نظامِ انصاف، سپریم کورٹ، حکومت اور جمہور

آخر عدالتکو یہ کیوں کہنا پڑا کہ ’’ہم پر اعتماد رکھیں‘‘ ملک و ملت کی حکمت عملی پر سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے

نہال صغیر،ممبئی

’’ازالہ عدلیہ ،احتجاج ،یا پارلیمانی بحث کے ذریعے ہو سکتا ہے لیکن شاہراہوں کو کیسے روکا جا سکتا ہے‘‘ ۔’’اگر آپ کو عدالتوں پر یقین ہے تو احتجاج کرنے کے بجائے ان کی فوری سماعت کے لیے پیروی کریں‘‘۔
مندرجہ بالا سطورمیں جو باتیں ہیں وہ سپریم کورٹ کے ججوں کےاس وقت دیے گئے ریمارک ہیں جب کسانوں نے جنتر منتر پر احتجاج کے لیے سپریم کورٹ سے اجازت طلب کی تھی ۔ اس کے علاوہ بھی سپریم کورٹ میں احتجاج کے خلاف ایک مقدمہ پر ۴۳ کسان لیڈروں کو نوٹس جاری کی گئی ۔ یہ مقدمہ یوں تو نوئیڈا کے شہریوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا جس میں ہریانہ کی کھٹر حکومت بھی بطور مداخلت کار شامل ہے۔ اس طرح کے مقدمے اور درخواستیں کس کی جانب سے آتی ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کسانوں کے ذریعہ احتجاج کے لیے اجازت طلب کیے جانے پر سپریم کورٹ نے بہت سخت الفاظ کا استعمال کیا ۔ فاضل ججوں نے کہا ’’آپ نے شہر کا گلا گھونٹ دیا ہے اور اب آپ شہر کے اندر آکر احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے شاہراہیں اور سڑکیں بند کر رکھی ہیں‘‘۔’’ہمیں اس قانونی سوال کا فیصلہ کرنا ہے کہ جب آپ نے عدالتوں سے رجوع کیا ہے تو آپ اسی مسئلے پر کیسے احتجاج کر سکتے ہیں‘‘۔ایک طرف اجازت طلب کرنے پر یہ جواب سننا پڑتا ہے اور دوسری جانب جنتر منتر پر بغیر اجازت کے ہی ہندوتوا کے غنڈے آجاتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں ۔ بعد میں مسلمانوں کی طرف سے سخت احتجاج کے بعد گرفتار ہوتے ہیں لیکن چند روز بعد ہی ضمانت پر آزاد ہوجاتے ہیں ۔
۴؍ اکتوبر کو کسان احتجاج کے خلاف جج اپنا یہ ریمارک پاس کررہے تھے اس سے ایک روز قبل ۳؍ اکتوبر کو لکھیم پور کھیری میں بی جے پی حکومت میں باہو بلی یا بڑبولے وزیر کے بیٹے نے اپنی کار کسانوں پر چڑھادی جس میں آٹھ لوگ مارے گئے۔اس پر بھی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ’’اس طرح کے واقعہ کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتا ‘‘۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی خواہ وہ فسادی ہی کیوں نہ ہو اس کی ذمہ داری کیوں لے گا ۔ یہ تو ان کی ذمہ داری ہے جن کے کاندھوں پر امن و امان کے قیام کی ذمہ داری ہے کہ فسادیوں کو ان کے انجام تک پہنچائیں اور عوام میں اعتماد بحال کریں ۔ ۴؍ اکتوبر تک ججوں کے تیز و تند تنقید کا نشانہ کسان ہی تھے جبکہ ایک وزیر کے بیٹے نے ان کے ساتھیوں کو گاڑیوں سے کچل دیا تھا ۔یہ اس کے باوجود ہےکہ جج کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے لکھیم پور کھیری کے حادثہ کو دیکھا ہے ۔ انہوں نے دیکھا ضرور ہوگا لیکن وہ اس وقت تک کسانوں کو ہی اس کے لیے ذمہ دار سمجھ رہے تھے جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں دلی پولیس کی درندگی پر جب طلبہ انصاف کی آس میں سپریم کورٹ گئے تو انہیں کہا گیا پہلے امن قائم کریں یعنی وہاں بھی سپریم کورٹ پولیس کی بجائے طلبہ کو ہی گناہ گار سمجھ رہا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی کئی معاملات ہیں جن میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں لیکن عدلیہ نے ازخود نوٹس نہیں لیا۔ لکھیم پور والے معاملہ میں سپریم کورٹ میں بعد میں تیزی آئی اور دعا کیجیے کہ وہ کسی بڑی تبدیلی تک قائم رہے ۔
جیسا کہ سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ آپ کو ہم پر اعتماد کرنا چاہیے، تو یہاں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ عدلیہ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ہم پر اعتماد کرنا چاہیے؟ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کو بھی اس بات کا کہیں نہ کہیں احساس ہے کہ اس پر سے عوام کا اعتماد ختم نہیں تو کمزور ضرور ہوا ہے ۔ مذکورہ لکھیم پور کھیری معاملہ میں ہی دیکھ لیں کہ ایک دن بعد تک عدالت کا کیا رخ رہا ہے ۔ عدلیہ کو کون بتائے گا کہ کسان یا اس سے قبل سی اے اے اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ جیسی تحریکوں میں عوام سڑکوں پر اس لیے آئے کیوں کہ حکومت اور عوام دونوں کو جگانے اور متحرک کرنے کا یہی ایک راستہ بچا ہے ۔
عدالت کا یہ کہنا کہ ’’مخالفت کیوں جب قانون نافذ ہی نہیں ہوا؟ اور عدالت نے اس کو التوا میں رکھا ہے‘‘۔تو اس کے جواب میں کئی معاملات ہیں مگر بابری مسجد کو ہی لے لیں تو اس کا سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہونے کے باوجود ہندوتوا تنظیمیں احتجاج کرتی رہیں اور دھونس اور دھمکی والی زبان استعمال کی جاتی رہی مگر مجال ہے جو سپریم کورٹ کو اس کا احساس ہوا ہو ۔آخر اسی دباؤ میں بابری مسجد کا سب سے بڑی عدالت کے ذریعہ تاریخ کا بدترین ناانصافی پر مبنی فیصلہ سنا دیا گیا ۔ اس طرح کی تاریخ رکھنے والی عدالت پر آخر عوام کا اعتماد کیوں کر بحال ہوسکتا ہے ؟ عدلیہ کا کہنا بجا ہے کہ مذکورہ کسان قانون ابھی نافذ نہیں ہوا ہے اور عدلیہ نے اسے التوا میں رکھا ہوا ہے اس کے باوجود کسانوں کا احتجاج اس لیے جاری ہے کہ حکومت اور اس کے ہمنواؤں کو یہ یاد دہانی کی جاتی رہے کہ وہ قانون کسانوں کے خلاف ہے اور عوام اس سے مطمئن نہیں ہیں اس لیے احتجاج کررہے ہیں ۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ عدالت کا وقار جو مسلسل مجروح ہورہا ہے اس کا ازالہ کیوں کر ہوگا؟ اس کے لیے عدلیہ کو دکھانا ہوگا کہ اس میں وہ قوت ہے کہ وہ بڑے سے بڑے منہ زور کو ناک میں نکیل ڈال سکتی ہے ۔ زیادہ کہنے سے بہتر یہ ہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ اندرا گاندھی کے خلاف جو فیصلہ آیا تھا وہ یقینی طور سے ہندوستانی عدلیہ کے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے منصفوں کو اس کی خبر نہیں ہوگی، انہیں اس کی خبر ہے کیوں کہ حالیہ دنوں میں غالباً چیف جسٹس رمنا نے ہی کسی جلسہ میں اس فیصلہ کو جرات مندانہ کہا تھا۔ عدالت چاہے تو ابھی اس کے سامنے بہت سے ایسے مقدمے زیر سماعت ہیں جن پر جرات مندانہ فیصلے دے کر وہ اپنے وقار کو بحال کرسکتی ہے ۔ پھر انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ ’’ہم پر اعتماد رکھیے ‘‘۔ عوام خود ہی اس پر اعتماد کرنے لگیں گے اور آج جس طرح عدلیہ کو تنقیدوں کا سامنا ہے اس پر قد غن لگ جائے گی۔ عوام کو ایسی امید نہیں ہے کہ عدلیہ کوئی ایسا قدم اٹھا پائے گی جس سے انہیں امید بندھے کہ ہر جگہ سے ناامید ہونے کی صورت میں یہاں سے انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔ اس کی تین وجوہات ہیں اول تو نظام انصاف اتنا پیچیدہ ہے کہ عام آدمی اسے سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ کیسے انصاف پائے ۔ دوسری وجہ عدلیہ میں بدعنوانی اور ایک تیسری وجہ ہے حصول انصاف میں بے شمار اخراجات ۔ان تینوں وجوہات سے لڑنا اور اس پر قابو پانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی چند تنظیموں کے بس کا روگ ہے ۔ اس کے لیے جب تک پورا ملک نہیں اٹھ کھڑا ہوگا تب تک یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ محض چیف جسٹس کے ذریعہ پولیس کی سرزنش سے کوئی فائدہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ذرائع ابلاغ میں سُرخی بٹوری جائے ۔اس کے برعکس چیف جسٹس یا وہ جج جو اپنے عہدہ کا وقار بحال رکھنا چاہتے ہیں اگر ممکن ہے تو وہ خود اس جانب پیش قدمی کریں اور جو مقدمات زیر دوراں ہیں انہیں جلد از جلد نپٹانے کی کوشش کریں نیز جرات مندی سے فیصلہ سنائیں ۔
علما کونسل کے سربراہ مولانا دریا بادی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کےمعاملہ میں کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی اس سے توہین عدالت یا پھر تنازعات میں گھرنے کا خطرہ رہتا ہے جبکہ صحافی اور فلمی نغمہ نگار حسن کمال اس کی تردید کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججوں یا کسی پر بھی ذاتی نوعیت کی تنقید نہیں کی جانی چاہیے۔ سپریم کورٹ یا کسی بھی عدالتی فیصلہ پر رائے دی جاسکتی ہے اس کی تنقید اور تعریف کی جاسکتی ہے۔ ایڈووکیٹ شوکت علی بیڈگری کہتے ہیں کہ عوام میں عدلیہ کے تئیں اعتماد کی بحالی کے لیے عدلیہ کو خود ہی پہل کرنی چاہیے اور خامیاں تلاش کی جانی چاہئیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ کہنا پڑا کہ ہم پر اعتماد رکھیں۔ معروف شیعہ عالم مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ عدلیہ نے یہ کہہ کر کہ آپ کو ہم پر اعتماد رکھنا چاہیے، واضح کردیا کہ عوام میں عدلیہ کے تئیں اعتماد میں کمی آئی ہے اور اس کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ عدالتوں میں زیر التوا معاملات جلد نپٹائے جائیں نیز حصول انصاف کو سستا اور آسان بنایا جائے۔ صحافی اور فلمی نغمہ نگار حسن کمال کو سپریم کورٹ میں بہتری کی امید نظر آرہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں سپریم کورٹ سے کچھ ایسے فیصلے ہوئے ہیں جن سے عوام میں اس کے تئیں اعتماد میں کمی آئی ہے اور اس کا احساس ججوں کو ہے اسی لیے انہوں نے کہا کہ ہم پر اعتماد رکھیں ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو اس کا احساس بھی ہے اور وہ چاہتے بھی ہیں کہ عدلیہ کا وقار بلند ہو ۔ حسن کمال نے تین ججوں کا حوالہ دیتے کہا کہ ارون مشرا ، شرد بوبڈے اور گوگوئی کی وجہ سے عوام میں سپریم کورٹ کی منفی شبیہ بنی تھی لیکن اب حالات بہتر ہورہے ہیں ۔
مراٹھی اور انگریزی کے کہنہ مشق صحافی اور کئی اخبارات سے وابستہ رہنے والے وویک بھاوسار بھی کہتے ہیں کہ جب سپریم کورٹ کا سیٹنگ جج وزیر اعظم کی تعریف کرے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد راجیہ سبھا کا رکن بنادیا جائے تو عوام میں سپریم کورٹ کے تئیں اعتماد میں کمی آئے گی ہی، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ججوں کو یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم پر اعتماد رکھیں۔
حکومت سے کسی قسم کی کوئی اچھی امید رکھنا بے فیض ہے ۔اسے نہ تو عدلیہ اور نہ ہی پولس فورس میں کسی اصلاح کی خواہش ہے کیوں کہ وہ ان خامیوں سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔ خواہ وہ کوئی بھی حکومت ہو ۔عوامی تنظیمیں بڑے پیمانے پر اٹھیں اور تحریک چلائیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ چلائیں جس سے عوام میں پوری بیداری پیدا ہو ، تب ہی ممکن ہے کہ عدلیہ اور پولیس فورس میں تبدیلی آئے ورنہ اسی طرح چھوٹے موٹے احتجاج کرتے رہیں، اپنا خون جلائیں اور اپنے عزیزوں کو قسطوں میں کھوتے جائیں اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔بقول ایک یوٹیوبر کے ہم وقتی طور پر جاگتے ہیں تھوڑا سا ہو ہلا کرتے ہیں اور پھر گہری نیند میں سوجاتے ہیں ۔ دلی کے نربھیا سے لے کر کسانوں کی تحریک تک ایسے درجنوں معاملات ہیں جن پر عوام کا رویہ ایسا ہی نظر آرہا ہے ۔ہر تحریک اور احتجاج سے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے اب ملک سے بے حسی کے دور کا خاتمہ ہوجائے اور انقلاب آجائے گا ۔مگر کچھ روز بعد سب کچھ ختم ہو جاتا ہے عوام اپنے آپ میں مگن ہوجاتے ہیں اور حکومت کی بے حسی اسی طرح قائم رہتی ہے جو پھر کسی نئے المیہ کو جنم دیتی ہے ۔
***

 

***

 اہم مسئلہ یہ ہے کہ عدالت کا وقار جو مسلسل مجروح ہورہا ہے اس کا ازالہ کیوں کر ہوگا؟ اس کے لیے عدلیہ کو دکھانا ہوگا کہ اس میں وہ قوت ہے کہ وہ بڑے سے بڑے منہ زور کو ناک میں نکیل ڈال سکتی ہے ۔ زیادہ کہنے سے بہتر یہ ہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ اندرا گاندھی کے خلاف جو فیصلہ آیا تھا وہ یقینی طور سے ہندوستانی عدلیہ کے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے منصفوں کو اس کی خبر نہیں ہوگی ، انہیں اس کی خبر ہے کیوں کہ حالیہ دنوں میں غالباً چیف جسٹس رمنا نے ہی کسی جلسہ میں اس فیصلہ کو جرات مندانہ کہا تھا ۔ عدالت چاہے تو ابھی اس کے سامنے بہت سے ایسے مقدمے زیر سماعت ہیں جن پر جرات مندانہ فیصلہ دے کر اپنے وقار کو بحال کرسکتی ہے ۔ پھر انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ ’’ہم پر اعتماد رکھیے ‘‘۔ عوام خود ہی اس پر اعتماد کرنے لگیں گے اور آج جس طرح عدلیہ کو تنقیدوں کا سامنا ہے اس پر قد غن لگ جائے گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021