مولانا محمد جوناگڑھی :بلند پایہ خطیب، مستند مفسر

تفسیر جوناگڑھی :طلبائے مدارس اور عوامی حلقوں کی مقبول تفسیر

ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی

 

مولانا محمد جونا گڑھی کا پورا نام محمد بن ابراہیم میمن جونا گڑھی تھا۔ مولانا ۱۸۹۰ء کو صوبہ گجرات کے شہر جوناگڑھ میں پیدا ہوئے اسی مناسبت سے آپ کو جونا گڑھی کہا جاتا ہے۔ابتدائی تعلیم جونا گڑھ ہی سے حاصل کی پھر دہلی چلے گئے اور یہاں مدرسہ امینیہ میں داخلہ لیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا عبداللہ جونا گڑھی، مولانا عبد الوہاب ملتانی، مولانا عبد الرحیم غزنوی اور مولانا اسحاق منطقی وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کا شمار جلیل القدر علماء میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا ہوا تھا، آپ خطیب اور مقرر بھی تھے اور مناظر بھی، مدرس بھی تھے اور مصنف و مترجم بھی۔
مولانا کی ابتدائی تعلیم صرف ابتدائی حروف شناسی تک محدود تھی، جوانی تک آپ اسی محدود علم کے ساتھ رہے۔ اسی اثنا میں والد صاحب نے شادی کرادی اور عطر فروشی کی تجارت میں لگا دیا۔ مولانا نے کامیابی کے ساتھ تجارت کی۔ ازدواجی زندگی میں مولانا کو اپنی بیوی سے بے انتہا محبت وانسیت تھی، پہلے بچے کی ولادت کے بعد موت پر آپ کو شدید صدمہ پہنچا، جب دوسرے بچہ کی ولادت کے موقع پر آپ کی شریک حیات امینہ نے داعی اجل کو لبیک کہا تو آپ بری طرح ٹوٹ گئے، اس صدمہ کی وجہ سے طبیعت میں تکدر اور انقباض پیدا ہو گیا۔ اہل خانہ کی غیر ضروری مداخلت نے مزاج میں تلخی و ترشی پیدا کر دی یہاں تک کہ اپنے والدین کو اطلاع کیے بغیر آپ ۱۹۱۳ء میں ۲۲ سال کی عمر میں دہلی چلے گئے۔ اس زمانہ میں شہر دہلی مسلم بیداری کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم اور تہذیب و تمدن کا عظیم مرکز تھا، لائق و فائق اساتذہ اور شہرہ آفاق علماء یہاں قیام پزیر تھے ’’مدرسہ امینیہ‘‘ میں داخلہ لے کر یکسوئی کے ساتھ حصول تعلیم میں مشغول ہو گئے، مگر مدرسہ میں مسلکی اختلاف کی وجہ سے مولانا کو وہاں کی فضاء راس نہیں آئی لہٰذا نئے نشیمن کی تلاش انہیں مولانا عبد الوہاب ملتانی کے مدرسہ دارالکتاب والسنہ لے گئی، وہاں آپ نے اپنی خداداد صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے دہلی میں مسجد اہل حدیث اجمیری گیٹ میں مستقل سکونت اختیار کی اور مدرسہ محمدیہ کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم کیا اور اجمیری گیٹ اہل حدیث مسجد کو مذاکرہ علمیہ کا مرکز اور مثالی تعلیم گاہ قرار دیا۔ اس میں دیگر اساتذہ کے ساتھ ساتھ آپ خود بنفس نفیس بیرونی طلبہ کی علمی تشنگی بجھاتے۔ مولانا محترم مسلکاً سلفی تھے اور اپنے مسلک کے پر زور مبلغ بھی تھے مسلکی موضوعات پر آپ نے کئی مناظرے بھی کیے اور اس پر کئی کتب بھی لکھے۔ جن میں خاص طور پر ’مناظرہ محمدی‘ ’سیف محمدی‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
قلمی میدان میں آپ کے چھوٹے بڑے رسائل وکتب کی تعداد سو سے زیادہ ہے اور آپ کی اکثر کتابوں کے نام لفظ ’محمدی‘ پر تھے جیسے: ایمان محمدی، توحید محمدی، سیرت محمدی، صلوٰۃ محمدی، زکوٰۃ محمدی وغیرہ۔ آپ کی تمام کتب مجموعی لحاظ سے بڑی شاندار اور گرانقدر ہیں؛ مولانا جوناگڑھی نے امام ابن قیم ؒ کی مشہور ومعروف کتاب ’اعلام الموقعین‘ جو ایک جامع دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اس کا ترجمہ، ’دین محمدی‘ کے نام سے کیا ہے، سات جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں فتویٰ، اصول فتویٰ اور مفتی کے منصب شرعی وغیرہ پر سیر حاصل بحث شامل ہے۔ آپ کی ایک اور کتاب خطبات محمدی کا استعمال آج بھی مساجد اور دینی مجالس میں خطبات کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاو ہ مولانا محترم نے ابوبکر احمد البیہقی کی تصنیف ’مختصر شعب الایمان‘ کا اردو ترجمہ ’ایمان محمدی‘ کے نام سے، امام احمد بن حنبل کی کتاب ’کتاب السنہ‘ کا ترجمہ ’عقائد محمدی‘ سے، ابوبکر احمد الخطیب بغدادی کی ’شرف اصحاب الحدیث‘ کا ’فضائل محمدی‘ کے نام سے اور ابن جریر طبری کی ‘خلاصۃ السیر‘ کا ’سیرت محمدیﷺ‘ کے نام سے سلیس اردو ترجمہ کیا ہے۔ مولانا نے گلدستہ محمدی کے نام سے ایک میگزین جاری کیا تھا جو بعد میں ترقی کر کے پندرہ روزہ ’اخبار محمدی‘ کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ اخبار اکیس سال تک پورے آب وتاب کے ساتھ آپ کی وفات کے ایک سال بعد ۱۹۴۲ء تک جاری رہا اور پھر بے وجہ بند ہو گیا۔
ان شہ پاروں کے علاوہ مولانا جوناگڑھی کی جو سب سے بڑی اور اہم ترین دینی خدمت ہے وہ عربی تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ ہے جسے مولانا نے ’تفسیری محمدی‘ کے نام سے انجام دیا ہے۔ ترجمہ تفسیر ابن کثیر پانچ جلدوں میں آپ کا لافانی شاہکار ہے، عربی و اردو زبان بولنے والے دونوں طبقہ کے لوگوں کے اندر اس تفسیر نے بے حد مقبولیت حاصل کی۔ یہ ترجمہ تفسیر ابن کثیر کے ترجمے کےساتھ مولانا کے اخبار محمدی میں ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۳ء تک ہر ماہ ایک ایک پارہ بالاقساط شائع ہوتا رہا پھر ایک ایک پارہ کتابی شکل میں شائع ہوتے رہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۰۰ء میں عبداللہ عثمان گاندھی جوناگڑھی کے اہتمام سے مکتبہ محمدی، بمبئی سے شائع ہوئی۔ ۲۵۰۰ صفحات پر مشتمل اس تفسیر کا مکمل ترجمہ کرنے مولانا کو آٹھ سال لگے۔ اس کے بعد سے اس ترجمہ وتفسیر کے کئی ایڈیشن شائع ہوتے رہے ہیں جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس ترجمہ پر مولانا ابوالکلام آزاد نے بے حد خوشی کا اظہار کیا تھا اور لکھا: ’’مجھے سن کر ازحد خوشی ہوئی کہ جناب حافظ عمادالدین، ابن کثیر کی عربی تفسیر کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ متاخرین کے ذخیرہ تفسیر میں یہ سب بہتر تفسیر ہے۔ امید ہے کہ اصحاب خیر و استطاعت اس کام میں بھی آپ کے مساعد ومددگار ہوں گے‘‘۔
(۱) تفسیر ابن کثیر علمی حلقوں میں ایک معتبر اور مستند تفسیر کا مقام رکھتی ہے، نیز عام لوگوں میں بھی کافی معروف اور مقبول ہے۔ تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ کر کے مولانا محترم نے نہ صرف قرآن مجید کی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے بلکہ اردو زبان میں قرآن کریم کا ایک بے مثال اور نادر اضافہ کیا ہے۔ مولانا محترم نے اس تفسیر کا ترجمہ نہایت ہی سلیس اور عام فہم انداز میں کیا ہے۔ مولانا محمد داؤد راز، ناظم اشاعت دینیات بمبئی اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: ’’اگر تفسیر محمدی وجود میں نہ آتی تو تفسیر ابن کثیر جیسی متبرک چیز سے اردو طبقہ ہمیشہ کے لیے محروم رہتا۔ ’تفسیر محمدی‘ دہلی کی پیاری رسیلی اردو زبان میں تفسیر ابن کثیر کا بہترین ترجمہ ہے اور اس قدر سہل ہے کہ مبتدی بھی اس سے پورے طور پر مطالب قرآن کو سمجھنے پر قادر ہو سکتا ہے‘‘۔
(۲) مولانا ہی کا اردو ترجمہ قرآن اس وقت حکومت سعودی عرب کے مجمع ملک فہد سے شائع ہوتا ہے جسے سعودی حکومت لاکھوں کی تعداد میں اشاعت اسلام کی غرض سے شائع کرواکے سارے عالم کے حجاج میں مفت تقسیم کراتی ہے۔ اس طرح مولانا جوناگڑھی کا یہ ترجمہ برصغیر کے علاوہ ساری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔
اس تفسیر کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک اس تفسیر کے بہت سرقے ہو چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جن مطابع نے اس کا سرقہ کیا ہے اس پر نہ تو تفسیری محمدی نام رکھا اور نہ ہی بحیثیت مترجم مولانا کا نام لکھا۔ نہایت دکھ کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ آج تک تفسیر محمدی کے جتنے جدید ایڈیشن دہلی، بمبئی، کراچی اور لاہور وغیرہ بڑے بڑے شہروں سے شائع ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں ان میں مولانا جوناگڑھی مرحوم کا نام لکھا ہوا نہیں ہوتا حتیٰ کہ’ تفسیری محمدی‘ نام کو مٹا کر اس کی جگہ تفسیر ابن کثیر اردو لکھا جاتا ہے، اس سے زیادہ ظلم، بے انصافی اور جعل سازی کی کوئی مثال نہیں مل سکتی‘‘۔
(۳) مولانا مرحوم کی علمی خدمات پر لکھی گئی اپنی کتاب میں عبیدالرحمٰن قمر مبارکپوری نے اس واقعہ کا تذکرہ اس طرح کیا ہے: "ہند وپاک کے الگ الگ ریاست ہو جانے کے بعد جہاں بڑے بڑے متقی اور پرہیز گاروں نے مختلف طریقوں سے لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ جاری کیا وہیں بعض اہم ترین تصنیفیں بھی سرقہ کی جانے اور خلاف قاعدہ چھاپی جانے لگیں۔ اس سلسلہ میں مولانا آزاد اور مولانا محمد صاحب مرحوم بہت ہی مظلوم واقع ہوئے ہیں”۔
(۴) مولانا محترم نے بے شمار عربی کتابوں کا آسان عام فہم اردو زبان میں ترجمہ کرکے گراں قدر دینی وملی خدمت انجام دی ہے، حالانکہ اردو آپ کی مادری زبان نہ تھی، بلکہ گجراتی زبان آپ کی مادری زبان تھی اس کے باوجود آپ کے تراجم کردہ کتب میں سلاست، شگفتگی اور روانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ شدہ کتب ہیں۔ آپ کی کتابوں کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی حیات ہی میں اکثر کتابیں دسیوں مرتبہ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئیں۔ برصغیر ہند وپاک اور بنگلہ دیش میں ان کتب کے متعدد ایڈیشن اور ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ تصنیف وتالیف کے علاوہ مولانا میدان خطابت کے بھی شہسوار تھے۔ مولانا ایک شعلہ بیان خطیب ومقرر کی حیثیت سے بے انتہا شہرت رکھتے تھے اسی لیے آپ کو خطیب الہند بھی کہا گیا۔ ہر جمعہ اجمیری گیٹ کی مسجد میں خطبہ دیتے تھے، مولانا محمد دأود لکھتے ہیں: "قوت گویائی کا حال یہ تھا کہ گھنٹوں تقریر فرماتے اور تکان کا نام ونشان بھی نہ ہوتا۔ آپ کے خطبات اس قدر دلنشین ہوتے کہ سامعین ہمہ تن گوش بن جاتے، وہ لذت، وہ وجد اور ماحول، وہ والہانہ انداز، وہ حلاوت، وہ لطافت، وہ ندرت وکیف جو مرحوم کی مجالس ومواعظ میں چہار سو نمایاں ہوتا تھا، آج تک سننے والوں کے دماغوں میں ایک غیر فانی نقش بنائے ہوئے ہے۔۔۔ میدان خطابت میں اس قدر مشہور ہوئے کہ ملک کے پورب پچھم جہاں کہیں بھی کوئی غیر معمولی تبلیغی جلسہ ہوتا حاضرین آپ کی تشریف آوری کے متمنی رہتے”۔
(۵) مولانا موصوف ۵۱ برس عمر پا کر یکم مارچ ۱۹۴۱ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔
حوالے:
۱۔ تفسیر ابن کثیر، جلد اول،ص۔۱۹،
۲۔ محمد دأود، ’تفسیری محمدی‘،ناشر مکتبہ بزم محمدی۔ بمبئی،
۳۔ ڈاکٹر محمد مجیب الرحمٰن ۔مولانا محمد جوناگڑھی حیات وخدمات،ص۔۴۶
۴۔ عبیدالرحمٰن قمر مبارکپوری،حضرت مولانا محمد صاحب جونا گڑھی کی علمی خدمات، ص ج۔مقدمہ تفسیری محمدی
۵۔ ڈاکٹر محمد مجیب الرحمٰن ۔مولانا محمد جوناگڑھی حیات وخدمات،ص۔۳۵،۳۶
***

مولانا ہی کا اردو ترجمہ قرآن اس وقت حکومت سعودی عرب کے مجمع ملک فہد سے شائع ہوتا ہے جسے سعودی حکومت لاکھوں کی تعداد میں اشاعت اسلام کی غرض سے شائع کرواکے سارے عالم کے حجاج میں مفت تقسیم کراتی ہے۔ اس طرح مولانا جوناگڑھی کا یہ ترجمہ برصغیر کے علاوہ ساری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021