ملکی معیشت ناقص پالیسیوں کےسبب پستی کی طرف

اعداد وشمار کی بازیگری سے پیداکردہ مصنوعی جوش جلد ٹھنڈا پڑجائے گا

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہمارا ملک اپنی آزادی کا 75واں جشن ’امرت مہااتسو‘ کے نام سے منارہا ہے مگر حکومت کی ناقص معاشی پالیسی کی وجہ سے تقریباً آدھی آبادی خط افلاس کے قریب پہنچ چکی ہے۔ 2016کی ڈرامائی انداز میں نوٹ بندی، 2017میں بغیر منصوبہ کے جی ایس ٹی کا نفاذ پھر اس کے بعد کووڈ۔19کا قہر۔ انہی وجوہات سے مجبور ہوکر حکومت 80کروڑ شہریوں کو مفت راشن دے رہی ہے۔ گزشتہ 7برسوں میں گیس سلنڈر کی قیمت میں 116فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب 42 اور 55فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ سنٹرل اسٹیٹسٹکس آفس (سی ایس او) کے تخمینہ کی رُو سے پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 20فیصد نمو کا بڑا اعلان ہوا۔ اس تخمینہ میں بڑی بازیگری سے حکومت کے حلقوں میں جشن کا ماحول بن گیا۔ لوگوں کو اور درباری میڈیا کو معیشت کی ابتری کا اندازہ جلد ہی ہوجائے گا۔ مذکورہ تخمینہ 2021-22کی پہلی سہ ماہی کا ڈاٹا ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ ایک سال قبل 2020-21کی پہلی سہ ماہی میں تاریخ کی بدترین تنزلی یعنی 24.4 فیصد درج کی گئی تھی۔ اس لیے آئی ایم ایف کے چیف اکانومسٹ ڈاکٹر گوپی ناتھ نے اسے ’میتھمیٹکل گروتھ‘ (ریاضی کی نمو) قرار دیا ہے۔ اگر 20.1 فیصد نمو کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ اس بے حس حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ کورونا کی پہلی لہر کے مقابلے دوسری لہر میں 4 لاکھ لوگ آکسیجن اور دواوں کی قلت سے ہلاک ہوئے مگر معیشت پراتنا اثر نہیں پڑا۔ 20.1 فیصد شرح نمو کو دراصل لوگوں کی نجی کھپت کے اخرجات کی بنیاد پر طے کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال کورونا لہر کی پہلی سہ ماہی میں 14,94,524 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جبکہ امسال لوگوں نے ضروری اشیا اور خدمات پر 17,83,611 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ حکومت اور اس کی مشنری ہمیشہ جی ڈی پی میں وی (V) شکل کی بحالی کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس کے باوجود معیشت میں نمو سہ ماہی کی بنیاد پر ماقبل کووڈ کی سطح سے بہت ہی کم ہے۔ مالی سال 2021-22 کی جون سہ ماہی میں جی ڈی پی 32,38,020 کروڑ روپے تھی اور کورونا قہر کو قابو میں کرنے کے لیے لگائے گئے سخت ترین لاک ڈاون سے گزشتہ سال کم ہو کر 26,95,421 کروڑ روپے رہ گئی تھی۔ اس ’میتھمیٹکل گروتھ‘ سے حکومت بہت ہی جوش میں ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ جی ڈی پی کے مضبوط اعداد وشمار آنے والی سہ ماہیوں میں مستحکم نمو کی بنیاد بن سکتے ہیں مگر ماہرین معاشیات کی رائے اس کے برعکس ہے۔ پروفیسر کوشک باسو ورلڈ بینک کے چیف اکانومک ایڈوائزر رہ چکے ہیں۔ان کا ماننا ہے بھارت کا اپریل تا جون 2021 کا 20.1 فیصد نمو ایک سنسنی خیز بری خبر ہے جسے معمولی حساب سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ نمو اپریل تا جون 2020کے مقابلے میں دکھائی گئی ہے جب بھارت کی جی ڈی پی پہلی سہ ماہی میں 24.4 فیصد تنزلی کا شکار ہوئی تھی۔ اگر اپریل تا جون 2019 کی جی ڈی پی نمو سے اس کا موازنہ کریں تو ملک کی جاریہ پہلی سہ ماہی میں شرح نمو محض 9.2 فیصد ہی ہوتی ہے۔ پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ ہمیں جی ڈی پی کا موازنہ کرنا چاہیے نہ کہ شرح ترقی (Rate of Growth) کا؟ 2019 کے مقابلے میں ہمارا جی ڈی پی نمو تقریباً 10 فیصد کم ہے۔ یہ سب اعداد وشمار منظم شعبوں کے ہیں سوائے زراعت کے جسے اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جی ڈی پی میں غیر منظم شعبہ کی شراکت 31 فیصد ہے اور اسی پر سب سے زیادہ ضرب پڑی ہے۔ گزشتہ سال کے لاک ڈاون اور امسال کے کورونا قہر سے اس شعبہ پر زبردست چوٹ پڑی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں محنت کش مزدور جان بچانے کے لیے اپنے اپنے مقامات کو نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور ان میں سے بیشتر لوٹ کر نہیں آئے۔ اس لیے دیہی علاقوں میں منریگا کی طلب زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اب بھی لوگ وہیں اٹکے ہوئے ہیں اور بہتری صرف منظم شعبوں میں آئی ہے۔
سابق وزیر مالیات پی چدمبرم کا کہنا ہے کہ 2021-22کی پہلی سہ ماہی میں بھارت کی جی ڈی پی 32,38,828 کروڑ روپے رہی جو 2019-20کی پہلی سہ ماہی سے بہت کم ہے۔ جب جی ڈی پی 35,66,788 کروڑ روپے تھی۔ 2020 کی پہلی سہ ماہی میں بھارت کی جی ڈی پی بدترین تنزلی کا شکار ہوئی۔ لوگوں نے لاک ڈاون میں اپنی جمع پونجی کو خرچ کیا۔ واضح رہے کہ اس سے لوگوں کی مالی اور سماجی خوشیاں ختم ہوگئیں۔ دنیا کے 149 ممالک کے Happiness Index میں ہمارا ملک 139ویں مقام پر ہے۔ در اصل جی ڈی پی گھٹی ہے اور بے روزگاری ومہنگائی بڑھی ہے۔ حکومت کو قرض لے کر خرچ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو اور بازار میں طلب بڑھے۔ فی الوقت بازار میں طلب ناپید ہے۔ کمپنیاں سامان تو بنارہی ہیں مگر خریدار ندارد ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت پر لازم ہے کہ ملک کی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو بہتر بنائے کیونکہ 2019-20 میں مستقل قیمتوں (consistent prices) میں قومی مجموعی پیداوار 145.69 لاکھ کروڑ روپے تھی یعنی آزادی کے 73 سالوں میں گزشتہ 29 سال معاشی لحاظ سے پیداوار غیر معمولی رہی کیونکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی معیشت میں کھلے بازار کی پالیسی سے 1991 سے 2014 تک جی ڈی پی چار گنا بڑھی۔ مگر 2014 سے ہی بھاجپائیوں کے دور اقتدار سے ملک کی جی ڈی پی میں زوال کا دور شروع ہوگیا۔ وجہ حکومت کی غلط پالیسی اور ناقص منصوبہ بندی ہے۔ کورونا وبا تو بعد کی پیداور ہے جس نے نہ صرف ہماری معیشت کو بلکہ عالمی معیشت کو تباہ وبرباد کر دیا۔ اس لیے اب ہمیں ماضی کی گم گشتہ متاع یعنی ماقبل کورونا کی جی ڈی پی سے 145.69لاکھ کروڑ روپے کے حصول کے لیے منصوبہ بند طریقے سے جدوجہد کرنا ہوگا۔ گزشتہ 6اگست کو آر ٹی آئی کی مالیاتی پالیسی کمیٹی میں برباد معیشت پر زور دار بحث ہوئی۔ مگر اس موصوع پر لوک سبھا میں حکمراں جماعت کی طرف سے بحث کا کسی طرح کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ آر بی آئی بھی فی الحال اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ حکومت کو خواب غفلت سے جگا سکے۔ دراصل آر بی آئی کا اصل کام مالیاتی امور اور قیمتوں کو مستحکم رکھنا ہے۔ 6 اگست کی مالیاتی پالیسی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق 2021-22 کے مالی سال میں جی ڈی پی کے شرح نمو کا تخمینہ 9.5 فیصد ہے۔ آر بی آئی نے جو سہ ماہیوں کا تخمینہ پیش کیا ہے وہ پہلی سہ ماہی میں 21.1 فیصد دوسری میں 7.3 فیصد تیسری میں 6.3 فیصد اور چوتھی سہ ماہی میں 6.1 فیصد ہے۔ پہلی سہ ماہی میں زبردست شرح نمو اس لیے آئی کیونکہ 2020-21 کی پہلی سہ ماہی میں یہ شرح گھٹ کر 24.4 فیصد ہوگئی تھی۔ آئندہ تین سالوں کا تخمینہ کافی حقیقت پسندانہ ہے۔ اس طرح ہم شرح نمو کی تنزلی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر وی (V) شکل سے کم بحالی ہو تو معیشت کی ابتری کا سلسلہ دراز رہے گا۔ مالیاتی پالیسی کمیٹی رپورٹ میں ممکنہ افراط زر کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ پہلی سہ ماہی میں 6.3 فیصد، دوسری میں 5.9 فیصد تیسری میں 5.5 فیصد جبکہ آخری سہ ماہی میں 5.8 فیصد ہے جو آر بی آئی کے متعینہ قوت برداشت سے کم ہے۔ یہاں بھی اعداد وشمار کی بازیگری ہے جو بالواسطہ اس بات کا اعتراف ہے کہ غذائی افراط زر میں اضافہ کے ساتھ مہنگائی بھی بڑھی ہے کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اچھال روز مرہ کا معمول ہے جس کی وجہ سے ایندھن کا افراط زر دو ہندسہ سے اوپر ہے۔ ایم پی سی نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو پٹرول اور ڈیزل کے محاصل میں کمی کا مشورہ دیا ہے۔ مرکزی حکومت بے حسی کا شکار ہے اس لیے وہ عالمی معیشت میں ہونے والے اتار چڑھاو پر توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی شہری ودیہی بے روزگاری کو خاطر میں لا رہی ہے۔ مختلف طرح کی جملہ بازی کرنے اور عوامی ٹیکس کے پیسوں کو مودی کی شبیہ چمکانے اور محاصل کو الیشکن میں اڑانے سے کام نہیں چلے گا۔ معیشت کی تباہی اور عوام کی بدحالی دور کرنے کے لیے سنجیدہ اقدام اٹھانے ہوں گے۔
دوسری طرف ہماری حکومت معاشی نظام میں بنیادی تبدیلی کی بجائے اکانومی کے ٹکنیکل نیچر پر کچھ زیادہ ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ نتیجتاً معیشت کی گاڑی پٹری سے اترگئی ہے۔ اکانومی کے اہم عوامل ہیں: انسانی سرمایہ (Human Capital) لیبر کی پیداوریت، ٹکنالوجی کے پہلو سے تیاری (Technological Readiness)۔ اختراعی طریقہ کار (Process Innovation) جیسے اہم عوامل کی اب تک قدر نہیں کی گئی کیونکہ ہیومن ریسورس کیپٹل (HRC) سے ہی محنت کشوں کی ہنر مندی کو بڑھا کر پیداوار کو بڑھا سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں معیاری تعلیم، ہنر مند افرادی قوت (Man Power) اور مناسب طبی ٹھانچے کا زبردست فقدان ہے جس کی وجہ سے ایچ آر سی کے عالمی پیمانے میں ہم کمتر مقام پر ہیں 2017 کی عالمی ہیومن کیپٹل رپورٹ کے لحاظ سے دنیا میں ہمارا مقام 103واں ہے جبکہ جنوبی کوریا 27، چین 34 اور سری لنکا 70ویں مقام پر ہے۔ 2019 کے ورلڈ بینک کے ڈیٹا بیس کے رُو سے ہماری فی کس جی ڈی پی 2104 ڈالر ہے جو بنگلہ دیش سے بھی کم ہے جس سے ہمارا مقام عالمی درجہ بندی میں 125واں ہے جبکہ دنیا کے ممالک کی اوسط جی ڈی پی 11,429 ڈالر ہے۔ اس طرح 2016 کے گلوبل مینو فیکچرنگ کمپیٹیٹیو انڈیکس کے آئینے میں بھارت کی فی گھنٹہ اجرت 1.7 ڈالر ہے۔ جبکہ امریکہ میں 38 ڈالر، جاپان میں 24 ڈالر، جنوبی کوریا میں 20.7 ڈالر اور چین میں 3.3 ڈالر ہے۔ کنبوں کی کم آمدنی کی وجہ سے اکثر خاندانوں کے لیے صنعتی پیداوار و دیگر ضروری اشیا کی خریداری کا دائرہ کم سے کم ہو جاتا ہے جس سے طلب مفلوج ہو جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملک تحقیق وترقی پر اپنی جی ڈی پی کا محض 0.8 فیصد ہی خرچ کرتا ہے اس کے برخلاف تیزی سے ابھرتی معیشت والے ممالک میں جنوبی کوریا 4.5 فیصد تائیوان 3.3 فیصد اور چین 2.1 فیصد اپنی اپنی جی ڈی پی کا بڑا حصہ خرچ کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔
***

 

***

 گزشتہ 7برسوں میں گیس سلنڈر کی قیمت میں 116فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب 42 اور 55فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ سنٹرل اسٹیٹسٹکس آفس (سی ایس او) کے تخمینہ کی رُو سے پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 20فیصد نمو کا بڑا اعلان ہوا۔ اس تخمینہ میں بڑی بازیگری سے حکومت کے حلقوں میں جشن کا ماحول بن گیا۔ لوگوں کو اور درباری میڈیا کو معیشت کی ابتری کا اندازہ جلد ہی ہوجائے گا۔ مذکورہ تخمینہ 2021-22کی پہلی سہ ماہی کا ڈاٹا ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ ایک سال قبل 2020-21کی پہلی سہ ماہی میں تاریخ کی بدترین تنزلی یعنی 24.4 فیصد درج کی گئی تھی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021