معیشت میں چار دہائیوں کی سب سے بڑی تنزلی

8فیصد منفی شرح نمو، طلب میں کمی کا نتیجہ۔ مزید ابتری سے بچنے کے لیےعوام کے ہاتھوں میں نقدی پہچانا ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

ریزرو بینک آف انڈیا نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے 21-2020 میں اقرار کیا ہے کہ اس کا معاشی نمو ایک سال میں منفی 8 فیصد ہو گا اگرچہ 21-2020 میں ٹیکنیکل ریسیشن (Technical Recession) سے تیسری سہ ماہی میں ملک بہت معمولی مثبت گروتھ سے باہر آیا جبکہ 22-2020 میں ملکی اور غیر ملکی مالی اداروں نے جی ڈی پی میں بہتری کا اندازہ 10.5 فیصد کا رکھا تھا۔ آر بی آئی بہت پرجوش اور پر امید تھا کہ دوسری کورونا لہر کو جلد ہی قابو میں کر لیا جائے گا لیکن یہ خیال شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ اس طرح معیشت میں 40 سال کی سب سے بڑی گراوٹ درج ہوئی۔ مالی سال 21-2020 میں جی ڈی پی گروتھ منفی 7.3 فیصد رہی ہے۔ اس سے قبل 80-1979 میں شرح نمو منفی 5.2 درج کی گئی تھی اور اس کی وجہ قحط سالی تھی۔ اس کے علاوہ خام تیل کی قیمتیں بھی دوگنی بڑھ گئی تھیں۔ 2021 جنوری تا مارچ سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو 1.6 فیصد رہی ہے۔ فروری میں دوسری بار پیشگی اندازہ جو حکومت نے جاری کیا تھا اس کے مطابق معیشت میں 8 فیصد کی سالانہ گراوٹ آسکتی ہے۔ حالانکہ اس اندازہ کے مقابلہ میں یہ تنزلی کم ہے۔ واضح رہے کہ 17-2016 سے معیشت لگاتار پستی کا شکار رہی ہے۔ اس تنزلی کی اہم وجوہ 2016 نومبر میں بغیر منصوبہ کے نوٹ بندی، جولائی2017 سے جی ایس ٹی کا نفاذ اور پھر اس کے بعد 4 گھنٹہ کی نوٹس پر عجلت میں لگایا جانے والا سخت ترین ملک گیر لاک ڈاون شامل ہیں۔ کورونا کی پہلی لہر کے بعد نافذ کردہ لاک ڈاون کے باعث مئی میں شرح بے روزگاری 23.5 فیصد پر پہنچ گئی تھی اور اب دوسری لہر کی وجہ سے ملک میں ایک کروڑ سے زائد لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں جس سے 97 فیصد سے زیادہ کنبوں کی کمائی میں کمی آئی ہے۔ پیداوار میں زیادتی کے ساتھ طلب میں بدترین گراوٹ دیکھی گئی اس کے علاوہ مالی خسارہ کا دباو جو غذا اور ایندھن کی بڑھتی قیمت سے بنا پرائیوٹ تھنک ٹینک سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے سی او مہیش بیاس نے بتایا کہ مئی کے اخیر تک شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 18 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ شائع شدہ ڈاٹا کے مطابق شہری علاقوں میں شہری بے روزگاری 17.88 فیصد رہی ہے جبکہ اسی مدت میں قومی سطح پر شرح بے روزگاری 12.15 فیصد رہی ہے۔ ڈاٹا کے مطابق گزشتہ 15دنوں میں شہری شرح بے روزگاری 3 فیصد بڑھی۔ اس کی بڑی وجہ ٹیکہ کاری میں سستی رہی ہے۔ جملہ بازی اور ڈینگ بازی میں اول ہمارے وزیر اعظم مودی نے 2021 کے جنوری میں ورلڈ اکنامک فارم میں تال ٹھونک کر کہا تھا کہ ہم نے جس طرح سے کووڈ کو شکست دی ہے وہ دوسرے ملکوں کے لیے ایک مثال ہے کیونکہ وہ کورونا کے قہر کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ملک کے طبی ماہرین، ڈاکٹروں اور 900 سائنسدانوں کے تنبیہ کرنے کے باوجود ملک کے سب سے بڑے بحران سے نمٹنے کی پیشگی تیاری نہیں کی گئی۔ وزیر اعظم اپنے سارے وزرا کی فوج کے ساتھ 5 ریاستوں میں ہونے والے انتخابات جیتنے میں لگ گئے اور سپر اسپریڈر بن کر کورونا کی دوسری لہر کو گاوں گاوں پہنچا دیا۔ مئی کے آخری دو ہفتوں میں کورونا کا قہر شباب پر تھا، لوگ آکسیجن، ہاسپٹلس بیڈ اور دواوں کی قلت سے پریشان تھے اس وقت مودی جی ایک ’’بے فکرے راجہ‘‘ کی طرح اپنے امیج مینجمنٹ میں مشغول تھے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 4 لاکھ سے زائد لوگ یومیہ کورونا کی زد میں آرہے تھے۔ یومیہ اموات 4529 سے زائد درج کی جارہی تھیں اگرچہ یہ اعداد وشمار اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس کورونا قہر کے دوسری لہر میں کتنے کمانے والے اور اور کتنے کنبوں کے افراد کورونا کے بھینٹ چڑھ گئے اس کا صحیح حساب لگانا مشکل ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ساڑھے تین لاکھ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ مگر دیگر ذرائع نے اس طرح کی خبریں بھی آئیں کہ یہ اعداد وشمار 6 سے 16 لاکھ تک بھی ہو سکتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اسے 42 لاکھ تک بتایا ہے مگر سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کا ماننا ہے کہ جب سے کورونا کی وجہ سے طبی، معاشی، سماجی، تعلیمی اور انسانی بحران شروع ہوا تب سے ملازمت پیشہ لوگوں کی زبردست کمی اپنے کام پر نظر آئی۔ کورونا وبا کی پہلی لہر کے چند ماہ قبل ملک میں 40.35 کروڑ افراد کے پاس روزگار تھا۔ اب صرف 7.4 کروڑ لوگ ہیں جن کے پاس کچی پکی نوکریاں ہیں، جنہیں ملازمت پیشہ ہونے کی وجہ سے ماہانہ لگی بندھی تنخواہ ملتی ہے۔ اس بار ریاستی لاک ڈاون نے ملک گیر لاک ڈاون کے مقابلے معیشت کو کم زخم دیا مگر دیا ضرور اور سبھی اقتصادی ماہرین کے تخمینہ کو غلط ثابت کردیا، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ کورونا کو قابو میں کرنے کے لیے جو لاک ڈاون لگائے گئے وہ سخت تھے مگر ٹیکہ کاری کی رفتار مجرمانہ حد تک دھیمی رہی۔ کیونکہ حکومت نے اس ضمن میں محض دعویٰ ہی کیا، نہ اس کے لیے پیشگی
تیاری کی اور نہ ویکسن کی خریداری کی۔ حکومت اصل میں بھکتی اور بھکتوں کی فوج سے چلتی ہے اس لیے وہ اس کی تباہ کاری کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ موجودہ ٹیکہ کاری کی رفتار ایسی ہی رہی اور ماہرین کے انتباہ کے ساتھ ہی تیسری لہر کا ملک کو سامنا کرنا پڑ جائے تو بارکیلیج کے مطابق ملکی معیشت کو کم از کم 42.6 ارب ڈالر کا خسارہ ہو سکتا ہے۔
کورونا ویکسین مینجمنٹ میں مرکزی حکومت کی مجرمانہ غفلت نے دوسری لہر میں ہلاکت کی تعداد میں اضافہ کیا۔ کورونا وبا کی تیسری لہر بھی دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اب وزیر خارجہ جے شنکر ویکسین کی خریدی کے لیے امریکہ کے دورے پر ہیں۔ مودی جی کو الیشکن جیتنے کا شوق ہے۔ اس لیے یو پی ودیگر ریاستوں میں ہونے والے الیکشن کے خاطر ٹیکہ کاری کو یقینی بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ آر ٹی آئی سے خلاصہ ہوا کہ کووڈ ویکسین کے لیے امسال کے بجٹ میں مختص 35 ہزار کروڑ روپوں میں سے 13 فیصد سے بھی کم رقم خرچ ہوئی۔ جبل پور کے ایک جہد کار مہیش کو آر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری سے انکشاف ہوا کہ مرکزی حکومت نے کووڈ ویکسن کی خریداری کے لیے ایچ ایل ایل ایف لائف کیر لمیٹیڈ (وزارت کی خریداری ایجنسی) کو 4,48,075 کروڑ روپے سیرم انسٹیٹیوٹ سے کووڈ شیلڈ کی ۲۱ کروڑ خوراکیں اور بھارت بائیو ٹیک سے کووڈ ویکسن کی 7.5 کروڑ خوراکیں خریدنے کی بات کی ہے۔ جہد کار مہیش کے مطابق مرکزی حکومت نے یکم مئی سے 18 تا 44 عمر کے لوگوں کے لیے ویکسین لگانے کا اعلان کیا تھا۔ مجھ جیسے ہزاروں افراد بے چین ہو کر اس موذی مرض سے اپنے آپ کو بچانے کے منتظر ہیں جبکہ بہت سے نوجوان بھی کورونا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت نے بار بار اعلان کیا کہ ٹیکہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ویکسین سب کو مفت میں دستیاب کرانے کے لیے مرکزی حکوت باقی رقم کیوں استعمال نہیں کر رہی ہے؟ برطانیہ اور امریکہ ۲ ماہ قبل ہی اپنی 80 فیصد آبادی کو دو خوراکیں ویکسین کی دے چکے ہیں۔ اب وہاں کی معیشت پٹری پر لوٹ رہی ہے۔
آسمان کو چھوتی بے روزگاری سے مزدوروں کی شراکت کی شرح (Labour paricipation rate) بری طرح تنزلی کا شکار ہوئی ہے۔ اس طرح روزگار، آمدنی اور تنخواہوں میں بڑی کمی آئی ہے۔ آر بی آئی نے مئی کے اعلانیہ میں اسے طلب کا صدمہ قرار دیا ہے کیونکہ اخراجات میں کمی آئی ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی نے کہا ہے کہ لوگوں نے اس صدمہ سے نکلنے کے لیے اپنے اثاثوں کو فروخت کیا۔ خورد ونوش میں تخفیف کی۔ یونیورسٹی کے دوسرے سروے سے واضح ہوتا ہے کہ غریب کنبوں نے آمدنی سے زیادہ قرض لیا ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق کورونا قہر کی وجہ سے مزید تیئیس کروڑ افراد غربت کے عمیق غار میں دھکیل دیے گئے۔ حکومت نے گزشتہ سال کچھ راحت کا سامان تو کیا تھا مگر امسال حکومت نے راحتی پیکیج نہیں دیا تو لوگ بڑی مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔ CII کے صدر اور کوٹیک گروپ کے ایم ڈی نے یہاں تک کہا ہے کہ حکومت کو بڑے پیمانہ پر نوٹ چھاپ کر ہی کیوں نہ ہو غریبوں کو نقدی سے مدد کرنی چاہیے۔ حزب اختلاف کو بارہ جماعتوں نے بھی حکومت سے 6000 روپے نقد ہر کنبے کو ماہانہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ غرض اب جو حالت ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 22-2021 کی بڑی آفت ہمارے انتظار میں ہے۔
***

اب دوسری لہر کی وجہ سے ملک میں ایک کروڑ سے زائد لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں جس سے 97 فیصد سے زیادہ کنبوں کی کمائی میں کمی آئی ہے۔ پیداوار میں زیادتی کے ساتھ طلب میں بدترین گراوٹ دیکھی گئی اس کے علاوہ مالی خسارہ کا دباو جو غذا اور ایندھن کی بڑھتی قیمت سے بنا پرائیوٹ تھنک ٹینک سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے سی او مہیش بیاس نے بتایا کہ مئی کے اخیر تک شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 18 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ شائع شدہ ڈاٹا کے مطابق شہری علاقوں میں شہری بے روزگاری 17.88 فیصد رہی ہے جبکہ اسی مدت میں قومی سطح پر شرح بے روزگاری 12.15 فیصد رہی ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021