ملک میں آلودگی پر عوامی نمائندوں کی ’آلودہ سیاست‘

ایک طرف قومی راجدھانی دہلی سمیت شمالی ہندوستان کے کئی شہروں میں آلودگی سے لوگوں کا سانس لینا محال ہو تاجا رہا ہے، وہیں دوسری طرف سیاستدانوں کے لئے یہ محض سیاسی حساب برابر کرنے کا بہانہ بن گیا ہے۔ آلودگی کی آڑ لے کر وہ اپنے مخالفین کو چت کرنے میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس بیماری کا علاج تلاش کرنا تو دور، اس پرسنجیدگی سے بات بھی نہیں کی جا رہی ہے۔ جمہوری سیاست میں کسی مسئلے پر حکمراں اور حزب مخالف کا ایک دوسرے کی تنقید کرنا قدرتی ہے لیکن اس کا مقصد کوئی راستہ کھولنا ہوتا ہے۔ منگل کو لوک سبھا میں آلودگی پر وزارت دیہی ترقیات کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی ہوئی میٹنگ کا مقصد آپس میں تبادلہ خیال کرکے ملک میں پھیلی آلودگی پرقابو پانے کے طریقے تلاش کرنا تھا مگرعوامی نمائندوں (ممبران پارلیمنٹ) کی بے حسی کے سبب اس اہم میٹنگ کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ میٹنگ میں چند ایم پی شامل ہوئے اور وہ بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں ہی لگے رہے۔

یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ جس شہر کے اندر آلودگی کے سبب ہر تیسرے منٹ ایک بچے کی موت ہو رہی ہو، جس ملک کی راجدھانی کو گیس چیمبر کہا جا رہا ہو، جس شہر میں ملک کی سب سے بڑی عدالت ہو، پارلیمنٹ ہو، آج وہاں ملک کو چلانے والے سینئررہنما بیٹھ کرمسئلے کا حل تلاش کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچائی میں پوری طاقت لگائے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کہ یہ عوام کی زندگی سے منسلک حساس معاملہ ہے اس لئے پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ کر کام کریں۔عوامی نمائندوں کے لئے یہ بہت ہی شرم کی بات ہے کہ آلودگی کے حوالے سے انہیں سپریم کورٹ پھٹکارتی ہے، غیرممالک اعداد وشمار کے ذریعہ انہیں آئینہ دکھایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت اپنے کام میں لاپرواہی کر رہی ہے اور آلودگی کے مسئلے پر تمام لیڈران بالخصوص حکمراں طبقہ آلودہ سیاست کر رہا ہے۔

عوام کی زندگی سے براہ راست منسلک اس مسئلے کا بھی حشر اگر یہی ہونا ہے تو پھر اس نظام میں دور اندیشی کے لئے کتنی گنجائش تلاش کی جائے؟ میٹنگ میں بحث کے دوران بی جے پی کا سارا زور دہلی کی کیجریوال حکومت پرلعن طعن کرنے پر رہا۔ حالت یہ ہوئی کہ دہلی کی موجودہ حکومت کی مخالفت کرنے کے لئے بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کو روایتی حریف کانگریس کی آنجہانی لیڈر شیلا دکشت کے دور اقتدار کی ستائش کرنے میں بھی زبان کو لکنت نہیں ہوئی۔ معاملے کا دوسرا پہلو یہ رہا کہ دہلی کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے اس میٹنگ میں شامل ہونا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ ہمارے عزت مآب رہنما آلودگی کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں، اس کا اندازہ گزشتہ ہفتے ہی مل گیا تھا، جب اس مسئلے پر بلائی گئی پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں 25 میں سے صرف 4 اراکین پارلیمنٹ پہنچے اور زیادہ تر ایم پی ندارد رہے۔

ہمارے نمائندوں کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ آلودگی کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ سے ممبران پارلیمنٹ کے غائب رہنے پرسوال کیا جاتا ہے تو غائب ایم پی اپنے دفاع میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ طریقے سے جواب د یتے ہیں۔ اس میں متھرا سے بی جے پی کی لوک سبھا رکن ہیما مالنی کا نام سرفہرست ہے جو اس کے لئے انتہائی عجیب دلیل دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو ایم پی دہلی سے باہر رہتے ہیں اور جہاں آلودگی کی سطح کم ہے، ممکن ہے کہ وہ اس معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ دہلی سے جڑے ہوئے ہیں، وہ اس میٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں اور جو دہلی سے باہر رہتے ہیں، جہاں آلودگی کی سطح تشویشناک نہیں ہے، وہ ممکنہ طور پر اس میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور دہلی میں صورتحال کافی سنگین ہے اس لئے یہاں کے ممبران پارلیمنٹ کو آنا پڑا۔ یہی نہیں بی جے پی کے ایم پی پرویش ورما نے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال پر ذاتی حملہ بولتے ہوئے کہا کہ ایک وقت میں وہ اکیلے کھانستے تھے اور آج پوری دہلی کھانس رہی ہے۔

دراصل آلودگی کو لے کر ملک کی پوری سیاسی قیادت کا رویہ اسی غیرذمہ دارانہ طریقے کا شکار ہے۔ عدلیہ یا میڈیا سے اس معاملے میں دباؤ بڑھتا ہے تو آناً فاناً کچھ اقدامات کیے جاتے ہیں، پھر سب اسے بھول جاتے ہیں۔ پائیدار اور مستقل اقدام کے بارے میں سوچا تک نہیں جاتا لیکن خیال رہے چیلنج صرف کچھ علاقوں کی آب وہوا ٹھیک کرنے کی نہیں ہے۔ یہ حالت پورے ملک کی ہے جس پرسنجیدگی سے غورکر کے اس کا حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔

یاد رہے کہ حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ 10 شہروں میں سے 9 ہندوستان میں ہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں 15 بڑے آلودہ شہروں کی فہرست جاری کی ہے جس میں ہندوستان کے دہلی، فرید آباد، گروگرام، کانپور، وارانسی، جے پور، جودھپور، پٹنہ اور گیا جیسے 14 شہر شامل ہیں۔ دہلی کی آلودگی کے لئے پرالی کو زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پرالی کی وجہ سے یہ شہر ہر سال اسی دوران آلودگی سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اس کے لئے حکومتی سطح پراقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ کسان کو پرالی نہیں جلانی پڑے اس کے لئے حکومت کو ان کی مالی مدد کرنی چاہیے۔ دہلی میں گاڑیوں سے آلودگی 41 فیصد ہے جبکہ صنعتی آلودگی 18 فیصد ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی جیسے مسائل ہمارے وجود کے لئے بحران بن گئے ہیں۔ یہ اقتدار یا حزب اختلاف یا کسی پارٹی یا ملک سے منسلک مسئلہ نہیں رہ گیا ہے بلکہ زمین کے وجود کا سوال بن گیا ہے اور ہمارے لئے صاف ہوا میں سانس لینا مشکل ہو گیا ہے لہذا اس کے لئے پارلیمنٹ کو پہل کرنی چاہیے اور اسٹینڈنگ کمیٹی تشکیل دے کر اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے یا آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لئے جو کام کیا ہے اس کا ہر سیشن میں جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اس سے ہم اپنی آنے والی نسل کو زندگی کے لئے ضروری صاف ہوا اور پانی دے سکیں گے۔ یہ کام کوئی مشکل بھی نہیں ہے کیونکہ چین کی راجدھانی بیجنگ 1998 میں دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر تھا لیکن اس نے اپنے فضائی معیار کو بہتر بنایا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کا خوفناک بحران ہمارے سامنے کھڑا ہے، جس سے نمٹنے کے لئے کئی ممالک میں جنگی پیمانے پر مہم شروع چلائی جا رہی ہے لیکن ہمارے لئے یہ آج بھی ’ٹائم پاس‘ ہے اور ہمارے لیڈران اسے ہنسی مذاق میں اڑا دینا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کو لگتا ہے کہ آلودگی صرف شمالی ہند کا مسئلہ ہے، انہیں چنئی اور کیرالہ کے سیلاب کو یاد کرنا چاہیے اور مہاراشٹر کی خشک سالی کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ موسموں کے ظلم سے ملک کا کوئی نہ کوئی حصہ ہر سال تباہ ہو رہا ہے۔ ہمیں ماحولیات کے سوال کو سنجیدگی سے لے کر پالیسی سطح پر کچھ بڑے فیصلے لینے ہوں گے اور یہ تبھی ہو پائے گا جب تمام عوامی نمائندے پارٹی سیاست چھوڑ کر اس پر متحد ہوں۔

( نواب علی اختر )