پاناما کا ہنگامہ، ذکرِ بہشت اور اب پنڈورہ کا ڈھنڈورا

حکمراں طبقہ ’ٹیکس چوروں کی جنت‘ کا مکین! لعنت کا خاتمہ کیسے ہوگا؟

مسعود ابدالی

اپریل 2016میں پاناما کی لیگل فرم موسیک فونیسکا (Mossack Fonesca) میں الیکٹرانک نقب زنی (Hacking)کے ذریعہ ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات کاپلندہ اڑاکر جرمنی کے دو تفتیشی صحافیوں بیسشین اوبرمیئر اور فریڈرک اوبرمائر کے حوالے کیا گیا۔ یہ روداد پراسرار لیکن دلچسپ ہے۔ بیسشین کا کہنا ہے کہ ایک رات انھیں نامعلوم شخص کا فون آیا جس نے اپنا نام جان ڈو بتایا۔ جان ڈو کا کہنا تھا کہ میرے پاس ایسی معلومات ہیں کہ جس کا افشا تمہیں دنیائے صحافت کا روشن ستارہ بنادے گا۔ جان ڈو نے اسی رات فریڈرک کو بھی فون کیا جسکے بعد ان صحافیوں کے برقی پتے پر فائلوں کا تانتا بندھ گیا۔ خیال ہے کہ جان ڈو (فرضی نام) موسیک فونسیکا کا کوئی ناراض ملازم تھا جس نے سنسنی خیز معلومات کا خزانہ ان دونوں صحافیوں کے حوالے کردیا۔
اس افشا سے ساری دنیامیں ہلچل مچ گئی۔پاناما ہنگامے کا پہلا شکار آئس لینڈ‌ کے وزیراعظم سگمند گنلوگسن (Sigmundur Gunnlaugsson)بنے جنھوں نے پاناما لیکس کے کچھ ہی دن بعد استعفیٰ دے دیا۔ پاناما لیکس سے معلوم ہوا تھاکہ سگمندر گنلوگسن اور ان کی اہلیہ ایک ماورائے ساحل یا آف شور کمپنی کے مالک ہیں جن کے بارے میں انھوں نے اپنے محکمہ ٹیکس کو معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔کچھ ایسا ہی معاملہ مالٹا کے وزیراعظم جوزف مسقط کے ساتھ پیش آیا جنکا اپنا دامن تو صاف تھا لیکن پاناما دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ انکی کابینہ کے وزیر سیاحت کونریڈ مزی، وزیراعظم کے مشیر کیتھ شیمبری کے علاوہ خاتونِ اول مشل ٹینٹی نے ماورائے ساحل کمپنیاں قائم کررکھی ہیں۔
وزیراعظم مسقط نے اس خبر کے شائع ہوتے ہی یہ کہہ کر استعفٰی دے دیا کہ سرپر دھرےالزام کے اس بھاری بوجھ کے ساتھ وہ اپنی قوم کی قیادت نہیں کرسکتے۔ عوام نے اپنے قائد کے اخلاص کی قدر کرتے ہوئے صرف 60 دن بعد ہونے والے انتخابات میں مسٹر مسکٹ کی جھولی ووٹوں سے بھردی اور وہ پہلے سے بھی بڑی اکثریت اور حد درجہ احترام کے ساتھ اقتدار میں واپس آگئے۔ اس ضمن میں دوسرے رہنماوں کے ساتھ روسی صدر ولادیمر پوتن اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور انکے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون کو سیاسی خفت کا سامنا کرنا پڑا۔
آگے بڑھنے سے پہلے چند سطور ’ آف شور کمپنی‘ کی ہئیت، تصور اور فوائد پر۔
ساری دنیا میں تجارتی ادارہ قائم کرنے کے لیے متعلقہ مقتدرہ سے اجازت لی جاتی ہے۔ رجسٹریشن کے وقت ابتدائی سرمائے یا راس المال (Capital)کی تفصیلات کے ساتھ یہ بتانا ضروری ہے کہ سرمایہ کن ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے۔ رجسٹریشن کے بعد جب کاروبار شروع ہوجائے تو مالی سال کے اختتام پر ٹیکس کا گوشوارہ جمع کرنا بھی لازمی ہے۔بینکوں میں کھاتہ (Account)کھولتے وقت بھی آمدنی کے ذرائع بتانا ایک قانونی شرط ہے۔
دنیا کے بعض چھوٹے چھوٹے جزائر پر نیم خودمختار ریاستیں قائم ہیں جہاں تجارت کے آغاز پر حصولِ سرمایہ کے ذرائع سے متعلق معلومات جمع کرانا ضروری نہیں اور نہ ان ملکوں میں منافع پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔اسی طرح بینکوں میں کھاتہ کھولنے کے لیے بھی سرمائے سے متعلق معلومات پر اصرار نہیں ہوتا بلکہ بعض ممالک میں بے نامی اکاونٹ رکھنے کی بھی اجازت ہے جنکی شناخت صرف اکاونٹ نمبر ہے۔
دنیا بھر سے چوری کی ہوئی دولت ان ملکوں میں لائی جاتی ہے۔ یہ بے ایمان یہاں کے بینکوں میں اکانٹ کھول کر کالا دھن بینکوں میں جمع کرادیتے ہیں۔ کمپنیاں قایم کرکے ان رقومات کو کاروباری منافع ظاہر کیاجاتا ہے اور پھر یہ لوٹا ہوا سرمایہ مختلف ملکوں کو بینکوں کے ذریعے منتقل کردیا جاتا ہے۔ ان ملکوں میں اسکی وصولی جائز آمدنی کے طور پر ہوتی ہے۔ شناخت کو گنجلک و مبہم رکھنے کے لیے تہہ بہ تہہ یا Layering Companies بناکر ایک ادارے کے حصص دوسری کمپنیوں کو بیچ دئے جاتے ہیں اور یہ خرید وفروخت اس کثرت سے ہوتی ہے کہ اصل مالکان کا سراغ لگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ کالے اور ناجائز دھن کو اجلا ومُصٖفّا کرنے کے اکثر کارخانے مہذب دنیا کی نوآبادیات ہیں جنھیں ٹیکس چوروں کی جنت یا Tax Heavenکہا جاتاہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
پاناما (Panama): وسطی و جنوبی امریکہ کے ساحل پر واقع پاناما اسپین کی کالونی ہواکرتاتھا جسے 1903 میں آزادی دیدی گئی۔
برمودا (Bermuda): شمالی بحر اوقیانوس میں 64ہزار نفوس پر مشتمل یہ ملک برطانیہ کی نیم خودمختار کالونی ہے۔ اسکے ساحلوں پر چمکدار گلابی ریت سیاحوں کو مسحور کردیتی ہے۔
جرسی (Jersey): شمال مغربی فرانس کے ساحل پر واقع یہ ملک تاجِ برطانیہ کی ملکیت ہے۔ جرسی کی آبادی ایک لاکھ سے کچھ زائد ہے
برٹش ورجن آئی لینڈ (BVI): جیسا کہ نام سے ظاہر ہے غرب الہند (Caribbean)میں واقع بی وی آئی بھی برطانیہ کی ایک کالونی ہے۔ اس ملک کی آبادی تیس ہزار کے قریب ہے
لکژمبرگ :(Luxembourg) سوالاکھ نفوس پر مشتمل مغربی یورپ کا یہ ملک برسلز، فرینکفرٹ اور اسٹراسبرگ کی طرح یورپی یونین کے چار دارالحکومتوں میں سے ایک ہے
باہاماس (Bahamas) : بحر اوقیانوس میں ویسٹ انڈیز کے قریب واقع اس مجمع الجزائر کی آبادی پونے چارلاکھ سے کچھ زائد ہے
سوئٹزرلینڈ اس اعتبار سے ٹیکس چوروں کی جنت ہے کہ وہاں کے بہت سے بینکوں میں اب بھی بے نامی اکاونٹ کھولنے کی اجازت ہے اگرچہ کہ ادھرکچھ عرصے سے حکومت اسکی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’آف شور کمپنی‘ قائم کرنا بذات خود کوئی غیر قانونی، غیر اخلاقی یا غلط کام نہیں کہ ٹیکس میں دی گئی چھوٹ سے فائدہ اٹھانے کی قانون اجازت دیتا ہے۔ امریکہ کے بہت سے تجارتی اداروں نے جو دنیا کے مختلف ملکوں میں سرگرمِ عمل ہیں بیرونِ امریکا کاروبار کے لیے ان ’جنتوں‘میں ذیلی کمپنیاں قائم کررکھی ہیں جسکی بنا پر انھیں دوسرے ملکوں سےحاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس نہیں ادا کرنا پڑتا۔ واشنگٹن کو یہ ’روش‘ پسند نہیں لیکن اسے قانونی تحفظ حاصل ہے چنانچہ امریکہ کی درجنوں ملٹی نیشنل کمپنیاں اس سہولت سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔
ماورائے ساحل تجارتی ادارے قائم کرنے کا بنیادی محرک اگرچہ ٹیکس میں بچت ہے لیکن تیسری دنیا کے کاروباری اپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے بھی یہ راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دبئی اور خلیج کے دوسرے علاقوں میں کمپنیاں قائم کرتے ہیں جسکی وجہ سے انھیں ان ملکوں کے اقامتی ویزے مل جاتےہیں۔
اس وضاحت کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔
پاناما لیکس کے ایک سال بعد انہی دونوں جرمن صحافیوں یعنی بیسشین اوبرمیئر اور فریڈرک اوبرمائر نے میونخ سے شائع ہونے والے اخبار میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ایک اور انکشاف کیا۔ اس بار یہ دستاویزات ایپل بی (Appleby) نامی ایک لیگل فرم کے ذریعہ افشا ہوئیں۔ ایپل بی برمودا کی ایک آف شور کمپنی ہے اور جو اس قسم کا کاروبار کرنے والوں کو قانونی مشاورت فراہم کرتی ہے اخبار نے ایک کروڑ 34لاکھ دستاویزات تفتیشی صحافیوں کی عالمی انجمن ICIJکو پیش کردیں۔انجمن سے وابستہ 380 صحافیوں نے دستاویزات کی تفصیلی چھان پھٹک کے بعد انھیں درست قرار دے دیا اور 20اکتوبر 2017 کو یہ دھماکہ خیز رپورٹ شائع کردی گئی۔چونکہ یہ انکشاف ’ٹیکس ہیون‘کے بارے میں تھا اس لیے اسے پیراڈائز پیپرس (Paradise Papers) کا نام دیا گیا۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اللہ نے جنت، دیانت داروں، صدیقین و متقین کے لیے تیار کی ہے اور یہاں بے ایمانوں، ٹیکس چوروں اور حرام کمائی کے ٹھکانوں کو جنت کا نام دیا جارہا ہے۔ پیراڈائز پیپرز میں ملکہ معظمہ سمیت برطانیہ کے شاہی خاندان کے کرتوت افشا کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہ رپورٹ امریکہ کے سابق وزیرخزانہ اور صدر ٹرمپ کے دست راست ولبرراس کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات سے مزین تھی۔ ملکہ برطانیہ سے متعلق مواد کو ’گستاخی‘ سے تعبیر کیا گیا اور کئی صحافیوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ اس رپورٹ کا ویسا چرچا نہ ہوا جو پاناما لیکس کے موقع پر نظر آیا تھا۔
اب تین اکتوبر کو ہندوستانی معیاری وقت کے مطابق رات دس بجے ICIJنے اپنی ویب سائٹ پر ’پنڈوراپیپرز‘ کے عنوان سے سنسنی خیز تفصیلات جاری کیں یا یوں کہیے کہ پنڈورا بکس پر سے ڈھکن اٹھادیا۔ یونانی زبان میں پنڈورا کا مطلب نادر و پراسرار تحائف ہیں۔ یونانی علم الاصنام یا اساطیریات (mythology) کے مطابق جب لوہاروں، بڑھئیوں، نقاش، شعرا، فنکاروں، مستریوں اور مصوروں کے دیوتاوں نے پہلی عورت تخلیق کی تو ہر دیوتا نے اس خاتون کو ’صالح زندگی‘ گزارنے کے طریقے سکھائے اور دنیا میں بھیجنے سے پہلے بدی کی ہرقسم کی تفصیل صحیفوں کی شکل میں اسے دے دی تاکہ وہ آنے والی نسل کو اس کے بارے میں بتاسکے۔ بڑھئی دیوتا نے ان ’تحائف‘ یا پنڈوروں کو رکھنے کے لیے لکڑی کا ایک صندوق بنادیا جو پنڈورہ بکس کہلایا۔ جب اس عورت نے زمین پرآکر پنڈورہ بکس کھولا تو اندر سے نکلنے والے صحیفے اپنی مثال آپ تھے۔ ہر دیوتا کی ہدایت و تذکیر نہ صرف مختلف تھی بلکہ باہم متصادم بھی۔ کچھ دیوتاوں نے دوسروں کے بارے میں انتہائی شرمناک انکشاف کررکھےتھے اور پھرسب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ ڈھکنا کھل جانے کے بعد پنڈورا بکس کو بند کرنا ممکن نہ تھا اور اس میں سے صحیفے خود ہی باہر نکل رہے تھے۔ پنڈورا بکس برسوں بلکہ شائد صدیوں صحیفے اگلتا رہا اور اتفاق سے ایک دستاویز پر پنڈورا بکس کو بند کرنے کا منتر تحریر تھا۔ خاتون نے وہ منتر پڑھا اور خودبخود چارسُو پھیلے صحیفے ایک ایک کرکے پنڈورہ بکس میں واپس چلے گئے اور اسکا ڈھکن بند ہوگیا۔ اسکے بعد سے جب بھی کوئی خاتون اس عورت سے بدی یا برائی کے بارے میں دریافت کرتی کہ اس بابت دیوتا جی نے کیا فرمایا ہے تو وہ صندوق کے ڈھکن کو مضبوطی سے تھام کر کہتی ’بی بی پنڈورا بکس نہ کھولو کہ میں اسے بند کرنے کا منتر بھول چکی ہوں‘۔ اسی حوالے سے ’پینڈورا بکس کھولنا‘ تقریباً تمام زبانوں میں ضرب المثل بن گیا۔
پنڈورا پیپرز ایک کروڑ بیس لاکھ دستاویزات و مشمولات کا پلندہ ہے جو 117 ممالک میں 600 سے زیادہ صحافیوں کو 14 مختلف سرکاری و غیر سرکاری ذرائع سے ہاتھ لگے ہیں۔ تفتیشی صحافت سے وابستہ ان 600 صحافیوں میں پاکستان کے عمر چیمہ اور فخر درانی بھی شامل ہیں۔معلومات کا یہ خزانہ 64 لاکھ دستاویز، 29 لاکھ تصاویر، 12 لاکھ برقی خطوط (email)، پونے پانچ لاکھ spreadsheetsاور نو لاکھ متفرق کاغذات پر مشتمل ہے جنھیں کھنگھالنے میں دوسال لگے۔ ان دستاویزات سے چھپی ہوئی دولت، ٹیکس چوری اور دنیا کے امیر و مقتدر افراد کی جانب سے کالے دھن کو اجلاکرنے کی کوششوں کا سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے۔ عوامی دولت پر ڈاکے کی زیادہ تر وارداتیں 1996 سے 2020 کے عرصے میں ہوئی ہیں تاہم کچھ دستاویزات 1970 کی بھی ہیں۔
ان پردہ نشینوں میں اُردن کے فرمانروا عبداللہ دوم،چیکوسلاواکیہ کے وزیرِاعظم آندرے بابس، کینیا کے صدر اہورو کنیاتا، روسی مردِ آہن ولادیمر پیوٹن، یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی، ایکواڈور کے صدر گیلرمو لاسو، صدرِ آذربائیجان الہام علیوف، خاتون اول اور ان کے 11سالہ صاحبزادے حیدرعلیوف، اردن کے دو سابق وزرائےاعظم، سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر، انکی اہلیہ چیری بلیئر، ،قطر کے سابق امیر شیخ صباح الاحمد الصباح، قطر کے سابق وزیرِ اعظم حماد بن جاسم الثانی، بحرین، موزمبیق اور لبنان کے سابق وزرائے اعظم شامل ہیں۔
سیاستدانوں کے ساتھ امریکہ کے سیاہ فام ارب پتی رابرٹ اسمتھ، مشہور بھارتی کرکٹر سچن ٹنڈولکر، ہندوستانی سرمایہ کار انیل انبانی، عالمی شہرت یافتہ گلوگارہ شکیرہ اور بعض دوسرے فنکاروں کے نام بھی اس فہرست میں موجودہیں۔
آئی سی آئی جے کی طرف سے جاری ہونے والی فہرست میں 700 پاکستان بھی شامل ہیں جنھوں نے ماورائے ساحل تجارتی ادارے قائم کررکھے ہیں۔ان میں چار وفاقی وزرا، پنجاب کے صوبائی وزیر، سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے صاحبزادے علی ڈار اور نواز شریف کے نواسے جنید صفدر شامل ہیں۔ افشا ہونے والی دستاویزات میں کچھ پر لاہور کے زمان پارک کا پتہ لکھا ہوا ہے جو وزیراعظم عمران خان کی آبائی رہائش گاہ ہے۔ تاہم یہ پتہ دوبار درج ہے جس سے معاملہ ذرا مشکوک لگ رہا ہے کہ ایک گھر کا پتہ دوبار کیوں ثبت ہوا ؟ جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور کسی دینی جماعت سے وابستہ کوئی شخص اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ عباس خٹک سمیت ایک درجن کے قریب سینئر افسران نے بھی مبینہ طور پر ماورائے ساحل تجارتی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔
ہمیں پوری فہرست دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن اب تک جو نام سامنے آئے ہیں ان میں ہندوستان کے کسی معروف سیاسی رہنما یا فوجی افسر کا ذکر نہیں دیکھا
یہ تو تھا پنڈورہ باکس سے افشا ہونے والی فہرست کا ایک اجمالی جائزہ۔ سوال پیداہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟
کیا منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں تک مالی وسائل کی رسائی روکنے کے لیے FATFاور اس جیسے دوسرے قوانین کے نام پر ایران ، شمالی کوریا اور دوسرےغریب ممالک کا ناطقہ بند کرنے والا ’مہذب مغرب‘ ٹیکس چوری، مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے اِن سوتوں کو بند کرنے کے لیے کوئی عملی قدم آٹھائے گا؟ پاناما دستاویزات سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی تھی کہ آف شور کمپنیاں دہشت گردی کی مالی امداد کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ بے ایمانوں کی بعض جنتیں فرانس اور برطانیہ کی ذیلی ریاستیں اور یورپی یونین کے اہم ممالک ہیں۔ پاناما لیکس کے بعد جرمنی نے ’پاناما قانون‘ متعارف کروایا۔ کچھ یورپی ممالک میں ایسے مسودہ قوانین پر کام ہورہا ہے جن کے تحت آف شور کمپنیوں کے حسابات ٹیکس گوشواروں کے ساتھ ضمیمے کی شکل میں جمع کرانا لازمی قراردیا جائے گا۔
برطانیہ نے منی لانڈرنک روکنے کے لیے بینکنک کے قوانین کو سخت کرنے کا عندیہ دیاہے۔ یہ عزم خوش آئند لیکن برمودا، جرسی اور برٹش ورجن آئی لینڈ جیسی ذیلی ریاستوں پر برطانوی قانون لاگو کردینے میں کیا امر مانع ہے؟ انکی طرف سے آنکھیں بند کیوں رکھی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن جنتوں سے خو د ملکہ معظمہ مستفید ہورہی ہوں ان پر قفل لگانا اتنا آسان نہیں۔ٹیکس ماہرین کا خیال ہے کہ ٹیکس چوروں کی مضبوط لابی کو منشیات فروشوں، اسمگلروں اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے سہولت کاروں کی پشت پناہی حاصل ہے جسکی وجہ آف شور لعنت کا خاتمہ آسان نظر نہیں آتا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اللہ نے جنت، دیانت داروں، صدیقین و متقین کے لیے تیار کی ہے اور یہاں بے ایمانوں، ٹیکس چوروں اور حرام کمائی کے ٹھکانوں کو جنت کا نام دیا جارہا ہے۔ پیراڈائز پیپرز میں ملکہ معظمہ سمیت برطانیہ کے شاہی خاندان کے کرتوت افشا کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہ رپورٹ امریکہ کے سابق وزیرخزانہ اور صدر ٹرمپ کے دست راست ولبرراس کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات سے مزین تھی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021