میانمار کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا، آنگ سان سوچی اور دیگر سیاستدانوں کو حراست میں لیا

نئی دہلی، یکم فروری: نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق میانمار کی فوج نے آج کہا ہے کہ اس نے ایک سال کے لیے ملک کا نظام اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب صبح سویرے ایک چھاپے میں ملک کی حکمران نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی ریاستی کونسلر آنگ سان سوچی اور دیگر سینئر سیاسی شخصیات کو حراست میں لیا گیا۔

فوج کے ذریعے چلائے جانے والے میوادی ٹی وی پر ایک پیش کش نے اس کی تصدیق کی اور ملک کے آئین کے ایسے حصے کا حوالہ دیا جس کے تحت قومی ہنگامی صورت حال کے دوران فوج کو اقتدار سنبھالنے کی اجازت ہے۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ یہ بغاوت کورونا وائرس پھیلنے کے باوجود نومبر میں ہونے والے انتخابات میں تاخیر میں حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔

واضح رہے کہ جب سے نومبر کے انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے، فوجی رہنماؤں نے دھوکہ دہی کے دعووں کے ساتھ ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

این ایل ڈی کے ترجمان میو نیونٹ نے ریوٹرز کو بتایا کہ سو چی، صدر ون مائنٹ اور دیگر رہنماؤں کو صبح سویرے ’’اٹھا لیا گیا‘‘ تھا۔ انہوں نے کہا ’’میں اپنے لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فوری ردعمل کا اظہار نہ کریں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ قانون کے مطابق کام کریں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں بھی حراست میں لیے جانے کی توقع ہے۔

معلوم ہو کہ اس سے قبل بھی میانمار میں 2011 تک فوجی حکمرانی تھی، اس دوران سوچی نے کئی سال نظربندی میں گزارے تھے۔

پچھلے ہفتے فوج کے کمانڈر ان چیف سینئر جنرل من آنگ ہیلنگ نے ملک کے آئین کو ختم کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

میانمار کے الیکشن کمیشن نے فوج کے ووٹوں کی دھوکہ دہی کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

دریں اثنا امریکہ نے کہا ہے کہ میانمار میں ہونے والی پیش رفت سے وہ خوف زدہ ہے۔ ایک پریس ریلیز میں وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جین پساکی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن اس صورت حال کی قریب سے نگرانی کر رہے ہیں۔

وہیں آسٹریلیائی وزیر خارجہ ماریس پینے نے بھی سوچی اور دیگر زیر حراست افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اے پی کے مطابق انھوں نے کہا ’’ہم نومبر 2020 کے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی پرامن بحالی کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔‘‘