ملک میں نفرت کی فضا کو روکنے کی عملی تدابیر

مقامی سطح پر مسلم و غیرمسلم سنجیدہ افراد پرمشتمل فورم بنانے کی تجویز

پروفیسر سلیم انجینئر

نائب امیرجماعت اسلامی ہند
آج ہمارا ملک جن حالات سے دوچار ہے بالخصوص امت مسلمہ کے سامنے جو مسائل اور چیلنجز ہیں ، ان میں ایک بڑا چیلنج مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا اورجھوٹ و خیالی باتوں کے ذریعہ ماحول مکدر کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے نہایت ہی منظم طریقے پر ملک کی کئی ریاستوں میں یہ کوشش کی جارہی ہے۔ خاص طور پر شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں اس طرح کے واقعات مسلسل رونما ہورہے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال پیدا کرنے والے بیانات کچھ مخصوص گروہوں کے علاوہ ان لوگوں کی طرف سے بھی آرہے ہیں جو ملک کے بڑے آئینی عہدوں پر فائز ہیں جس کے نتیجے میں سماج کے اندر لگاتار ہجومی تشدد(ماب لنچنگ ) کے واقعات اور نفرت کی فضا (Hate Crimes) میں اضافہ ہورہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات مسلمانوں ، دلتوں ، آدیواسیوں اور کمزور طبقات کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ان کمزور طبقات میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ان کو روکنے کے لیے ہمیں ملک کے سول سوسائٹی گروپس، پرنٹ، الکٹرانک میڈیا و سوشل میڈیا ، پولیس و انتظامیہ کے کردار کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ ہمیں ان حالات پر قابو پانے کے لیے عدلیہ سے کس طرح مدد لینی چاہیے،اس میں سیاسی پارٹیوں کا رول کیا ہوسکتا ہے۔ مذہبی رہنما جن کی سماج میں ایک پہچان اور پکڑہوتی ہے ان کے ماننے والوں کی تعداد معتد بہ ہے ایسے لوگوں کا مسائل سے نمٹنے میں کیا رول ہوسکتا ہے۔ ہمیں ان سب کے ساتھ رابطہ کرکے ملک میں نفرت کی فضا بنانے والوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ ہر بڑے شہر یا مقام پر مسلم وغیر مسلموں کے سنجیدہ افراد پر مشتمل کوئی کمیٹی یا فورم بنایا جائے اور ایسے معاملات میں یہ کمیٹی یا فورم حالات کو پرامن رکھنے اور انتظامیہ سے بات کرنے کی پہل کرے۔
قابل ذکر ہے کہ اس طرح کے نفرت آمیز واقعات اچانک یا چند لوگوں کے ذریعہ انجام نہیں دیے جاتے بلکہ فسطائی طاقتوں کا یہ باقاعدہ ایک ایجنڈا ہے جس پر ملک کو لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے اور منصوبہ بند طریقے سے نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جارہا ہے ۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے جو محرکات ہیں ان سے یہ فسطائی طاقتیں سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔خاص طور پر ان خطوں میں جہاں ان کی حکومتیں ہیں وہاں کے لوگ اپنی حکومتوں کی کارکردگیوں سے مطمئن نہیں ہیں، عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں ۔ یہ طاقتیں اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے اس طرح کی حرکتیں اور پروپیگنڈے کو انجام دینے میں مدد کرتی ہیں۔ایک اور پہلو جو سب کے سامنے ہے کہ فرقہ پرست افراد سیاسی طور پر تیزی سے ترقی پانے کے لیے ایک شارٹ کٹ راستہ تلاش کررہی ہیں ۔یہ راستہ انہیں نفرت کی فضا قائم کرنے میں نظر آرہا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جتنی نفرت پھیلائیں گے ان کی املاک تباہ کریں گے اور انہیں نقصان پہچائیں گے اتنی ہی زیادہ اکثریت کی حمایت ملے گی اور پارٹی میں تیزی سے ترقی کرنے کا موقع ملے گا۔سیاسی پارٹیوں میں یہ رجحان آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا جارہا ہے جو ملک کے امن وامان ، سماج میں بھائی چارگی اور خود ان پارٹیوں کی بقاء کے لیے بہت ہی خطرناک ہے ۔اس طرح کے واقعات میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہم رد عمل اور اشتعال کا شکار نہ ہوں بلکہ ہمت وحوصلہ اور حکمت کے ساتھ ضروری اقدامات کریں ۔انتظامیہ سے ملاقات اور قانونی کوششیں کی جائیں۔ جہاں حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہو یا حالات خراب ہوگئے ہوں وہاں مسلم اور برادران وطن کی متحدہ کمیٹی فرقہ پرست گروپس کے لیڈروں سے بھی مل کر بات کرنے کی کوشش کریں اور حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
ملک کے مختلف علاقوں میں دورہ کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ ان فسطائی طاقتوں کی حمایت کی وجہ سے ملک کے شمالی حصے میں جا بجا نوجوانوں کے ایسے گروپ وجود میں آرہے ہیں جو اپنے آپ کو قانون سے بالا ترسمجھتے ہیں ۔ چونکہ ان کے پیچھے سیاسی طاقت ہوتی ہے اس لیے وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں ذرا بھی دریغ نہیں کرتے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کریں، ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوگی ۔ اگر معمولی کارروائی ہوگی بھی تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ ایسی ذہنیت کا پیدا ہونا ملک کے جمہوری ماحول کے لیے خطرناک ہے ۔اس ذہنیت کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لیے سماج کے باشعور اور امن پسند لوگوں کے ساتھ مل کر حالات کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔یہاں پر اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ میڈیا کا بڑا حصہ فرقہ پرستی اور نفرت کے اس ماحول کو بڑھانے میں مددگار بن رہا ہے، اس کے غیرجمہوری رویے کی وجہ سے ماحول مزید خرا ب ہوا ہے۔البتہ میڈیا میں بہت سارے ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے، لیکن وہ وہاں پر آزادی کے ساتھ اپنی باتیں نہیں کہہ سکتے ۔ ایسے لوگوں سے ہمارا رابطہ رہنا چاہیے ۔سوشل میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور نیوز پورٹل بھی نفرت کو ہوا دینے میں معاون بن رہا ہے ۔لیکن یہاں بھی ایسے پورٹلر، یو ٹیوبر اور بلاگر موجود ہیں جو ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ہمیں ان کی حمایت کرنی چاہے تاکہ وہ آئینی اور جمہوری طریقے سے اس نفرت بھرے ایجنڈے کے خلاف آواز اٹھائیں۔
ماحول کو پُر امن اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں پولیس و انتظامیہ کا بڑا اہم رول ہوتاہے۔ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ایسے حالات میں قانون کی بالادستی کو قائم رکھیں اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والوں کے خلاف کارروائی کریں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ چند حوصلہ مند پولیس افسروں کے سوا بڑی تعداد حکومت کے ایجنڈے پر اور سیاسی لوگوں کے اشارے پر کام کرنے والی ہے ۔ایسے سخت حالات میں ہمیں پولیس کے ذمہ داروں سے رابطہ کرکے حالات کی طرف توجہ دلانی چاہیے۔ رابطے میں کمی کی وجہ سے فسطائی طاقتیں ان پر دباو بنائے رکھتی ہیں اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دیتی ہیں۔ حالیہ دنوں جماعت اسلامی ہند کی طرف سے مدھیہ پردیش کا دورہ کرنے والی ٹیم نے وہاں جو کچھ دیکھا اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ٹیم نے وہاں کے سول سوسائٹی گروپس، متاثرین اور عام لوگوں سے ملاقات کی جس سے اندازہ ہوا کہ وہاں کی پولیس وانتظامیہ سیاسی دبائو میں کام کرتے ہیں ۔اگر سماج کے باشعور افراد انہیں وقت رہتے ہوئے حقیقت حال سے واقف کرائیں اور حالات کو کنٹرول میں رکھنے کا دباو بنائیں تو ماحول کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔ مدھیہ پردیش کے کئی علاقوں میں دیکھا گیا کہ پولیس نے متاثرین کو ہی ملزم بنا کر ان کے خلاف سنگین دفعات میں مقدمات درج کردیے ہیں ۔ اب وہ جیل میں بند ہیں جبکہ نفرت پھیلانے والوں پر ہلکی دفعات لگائی ہیں ۔
ملک میں امن کاماحول قائم کرنے میں انٹلی جنس ایجنسی کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ ان کی جو رپورٹیں جاتی ہیں اسی بنیاد پر حکومت ، پولیس اور انتظامیہ کے لوگ کام کرتے ہیں ۔ ان تک صحیح بات پہنچانے اور حقیقت سے روشناس کرانے کی بھی ہمیں کوشش کرنی چاہیے ۔ یہ بات تو بالکل ظاہر ہے کہ ہیٹ کرائم کے ذریعہ سیاسی پارٹیاں اپنا سیاسی مفاد تلاش کرتی ہیں۔یہ ان کا ایک بڑا ایجنڈا بھی ہے اور ایک شارٹ ٹرم موٹیو بھی ۔ اس میں تقریباً تمام ہی پارٹیاں شامل ہیں ۔جو پارٹیاں خود کو سیکولر کہتی ہیں یا اپوزیشن میں ہیں ان کا رول بھی مایوس کن ہے ۔مدھیہ پردیش کے حالیہ دورہ سے اندازہ ہوا کہ اپوزیشن پارٹیاں اس خوف سے نفرت پھیلانے والوں کے خلاف نہیں بولتی ہیں خاص طور پر جب معاملہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کہ کہیں اسے اینٹی ہندو نہ سمجھ لیا جائے ۔ سیکولر پارٹیوں میں خوف اور ڈر کا جو ماحول بنتا جارہا ہے اس کو دور کرنے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آج نفرت کا جو کھیل مسلمانوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے اگراس پر روک نہیں لگائی گئی تو آنے والے وقتوں میں سماج کے دوسرے کمزور طبقات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے ۔ دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف حملوں سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ہمیں اس ماحول سے باہر نکلنے کے لیے متحرک ہونا پڑے گا۔
***

 

***

 سیکولر پارٹیوں میں خوف اور ڈر کا جو ماحول بنتا جارہا ہے اس کو دور کرنے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آج نفرت کا جو کھیل مسلمانوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے اگراس پر روک نہیں لگائی گئی تو آنے والے وقتوں میں سماج کے دوسرے کمزور طبقات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے ۔ دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف حملوں سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021