’’میری زندگی – میری مرضی‘‘

معاشرتی بحران اور آزادی و اختیار کے درمیان

ڈاکٹر شہناز بیگم (دربھنگہ)

 

دنیا جس تیزی سے ترقی کے منازل طے کرتی رہی، اسی تیزی سے نئے نئے طریقے بھی عورت کے استحصال کی غرض سے سامنے آتے گئے، گویا عورت کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی میں کبھی کوئی کسر چھوڑی ہی نہیں گئی۔ موجودہ دور میں بھی ،جب کہ عورت پوری قوت کے ساتھ خود کو مرد کے آہنی پنجوں سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے، حقیقی مساوات اور آزادی سے دورہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عورت کی آزادی اور مساوات کی آواز گونجی تو مغرب سے ہی لیکن اس نے تیزی سے پوری دنیا کی نصف آبادی کو متاثر کرلیا۔ مغرب کے معاشرتی نظام کی بنیاد ڈارون ازم ہے، جہاں خدا کا تصور خارج از بحث ہے۔ یہاں بقاء اسی کو ہے جو سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس صورت میں جب عورت کے حقوق کی بازیابی کی بات آتی ہے تو مغرب ان نا انصافیوں کو، جو عورت کے ساتھ جاری تھیں اور آج بھی ہیں، ماننے کے باوجود بھی اس کی حیثیت کو کمتر ہی مان کر چلتا ہے۔ عورتوں نے بھی آزادیٔ نسواں کا نعرہ اس ’’مفروضے یا حقیقت‘‘ کے ساتھ لگایا کہ وہ ایک کمتر اور کمزور مخلوق ہے جس کو اوپر اٹھا کر مردوں کے ساتھ برابری کا درجہ دیا جائے۔
بیسویں صدی کے اوائل تک مغرب نے عورتوں کو بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا تھا۔ اس طرح کے احساسات اور عملی حقیقتوں کی سختیوں کو جھیلتی مغرب کی عورت کے لیے اپنی آزادی، یا حقوق کی بازیابی ایک مشکل ترین کام تھا۔ اس محرومی اور ظلم کے نتیجہ میں ایک شدید ردِ عمل کا پیدا ہونا بھی فطری تھا جو بعد کے دور میں سماجی و معاشرتی بغاوت اور شدید احتجاج کی صورت میں سامنے آیا۔ Mary Wollstonecraftك کی معرکہ آرا کتاب A Vindication of the Rights of Womenکی اشاعت کے ساتھ تحریک آزادئ نسواں کے نعرے نے مغرب میں زور پکڑنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی گونج پوری دنیا میں سنی جانے لگی۔ پھر اس تصور کو دنیا بھر میں آگے بڑھانے کے لیے Feminist Movementشروع كکی گئی اور پھر دیگر سرگرمیاں بھی میدانِ عمل میں آتی گئیں۔ Simone de Beauvoir، Betty Friedan، Kate Milletاور Bell Hooks جیسی انقلابی شخصیتوں نے اس تحریک کو اپنا خون جگر پلایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی یہ نسوانی تحریک یوروپ سے نکل کر عرب اور ایشیائی ممالک تک میں اپنی جگہ بنانے لگی۔ یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ یہ تحریک مغرب میں رائج خواتین کے خلاف ظلم و زیادتی اور اسے کم تر سمجھنے کے خلاف ایک منفی تحریک تھی اور حقیقت میں آج بھی ہے، چنانچہ اس تحریک کے منفی جذبے اور نظریاتی تعفن نے سماج میں ایسا فکری پالیوشن پیدا کیا جس کے سبب تعمیری سوچ، اگر کچھ بچی بھی تھی تو اس کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ اس کا بھی ایک سبب تھا اور وہ یہ کہ اس تحریک کے پاس نہ تو سماج و معاشرے کی تعمیر کا کوئی نظریہ تھا اور نہ کوئی مستحکم، صالح اور توازن پر مبنی متبادل۔ خواتین کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ ایک متبادل ہوسکتا تھا مگر وہ اس وقت تک ان کے لیے پردوں میں چھپا تھا۔ کیونکہ اسلام کے ماننے والے اسے عملی طور پر دنیا کے کسی گوشے میں رائج کرکے دکھانے میں اس وقت تک ناکام ہی تھے، جیسا کہ آج بھی ہے۔ یہ تو علوم کی ترقی اور ٹکنالوجی کے ارتقاء کے بعد ہوا کہ اسلام اور اس کے نظریات سماج میں ڈبیٹ کا موضوع بنے اور وہ بھی مغرب کی عورت کے سامنے ایک متبادل نظریے کے طور پر سامنے آیا۔
یہ فیمنسٹ تحریک کیونکہ عملی صورتِ حال کے خلاف ردِ عمل تھی اور جاری معاشرتی رویوں کے خلاف بغاوت کے نظریہ پر قائم تھی، اس لیے بڑی اچھی اور دل کو لبھانے والی لگتی تھی، اس لیے مغرب ہی کیا مشرق تک کی عورت اس کے ’’جذباتی اور انقلابی نعروں‘‘ سے ایسی متاثر ہوتی گئی کہ اس کو یہ احساس تک نہ ہوسکا کہ وہ کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ ’’میری زندگی – میری مرضی‘‘ (My Life- My Choice) کا نعرہ ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ (My Body-My Choice) میں تبدیل ہوگیا۔ ’’میرا جسم – میری مرضی‘‘ کے نعرے نے اسے گھر کی ملکہ کی مسند سے اٹھا کر قحبہ خانوں میں لاکر پٹخ دیا مگر اسے اس کا احساس نہ اس وقت ہوا اور نہ آج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج کی عورت ’’عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں‘‘ اور ’’اگر دوپٹہ مردوں کو پسند ہے تو اپنے منھ پر ڈال لیں‘‘ جیسے نعروں کے ساتھ اپنی آواز ملاتی نظر آتی ہے۔ اپنے جسم پر مکمل اختیار جسے Bodily Autonomyكکا نام دیا گیا، اسقاطِ حمل (Abortion)کے حق سے ہوتی ہوئی آج کی عورت اس مقام پر کھڑی ہے جہاں سے وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو اسے اپنا گھر اور خاندان تباہ نظر آتا ہے اور آگے دیکھتی ہے تو تاحدِ نگاہ صرف ویرانہ ہے۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ یہ تحریک جن جغرافیائی حدود میں اٹھی اور پروان چڑھی اس کے منفی اثرات بھی سب سے پہلے انہی خطوں میں نظر آئے اور اچھی بات یہ ہے کہ ان کا احساس بھی سب سے پہلے انہی خطوں کے دانشوروں نے کیا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اب مغرب کے دانشوران اور ماہرین سماجیات کھل کر یہ کہنے لگے ہیں کہ اگر ہمیں اپنے معاشرے اور ملک کو تباہی سے بچانا ہے تو عورت کو باعزت طریقے سے گھر پہنچانا ہوگا۔ ان کی اس رائے کے پیچھے مضبوط معاشرتی اور سماجی و خاندانی نقصانات کے اعداد و شمار ہیں جو وہ انسانی آبادی کی گھٹتی تعداد کی صورت میں دیکھتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ صورت حال اگر چند دہائی اور جاری رہی تو ملکوں، نسلوں اور مذہبی اکائیوں کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے امریکی دانشور پیٹرک جسے بچانن کی کتاب Death of the West)۔ اس کے علاوہ بچوں میں بڑھتا تشدد کا رجحان، بن ماں باپ کے بچوں کی بڑھتی تعداد اور نو عمروں میں جرائم اور نشے کی عادت نے آئندہ نسلوں کی تباہی و بربادی کا جو سامان مہیا کیا ہے وہ ان لوگوں کو بے چین کردینے کے لیے کافی ہے۔
ایک خوشحال اور پرامن معاشرے کے لیے مرد و عورت کے درمیان ہمدردانہ اور تعاون پر مبنی رشتہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں میں ایک دوسرے کے لیے احترام کا جذبہ اور ایک دوسرے کے لیے حقوق و فرائض کی رعایت کرنا اور رکھنا لازم ہے مگر آزادئ نسواں کی تحریک اور اس کے نعروں میں حریفانہ جذبہ زیادہ کارفرما رہاہے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ تعمیر کے بجائے تخریب اور تباہی کا زیادہ شکار ہوا ہے۔ مساوات، شخصی آزادی، انسانی جذبہ و احترام اور انصاف عورت ہی کے بنیادی حقوق نہیں بلکہ ہر انسان کا حق ہیں اور عورت کیونکہ صدیوں سے ان سے محروم رکھی گئی ہے، اس لیے اس کے لیے ان چیزوں کی رعایت ترجیحی بنیادوں پر مطلوب ہے، لیکن ان کی بازیابی کے اقدامات اگر غلط خطوط پر کیے جائیں تو سماج و معاشرے کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے اور بدقسمتی سے اس وقت یہی صورتِ حال ہے۔
مغرب میں جو اخلاقی و معاشرتی بحران نظر آتا ہے اس سے راست متاثر خاندانی نظام ہی ہے۔ بچوں کے حقوق پامال ہوتے نظر آرہے ہیں۔ عورت کی طرف سے ان پر توجہ صفر کے برابر ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ اگلی نسل ہی اس تخریب پر مبنی اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہو اور وہ نظر بھی آنے لگے ہیں۔ نوجوان نسل تشدد میں دلچسپی لینے لگی ہے۔ آئے دن اسکول میں بچے اسلحہ سے لیس بلا وجہ قتل کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان میں اپنی زندگی سے بیزاری بھی نظر آرہی ہے۔ غرض کہ تباہی اپنا منہ کھولے سامنے کھڑی ہے اور اس سے بچنے کا کوئی راستہ سمجھ میں نہیں آتا۔
کہا جاتا ہے کہ عورت خاندان کی نگراں ہوتی ہے۔ پرورش اور تربیت نسل میں عورت کا کردار بہت اہم اور کلیدی ہے۔ ماں کے رول میں عورت کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں اور اس میں معاشرہ کو خوبصورت بنانے کے وہ سارے جوہر موجود ہیں جو خالق نے عورت میں پیدا کیے ہیں، لیکن انا کی لڑائی میں ایک فریق دوسرے کے ساتھ حریفانہ برتاؤ میں ایسے مشغول ہےکہ اسے یہ بھی خیال نہیں کہ نقصان کس کا ہورہا ہے۔ ذمہ داریوں سے چھٹکارا شروع میں بہت اچھا لگتا ہے مگر جب اس کے نتائج سامنے آتے ہیں تو انسانیت اور خود ہم بھی شرم سے سر جھکا دیتے ہیں۔ بے شک عورت کو معاشی برابری مل جانا یا پھر مرد کے برابر یا اس سے بہتر ہوجانا، بذاتِ خود ایک بڑی حصولیابی ہے، لیکن اس کے لیے وہ فطری قوانین کو نظر انداز کرکے غیر فطری اور غیر ضروری کاموں میں لگادی جائے یہ قابلِ تحسین نہیں۔ ’’میری زندگی – میری مرضی‘‘ جیسے نعروں سے ایسا ہی ہوا۔
زندگی جس خالقِ برحق نے عطا کی ہے اگر انسان اسی کے قوانین سے بغاوت کرکے اس کے بنائے ہوئے اصولوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے بھیانک نتائج سے نقصان خود قانون شکن کا ہی ہوتا ہے۔ پھر عورت نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ زندگی اس کی اپنی ہے اور وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی کرلے اس کا مواخذہ کرنے والا کوئی نہیں؟ لہٰذا اس Slogan کی بنیاد غلط Hypothesisپر رکھ کر عورت نے نہ صرف اپنا نقصان کیا بلکہ ساری انسانیت کا نقصان کردیا۔
برصغیر ہندوپاک کے تناظر میں جب عورت نے یہ نعرہ اپنایا تو اس کے حصول کی سمت ہی بدل گئی۔ عورت من مانی کرنے میں اتنی آگے بڑھی کہ پورے معاشرے میں مردو عورت کی کشمکش برپا ہونے لگی۔ مرد کی بالادستی والے (Patriarchal)اس سماج میں تو عورت كکو حقوق دینے کی بات کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہاں تو عورت کی تذلیل تہذیبی حق بھی ہے۔ اس لیے جب عورت نے اپنے مطالبات سامنے رکھے تو عالمی تبدیلیوں کے چلتے کچھ قوانین تو ضرور بنے لیکن اصلاً اور عملاً معاشرہ اسے مردوں کے برابر ماننے کو تیار نہیںہوا اور تصادم کا یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔
انسان کو جس خالقِ کائنات نے احسنِ تقویم میں تراشا ہے اس نے عورت اور مرد کو دنیا میں لاکر چھوڑ نہیں دیا، بلکہ اس کے لیے احسن عمل کے طریقے بھی متعین کیے ہیں اور دونوں کے حقوق و ذمہ داریوں کے خدوخال بھی بتادئیے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں سمجھا جائے اور غیر جانبدار ہوکر عدل و انصاف حاصل کیا جائے۔
اسلام ایک ایسا نظام پیش کرتا ہے جس میں عورت کی نسوانیت کو برقرار رکھ کر اسے بلندی کی طرف گامزن کیا گیا ہے اور نظریاتی طور پر اب یہ پوری دنیا میں ڈبیٹ اور بحث کا موضوع بھی بن گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں مغرب کی تعلیم یافتہ عورت اس سے واقفیت بھی حاصل کررہی ہے۔ دوسری طرف ’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کی تھیوری کے پیش نظر اسلام کے نظریے کو ایک مخالف اور دشمن نظریہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں مسلم امت کے سامنے ایک زبردست موقع ہے کہ وہ اسلامی نظام خاندان کو ایک بہتر متبادل کے طور پر پیش کرے اور دنیا کو خاندانی نظام کی تباہی سے نکلنے کے راستے سجھائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلم امت اور مسلم معاشرہ اپنے یہاں اس خاندانی نظام کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان خود حقیقی اسلام کا پیروکار نہیں۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ایک اعلیٰ اور بہترین نظامِ حیات کا نسخہ ہمارے سامنے موجود ہے، پھر بھی اسے ہم عملی طور پر اپنے معاشرے میں نافذ کرنے سے کتراتے ہیں۔ دین کے بعض احکام کو ہم اپناتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان عورت کو ابھی بھی قرآن و سنت کے مطابق ملنے والے حقوق دستیاب نہیں۔ کہیں ہم نے اپنی خاندانی روایات کو تو کہیں سماجی رویوں کو دین سمجھ کر اختیار کررکھا ہے تو کہیں خطرات سے بچانے اور تحفظ فراہم کرنے کے نام پر ایسی پابندیوں کو دین کے نام پر جاری کررکھا ہے جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اس بات کو سمجھیں کہ دنیا کے سارے مسائل کا حل جس دین میں ہے اس دین کی امانت ہمارے پاس ہے اور اسے انسانوں تک بلا کم و کاست پہنچانا کسی اور کی نہیں صرف اور صرف ہماری ذمہ داری ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021