*ولادتِ مصطفیٰ انسانیت کی معراج*
جب رات کی خاموشی میں کائنات کا دل دھڑکتا ہے اور چاند کی چمک میں ہر ذرہ نکھر اُٹھتا ہے، تو وہ صبح نمودار ہوتی ہے جسے میلاد النبی یا "یومِ ولادتِ رسول ﷺ کہا جاتا ہے۔
خبیب کاظمی
میں نے اپنی تحریر کو تین ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔
- *نویدِ مریم دعائے عیسیٰ * ( جس کے تحت آپ ﷺ کی یوم پیدائش اور ولادت رسول کے مقاصد کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔)
- *اخلاق اور کردار: عقیدت کے پہلو بہ پہلو عمل* ( اس عنوان کے تحت آپ ﷺ کے بعض اوصاف کا ذکر ہے ۔)
- *خراجِ عقیدت یا خراج اطاعت؟ (اس عنوان کے تحت یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خراج عقیدت، اور سیرت کے جلسے اطاعت کے جذبے سے سر شار نہ ہوں تو یہ سچی عقیدت نہیں صرف بازیگری ہے۔)
*”نوید مریم دعاء عیسیٰ میں ڈھل کے رحمت کا چاند نکلا "*
جب جب رات کی خاموشی میں کائنات کا دل دھڑکتا ہے اور چاند کی چمک میں ہر ذرہ نکھر اُٹھتا ہے، تو وہ صبح نمودار ہوتی ہے جسے میلاد النبی یا "یومِ ولادتِ رسول ﷺ کہا جاتا ہے۔ یہ دن، اپنے ساتھ محبت، رحمت، اور ہدایت کا وہ عالمگیر پیغام لے کر آیا، جس نے انسانیت کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ یومِ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ، دراصل، ایک ایسا لمحہ ہے جو ہر دل کو جھنجھوڑ کر روشنی کی طرف بلاتا ہے۔ نبی عربی کی ولادت، تاریخِ انسانی کا وہ سنہرا لمحہ ہے، جب آسمان کی فضاؤں میں درخشاں ستارہ چمکا اور دنیا کے ہر گوشے کو روشنی، محبت، اور ہدایت کی کرنوں سے منور کر دیا۔
نوید مریم دعائے میں ڈھل کے رحمت کا چاند نکلا –ہوئی نبوت کی آگ ٹھنڈی جہاں نبوت کا چاند نکلا۔
آپﷺ کی آمد، ایک ایسی ساعت کی علامت تھی جب کائنات نے اپنے سب سے عظیم تحفے کو انسانی دنیا میں پیش کیا۔ جب نبی عربی نے دنیا میں قدم رکھا، تو جیسے ہر بادل نے جشن منایا، ہر پھول نے اپنی خوشبو کو دوگنا کر دیا، ہر درخت نے اپنی سرسبزی میں اضافہ کیا، اور ہر قلب میں ایک عجیب سا سکون چھا گیا کہ جس کی آمد نے انسانیت کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔
نبی عربی ﷺ کی ولادت نے ایک نئے دور کا آغاز کیا، ایک دور جس میں ظلمت کی بجائے روشنی، نا امیدی کے بجائے امید، اور بربریت کے بجائے انسانیت نے جنم لیا۔
آپﷺ کی ولادت کا دن اسلامی تاریخ کا ایک مبارک دن ہے جسے دنیا بھر کے مسلمان نبیٔ اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشی میں گذارتے ہیں۔ یہ دن ہمیں آپ کی سیرتِ طیبہ، آپ کے اخلاق، اور آپ کی تعلیمات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
آپﷺ کی زندگی ہر شعبۂ حیات میں ہمارے لیے ایک کامل نمونہ ہے، چاہے وہ اخلاقیات ہوں، معاشرتی زندگی ہو، یا انفرادی روحانی ترقی۔ سیرت النبی کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ آپ کی سیرت کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش ہو اور محبت، رحمت، اور ہدایت کی روشنی سے دنیا کو منور کرنے کی کوشش کی جائے۔
*اخلاق اور کردار: عقیدت کے پہلو بہ پہلو عمل*
*صادق و امین*
نبی اکرم ﷺ کا کردار اور آپ کی شخصیت ، اَخلاقیات کے اعلیٰ ترین اصولوں کا عملی مظہر تھی۔ آپ کی سیرت طیبہ میں ہمیں وہ تمام خوبیاں نظر آتی ہیں جن کی ایک انسان میں موجودگی ضروری ہے۔
نبی اکرمﷺ کو مکہ کے لوگ "صادق” اور "امین” کے لقب سے پکارتے تھے۔ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، آپ نے ہمیشہ سچائی اور دیانت داری کو ترجیح دی۔ آپ کی امانت داری کا یہ عالم تھا کہ آپ کے دشمن بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔
آپ ﷺ کی زندگی رحم دلی اور شفقت سے بھرپور تھی۔ آپ نے ہمیشہ بچوں، یتیموں، بیواؤں، اور غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا، حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی آپ نے دشمنوں کے ساتھ رحم اور انسانیت کا مظاہرہ کیا۔
*عفو و در گذر*
اسی طرح نبیٔ اکرم ﷺ کی زندگی عفو و درگزر کی پیکر تھی۔ آپ کی حیات طیبہ میں عفو و در گذر کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر، جب آپ کے پاس مکہ کے تمام مخالفین کو سزا دینے کا موقع تھا، سارے دشمن سر جھکائے اپنی گردن زدنی کے انتظار میں کھڑے تھے ، آپ نے ان سب لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے آپ پر ظلم و ستم ڈھارکھے تھے، آپ نے سب کو دیکھا اور خطِ عفو پھیرتے ہوئے فرمایا: "اِذھبوا وَ اَنتم الطلقاء” کہ جاؤ آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔”اس وقت نبی عربی نے صرف مکہ ہی فتح نہیں کیا بلکہ لوگوں کے دلوں کو فتح کیا۔
*صبر و تحمل*
نبی اکرم ﷺ کا صبر و بردباری اعلیٰ ترین مثال ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں شدید مشکلات، تکالیف اور مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی کبھی صبر و تحمل کا دامن نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ نے ہر موقع پر دشمنوں کی زیادتیوں کو بردباری سے برداشت کیا، اور اپنے پیغام کو پھیلانے میں ثابت قدم رہے۔ آپ کی یہ صفت نہ صرف آپ کی شخصیت کی عظمت کو اجاگر کرتی ہے، بلکہ ہمیں بھی صبر اور استقامت کا درس دیتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی زندگی سر تا سر سچائی اور شفافیت کی آئینہ دار تھی۔ آپ نے ہر عمل میں سچائی کو اپنے اصول بنایا اور اپنی باتوں اور اعمال میں کسی قسم کی جھوٹ یا دوغلا پن سے گریز کیا۔ آپ کی صداقت اور ایمانداری نے آپ کو اپنے ماننے والوں کے درمیان بے پناہ احترام اور اعتماد کا حامل بنا دیا، اور آپ کی زندگی نے اخلاقی معیار کی بلند ترین مثال قائم کی۔
*تواضع و انکساری*
آپ ﷺ کی زندگی تواضع اور انکساری کا روشن مینار ہے، جس کی مثالیں ہر گوشے میں بکھری ہوئی ہیں۔ آپ کے عظیم اَخلاق اور عاجزی کی انتہا اس وقت عیاں ہوئی جب فتح مکہ کے موقع پر آپ نے فتح یاب ہو کر مکہ مکرمہ میں قدم رکھا۔ یہ وہ موقع تھا جب دنیا کے فاتحین فخر و غرور کے ساتھ داخل ہوتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ کا سر ِ مبارک تواضع اور شکر گزاری کے باعث جھکا ہوا تھا۔
آپ ﷺ کی عاجزی اس بات کی گواہ تھی کہ آپ نے کبھی کسی کامیابی کو اپنی طاقت یا فخر کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ ہر کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام اور اس کی قدرت کا اظہار سمجھا۔ آپ کی انکساری کا عالم یہ تھا کہ کائنات کا سب سے عظیم انسان ہونے کے باوجود، آپ ہمیشہ اپنے آپ کو بندہ اور اللہ کا عاجز غلام قرار دیتے رہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے عظیم منصب پر فائز کیا ، مگر آپ نے کبھی اپنی حیثیت کا احساس نہیں دلایا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کے لیے کھڑے ہونا چاہا تو آپ نے فرمایا: ” نہ کھڑے ہو، جیسا کہ عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔” – سنن ابی داود
آپ ﷺ عام لوگوں کے ساتھ بیٹھتے اور ان کی بات سنتے۔ آپ کی مجلس میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کی مجلس میں آیا اور آپ کے وقار سے کانپنے لگا، تو آپ نے اس سے فرمایا: "آرام سے بیٹھو! میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو قریش کی ایک عام عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھاتی تھی۔” (سنن ابن ماجہ)
آپ ﷺ نے کبھی اپنا کام دوسروں پر نہیں ڈالا، بلکہ خود ہی انجام دیتے تھے۔ آپ اپنے جوتے خود مرمت کرتے، اپنے کپڑے خود دھوتے، اور گھر کے کاموں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : "نبی ﷺ اپنے گھر والوں کے ساتھ گھریلو کاموں میں مصروف رہتے، اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے نکل جاتے۔” (صحیح بخاری)
*سادگی *
آپ ﷺ کی زندگی سادگی کا بہترین نمونہ تھی۔ آپ نے کبھی دنیاوی آسائشوں کی خواہش نہیں کی۔ ایک مرتبہ آپ کے صحابہ نے کہا کہ ہم آپ کے لیے ایک نرم بستر تیار کریں، تو آپ نے فرمایا: "مجھے دنیا سے کیا مطلب؟ میں دنیا میں تو بس ایک مسافر کی مانند ہوں جو درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے سایہ حاصل کرے، اور پھر سفر پر روانہ ہو جائے۔”
آپ ﷺ کا لباس سادہ ہوتا تھا اور آپ نے کبھی فخر یا غرور کے ساتھ لباس نہیں پہنا۔ آپ نے کبھی اعلیٰ یا خاص سواری کا مطالبہ نہیں کیا۔ ایک بار آپ نے گدھے پر بھی سواری کی اور فرمایا: "میں بھی ویسا ہی بندہ ہوں جیسے تم ہو، میں گدھے پر بھی سواری کرتا ہوں اور خشک گوشت بھی کھاتا ہوں۔”
*مساوات*
نبی اکرم ﷺ کی زندگی سماجی انصاف اور مساوات کا ایک مثالی نمونہ ہے۔ آپ نے ہر شخص کے حقوق کی پاسداری کی، چاہے وہ آزاد ہو یا غلام، امیر ہو یا غریب ۔ آپ نے ہمیشہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا، چاہے معاملہ کسی قریبی عزیز کا ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے فرمایا، "اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔”
آپ ﷺ نے معاشرے کے تمام طبقات کو یکساں حیثیت دی اور کسی کے ساتھ بھی اس کے مرتبے، نسل یا مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کیا۔آپ نے فرمایا: "سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے”، اس فرمان نے انسانی برابری کا ایسا اصول قائم کیا جو ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے دشمنوں کو معاف کر کے رحم اور انصاف کی اعلیٰ مثال قائم کی، اور معاشرے میں امن و سکون کی بنیاد ڈالی۔
آپ ﷺ کے عہد میں جب کوئی غریب یا طاقتور شخص جرم کرتا، آپ اس کے ساتھ مساوی انصاف کرتے، کبھی بھی کسی کی حیثیت یا سماجی مقام کو عدل کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ آپ کی یہ عدل پسندی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اسلام انصاف اور مساوات کی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں ہر شخص اپنے حقوق سے مستفید ہو سکے۔
*صبر و استقامت*
سیرت النبی ﷺ ہمیں صبر، استقامت، اور مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ سکھاتی ہے۔ نبی اکرم کی مکی زندگی کی مثال ہمیں سکھاتی ہے کہ مشکلات اور مصائب کے باوجود ہمیں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔
مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھتے ہوئے، آپ نے اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن ہر قدم پر صبر اور استقامت کی مثال قائم کی۔ آپ کی مبارک زندگی کا ہر لمحہ صبر و استقامت کی ایک دلکش داستان ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ مشکلات کے باوجود اپنے مقصد کی راہ میں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ آپ نے اپنے پیروکاروں کو یہ درس دیا کہ عظیم مقاصد کے حصول میں صبر اور عزم کامیابی کی کلید ہے ۔
*اخوت و بھائی چارہ*
آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں محبت اور اخوت کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گہرا اور مخلصانہ تعلق قائم کیا، جس نے اسلامی معاشرت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ آپ نے نہ صرف اپنے قریبی ساتھیوں بلکہ تمام مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا، جسے ایک عظیم معاشرتی انقلاب کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں؛ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہو، تو پورا جسم بے آرام ہوتا ہے)۔ "المؤمنونَ كالجسدِ الواحدِ إذا اشتكى منه عضوٌ تداعى له سائرُ الجسدِ بالسهرِ والحُمَّى”
آپ ﷺ نے دشمنوں کے ساتھ بھی رحم کا مظاہرہ کیا اور دوسروں کو بھی محبت اور بھائی چارے کا درس دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کے لیے بہترین ہے”۔
*فکرِ آخرت*
سیرت النبی ﷺ کا پیغام ہمیں آخرت کی تیاری اور دنیاوی زندگی کی حقیقت کا شعور دیتا ہے۔ آپ نے ہمیں یہ سکھایا کہ دنیا کی کامیابیوں سے زیادہ اہم آخرت کی کامیابیاں ہیں اور ہمیں اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضا کے مطابق گزارنا چاہیے۔یومِ ولادتِ رسول کا پیغام یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالیں، نبیٔ رحمت کی تعلیمات کو اپنائیں، دنیا میں محبت، انصاف، اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے کوشش کریں۔
*خراجِ عقیدت یا خراجِ اطاعت*
آپ ﷺ کی یوم ولادت کے موقع پر لوگ آپ ﷺ کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے میلاد، نعت خوانی، اور سیرت کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ خراجِ عقیدت پیش کرنا یقیناً ایک مستحسن عمل ہے، لیکن کیا یہ ہماری محبت کا مکمل حق ادا کر دیتا ہے؟ بقول مولانا عامر عثمانیؒ :
"خراجِ عقیدت ادا کرنے والو! خراجِ عقیدت سے کیا کام ہوگا ”
یہی ہے زبانی محبت کا عالم، تو دینِ ہدیٰ اور بدنام ہوگا”
مولانا عامر عثمانیؒ کی یہ نظم”پیغامِ عمل” اپنے ادبی اور فکری حسن کے ساتھ دل کو چھو لینے والی ہے۔ ان کے اشعار میں جو گہرائی، تفکر، اور جذبات کا اظہار ہے، وہ نہ صرف ادب کی بلندی کو چھوتی ہے بلکہ فکر و نظر کی ایک نئی روشنی بھی فراہم کرتی ہے۔ نظم کی ہر لائن میں فکر کی مٹھاس اور ادب کی شیرینی بکھری ہوئی ہے۔ مولانا نے بہت ہی خوبصورت انداز میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور پیغام کو بیان کیا ہے، جو کہ نہ صرف دل کو سکون پہنچاتا ہے بلکہ دل و دماغ کو بھی نئے افق پر لے جاتا ہے۔
مولانا عامر عثمانی کی اس نعتیہ نظم کو میں نے اپنے الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے کہ شائد کسی کے لیے یہ فکر عمل کا باعث بن جائے۔
*قول و عمل کی دو رنگی*
اگر ہم اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار میں صرف باتوں پر اکتفا کریں اور عمل کے میدان میں پیچھے رہیں، تو یہ قول و عمل کی دو رنگی ہوگی۔ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات ہمیں قول و فعل میں یکسانیت کی تعلیم دیتی ہیں۔ مولانا عامر عثمانی ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ یہ دو رنگی ہمیں نہ صرف خود کو نقصان پہنچائے گی بلکہ ہمارے دین کو بھی بدنام کرے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی قوم محض خوش بیانی کے ذریعے عروج حاصل نہیں کر سکی۔ جب تک قول و عمل میں یکسانیت نہیں ہوتی، تب تک ہم حقیقی معنی میں نبی اکرم ﷺ کے پیروکار نہیں کہلا سکتے۔
"فقط خوش بیانی کے جوہر دکھا کر کوئی قوم دنیا میں ابھری نہیں ہے
عمل چھوڑ کر، صرف باتیں بناکر کوئی قوم دنیا میں ابھری نہیں ہے”
*میلاد و سیرت کے جلسے اور ان کی حقیقت*
میلاد و سیرت کے جلسے، نعت خوانی، اور نبی ﷺ کی مدح و ثنا یقیناً ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا ہم ان جلسوں کے اصل مقصد کو سمجھ رہے ہیں؟ مولانا عامر عثمانی کے اشعار میں ہمیں ایک سوال کا جواب ملتا ہے کہ "مگر ائے قصیدہ گرو یہ تو سوچو! کہ بے روح لفظوں کی قیمت ہی کیا ہے۔” یعنی، اگر ان جلسوں کے بعد ہماری زندگیوں میں کوئی عملی تبدیلی نہیں آتی، تو یہ سب محض رسومات بن کر رہ جاتی ہیں۔ نبی ﷺ کی زندگی ایک جہادِ مسلسل تھی، اور ہمیں ان جلسوں کو اپنی زندگی میں اسی روح کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔
*نبی ﷺ کا اسوہ : جدوجہد اور استقامت*
آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو دیکھیں تو ہمیں ہر موڑ پر جہاد، جدوجہد، اور استقامت کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے عمل کے ذریعے دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ "نبی کی حیاتِ مقدس کو دیکھو، ملے گی سراپا جہادِ مسلسل۔” آپ ﷺ نے روما کی ایوانِ عظمت کو الٹ کر، صحرا نشینوں کی کایا پلٹ کر، حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل قائم کر دی۔ یہ سب محض باتوں سے نہیں، بلکہ عمل اور استقامت کے ذریعے ممکن ہوا۔ ہمیں بھی اپنے نبی ﷺ کے اسوہ کو اپنے عمل میں لا کر دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنی چاہیے۔
*حقیقی عقیدت: اطاعت اور عمل*
اگر ہمیں واقعی اپنے نبی ﷺ سے عقیدت ہے تو ہمیں اپنے وطیرہ کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں زبان کی عقیدت سے آگے بڑھ کر عمل کی عقیدت اختیار کرنی ہوگی۔ نبی اکرم ﷺ کا اسوہ ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمان ہونا آسان نہیں ہے۔ شعبِ ابی طالب کی مشکلات، شہر ِ طائف کی اذیتیں، اور مکہ کی خاک میں قدموں کے نقوش ہمیں بتاتے ہیں کہ حقیقی عقیدت کا راستہ آزمائشوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ہمیں نبی اکرم ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ایثار و قربانی کے جذبے کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔
* محبت یا بازیگری؟*
"یہ ذوقِ اطاعت سے خالی عقیدت، عقیدت نہیں صرف بازیگری ہے۔” اگر ہماری محبت صرف زبانی ہے اور ہم عمل کے میدان میں خالی ہیں، تو یہ محض ایک کھیل ہے، ایک دکھاوا ہے۔ حقیقی محبت وہی ہے جو ہمیں عمل پر ابھارے، حقیقی محبت وہی ہےجو ہمیں نبی کے راستے پر چلنے کا حوصلہ دے۔ ہمیں اپنی زندگیوں کو نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور اپنے کردار سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم واقعی آپ کے سچے عاشق اور پیروکار ہیں۔
خلاصہ یہ کہ نبی اکرم ﷺ کی محبت کا اصل تقاضا خراجِ اطاعت ہے نہ کہ صرف زبانی خراجِ عقیدت۔ ہمیں اپنے اعمال کو نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنا ہوگا، یہی حقیقی عقیدت ہے، یہی اطاعت کا راستہ ہے، اور یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں ان اشعار میں ملتا ہے۔
اللہ ہمیں نبی کے اسوہ کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
خاکپائے مصطفیٰ ﷺ
خبیب کاظمی
١١ربیع الأول ١٤٤٦
مطابق ١٤ ستمبر ٢۰٢۴ء، بروز سنیچر
قطر