مودی حکومت کی سات سالہ کارکردگی مایوس کن

معاشی ابتری، مہنگائی ، اورافادیت کھوتے دستوری ادارے جمہوریت کے لئے بد نما داغ

ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس

 

یوپی انتخابا ت ملک کے جمہوری کردار کی بحالی کا آخری موقع
مودی حکومت نے اپنی دوسری میعاد کے 2 سال گزشتہ 30 جون کو مکمل کر لیے۔ اس طرح ان کی حکمرانی کے 7 سال مکمل ہو گئے۔ یہ سات سال ملک اور اہل ملک کے لیے انتہائی مہلک، نقصان دہ اور تباہ کن ثابت ہو ئے ہیں۔ یہ سات سال ملک میں جمہوریت کی بیخ کنی، معاشی ابتری، حقوق انسانی کی پامالی، شہری حقوق کی تاراجی، غربت وبیروزگاری کی انتہا، کمزور اور حاشیہ پر کھڑے افراد کی حد در جہ پس ماندگی نیز بغض وعناد اور نفرت پر مبنی سیاست اور لا قانونیت کا بدترین مظاہرہ ہیں۔ ان سات برسوں میں ملک نے بہت تیزی سے جمہوریت سے فسطائیت کی طرف، امن وامان سے بدامنی وانتشار کی طرف، آسودگی وخوشحالی سے غربت وافلاس کی طرف، معاشی استحکام سے معاشی ابتری و بیروزگاری کی طرف، محبت ویگانگت سے بغض وعناد اور نفرت کی طرف، شفافیت وجوابدہی سے عدم شفافیت تکبر اور ہٹ دھرمی کی طرف، آئینی ودستوری تحفظات سے شہری وانسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف، قانون کی حکمرانی سے لا قانونیت کی طرف سفر کیا ہے۔
ملک کی جمہوریت، جمہوری اداروں، دستوری وآئینی تحفظات، قانون کی حکمرانی، مستحکم معیشت اور رواداری وہم آہنگی کی دیرینہ قدروں اور روایتوں کو مودی حکومت نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ 7 سالوں میں ملک میں جمہوریت، جمہوری ودستوری حقوق، اظہار خیال وبیان کی آزادی کے لیے سم قاتل ثابت ہوئے۔ جمہوریت کے بنیادی ستون، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اپنی معنویت وافادیت تو پہلے ہی کھو چکے تھے اب آزاد وخود مختار جمہوری ادارے جیسے ریزرو بینک آف انڈیا، الیکشن کمیشن آف انڈیا، سی بی آئی، ای ڈی اور این آئی ائے بھی حکومت کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا کا حال بھی کوئی خوش کن نہیں ہے۔ ایک طرف جانب دارمیڈیا کو انعام وکرام، نوازشوں اور کرم فرمائیوں سے نوازا گیا تو دوسری طرف حق وانصاف کی حمایت اور ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھانے والے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا گلاگھونٹنے کی مسلسل کوششیں ہوتی رہیں۔ جمہوریت کے چوتھے ستون اور اس سے وابستہ صحافی کبھی ای ڈی اور سی بی آئی کی چھاپوں کی زد میں آئے تو کبھی ظالمانہ قوانین کے تحت انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔
رپوٹرس وتھ آوٹ بارڈر (Reporters without Border) کی پریس کی آزادی سے متعلق2021 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی میڈیا کی آزادی کی ریٹنگ میں اس وقت 180 ملکوں میں 142ویں مقام پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت صحافیوں کے لیے خطرناک ملکوں کی لسٹ میں آگیا ہے۔ اس دوران حقوق انسانی کی پامالیوں کے بھی تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ حکومت کے ناقدین اور حقوق انسانی کے علمبرداروں کے خلاف کالے قوانین، UAPA، بغاوت (124A)،NSA اور AFSPA کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ملکوں کی جمہوریت کا جائزہ لینے والے ادارے (EIU) کے مطابق ہمارے ملک کی جمہوریت نقص وعیب سے پاک نہیں ہے۔
دوسری جانب ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ بے روزگاری نے گزشتہ 45 سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ گزشتہ 7 برسوں میں بیروزگاری کی شرح دوہرے ہندسہ کے پار ہو گئی ہے۔ گزشتہ محض ایک سال میں 74 لاکھ لوگوں کا روزگار چلا گیا۔ دوسری طرف مہنگائی اپنے شباب پر ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پٹرول کی قیمت 100 روپیہ فی لیٹر سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ سرسوں کا تیل200 روپیے فی لیٹر اور رسوئی گیس کے داموں میں اضافہ نے گھریلو بجٹ کو لڑ کھڑا دیا ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے جو کمر توڑی تھی وہ کورونا کی وبا، لاک ڈاون کی سختیوں، مہاجر مزدوروں کی دربدری، جبری بیروزگاری اور حکومت کی نااہلی وبد انتظامی نے اسے پوری طرح خستہ حال کر دیا ہے۔ یونیسیف کی گلوبل ہنگر رپورٹ 2020 میں ہندوستان نیپال، بنگلہ دیش، میانمار اور پاکستان سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ ملک کے 14 فیصد بچے تغذیعہ کی شدید کمی کا شکار ہیں۔مودی حکومت کے یہ سات سال ملک کے کمزور، تہی دست اور حاشیہ پر کھڑے افراد کے لیے سخت اذیت ناک اور تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں۔ دلت اور قبائلی طبقات پر حملے ہوتے رہے، خواتین کی عفت وعصمت تار تار ہوتی رہی اور اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا رہا۔ مودی حکومت نے اپنی حکومت کے استحکام ودوام کے لیے لا قانونیت وتشدد کو کبھی بڑھاوا دیا تو کبھی لو جہاد اور دھرم پریورتن کے نام پر غیر جمہوری وغیر آئینی قوانین وضع کیے گئے۔ ہجومی تشدد اور اس پر حکومت کی مجرمانہ خاموشی نے تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے کبھی این آر سی کا سہارا لیا گیا تو کبھی سی اے اے کے نام سے ایک غیر دستوری اور امتیازی قانون وضع کیا گیا۔ اس پر جب خواتین اور مسلم نوجوانوں نے آواز اٹھائی تو
انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔
جمہوریت کا ایک بنیادی تقاضہ شفافیت اور جوابدہی کا نظام ہوتا ہے۔ تاہم اس حکومت کا سات سالہ دور عدم شفافیت، ہٹ دھرمی اور متکبرانہ حکمرانی کی بدترین مثال بن گیا ہے۔ اولاََ تو حکومت نے بعض اہم معاملات کو آر ٹی آئی کے دائرہ سے باہر کر دیا، اس پر مستزاد پی ایم کیئر فنڈ اور الیکٹرول بانڈ نے حکومتی کرپشن کو عملاََ قانونی جامہ پہنا دیا۔ اسی طرح یہ حکومت کسی بھی معاملہ میں خود کو عوام کے سامنے یا عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتی۔ الیکشن جیتنے کے لیے سام، دام، دنڈ، بید کے فارمولہ کے تحت تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
مودی سرکار کسانوں کو دوگنی آمدنی اور فصلوں پر دو گنا منافع دینے کے وعدہ پر بر سر اقتدار آئی تھی لیکن یہ وعدہ پورا کرنا تو درکنار اس نے ان پر تین ظالمانہ قوانین مزید تھوپ دیے۔ اس پر مستزاد گزشتہ 6 – 7 ماہ سے شدید سردی اور شدید گرمی کی مار جھیل رہے اور دہلی کے بارڈرس پر ہزاروں کی تعداد میں مظاہرہ کر رہے کسانوں سے بات تک کرنے کی یہ سرکار روادار نہیں ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت صرف جملے بازی، خوشنما وعدوں، دلفریب نعروں، جعل سازی اور مکر وفریب پر مبنی چالوں کا فن خوب جانتی ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دنوں کا خواب دکھانے والی حکومت نے دوسری میعاد کے لیے اس میں سب کا وشواس کی مزید پیوند کاری کردی۔ اس دوران ڈیجیٹل انڈیا، ووکل فار لوکل، میک ان انڈیا اور آتم نر بھر بھارت کی پر فریب اور دلکش اصطلاحوں سے عوام کو اصل ایشوز سے ہٹانے کی مسلسل کوششیں کی گئیں لیکن ان اصطلاحوں کی فریب کاری کو خود اس حکومت کے نمبر دو وزیر امت شاہ نے اس وقت کھول دیا جب انہوں نے 15 لاکھ آنے والے ہیں نعرے کے بارے میں کہا کہ یہ تو ’انتخابی جملہ‘ تھا۔ یو پی کا آنے والا اسمبلی الیکشن اس حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے بشرط یہ کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں اور لیڈرس اپنی ذاتی انا، سیاسی زعم اور خود فریبی کے حصار سے باہر نکل کر ایک مضبوط اور متحدہ فرنٹ قائم کرلیں۔ ٹکٹ کی تقسیم سوشل انجینئرنگ کو بروئے کار لا کر ہر طبقہ وفرقہ کو اس کی آبادی کے تناسب سے حصہ داری دیں۔ یہ الیکشن مودی اور بی جے پی کے لیے جتنا اہم اور آر یا پار کی حیثیت رکھتا ہے اس سے کہیں زیادہ سیکولر سیاسی پارٹیوں کی بقا اور ملک کے جمہوری اور سیکولر کردار کی بحالی کے لیے بھی یہ ایک آخری موقع ہے اور اس پر ہی 2024 کے عام انتخابات کے نتائج کا بھی دار ومدار ہو گا۔
( مضمون نگار ویلفیر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر اور ماہنامہ افکار ملی کے ایڈیٹرہیں )
[email protected]
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021