھوپی زاد بہن نے اس کو لالچ دے کر لے جانے کے شک کا اظہار کیا۔ لکھبیر کی بیوی جسپریت کور نے بھی نیوز لانڈری کی ٹیم کو بتایا کہ وہ دل کا برا نہیں ہے۔ اسے موت کے بعد بھی یقین ہے کہ یہ حرکت کسی کے بہکاوے میں آکر کی گئی ہے۔ اس کے خیال میں کسی نے لکھبیر کو اپنی باتوں میں پھنسایا ہے۔ کسی نے نشے یا پیسوں کا لالچ دے کر اس سے یہ کام کروایا ہے۔ گاوں والوں کا بھی یہ خیال ہے کہ وہ چوری تو کرسکتا ہے مگر بے ادبی نہیں کرسکتا ۔ اسے ورغلایا گیا ہے۔ اس دوران ایک 43 سیکنڈ کی ایک ویڈیو سامنے آگئی جس میں وہ 30 ہزار روپے لینے کا اعتراف کرتا ہے اس طرح مندرجہ بالا شکوک و شبہات درست ہوگئے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ سازش کس نے رچی ؟ تو اس کا جواب چنڈی گڑھ کے انگریزی روزنامہ ’دی ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ میں مل گیا۔ اس کے مطابق لکھبیر سنگھ کے قتل کی ذمہ داری لینے والی نہنگ تنظیم کے رہنما بابا امن سنگھ کے ساتھ مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر سمیت کئی وزراء اور بی جے پی رہنماوں کی میٹنگس ہو چکی ہیں۔اخبار کے مطابق کچھ مہینے قبل مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے بابا امن سنگھ کو باقاعدہ سروپا دے کر اپنی سرکاری رہائش پر اعزاز بخشا تھا۔ وہ مبینہ طور پر اعلیٰ بی جے پی لیڈروں اور مرکزی وزراء سے سنگھو بارڈر پر ڈٹے کسانوں کی یکطرفہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہےاور مرکزی وزیر مملکت برائے زراعت کیلاش چودھری کے دہلی میں واقع سرکاری بنگلے پر مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر طویل میٹنگ بھی کر چکا ہے بعید نہیں کہ وہیں سازش رچی گئی ہو۔
مذکورہ دعوت میں جھارکھنڈ کے بی جے پی رکن پارلیمان سشیل کمار سنگھ، بھارت-تبت ایسوسی ایشن کے قومی جنرل سکریٹری سوربھ سارسوت، بی جے پی کسان مورچہ کے سابق قومی جنرل سکریٹری سکھ مہندر پال سنگھ گریوا کے علاوہ پنجاب کا ایک بدنام پولیس اہلکار گرمیت سنگھ پنکی کیٹ بھی شامل تھا۔’دی ٹریبیون‘کے پاس موجود تین تصاویر یہ ثابت کرتی ہیں کہ نہنگ لیڈر بابا امن سنگھ کی بی جے پی لیڈروں کے ساتھ گہری قربت ہے۔ مہندر پال سنگھ گریوال نے نہنگ رہنمابابا امن سنگھ کے ساتھ سرکردہ بی جے پی لیڈروں سے ملاقات کا اعتراف کردیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس نہنگ تنظیم پر اتنے خطرناک قتل کا سیدھا الزام ہے، اس کے رہنما کا بی جے پی کے قومی رہنماوں اور وزراء کے ساتھ اس قدر گہرا تال میل ہے جو قابل تشویش ہے۔ بابا امن سنگھ کے ذریعہ لکھبیر کو اپنا آلہ کار بناکر قتل کروانے والوں کا کسان سنیوکت مورچہ کو گنہگار ٹھہرانا شرمناک نہیں تو اورکیا ہے؟
بی جے پی نے اس سانحہ کے ذریعہ کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کے ساتھ اس سے انتخابی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی۔ پنجاب میں ایک دلت کو وزیراعلیٰ بناکر کانگریس نے جو سبقت حاصل کی اس کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر لکھبیر کے پسماندہ طبقے سے تعلق کو اچھال کر تحریک پر تنقید کی گئی۔ پسماندہ ذاتوں کا قومی کمیشن حرکت میں آگیا ۔ اس کے سربراہ وجے سامپلا نے دلت برادری کی پندرہ تنظیموں سے ملاقات کرنے کے بعد سنگھو سرحد کے نزدیک احتجاج کرنے والے کسانوں پر سخت کارروائی کا مطالبہ کردیا ۔ سامپلا نے آگے کا لائحہ عمل طے کرنے کی خاطر ہریانہ حکومت سے رپورٹ طلب کی اورریاست کے ڈی جی پی سمیت چیف سکریٹری کو سخت کارروائی کرنے کے لیے نوٹس بھیجا ہے لیکن ٹریبیون کی رپورٹ اور اس میں موجود شواہد نے بی جے پی کی ہوا اکھاڑ دی ۔ اس طرح کسانوں کو بدنام کرنے کی یہ دوسری سازش بھی چاروں خانے چت ہوگئی۔ یہ کھیل کب تک چلے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن قومی امید ہے کہ کسانوں کی تحریک مودی سرکار کو ناک آوٹ کردے گی ۔ کسانوں کی اس تحریک پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہَوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
***

 

***

 بھلا ہو کسان تحریک کا کہ وہ اس زبردست سازش کے چنگل سے بچ کر نکل گئی۔ اس کے باوجود یہ بات تسلیم کرنی ہی ہوگی کہ لکھبیر اور دیپ سدھو کے معاملے میں حکومت کی جس طرح گھیرا بندی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوسکی اور باغی میڈیا سرکار کی خاطر خواہ سرزنش نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ نہنگوں کے ذریعہ کسان تحریک کو بدنام کرنے کی دوسری سازش رچی گئی ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021