نیٹ امتحان ۔۔۔تناو ،تجارت اور سیاست

تعلیمی نظام پر سیاست سے طلبہ کی زندگیوں کوخطرہ

محمد انور حسین ،اودگیر

12 ستمبر کا دن ملک بھرکے 16 لاکھ طلباء کے لیے ایک اہم دن تھاکیونکہ وہ ’’نیٹ ‘‘کا امتحان لکھ رہے تھے ۔نیٹ (NEET) ملکی سطح کا میڈیکل سائنس میں داخلہ کا ٹسٹ ہے ۔نہ صرف سولہ لاکھ طلباء بلکہ ان کے ماں باپ بھی امید اور خوف کی عجیب و غریب حالت میں تھے ۔
اچانک ایک دلخراش خبر آئی کہ تمل ناڈو کے ضلع سیلم کے ایک گاوں کولایور کا رہنے والا دھانوش نامی طالب علم نیٹ امتحان میں ناکامی کے خوف سے امتحان سے ایک دن قبل خودکشی کر گیا ۔اس واقعہ کے بعد اس کے غریب ماں باپ پر جو گزری ہو گی اس کا شاید کوئی اندازہ بھی کر سکے ۔
اس کی خود کشی نے اس بحث کو تازہ کردیا کہ نیٹ امتحان کتنا فائدہ مند ہے اور کتنا نقصاندہ ۔
ایم بی بی ایس میں داخلہ کے لیے نیٹ کا ملکی سطح پر 2013 میں آغاز ہوا ۔اس سے قبل ہر ریاست کو اپنی سطح پر انٹرنس ٹسٹ لینے کا اختیار تھا ۔اس کے علاوہ ملکی سطح پر” ایمس ” اور دیگر ادارے اپنے اپنے انٹرنس ٹسٹ منعقد کرتے تھے ۔
بہت سی ریاستیں اس طرح کے نیشنل سطح کے انٹرنس کے حق میں نہیں تھیں ۔جس میں نمایاں نام تمل ناڈو کا ہے ۔12 ستمبر کو تمل ناڈو میں دھانوش نے خود کشی کی تو معاملہ سیاسی رخ بھی اختیا رکر گیا ۔13 ستمبر کو تمل ناڈو اسمبلی میں نیٹ امتحان کے خلاف بل پیش کیا گیا ۔بشمول اپوزیشن جماعتیں سب نے اس بل کی تائید کی ۔دھانوش کی موت کے علاوہ اور دو خود کشی کے واقعات سامنے آئے ۔2017 میں بھی ایک دلت مزدور کی بیٹی انیتا جس نے بارہویں کے بورڈ میں 98فیصدنشانات حاصل کرنے کے باوجود نیٹ امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی مایوس ہوکر خودکشی کر بیٹھی تھی ۔تمل ناڈو میں انیتا نیٹ امتحان کی مخالفت کرنے والوں کا چہرہ بن چکی تھی ۔
اس طرح کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات واضح ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سی بی ایس ای بورڈ کے طلبا کے نیٹ امتحان میں پاس ہونے کا تناسب اسٹیٹ بورڈ میں پاس ہونے والے طلباء سے بہت زیادہ ہے ۔2019 کے اعداد و شمار کے مطابق سی بی ایس ای بورڈ کے نیٹ میں کامیاب طلبا کا فیصد 75 ہے جبکہ اسٹیٹ بورڈ کا 50 فیصد ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسٹیٹ بورڈ اور سنٹرل بورڈ کے نصاب کا تفاوت ہے ۔اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اسٹیٹ بورڈ کے بچے نیٹ میں کامیابی کے لیے سی بی ایس ای کا نصاب پرائیویٹ کوچنگ سنٹرس سے حاصل کرنے لگے ۔اس طرح یہ کوچنگ سنٹرس کا کاروبار پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔کوچنگ سنٹرس کارپوریٹ کلچر کا شکار ہوچکے ہیں اور غریب بچے اس سے محروم ہورہے ہیں نتیجہ مایوسی اور تناو کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔
حالیہ دنوں میں آن لائن ایجوکیشن ایک انڈسٹری کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔یہ انڈسٹری کتنی تیزی سے فروغ پارہی ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ’بایجوس‘ اور ’آکاش‘ کے درمیان میں جو تجارت ہوئی وہ آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہے ۔ڈی این اے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بایجوس نے آکاش کوچنگ سنٹرس کو ایک بلین ڈالر میں خرید لیا ہے ۔ایک ایسے ملک میں جہاں 1.5 ملین سرکاری اسکولس ہیں ۔ایک ہزار یونیورسٹیاں ہیں وہاں بایجوس جیسے کوچنگ کلاسیس ان سب سے کہیں آگے نکل گئے ہیں ۔
بھارت میں پرائیویٹ کوچنگ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کچھ اہم حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں ۔اخبار ڈی این اے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 4 سال کی عمر کے بچے بھی ٹیوشن حاصل کر رہے ہیں ۔ بھارت میں والدین اپنے بچوں پر اپنی آمدنی کا 12 فی صد پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔انڈیا ہیومن ڈیولپمنٹ کے سروے کے مطابق ہر چار میں سے ایک بچہ پرائویٹ ٹیوشن پر منحصر ہے ۔ بچہ ہر ہفتہ اوسطاّ 9 گھنٹے ٹیوشن میں گزارتا ہے ۔
ٹیوشن کی صنعت میں اضافہ کی کئی وجوہات میں سے ایک اساتذہ کی قلت بھی ہے ۔2020 میں لوک سبھا میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تقریباً دس لاکھ چھ ہزار نشستیں خالی ہیں ۔ اگر کوئی طالب علم انجینئرنگ یا میڈیکل میں داخلہ کا خواہشمند ہے تو اسے اوسطاٌ دو سے تین لاکھ روپے انٹرنس کی تیاری کے لیے خرچ کرنے پڑتے ہیں ۔ اسی لیے بہت سے خاندان معاشی طور پر کمزور ہورہے ہیں اور مزید بچوں کی ناکامی انہیں مایوسی اور خود کشی پر مجبور کر رہی ہے ۔بھارت میں یہ صنعت تقریباً 25 ہزار کروڑ روپے سالانہ کی بن گئی ہے ۔اس کی ترقی کی شرح پچھلے پانچ سال سے سالانہ 35 فیصد ہے ۔بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہ تجارت فروغ پارہی ہے ۔جاپان میں 70 فی صد ،ملائشیا میں 83 فی صد اور جنوبی کوریا میں 92 فی صد بچے اسکول کے علاوہ کوچنگ لیتے ہیں۔ خیال ہے کہ بھارت میں بین الاقوامی کوچنگ سنٹرس بہت جلد شروع ہو جائیں گے ۔2022تک ساری دنیا میں یہ تجارت تقریباً 227 بلین ڈالر کی صنعت بن جائے گی۔
اگر ہم طلباء کی خود کشی کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ صورتحال کافی ڈراونی ہو چکی ہے ۔نیشنل کرائم برانچ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر گھنٹہ ایک طالب علم خود کشی کرتا ہے ۔2019 میں 10335 طلباء نے خود کشی کی تھی ۔پچھلے پچیس سالوں میں ملک میں تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار طلباء خود کشی کر چکے ہیں ۔اس کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ اپنے پسندیدہ کرئیر میں یا پسندیدہ انٹرنس امتحان میں ناکامی ہے ۔
یہ صورتحال بہت سے پہلووں پر غور کرنے پر مجبور کررہی ہے ۔ ایک طرف مادہ پرستی نے دنیا کو محض دولت کمانے کی جگہ بنادیا ہے ۔میڈیکل سائنس میں داخلہ کی خواہش ہر طالب علم کی ہوچکی ہے قطع نظر اس سے کہ اس کے اندر وہ صلاحیت ہے بھی یا نہیں ۔اس میں طالب علم سے زیادہ ماں باپ کی خواہش کا حصہ ہے ۔امیر لوگ زیادہ امیر بننے کہ لیے ،غریب اپنی غریبی مٹانے کے لیے اور متوسط طبقہ اپنے بہت سے ادھورے خوابوں کی تکمیل کے لیے اپنے نونہالوں کی جان اور اپنا مال کھپارہے ہیں ۔اس لیے بہت سے طلباء جو اپنے اندر دوسری بہت سی قابلیتیں رکھتے ہیں لیکن میڈیکل سائنس کے لیے ان کے اندرصلاحیتوں کا فقدان ہوتا ہے محض ماں باپ کی خواہش کے آگے مجبور ہو جاتے ہیں، نتیجہ مایوسی اور قنوطیت کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا ۔یہی حال انجنیرنگ، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے کورسیس کا ہے ۔یہ کورسیس’ دولت ڈالو دولت نکالو‘کی نیت پر منحصر ہیں ۔اس لیے ذہین لیکن غریب طلباء پرائیویٹ کوچنگ کی محرومی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کے نقائص بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں ۔ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی بے روزگاری میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ایسے میں میڈیکل کے میدان میں بے تحاشہ دولت کا امکان دیکھ کر ہر کس وناکس نیٹ امتحان دینے کی کو شش کر رہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسکول کے دور سے ہی طلباء کی صلاحیت ،جبلت اور دلچسپی کا بغور جائزہ لیا جائے، ان کی مناسب کونسلنگ کی جائے اور ان پر دیگر کورسیس کی اہمیت اور ضرورت واضح کی جائے ۔دوسری طرف حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر شعبہ ہائے علم کے ذریعے روزگار کے حصول کو یقینی بنائے ۔
سوال یہ ہے کہ جب ریاستی حکومت اپنی سطح پر میڈیکل میں داخلہ کا نظام چلاتی تھی تو کیا قابل ڈاکٹرز نہیں مل رہے تھے ؟ آخر مرکزی نظم بنانے کی اتنی شدید ضرورت کیوں پیش آئی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مرکزی حکومت ملک کے وفاقی نظام کو کمزور کردینا چاہتی ہے ۔حالیہ دنوں ٹیکس کے قوانین اور زرعی قوانین کا نفاذ بھی اسی نیت کا مظہر ہے ۔ آر بی ائی کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی بیان دیا کہ مرکزی حکومت محصول کی رقم میں سے ریاستی حکومت کا حصہ کم کر رہی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت بہت بڑا ملک ہے ۔اسے صرف مرکزی حکومت کے ذریعے چلانا بہت مشکل کام ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی نظام سیاسی مفادات کے کھیل کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہنا چاہیے ۔ورنہ طلباء کی زندگی خطرے میں آجائے گی جو کسی بھی ملک و قوم کا سب سے زیادہ نقصان ہے ۔۔
***

 

***

 نیشنل کرائم برانچ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر گھنٹہ ایک طالب علم خود کشی کرتا ہے ۔2019 میں 10335 طلباء نے خود کشی کی تھی ۔پچھلے پچیس سالوں میں ملک میں تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار طلباء خود کشی کر چکے ہیں ۔اس کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ اپنے پسندیدہ کرئیر میں یا پسندیدہ انٹرنس امتحان میں ناکامی ہے ۔یہ صورتحال بہت سے پہلووں پر غور کرنے پر مجبور کررہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021