نوٹ بندی کے پانچ سال: ملکی معیشت ہنوز صدمے سے دوچار

مقاصد سارے دھرے کے دھرے رہ گئے۔حکومت حصولیابیاں بتانے سے قاصر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

آٹھ نومبر 2016 کو آٹھ بجے شب وزیراعظم نے اعلان کیا کہ بارہ بجے رات سے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ محض کاغذ کے ٹکڑے رہ جائیں گے۔ اس وقت درباری اور سرکاری میڈیا نے چیخ چیخ کر اعلان کیا کہ شہریوں کے پاس زیادہ جمع شدہ نوٹ کالا دھن ہے جس پر سرجیکل اسٹرائیک کیا گیا ہے ۔ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو بند ہوئے نوٹوں کا بڑا حصہ بینکنگ سسٹم میں واپس نہیں آتا اور یہ بات پہلے ساٹھ دنوں میں واضح ہوگئی تھی جس کی تصدیق آر بی آئی نے اگست 2017میں کردی کہ 99.3 فیصد سے کچھ زیادہ رقم واپس آگئی ہے یہ واپسی تعجب خیز نہیں تھی۔ سرکاری اعداد وشمار سے واضح ہورہا ہے کہ غلط طریقے سے جمع شدہ رقم کا تقریباً 93 فیصد حصہ بے نامی زمینوں، رئیل اسٹیٹ ، سونا چاندی، شیئر اور غیر ملکی بینکوں میں رکھا جاتا ہے۔ اس طرح محض سات فیصد کالا دھن ہی نقدی کی شکل میں دستیاب ہوا۔ مختلف اداروں، یوروپی مرکزی بینکوں اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سابق ماہر معاشیات کین راگ آف جیسے کئی لوگ زیادہ قدر والے نوٹوں کے بند کرنے کو ایک اچھا آئیڈیا تسلیم کرتے ہیں۔ مگران کی رائے ہے کہ ایسا کرنے سے قبل سال بھر پہلے اس کی آگاہی دینی چاہیے اور اس کے لیے مناسب تیاری کرلینی چاہیے تھی۔ امریکا کا سب سے بڑا نوٹ سو ڈالر کا ہے جو وہاں کی فی کس آمدنی کا محض 0.16 فیصد ہے۔ یہ سب نوٹ امریکہ کے باہر ہی استعمال ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں دو ہزار کا نوٹ ملک کی فی کس آمدنی کا 1.3فیصد ہوتا ہے جو امریکا سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں سب سے بڑی قدر کے نوٹ کی قیمت زیادہ سے زیادہ چار تا پانچ سو روپے ہونی چاہے جس سے ہم کالے دھن کو کسی حد تک قابو میں کرسکتے تھے جو ہم نہیں کرسکے۔ واضح رہے کہ آٹھ نومبر 2016 سے قبل اٹھارہ لاکھ کروڑ روپے نقدی میں چلتا تھا۔پانچ سال بعد اس کا حجم بڑھ کر 28.3 لاکھ کروڑ روپے ہوگیا۔ یعنی اس میں 57.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو پانچ سالوں میں سالانہ اوسط دس فیصد ہوتا ہے جو جی ڈی پی میں سالانہ ترقی سے بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں مالی خسارہ کے دور میں عام شہریوں کے پاس نقد رقم زیادہ ہے ساتھ ہی ڈیجیٹل لین دین میں ترقی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس لیے ہماری ڈیجیٹل معاملتوں کے سفر کو نوٹ بندی کے اتنے شدید جھٹکے کی ضرورت نہیں تھی۔ فی الحال ڈیجیٹل لین دین کی رفتار کچھ تیز ضرور ہوئی ہے جو ٹیکنالوجی کے بہتری کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ بھگوا بریگیڈ کو بذریعہ قومی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیاگمراہ کرنے اور بازار میں فیک نیوز چلانے کے ساتھ نیا بیانیہ پیش کا انداز بہت پرانا ہے۔ پہلے یہ نوٹ بندی جعلی نوٹ کالا دھن، دہشت گردوں کو ملنے والی رقم پر حملہ بتایا گیا اس کے معاً بعد زیادہ ٹیکس وصولی کا حربہ پھر ڈیجیٹل لین دین کا شوشہ چھوڑا گیا۔جہاں تک بدعنوانی کے خاتمہ کا تعلق ہے وہ ملک میں زیادہ ہی ہوگئی ہے کیونکہ رشوت کا لین دین اب نقدی میں کم ہوتا ہے اور رشوت دینے والے غیر ممالک میں یہ رقم منتقل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب تو کرپٹو کرنسی کے ذریعے بڑی بدعنوانی کا لین دین ہوجاتا ہے جسے ہم آسانی سے نہیں سمجھ سکتے۔ دہشت گردی کی مالی مدد روپے میں نہ ہوکر ڈالر اور حوالہ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ دہشت گرد اعلیٰ قدر کی نوٹوں کا کہیں بھی اور کبھی بھی تبادلہ کر پانے کے قابل ہوتے ہیں ۔ یہی حال فرضی نوٹوں کا بھی ہے جو دو ہزار کی نوٹوں کی طباعت کے بعد اور بڑھ گیا۔ حکومت کو اب اسے بھی تدریجاً بند کرنا پڑا۔ اگر حکومت چاہتی تو دو ہزار اور پانچ سو کے نوٹوں کے چلن کو محدود کرکے چھوٹی قدر کے نوٹوں کے چلن کو ترجیحات میں رکھتی جس سے مذکورہ خرابیوں کو قابو میں کرنے میں تھوڑی مدد ملتی۔ آج بھی چھوٹی قدر کے نوٹوں کا چلن محض پندرہ فیصد ہے۔
وزیراعظم مودی کے نوٹ بندی کے احمقانہ فیصلہ کی ماہرین معاشیات نے پر زور انداز میں مذمت کی پھر مرکزی حکومت نے نوٹ بندی کے ٹھیک ایک ماہ بعد جی ایس ٹی کو نافذ کردیا۔ جس نے بھارتی معیشت کو مزید بحران میں مبتلا کردیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جی ایس ٹی نوٹ بندی کے چھ ماہ قبل آیا ہوتا تو معیشت پر زیادہ ہی مثبت اثرات پڑتے۔ جس کی وجہ سے نوٹ بندی کی تباہی میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ معیشت کا کچھ حصہ کیش (نقد) لین دین پر منحصر تھا جو بری طرح متزلزل ہوگیا کیونکہ جی ایس ٹی، ایم ایس ایم ای کے باقی سیکٹرس کو مصیبت میں ڈالنے کا باعث بنا۔ اس لیے کہ ایم ایس ایم ای کم نقدی پر چلتا تھا۔ دوسری طرف ملک کے غیر منظم شعبہ (انفارمل سیکٹرس)کا ملکی معیشت میں بہت اہم رول ہے کیونکہ اسی سے ملک کی اکثریت کے خورد ونوش کا انتظام ہوتا ہے مگر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد غیر منظم سیکٹرس، منظم سیکٹرس میں تبدیل ہونے لگے۔ ایسے حالات میں ملک کا بڑا طبقہ روزگار سے محروم ہونے لگا اوران کے مستقبل پر اندھیرا چھانے لگا۔ ایسے حالات اس وقت تک رہیں گے جب تک غیر منظم شعبہ پھر سے بازار میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ جس پر منظم شعبہ (فارمل سیکٹر) نے قبضہ جمالیا ہے۔ منظم شعبہ کی سہولت اور حساب سے ہی حکومت کی پالیسی سازی ہوتی ہے اس لیے وہ بازار میں زیادہ متحرک رہتا ہے ۔ بلاشبہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا سب سے زیادہ فائدہ پونجی پتی سرمایہ کاروں اور کارپوریٹس کو ہی ہوا۔ کیونکہ انہیں نوٹ بندی کی وجہ سے بازار پر قبضہ کا موقع مل گیا اور ٹیکس کی ادائیگی بھی کم ہی کرنی پڑتی ہے۔
غرض حکومت کو پانچ سالوں میں اپنے دونوں فیصلوں سے کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا۔ نوٹ بندی نے لوگوں کی دشواریوں اور مشکلات میں بہت اضافہ کردیا۔ لوگوں کی گھریلو بچت بالکل ہی ختم ہوگئی اور کنزیومر اسپینڈنگ (صارف خرچ) گزشتہ چار دہائیوں میں دھڑام سے گرا۔ اس نے معیشت کو زمین دوز کرکے رکھ دیا اور عام شہریوں کی زندگی کو تاریکیوں میں بدل دیا۔ سرمایہ کاری میں غیر معمولی کمی درج ہوئی اور غیر منظم شعبے بھی سکڑنے لگے ہے۔ جی ڈی پی شرح نمو میں تیزی آئی ہے بے روزگاری آسمان کی بلندی پر ہے۔ غذائی اور دیگر ضروری اشیا کی مہنگائی کا کیا کہنا؟ اس لیے وزیراعظم کو جملہ بازی چھوڑ کر اپنی اس حرکت کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کیونکہ نوٹ بندی کا اخلاقی جواز تھا اور نہ ہی معاشی جواز۔ ماہر معاشیات اور سابق پروفیسرآف کانومکس ارون کمار نے کہا کہ نوٹ بندی کے ذریعہ کالا دھن کی معیشت پر اثر انداز ہونے کا خیال غلط ہے۔ اگر کالا دھن اعلیٰ قدر کے نوٹوں میں ہوتو اسے ہٹادینے پر ختم ہوجائے گا یہ خیال ہی غلط تھا۔ اگر کسی بھارتی نے کالی کمائی کو ڈالر میں جمع کر رکھا ہے تو ہماری حکومت کو ڈالر کی نوٹ بندی کرنی ہوگی۔ اس طرح سوئس بینک کی نوٹ بندی کو ذریعہ بنانا ہوگا۔ مگر ہماری حکومت کو پتہ ہی نہیں ہے کہ کالا دھن کتنا باہر ہے اور کس شکل میں ہے؟ اور اسے کیسے لایا جاسکتا ہے؟ ویسے فرضی نوٹ بینک میں غیر ممالک سے آتا ہے اس طرح سے دہشت گردی کی مالی مدد تو زیادہ تر ڈالر میں ہوتی ہے۔ بھارت کی نوٹ بندی پر امریکہ کے سابق سکریٹری آف ٹریزری نے کہا کہ یہ کرنسی پالیسی کی بڑی زبردست تبدیلی ہے جس کے اثرات دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
***

 

***

 ملک کے غیر منظم شعبہ (انفارمل سیکٹرس)کا ملکی معیشت میں بہت اہم رول ہے کیونکہ اسی سے ملک کی اکثریت کے خورد ونوش کا انتظام ہوتا ہے مگر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد غیر منظم سیکٹرس، منظم سیکٹرس میں تبدیل ہونے لگے۔ ایسے حالات میں ملک کا بڑا طبقہ روزگار سے محروم ہونے لگا اوران کے مستقبل پر اندھیرا چھانے لگا۔ ایسے حالات اس وقت تک رہیں گے جب تک غیر منظم شعبہ پھر سے بازار میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ جس پر منظم شعبہ (فارمل سیکٹر) نے قبضہ جمالیا ہے۔ منظم شعبہ کی سہولت اور حساب سے ہی حکومت کی پالیسی سازی ہوتی ہے اس لیے وہ بازار میں زیادہ متحرک رہتا ہے ۔ بلاشبہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا سب سے زیادہ فائدہ پونجی پتی سرمایہ کاروں اور کارپوریٹس کو ہی ہوا۔ کیونکہ انہیں نوٹ بندی کی وجہ سے بازار پر قبضہ کا موقع مل گیا اور ٹیکس کی ادائیگی بھی کم ہی کرنی پڑتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021