مغربی نظامِ خاندان کی نظریاتی بنیادوں کا جائزہ

ڈاکٹر شہناز بیگم(دربھنگہ)

 

انسانی زندگی کا ایک اہم ستون اور معاشرے کے قیام اور استحکام کی بنیاد شادی اور اس کے ذریعے بننے والا خاندان ہے۔ جس سماج میں مضبوط اور پائیدار خاندان پائے جاتے ہوں وہاں افرادِ خاندان کے درمیان خوشگوار تعلق، امن و اطمینان اور محبت والفت کا ماحول ہوگا اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی قدریں پروان چڑھیں گی۔ اس کے برعکس ماحول میں افراد خاندان کا باہمی تعلق کمزور یا ختم ہوجائے گا، انفرادیت پسندی اور خود غرضی ہوگی اور معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی قدریںٹھٹھر کر رہ جائیں گی اور بے شمار سماجی و معاشرتی مسائل کو فروغ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تہذیب اور سماج میں اس اکائی کو مضبوط، مربوط اور متوازن بنانے کی ترغیب دی جاتی رہی ہے۔
مغربی دنیا میں بھی، جو آج اپنی سائنسی ترقی و ایجادات کے سبب دنیا کی علمی و تہذیبی قیادت کررہی ہے، خاندان ایک مستحکم ادارہ ہوا کرتا تھا۔ اس وقت کلیسا کی بالواسطہ قیادت ہوتی تھی۔ اس دور میں شادی کو ایک مقدس عمل مانا جاتا تھا۔ خاندان اور اس کے ارکان کے درمیان محبت، الفت، صلہ رحمی اور شفقت و محبت کی کمی نہیں تھی، مگر ایک طرف صنعتی ترقی اور دوسری طرف کلیسا کے نظام کے خلاف بغاوت اور اس کے زوال نے مغربی دنیا کو نئی تہذیبی قدروس سے روشناس کرایا۔
مذہب سے بغاوت اور ’پوپوکریسی‘‘ کے خلاف نفرت آمیز ردِ عمل کے نتیجہ میں مغربی معاشرہ نہ صرف مذہب سے دور ہوا بلکہ پرانی معاشرتی اور مذہبی اقدارو روایات کو سرے سے ملیا میٹ کرنے کی تحریک چلابیٹھا اور لادینیت ہی اس کا دین ٹھہری۔ ادھر صنعتی ترقی نے اپنے تقاضوں کے مطابق صنفی تفریق(Gender Biasness) كکو اشو بناکر نصف انسانیت یعنی خواتین کو ورک فورس میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ اس کے لیے انقلابی نعرے تراشے گئے، خوبصورت مستقبل کے سبز باغ لگائے گئے، مرد و عورت کے درمیان جنس کی بنیاد پر تفریق کے خاتمے کے وعدے گھڑے گئے اور مساوات و برابری کا ایسا حسین تصور دیا گیا کہ مغرب ہی کیا، مشرق تک کے مردوخواتین اس تصور کے دیوانے ہونے لگے۔ پھر ان چیزوں کو قابلِ قبول بنانے اور اپنے ایجنڈے کو بحسن و خوبی آگے بڑھانے کے لیے نظریاتی بنیادیں استوار کی گئیں اور ان سب کے پیچھے ایسی منطق کو لگایا گیا جو اپنے زمانے کے سیاق و سباق میں مدلل طور پر اپنے ایجنڈے کی حقانیت کو ثابت کرسکے۔ آج کی دنیا، جسے مغربی تہذیب و ثقافت کی دنیا بھی کہہ سکتے ہیں، اس کا خاندانی نظام’ اگر کچھ ہے تو‘ کن نظریاتی بنیادوں پر بنایا گیا ہے، اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
ایسا دو وجہ سے ضروری ہے۔ پہلا یہ کہ ان نظریات نے مغربی دنیا کے خاندانی نظام کو پوری طرح تباہ و برباد کردیا ہے۔ اس کا اعتراف اب خود مغرب کے مفکرین اور سیاست داں بھی کررہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان بنیادوں پر بننے والی تہذیب اور طرزِ معاشرت صرف مغرب ہی میں نہیں، باقی دنیا میں بھی پھل پھول رہا ہے۔
1- اس سلسلے میں سب سے اہم کردار صنفی رول کے انکار (Denial of Gender Role)كکے نظریےنے ادا کیا۔ یہ نظریہ بنیادی طور پر اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ صنف (مرد یا عورت ہونے) کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ پر جتنی بڑی حقیقت ہے اتنا ہی بڑا دھوکا بھی ہے۔ اس کے مطابق عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے اور درحقیقت کر بھی رہی ہے، جو مرد کرسکتا ہے۔ ٹھیک ہے مگر ان کاموں کا کیا ہوگا، جو فطری طور پر قدرت نے عورت کے حوالے کیے ہیں۔
اب عورت کی طرف سے یہ سوال غیر متوقع نہیں تھا کہ جب معاش کا بوجھ وہ مردوں کے ساتھ مل کر اٹھا رہی ہیں اور ہر میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ شریکِ کار ہے تو پھر بچے وہی پیدا کیوں کرے؟ بچوں کی پرورش کی صعوبتیں وہ کیوں اٹھائے؟ گھریلو کام کی انجام دہی صرف عورت ہی کیوں کرے؟ اس طرح کے سیکڑوں سوالات ابھر کر سامنے آتے گئے اور سماج میں ایک شدید ردِ عمل نظر آنے لگا۔ ظاہر ہے کہ مرد و عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں برابری کی بات تو سمجھ میں آگئی لیکن جہاں تک حیاتیاتی ساخت کا تعلق ہے اس میں کوئی تبدیلی کہاں سے ممکن ہے؟ ایسی صورت میں عورت نے اعلان کردیا کہ اسے بچہ پیدا کرنے کے عمل سے بھی آزادی چاہیے اور وہ اب شادی بھی نہیں کرے گی۔ اس بات کو نبھانے کے لیے اس سے بھی آزادی دے دی گئی۔ اگر عورت بچے پیدا نہیں کرے گی تو آبادی کہاں سے آئے گی؟ یہ سوال کھڑا ہوا تو اس کے لیے غیر شادی شدہ ماؤں کو بھی قانونی جواز دے دیا گیا اور بغیر شادی کے بھی مرد اور عورت کو ایک ساتھ رہنے کا قانونی جواز مل گیا۔
2- اس مغربی خاندانی نظریے کی دوسری بنیاد انفرادیت پسندی (Individualism) ٹھہری، جسے ہم خود غرضی یا آپا دھاپی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے مطابق ہر فرد اپنی ذات اور اپنے مفاد کے خول میں سمٹ کر رہ گیا۔ جب فرد کو صرف اپنی ذات، اپنے مفاد اور اپنی لذت اور خوشی ہی مطلوب ہو تو وہ دوسروں کے بارے میں کیوں سوچے گا اور ان کے لیے پریشانیاں کیوں اٹھائے گا اور کیوں ان پر اپنی گاڑھی کمائی خرچ کرے گا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رشتے ناطے کمزور دھاگے بن کر رہ گئے، گھر کے بزرگ اور والدین بے کار کی چیز اور بوجھ بن گئے اور اپنی زندگی کے آخری مراحل اولڈ ایج ہوم میں گزارنے کے حق دار ٹھہرے۔ بچے پیدا کرنا اور ان کی ذمہ داریاں نبھانے میں دشواریاں برداشت کرنا کارِ عبث بن گیا۔ اب جو چیز بچی وہ اپنی ذات تھی جس پر مکمل توجہ صرف کرنا اصل کام رہ گیا اور اپنی زندگی کو عیش و آرام اور دولت سے آراستہ کرنا واحد ہدف اور مقصدِ زندگی قرار پایا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ Spectator نام کے رسالے میں Eleanor Mills لکھتی ہیں کہ ’’میری طرح کی بیس سالہ لڑکیاں جو صحت مند بھی ہیں اور خوبصورت بھی اور وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، بس بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘ کیوں نہیں چاہتیں؟ اس کا جواب وہ دیتی ہیں کہ ’’بدقسمتی سے میری نسل کی عورتیں دو ہی مشاغل میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ صورت اور دولت! اس تیز رفتار معاشی دوڑ میں وہ پیچھے نہ چھوٹ جائیں، انھیں فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ شادی جیسے جھمیلوں میں الجھیں۔‘‘
چاہے مرد ہوں یا عورت، دونوں کو اپنی زندگی بہتر گزارنی ہے، دولت مند ہونا ہے، اور زندگی کی ساری آسائشیں حاصل کرنی ہیں، پھر ان کے یہاں بچوں کی پیدائش کو اہمیت کیوں ملتی، وہ تو رات کو سکون کی نیند سونے کو ترجیح دیتی ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کو حسین بنانے میں مصروف ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ خاندان کا تصور بھی بدلتا گیا اور اب خاندان ایک روایتی خاندان نہیں رہا جہاں والدین اور بھائی بہن بھی خاندان کا حصہ ہوا کرتے تھے اور بعض اوقات دونوں، شوہرو بیوی کے یا کسی ایک کے والدین بھی اس خاندان میں شامل رہتے تھے۔ مغربی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ذہن اتنا بدل گیا کہ شادی کی ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکا گیا اور خاندان ایک بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ پر ہی مشتمل ہوکر رہ گیا۔
آج کی تاریخ میں شادی شدہ ماں اور باپ کے ساتھ رہنے والے ایک روایتی خاندان کے بچوں کی شرح 45% سے بھی نیچے آگئی ہے جبکہ Single Parent Faimly میںزندگی گزارنے والے بچوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ لیو ان ریلیشن کا چلن عام ہوگیا ہے۔ غیر شادی شدہ جوڑوں کا باہمی رضا مندی سے ایک ساتھ رہنا (co-habitكکرنا) اب ایک عام بات ہوگئی ہے اور یہ رجحان تیزی سے تیسری دنیا کے ممالک میں بھی پھیلنے لگا ہے اور دوسری طرف موانع حمل کے بہتر ذرائع بھی اب حاصل ہیں، اس لیے اب مغربی معاشرے میں روایتی خاندان کا ڈھانچہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔ فکر ونظر کی یہ تبدیلی خود مغرب کو بھی خوفزدہ کررہی ہے، کیونکہ اس سوچ کی وجہ سے لوگ نئی نئی پیچیدگیوں میں پڑ گئے ہیں۔ ایک طرف سماج میں تناؤ بڑھ رہا ہے، لوگ جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں تو دوسری طرف اس طرح کے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے غیر مستقل رشتوں سے جو نسل تیار ہورہی ہے اس میں بھی منفی رجحانات عام ہیں۔
3- جدید دنیا یا مغربی نظام خاندان کی تیسری نظریاتی بنیاد(Permissivness) یا اباحیت پسندی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہر وہ چیز جائز صورت اختیار کرسکتی ہے جو انسان کو لذت اور خوشی سے ہم کنار کرتی ہو یا دل اس کی طرف راغب ہو۔ اس نظریے نے بے شمار ایسی چیزوں کو قانونی اور بعد میں ’اخلاقی جواز‘ فراہم کیا جو گزشتہ زمانے میں مذہبی یا معاشرتی اور سماجی اقدار کے مطابق غلط اور ناجائز قرار دی گئی تھیں اور انہیں برائی تصور کیا جاتا تھا۔ اس نظریے نے سماج میں بہت سی غلط چیزوں کو، خصوصاً انسان کے جذبہ جنس کو تسکین دینے والی چیزوں کو،نہ صرف جائز اور قانونی حیثیت دے دی بلکہ ان کو فروغ بھی دیا۔ مرد کی مرد سے شادی اور عورت کی عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی کا جواز اسی اباحیت پسندی یا Permissivness كکا نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ سیکس ٹوائز جیسی چیزیں بھی معاشرے میں رائج ہوئیں جنھوں نے خاندانی نظام کا خاتمہ کرڈالا۔
جدید دنیا کا وہ خاندانی نظام جسے بڑی منطقی اور نظریاتی بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی، نہ صرف یہ کہ خاندانی نظام کو کچھ نہ دے سکا، بلکہ الٹا اس کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ثابت ہوا۔
ایسا نہیں ہے کہ پوری مغربی دنیا اس اباحیت پسندی کی نظری اور عملی تائید کرتی ہے اور اس کے خلاف وہاں کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ ان افکار و نظریات کی مخالفت کرنے والے اور ان کی برائی کو برائی سمجھنے والوں میں عام لوگ بھی ہیں اور مفکرین و دانشوران بھی۔ اب تو حکومتیں بھی ان نظریات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے پریشان ہیں اور اس کے ازالہ اور نقصان سے بچانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔
پروفیسر سیمویل ہنٹگٹن اسے Clash of Civilizationکے تحت یوں بیان کرتے ہیں:
"The real clash of civilizations will not be between the West and one or more of the Rest. It will be between the West and the Post West within the West itself.”
ترجمہ: ’’تہذیبوں کا حقیقی تصادم دراصل مغربی تہذیب یا باقی دنیا کی کسی ایک یا اس زیادہ کے درمیان نہیں ہوگا بلکہ یہ مغربیت یا مابعد مغربیت کے اپنے درمیان ہی ہوگا۔‘‘
مغربی مفکرین اس بات سے خوفزدہ تو ہیں کہ جو بھی خلافِ فطرت حرکتیں مغرب سے سرزد ہورہی ہیں، ان کے برے اثرات کا شکنجہ بھی مغرب ہی پر کس رہا ہے، اور اس نام نہاد صنفی آزادی کی چپیٹ میں پوری دنیا اور اقوام آرہی ہیں لیکن اس سے بچنے کی صورتیں کیا ہیں اور کون سا نسخہ اس صورت حال کے علاج کرنے کے لیے اپنایا جائے، اس بارے میں وہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا پارہے ہیں۔ وہ فطرت سے بغاوت کی بات بھی کرتے ہیں اور اس بات کا احساس بھی ہے کہ "The new society is built on sand.”،نیا معاشرہ ریت پر تعمیر ہوا ہے، اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ "Women are not the same as man.” ، خواتین اور مرد ایک طرح کے نہیں ہیں۔ خواتین کے الگ سماجی رول کا بھی اعتراف کرتے ہیں اور اس بات کا بھی کہ عورتیں مردوں سے مقابلہ میں اس طرح جینے لگیں تو اس کے مہلک اثرات فیملی، سوسائٹی اور ملک پر لازماً پڑیں گے۔یہاں تک کہ ہم جنس پرستی اور اس کی خباثت کا اعتراف کرنے میں بھی مغربی مفکرین اور ماہرین کو کوئی عار نہیں، مگر مسائل کے حل تک پہنچنے میں وہ ابھی تک ناکام ہی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس دنیا میں ان مسائل کا حل نہیں۔ اس کا معتدل اور بہترین حل اسلام میں موجود ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ مغرب اسلام کے اس بہترین حل سے واقف نہیں، کیونکہ اس کا اعتراف بھی ان کے اسکالرس نے اپنی تحقیقات میں کیا ہے، مگر ایک مخالفت بھی ہے جو اسلام اور اس کی اعلیٰ اقدار سے تعصب کی بنیاد پر ہے۔ اس کیفیت کو ہم اسلاموفوبیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ بہرکیف مائیکل ہارٹ کا یہ اعتراف قابلِ غور ہے کہ:
“My choice of Muhammad to lead the life of the world’s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular level.”
’’محمدؐکو دنیا کے سب سے مؤثر فرد کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے انسان کے طور پر منتخب کرنا بہت سے لوگوں کو حیران کرے گا اور کچھ دوسرے اس بارے میں سوالات کھڑے کریں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تاریخ انسانی میں ایسی منفرد ذات تھے جو کامیابی کے سب سے اعلیٰ مقام پر تھے مذہبی اور غیر مذہبی ہر دو اعتبار سے۔‘‘
اس طرح کا اعتراف بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے غیر متعصبانہ رویہ اپنایا ہے ان کے اقوال قابلِ غور ہیں۔ جارج برنارڈ شا کے ایک خط میں ایک اقتباس ہمیں ملتا ہے:
"I have prophesied about the faith of Mohammad that it would be acceptable to the Europe of tomorrow as it is beginning to be acceptable to the Europe of today.” (Collected Letters, ed. Dan H. Laurence, p305)
’’میں محمدؐ کے عقیدے کے بارے میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ یہ کل کے یورپ کے لیے قابلِ قبول ہوگا جیسا کہ اب کے یورپ میںاس کی قبولیت شروع ہوگئی ہے۔‘‘
ان باتوں کے پیش نظر آج امت مسلمہ کے سامنے ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ہر جہت کی وضاحت کے ساتھ اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور خود بھی قولاً و عملاً اس کی افادیت و فوقیت کا ثبوت پیش کریں۔ ہمارا معاشرہ آج کہاں کھڑا ہے اور ہم اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں کیا رول ادا کررہے ہیں اس کا جائزہ لینے کا وقت بھی آگیا ہے تاکہ جو کمزوریاں ہمارے اندر پیدا ہوگئی ہیں اور جن کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا ہے ہم ان کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔ ہماری زندگیوں میں جو غیر اسلامی افکار اور اعمال داخل ہوگئے ہیں انہیں نکال پھینکیں۔ دین کے نظام سے دوری کے نتیجے میں بے عملی بھی آئی ہے اور اخلاقی گراوٹ بھی۔ ہم اپنی زندگی اور اپنا ماحول درست کرلیں تو پھر ہمارا کردار بولے گا اور ہمارا عمل خاموش داعی کے رول میں سماج پر مثبت اثرات یقیناً مرتب کرے گا۔ll

مذہب سے بغاوت اور ’پوپوکریسی‘‘ کے خلاف نفرت آمیز ردِ عمل کے نتیجہ میں مغربی معاشرہ نہ صرف مذہب سے دور ہوا بلکہ پرانی معاشرتی اور مذہبی اقدارو روایات کو سرے سے ملیا میٹ کرنے کی تحریک چلابیٹھا اور لادینیت ہی اس کا دین ٹھہری۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021