والدین کی آرزوئیں

حسن سلوک اور اچھی تربیت کےبعد ہی اولادسےاچھی توقع رکھیں

محمد یوسف اصلاحی

اولاد کی خواہش کس کو نہیں ہوتی ، کون سا گھر ایسا ہوگا جہاں اولاد کی چاہت نہ ہو، واقعہ یہ ہے کہ اولاد کے دم سے گھر میں زبردست خیر و برکت اور بڑی ہی رونق رہتی ہے۔ وہ گھر کیسا بے رونق اور سونا معلوم ہوتا ہے جس میں چند معصوم بچے کھیلتے، کودتے، روتے ہنستے اور چھیڑ چھاڑ کرتے نظر نہ آتے ہوں۔ خاص طور پر عورت تو ایسے گھر کے تصور ہی سے وحشت محسوس کرتی ہے جہاں معصوم بچوں کی چہل پہل نہ ہو۔ عورت تو اسی امید اور انتظار میں عمر عزیز کی گھڑیاں خوش خوش گزارتی ہے کہ کب اس کے یہاں خوشی ہوگی، کب اس کا ننھا بچہ اس کی گود میں آئے گا۔ کب وہ ہمک ہمک کر اس کی طرف لپکے گا ۔ کب وہ اس کو امی امی کہہ کر پکارے گا۔ اور کب وہ اس کی زندگی کے مختلف مرحلوں کی خوشیاں دیکھے گی۔ وہ ان خوشیوں کے لیے ایک ایک دن شمار کرتی ہے اور انہی روحانی خوشیوں کی بدولت اپنے اندر زبردست توانائی محسوس کرتی ہے۔ کبھی کبھی جب وہ تصور کے عالم میں اپنی عزیز اولاد کے شاندار مستقبل اور اس کی زندگی کی مسرت انگیز بہاروں کے بارے میں سوچتی ہے تو دل ہی دل میں اسے اپنی قدر و عظمت کا احساس ہونے لگتا ہے اور وہ بڑا ہی روحانی سرور اور فخر سا محسوس کرتی ہے اور پھر وہ شکر کے جذبات سے سرشار ہوجاتی ہے کہ پروردگار نے اس کے کمزور اور نا توان وجود پر کتنا عظیم احسان کیا ہے اور اس کے وجود کو انسانی معاشرے کے لیے کتنا قیمتی اور ضروری بنایا ہے۔
خدا نے عورت کی فطرت ہی کچھ ایسی بنائی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اولاد ہی کے لیے سمجھتی ہے اور اولاد پر ہی اسے قربان کرکے زبردست سکون اور خوشی محسوس کرتی ہے۔ ایک لمبے عرصے تک وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو جسم و جان کا شریک رکھ کر ایک ایک دن گنتی ہے اور جب خدا اپنے فضل سے اس کو ایک ننھی جان سے نواز کر اس کی گود بھردیتا ہے اور وہ ایک پیار بھری نظر اس ننھی جان پر ڈالتی ہے تو وہ ایک دم اپنے ذہن و دماغ سے ان تمام جان لیوا دکھوں کے احساس کو جھٹک دیتی ہے جو اس کو اٹھائے اٹھائے پھرنے اور جنم دینے میں اس نے برداشت کیے تھے اور پھر اس کی پرورش کے لیے قربانیوں کا دوسرا دور شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے کے دودھ چھڑانے کا زمانہ قریب آنے لگتا ہے اور پھر اسی کارنامے کو دہرانے کے لیے دن شمار کرنے لگتی ہے ، اولاد کی خاطر وہ بار بار جان کی بازی لگاتی ہے اور موت کے قریب سے واپس آکر بھی کبھی ہمت نہیں ہارتی۔
واقعہ یہ ہے کہ خدا نے اس کو جو عظیم خدمت سپرد کی ہے ، اس کے لیے اس نے نہایت فیاضی کے ساتھ قربانیوں کا غیر معمولی جذبہ دکھوں کو جھیلنے کے لیے بے مثال ہمت و صبر اور اولاد کی پرورش کرنے کے لیے زبردست اخلاقی صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں۔
عورت نہ صرف یہ کہ چار و ناچار ان مشقتوں کو برداشت کرتی ہے بلکہ طبعی تقاضوں کے تحت وہ ان مشقتوں کو جھیل کر خوشی اور فخر محسوس کرتی ہے ۔ وہ اولاد کو جنم دینے کی خاطر بار بار مرنے کے لیے آمادہ ہونے کی بے مثال ہمت رکھتی ہے اور ان کی پرورش و نگہداشت کے لیے اپنی خواہشات ، جذبات اور حسن و جوانی سب کچھ قربان کرتے رہنے میں سکون اور مسرت محسوس کرتی ہے۔
اور اگر اس کا ذہن و فکر اسلامی ہوتو وہ مشقت اور دکھ کے ہر ہر مرحلے سے گزرتے ہوئے یوں سوچتی ہے کہ وہ خدا کی راہ میں جہاد کر رہی ہے اور خدا کی عبادت میں مشغول ہے۔ اسلام ہر خاتون کے دل میں یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ عورت کے ان فطری اور طبعی اعمال و ظائف کے فوائد و ثمرات دنیا کی اس زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کی مشقت و تکلیف اور ایثار و قربانی کا ہر ہر عمل خدا کی نظر میں عبادت اور جہاد کے برابر ہے۔ ہر عورت جو ان مصائب کو جھیل رہی ہے اور اولاد کے لیے قربانی دے رہی ہے ، وہ در حقیقت میدان جہاد میں سرگرم عمل ہے، اور خدا کی عبادت میں لگی ہوئی ہے۔ اس جہاد اور عبادت کے دنیوی فوائد بھی ہیں لیکن مسلمان عورت کی نگاہ ان ابدی نعمتوں کی طرف بھی رہتی ہے جو آخرت میں حاصل ہوں گی۔ مسلمان عورت کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اولاد کی خاطر طرح طرح کے دکھ جھیل کر اور اپنی خواہشات اور جذبات اور حسن و جوانی قربان کرکے اس کے بدلے میں دنیوی فوائد و ثمرات ہی نہیں پاتی جو کبھی حاصل ہوتے ہیں اور کبھی حاصل نہیں بھی ہوتے بلکہ وہ آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی میں خدا کی خوشنودی اور جنت پائے گی وہ جنت جہاں اس کی ہر خواہش پوری کی جائے گی ۔ ہر جذبے کی تسکین کا سامان مہیا کیا جائے گا اور اس کو ایسا حسن اور ایسی جوانی بخشی جائے گی جس پر کبھی زوال نہ آئے گا اور جو بڑھاپے کے اندیشوں سے محفوظ ہوگی۔
اسلامی انداز فکر کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کبھی سُوئے اتفاق سے مسلمان عورت اپنی فطری ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرنے کے بعد خلاف توقع دنیوی فوائد سے محروم بھی رہے تو اس پر نہ تو مایوسی طاری ہوگی اور نہ وہ اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کرے گی۔ وہ نہایت خوش دلی، سکون اور دلی جذبے کے ساتھ برابر اپنے فرائض انجام دیتی رہے گی۔
اولاد کے لیے ہر طرح کے دکھ سہنے اور پیہم قربانیاں دینے کے باوجود بھی اگر اس کو اولاد سے کوئی سکھ نہ ملے اور اولاد اس کی امیدوں پر پانی پھیر کر اس کے خوابوں کی تعبیر نہ بن سکے تب بھی وہ مایوسی کا شکار ہوکر اپنے کیے پر نادم نہ ہوگی ورنہ آئندہ کے لیے اس سلسلے میں کسی غلط انداز سے سوچے اس لیے کہ ہر عمل کے اصل نتائج جو مومن خاتون کے لیے اصل محر ک بنتے ہیں وہ اخروی نتائج ہیں ۔ وہ یہ سوچ کر ہمیشہ اطمینان محسوس کرتی ہے کہ میرے عمل کا اجر خدا آخرت میں دے گا اور اتنا کچھ دے گا کہ نہ اپنے کیے پر میرے لیے پچھتانے اور غم کرنے کا کوئی سوال ہوگا اور نہ یہ اندیشہ ہی پریشان کرے گا کہ وہاں کا ملنے والا اجر کبھی مجھ سے چھینا جائے گا اس لیے وہ اپنے وظائف حیات کو سر تا سر عبادت اور راہ خدا میں جہاد تصور کرکے مسلسل سرگرم عمل رہتی ہے ۔ رسول خدا کا ارشاد ہے
عورت جب امید سے ہوتی ہے تو حمل کے اس پورے عرصے میں ویسا ہی اجر و ثواب پاتی ہے جیسا اجر و ثواب ایک روزہ دار، شب بیدار، اطاعت گزار اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے بندے کو ملتا ہے اور بچے کی پیدائش کے وقت درد زہ کی تکلیف کے بدلے جو اجر و ثواب ہے اس کے بارے میں مخلوق اندازہ نہیں لگاسکتی کہ وہ کیا کچھ اور کتنا کچھ ہے اور جب اس کی کوکھ سے بچہ جنم لیتا ہے (اور وہ اسے دودھ پلا پلا کر پالتی ہے( تو دودھ کے ہر ہر گھونٹ پر اسے وہ اجر و ثواب ملتا ہے ، جو کسی کو زندگی عطا کردینے کا ہوسکتا ہے اور جب (ایک مدت تک دودھ پلاکر) دودھ چھڑاتی ہے تو خدا کا فرشتہ (احترام و محبت سے) اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس سے کہتا ہے (خدا کی بندی ) اب دوسرے حمل کے لیے تیاری شروع کردے!‘‘
عورت جو بار بار اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتی ہے۔ جسم اور جان کی قوتیں گھلا گھلا کر اپنی نسل کو جنم دیتی اور پروان چڑھاتی ہے وہ بجا طور پر اپنی نسل سے توقعات رکھتی ہے۔ اس کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ اس کی اولاد کا مستقبل شاندار ہو۔ اس کی اولاد سعادت مند اور خدمت گزار ہو۔ ماں کے افکار و نظریات کے مطابق مستقبل کی بہترین معمار ہو۔ والدین کی دینی اور تہذیبی اور روایات کی محافظ ہو، اطاعت گزاری اور فرماں برداری میں اپنی مثل آپ ہو اور جب وہ دیکھتی ہے کہ اس کی اولاد اس کے خوابوں کی سچی تعبیر ہے وہ اس کی آرزووں کے مطابق پروان چڑھ رہی ہے اور خدا نے اس کو عروج اور سعادت کی ان بلند منزلوں پر پہنچادیا ہے جس کے بارے میں یہ کبھی اپنی تنہائیوں میں سوچا کرتی تھی تو اس کی خوشی اور فخر کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن یہی اولاد جس کی خدمت میں نحیف ماں نے دن رات مشغول رہ کر اپنے جسم و جان کی قوتیں گھلادیں اور جھولی پھیلا پھیلا کر ان کے لیے ہر وقت دعائیں کرتی رہی ، اگرماں کی امیدوں پر پانی پھیر دے اور اس کی توقعات کے خلاف وہ نافرمان اور باغی بن کر اٹھے تو اندازہ کیجیے اس ماں کا کیا حال ہوگا۔ اس کی روحانی اذیت اور دلی رنج و غم کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے۔
آج کے دور میں چند خوش نصیب گھرانوں کو چھوڑ کر ہر گھر میں یہی رونا ہے کہ اولاد بے کہی ہوگئی ہے۔ بیٹے ہوں یا بیٹیاں، ماں باپ کے حقوق سے غافل ہیں، ماں باپ کا ادب و احترام اور فرماں برداری کا جذبہ جیسے دلوں سے بالکل ہی نکل چکا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ سلوک، ان کی خوشنودی کا خیال، ان کی خدمت و فرماں برداری، ان کا ادب و احترام ان کے جذبات کا پاس و لحاظ یہ سب گویا بے معنی الفاظ ہیں۔ ایک عام سی شکایت ہے کہ اولاد نا فرمان، باغی اور سرکش اٹھ رہی ہے جس مجلس میں بیٹھیے جس گھر میں جائیے ، آپ یہی سنیں گی اور والدین یہی رونا روتے ہوئے نظر آئیں گے۔پھر کچھ بڑی بوڑھیاں آپ کو اپنی طرف متوجہ کرکے کہنا شروع کریں گی، ارے بیٹی، ایک ہمارا زمانہ ایسا تھا، بھلا کیا مجال کہ اولاد ماں باپ کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی کرسکے، اور پھرماحول کی خرابی، زمانے کی رنگا رنگی ، غلط اور گمراہ کن افکار ونظریات کی اشاعت، فحش لٹریچر، بے اخلاق تعلیم اور آزاد روی کی رنج دہ شکایت کی طویل داستان شروع ہوجائے گی اور ہر خاتون ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتے ہوئے یوں سوچے گی ان حالات میں یہی کچھ ہونا بھی چاہیے۔ ماں باپ کے بس کی کیا بات ہے۔ یہ صورت حال انتہائی افسوسناک ہے ۔
بے شک ماں باپ کے بس میں سب کچھ تو نہیں ہے لیکن ماں باپ کے بس میں یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے رویہ کے بارے میں غور کریں اور خدا کے دین کی روشنی میں اپنے عمل کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ اولاد کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے انداز سے متعلق خدا نے ماں باپ پر جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں کہیں ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں کوئی کوتاہی تو نہیں ہورہی ہے۔ اولاد کی آئندہ زندگی سے متعلق خود آپ کی آرزوں میں کوئی الجھاو تو نہیں ہے۔ ان کے جو حقوق آپ پر اللہ تعالیٰ نے عائد کیے ہیں ۔ کہیں ان کو ادا کرنے میں آپ کوتاہ تو نہیں ہیں۔
اولاد کی آئندہ زندگی سے متعلق خود آپ کی آرزوں میں کوئی الجھاو تو نہیں ہے۔ ان کے جو حقوق آپ پر اللہ تعالیٰ نے عائد کیے ہیں ۔ کہیں ان کو ادا کرنے میں آپ کوتاہ تو نہیں ہیں۔ اولاد آپ کی آرزو کو اسی وقت پورا کرسکتی ہے جب آپ بھی ان کے حقوق سے غفلت نہ برتیں۔ اولاد کو آپ جن اخلاقی خوبیوں سے آراستہ دیکھنا چاہتی ہیں اور جس سعادت مندی ، خدمت گزاری ، فرماں برادری، اور نیک برتاو کی ان سے توقع رکھتی ہیں، یہ آرزو اور توقع پوری ہوسکتی ہے، اگر آپ ان ذمہ داریوں کا احساس کریں اور پوری تن دہی اور دلی آمادگی کے ساتھ ان کو پورا کریں۔اولاد کی نا فرمانی اور سرکشی بے شک بڑے دکھ کی بات ہے لیکن یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ان کی یہ روش ماں باپ کی کسی مجرمانہ غفلت اور فرائض کی کوتاہی کا نتیجہ تو نہیں۔ وہ اولاد آپ کے حقوق کا احساس کیسے کرسکتی ہے جس کو آپ نے حقوق کا احساس دلایا ہی نہیں، وہ اولاد ماں باپ کی خدمت و احترام کی بات کیسے سوچے جس کو کبھی بتایا ہی نہ گیا کہ ماں باپ کی خدمت اور ان کا ادب و احترام اولاد کا فرض ہے۔ اگر آپ نے ان کے جذبات و احساسات کا خیال نہیں رکھا ہے تو وہ آپ کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا کس سے سیکھے۔ اگر آپ نے ان سے محبت نہیں کی ہے اور اپنے سلوک سے ان کو یہ تاثر دیا ہے کہ ان کی پرورش کی پریشانیوں کے مقابلے میں آپ کو ان کی موت زیادہ پسند ہے، تو وہ آپ سے محبت کرنے اور آپ کی خدمت بجالانے کی بات کیسے سوچے، اگر آپ نے اپنے عیش و آرام کو سب کچھ سمجھا ہے اور ان کی ضرورتوں کی طرف سے غفلت برتی ہے تو وہ آپ کی ضرورتوں کا احساس کہاں سے لائے۔ اگر آپ معاشرے کی اصلاح ور تہذیب و تمدن کی تعمیر کے لیے کچھ خاص افکار و نظریات رکھتے ہیں تو آپ کی اولاد ان نظریات کی حامل کیسے بن سکتی ہے۔ اگر آپ نے اولاد کے دل میں ان کی قدر و عظمت بٹھانے کی کوشش نہیں کی ہے تو اولاد سے وہی توقعات رکھیے جن کے لیے آپ نے اس کو تیار کیا ہے اور اسی طرح کے سلوک کی امید کیجیے جس طرح کا سلوک آپ نے ان کے ساتھ کیا ہے۔ حضرت نعمانؓ کہتے ہیں میرے والد (حضرت بشیرؓ) مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر پہنچے اور آپ سے عرض کیا، یا رسول اللہ آپ گواہ بن جائیے کہ میں نے نعمان کو فلاں فلاں چیزیں بخش دی ہیں، اس پر نبی ﷺ نے ان سے پوچھاکیا تم نے اپنے سارے بچوں کو اسی طرح کے عطیات بخشے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ‘ نہیں ۔ سب کو تو نہیں بخشے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا: تو پھر کسی اور کو گواہ بناو اور پھر فرمایا کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ سارے بچے تمہارے ساتھ یکساں نیک سلوک کریں۔ بشیرنے جواب دیا کیوں نہیں تو آپ نے فرمایا، پھر ایسا نہ کرو (الادب المفرد)
اس حدیث کا یہ ٹکڑا خاص طور پر قابل غور ہے ’’کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ سارے بچے تمہارے ساتھ یکساں نیک سلوک کریں’‘ ؟ یعنی آپ کے سلوک سے ہی یہ سبق سیکھتا ہے کہ وہ ماں باپ کے ساتھ کیسا سلوک کرے۔
بچے کی سیرت و کردار کے بنانے بگاڑنے میں والدین کے علاوہ بھی بہت سے عوامل کا دخل ہوتا ہے، تعلیم، ماحول، ساتھی، عزیز و اقارب اور خود ریاست، اور یہ سب اپنی اپنی حد تک اس کے بناو یا بگاڑ کے ذمہ دار بھی ہیں لیکن اس وقت صرف ماں باپ کے بارے میں گفتگو کرنا ہے کہ اولاد کے تعلق سے ان کی ذمہ داریاں کیا کیا ہیں اور ان پر اولاد کے کیا کیا حقوق ہیں۔

 

***

 اگر آپ معاشرے کی اصلاح ور تہذیب و تمدن کی تعمیر کے لیے کچھ خاص افکار و نظریات رکھتے ہیں تو آپ کی اولاد ان نظریات کی حامل کیسے بن سکتی ہے۔ اگر آپ نے اولاد کے دل میں ان کی قدر و عظمت بٹھانے کی کوشش نہیں کی ہے تو اولاد سے وہی توقعات رکھیے جن کے لیے آپ نے اس کو تیار کیا ہے اور اسی طرح کے سلوک کی امید کیجیے جس طرح کا سلوک آپ نے ان کے ساتھ کیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021