مہاراشٹر میں سیاسی عدم استحکام چانکیہ بھی پریشان

ادھو حکومت گرانے کے ایک ماہ بعد بھی کابینہ کی تشکیل میں ناکامی

نہال صغیر،ممبئی

مہاراشٹر میں ای ڈی کے ذریعہ بنی حکومت کو ایک ماہ سے زائد ہوگیا مگر معاملہ وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ دلی دربار میں پانچ بار حاضری لگا چکے ہیں۔ یعنی وہ مخالفین کے الزامات کو تقویت دیتے نظر آرہے ہیں کہ دلی دربار کے اشارے پر ای ڈی کے ذریعہ یہ حکومت وجود میں آئی ہے۔ اس درمیان مہاراشٹر کی حالت خراب ہے، موسمی بارش کے سبب کئی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال ہے مگر جب کوئی نگراں وزیر اور متعلقہ محکمہ یا شعبہ کا وزیر ہی نہ ہو تو عوامی کام کیسے ہوگا۔ سب سے خطرناک صورتحال یہ ہے کہ بیس پچیس دنوں میں تقریبا سو کسانوں کی خودکشی کی خبر آگئی ہے۔ حالانکہ گزشتہ ڈھائی سالوں میں کسانوں کی خودکشی کی خبروں سے اخبارات کے صفحات خالی تھے۔ ای ڈی کے ذریعہ بننے والی حکومت کی بات ایسا نہیں ہے کہ صرف مہاراشٹر میں کہی جارہی ہو بلکہ یہ پورے ملک اور دنیا میں بھی معروف ہوچکی ہے۔
30؍ جون کو وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کا حلف لینے والے ایکناتھ شندے اور دیویندر پھڈنویس اپنا وزارتی کیبنٹ ترتیب دینے میں ناکام ہیں اور دلی دربار بھی مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام ہے۔ گذشتہ ہفتہ ایکناتھ شندے چھٹی مرتبہ دلی جانے والے تھے مگر دورہ اچانک معطل کردیا گیا۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو مگر صحافیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کے درمیان جو باتیں گشت کررہی ہیں وہ یہ ہیں کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیا جائے گا۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایکناتھ شندے گروپ کے خلاف بھی ہوسکتا ہے، مگر اس کی امید کم ہی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکز کی منشا کے خلاف ہو۔ ایکناتھ شندے کی کمزوری یا اعتماد کی کمی پر ایک بہت ہی عمدہ کارٹون بھی منظر عام آیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کا اردلی ان سے چائے کے لیے پوچھتا ہے، اس کے جواب کے لیے وہ دلی فون لگاکر پوچھتے ہیں کہ چائے یا کافی لوں۔ ان کی سیاسی کمزوری اور فیصلہ لینے کی قوت کی کمی کو ظاہر کرنے کے لیے یہ ایک کارٹون ہی کافی ہے۔
بھارت کی تاریخ میں اتنا کمزور وزیر اعلیٰ شاید ہی کسی نے دیکھا ہوگا جو اپنے کابینی رفقا کا انتخاب بھی نہیں کرپا رہا ہو۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بارے میں بی جے پی یہ پروپگنڈہ تو کرتی تھی کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ہیں۔ اب ہم اکثر معاملات میں کمزور وزیراعظم اور مہاراشٹر کے موجودہ نحیف وزیراعلیٰ کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ گزشتہ دوماہ سے مہاراشٹر میں ترقیاتی اور عوامی فلاح کے کاموں کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایک ماہ سے زائد تو ادھو ٹھاکرے کو استعفیٰ دے کر ہوگیا اور اس سے پندرہ بیس دن قبل سے ایم ایل اے اور وزرا بغاوت کرکے مرکز کی نگرانی میں گوہاٹی میں جمع ہورہے تھے۔ اس پر سماجی کارکن جتن دیسائی نے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا کہ مہاراشٹر میں کہیں خشک سالی ہے تو کہیں بارش کی شدت سے کسانوں کو نقصان ہورہا ہے مگر وزیر زراعت گوہاٹی میں براجمان ہیں۔
ایک طرف حکومت صرف دولوگوں کی ہے تو دوسری جانب سپریم کورٹ میں اصلی اور نقلی شیو سینا یا ڈیڑھ درجن ایم ایل ایز کو غیر فعال قرار دینے کا معاملہ ہے ۔ان دونوں گروپوں کی جانب سے عوامی مہم زوروں پر ہے جس میں یقینی طور سے ایکناتھ شندے کمزور پڑرہے ہیں۔ جب سے بغاوت ہوئی ہے تب سے ادھو اور ان کے ساتھی زمینی سطح پر رابطہ کرتے ہوئے شیو سینا کی مقامی یونٹ کو وفاداروں سے پر کرنے اور باغیوں سے پاک کرنے کی مہم شروع کردی۔ اس مہم میں وہ ہندوتوا کا نام تو لیتے ہیں مگر بی جے پی کی طرح نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام کے سبھی طبقات کا ساتھ ملے۔ آدتیہ ٹھاکرے بھی اس مہم میں سبھی طبقوں کے نوجوانوں کو ذہنی طور سے ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ممبئی کے مضافات میں چاندیولی حلقہ میں انہوں نے اپنی تقریر کو دو منٹ کے لیے اس لئے موخر کیا کیوں کہ اذان ہورہی تھی ۔ واضح ہو کہ شیو سینا کی حکومت پر سیاہ بادل راج ٹھاکرے کی اذان مخالف مہم سے ہی منڈلانا شروع ہوگئے تھے۔
مرکز کے ذریعہ حکومت مہاراشٹر پر ای ڈی کے ذریعہ کریک ڈائون اور حکومت کے خاتمہ کے بعد بھی ادھو، آدتیہ اور سنجے رائوت کی زبان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی شاید اسی لیے گرفت مضبوط کرنے اور سیاسی مقاصد حصول کے لیے پہلے تو سنجے رائوت کو بار بار ای ڈی کے ذریعہ تفتیش کے بہانہ پریشان یا خوفزدہ کیا گیا اور اب ان کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔ اب شاید شندے کابینہ کی تشکیل ہوجائے، ممکن ہے سپریم کورٹ کے مبینہ طور سے مخالف فیصلہ کے خوف کے ساتھ سنجے رائوت بھی موجودہ حکومت کے لیے ایک خوف کی علامت رہے ہوں لیکن ایک بڑا سوال ہے اور وہ یہ کہ کیا اس گرفتاری سے سنجے رائوت کے خوف یا ان کے اثر سے بچا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے کسی لیڈر کو گرفتار کرلینے سے مخالفین کے لیے کبھی راہیں ہموار نہیں ہوتیں ۔ اس کے باوجود مخالفین کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں ۔
شیو سینا قیادت والی اگھاڑی حکومت کو گرانے کی مدہوشی ہے یا کابینہ تشکیل نہ کرپانے کی جھنجھلاہٹ کہ بی جے پی نے شیو سینا کو بیٹھے بٹھائے ایک ایشو دے دیا ہے۔ یوں تو کسی گورنر کو بی جے پی سے مشابہت دینا دستوری طور سے مناسب تو نہیں ہے لیکن عوام و خواص سب ہی یہ جانتے ہیں کہ گورنر مہاراشٹر کی وابستگی کس کے ساتھ ہے اور وہ وقت بے وقت جو بیانات دیتے رہے ہیں یا جو اقدامات انہوں نے کیے اس سے یہ کہنا اتنا بھی نامناسب نہیں ٹھیک اسی طرح گورنرکا یہ بیان کہ گجرات اور راجستھان کے افراد کا ممبئی کے معاشی راجدھانی بننے میں اہم کردار ہے اور ان کے چلے جانے سے ممبئی کی یہ حیثیت ختم ہوجائے گی اتنا نامناسب نہیں لیکن ذرا لہجہ اور من کی بات نے اسے متنازعہ بنادیا اور شیو سینا نے اسے اچک لیا۔ اس بیان نے شیو سینا کو سیخ پا ہی نہیں کردیا بلکہ اسے بیٹھے بٹھائے ایک ایشو دے دیا جس سے وہ بی جے پی پر حملہ آور بھی ہوسکتی ہے اور مراٹھی عوام کو یہ باور بھی کراسکتی ہے کہ باغی گروپ اور بی جے پی مراٹھی مانس کی تذلیل کررہے ہیں۔ ا س سے یقینی طور سے مخالفین کو نقصان اور ادھو خیمہ کو سیاسی فائدے کی امید ہے۔
جس طرح بغاوت کے اولین دنوں میں عام طور سے یہ کہا جاتا تھا کہ باغی ایم ایل ایزجتنی دیر سے ممبئی آئیں گے اتنا ہی انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، اسی طرح موجودہ حالات میں اکثر صحافیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کابینہ کی تشکیل میں جتنا وقت لگے گا اتنا ہی انہیں نقصان ہوگا ۔ یہ نقصان عوامی مقبولیت میں گراوٹ یا باغی ایم ایل ایز کے گھر واپسی پر منتج ہوسکتا ہے۔ ادھر مہاراشٹر کے حزب اختلاف اور صحافیوں میں بھی یہ مذاق عام ہوتا جارہا ہے کہ اِنٹائر سیاست کے ماہر پردھان سیوک اور چانکیہ بھی پریشان ہیں۔ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا ہے کہ وہ کس طرح حکومت گرانے کے بعد ایک کامیاب حکمرانی کی مثال پیش کرسکیں۔ لیکن اس کے برعکس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی اور شندے گروپ سیاسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جہاں سے ان کا نکلنا اور سیاست کے میدان میں کامیاب کھلاڑی کا کردار ادا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ بی جے پی تو خیر بحیثیت پارٹی کچھ زیادہ نہیں کھو ئے گی مگر دیویندر پھڈ نویس کی سیاسی ساکھ ضرور متاثر ہوگی اور شیو سینا کے باغی یا شندے گروپ کے سیاسی طور سے ناکارہ ہونے کی امید ضرور ہے۔ آئندہ ممبئی کارپوریشن کے الیکشن کے نتائج اس پر مہر لگادیں گے۔

 

***

 بھارت کی تاریخ میں اتنا کمزور وزیر اعلیٰ شاید ہی کسی نے دیکھا ہوگا جو اپنے کابینی رفقا کا انتخاب بھی نہیں کرپا رہا ہو۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بارے میں بی جے پی یہ پروپگنڈہ تو کرتی تھی کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ہیں۔ اب ہم اکثر معاملات میں کمزور وزیراعظم اور مہاراشٹر کے موجودہ نحیف وزیراعلیٰ کا مشاہدہ کررہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  07 اگست تا 13 اگست 2022