مصباح الدین :تحریک اسلامی کے مخلص خادم

قرآن مجید سے ملت کا رشتہ جوڑنے میں کھپائی عمر

عتیق احمد شفیق اصلاحی،بریلی

رامپور کی مردم خیز زمین سے تحریک اسلامی کو نہایت قیمتی شخصیات ملیں جنہوں نے نہ صرف تحریک میں بلکہ معاشرے میں بھی اپنے حسن اخلاق کی چھاپ چھوڑی۔ ذکر جب رامپور کا آیا ہے تو مرحوم مصباح الدین کو بھی یاد کریں۔ مصباح الدین صاحب کی ولادت رامپور میں خورشید صاحب کے یہاں یکم مارچ سنہ 1935 میں ہوئی ۔ مصباح الدین صاحب کی شخصیت عموماً غیر معروف رہی لیکن مقامی سطح پر انہوں نے اپنی تنظیمی صلاحیتوں سے بہت سے کام انجام دیے ۔وہ ایک سادہ مزاج شخصیت کے مالک تھے ،ان کے مزاج میں انکساری تھی، ہنس مکھ اور ملنسار تھے ۔بچپن میں گھریلو حالات ناسازگار تھے اس لیے اسکولی تعلیم سے محروم رہے ،لیکن چونکہ گھرانے میں دینی ماحول تھا اس وجہ سے ان کے اندر بھی دین سے دلچسپی پیدا ہو گئی، چنانچہ وہ ابتدائی عمر ہی سے دینی مجالس وعلمی حلقوں میں شرکت کرنے لگے اور اس طرح ان کا دینی ذہن بنتا چلا گیا ۔ جب جماعت اسلامی ہندنے ابتدائی مرحلے میں نوجوانوں پر خصوصی توجہ کی تو نوجوانوں کو منظم کرنے کے لیے مختلف مقامات اور ریاستوں کی سطح پر مختلف ناموں سے طلبہ تنظیمیں اور حلقے قائم کیے تھے۔ بعد میں ان مختلف تنظیموں اور حلقوں کو ملاکر ایس آئی او کے نام سے کل ہند تنظیم قائم کی گئی۔ اسی زمانے میں مولاناابو سلیم عبد الحی مرحوم کی مقامی امارت میں نوجوانوں کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو مصباح الدین مرحوم نے اس میں شمولیت اختیار کرلی ۔ اس طرح مرحوم اسلامک یوتھ آرگنائزیشن کے بانی اراکین میں تھے۔ ان کو تنظیم کے صدر اول ہونے کا شرف بھی ملا، ان کی صدارت میں تنظیم بہت فعال رہی کیونکہ وہ خود فعال تھے۔ اس کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کی تحریک بڑے پیمانے پر چلائی گئی اورتنظیم نے خرافات ورسومات کے خاتمہ میں اہم رول نبھایا ۔
خدمت خلق کا صلہ :۔میرا ان سے پہلی بار تعارف اس طرح ہوا کہ میری تین بہنیں جامعۃ الصالحات میں زیر تعلیم تھیں ۔ ان کی وجہ سے رامپور آنا جانا ہوا کرتا تھا۔ مرحوم پیشہ تجارت سے وابستہ تھے اور جامعۃ الصالحات میں کینٹین چلاتے تھے اس طرح رابطہ ہوا۔ اس وقت مرحوم کینٹین والے چچا میاں کے نام سے مشہور تھے۔کینٹین کھولنے کا سبب بھی خدمت خلق کا جذبہ ہی بنا تھا۔ ہوا یہ کہ بقول مولانا انیس الرحمن ندوی، جب جامعة الصالحات کے بورڈنگ ہاوس میں مقیم بچیوں کو ضروریات کی چیزوں کے حصول میں دقت ہونے لگی تو مولانا محمد یوسف اصلاحی ناظم جامعہ نے میرے ہاتھ ایک رقعہ لے کر مصباح الدین صاحب کے گھر بھیجا ۔اگلے دن مصباح الدین صاحب جامعة الصالحات کے دفتر تشریف لائے، ناظم جامعہ سے ملاقات ہوئی ۔ناظم جامعہ نے ان کے سامنے مسئلہ رکھ کر ان سے اس سلسلے میں تعاون کرنے کی گزارش کی۔ مصباح الدین صاحب اس کے لیے تیار ہو گئے۔ تقریباً ایک سال تک ایسا ہوتا رہا کہ بچیاں اپنی ضروریات کا سامان لکھ کر پرچی دے دیتیں اور مصباح صاحب بغیر کسی معاوضہ کے بچیوں کو سامان لا کر دیتے رہے۔ جب کام بہت بڑھ گیا تو جامعہ کے ذمہ داروں نے مصباح صاحب کے سامنے کینٹین کی تجویز رکھی، اس طرح مصباح الدین صاحب کینٹین والے چچا میاں بن گئے۔ میری چھوٹی بہن بتاتی ہیں کہ چچا میاں بڑے نظم وضبط کے ساتھ کینٹن چلاتے تھے وقفہ میں دو قطار لگواتے تھے تاکہ ہڑبونگ نہ ہو اور جو بچی پہلے آئی ہے اس کو پہلے سامان ملے قطاریں بہت لمبی ہو جاتی تھیں۔

رشتہ لگانے کے ماہر:۔ آج کے زمانے میں بچوں کی شادی کرنا ایک مشکل ودشوار مرحلہ ہے۔ کوئی کسی کے بچوں کے رشتہ کے لیے مناسب رہنمائی کرے تو یہ بڑی نیکی کا کام سمجھا جاتا ہے۔ رشتوں کی رہنمائی کرنا بلکہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ایک مشکل کام ہے لیکن مصباح الدین صاحب کے اندر خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا چنانچہ انہوں نے اس خدمت کو از خود قبول کیا اور اس میں ان کو بڑی مہارت بھی حاصل تھی۔ اس کے لیے انہوں نے ایک نوٹ بک بنا رکھی تھی اس میں لوگوں کے لڑکوں و لڑکیوں تفصیلات نوٹ کر لیتے تھے اور جب مناسب رشتہ ملتا تو اسے پکا کرنے کے لیے سرگرم جد وجہد کرتے تھے ۔رشتہ کرانے میں ان کی دلچسپی دین کی وجہ سے ہی تھی۔ وہ جامعة الصالحات میں پڑھنے والی بچیوں کو اپنی بچیوں کی طرح سمجھتے تھے اور ان کے رشتوں کے لیے فکر مند رہتے تھے اور یہ فکر مندی اس لیے ہوتی کہ بچیوں کے رشتے بھی دیندار گھرانوں سے ہوں ورنہ عموماً غیر دیندار گھرانوں میں رشتہ ہونے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ میرے والد صاحب نے بتایا کہ وہ میرے لیے بھی ایک رشتہ کے سلسلے میں میرے گھر تشریف لائے تھے۔

شادیوں میں اسلامی اصولوں کو برتنا: تحریک اسلامی سے رشتہ استوار ہونے کے بعد قرآن مجید ودینی کتب کے گہرائی سے مطالعہ کے نتیجہ میں شعوری ایمان کی لذت سے آشنا ہو گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات کوعملاً برتا ، عموماً شادی کے موقع پر دین دار طبقہ سے بھی کمزوری کا ظہور ہو جاتا ہے ۔مرحوم نے اپنے بچوں کی شادیوں میں اسلامی تعلیمات کو برت کر دکھایا اور بہت ہی سادہ آسان انداز سے شادیاں کیں۔ مرحوم لڑکی والوں کی دعوت طعام بھی قبول نہیں کرتے تھے۔
بچوں کی تربیت:۔ مرحوم نے اپنے بچوں کی تربیت اسلامی نقطہ نظر سے کی۔ وہ بچوں سے محبت کرتے تھے لیکن دین کے معاملہ میں مداہنت نہیں برتتے تھے سختی سے نماز کی پابندی کراتے تھے اور غلط رویہ پر فوراً تنبیہ کر دیتے تھے ۔ مرحوم کے سبھی بچے تحریک سے قریب ہیں ابولکلام ایس آئی او کے ممبر رہے۔ ناظر الدین بھائی مدھر سندیش سنگم میں برسوں سے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں ۔دو بچیاں مومنہ مصباح صالحاتی اور فاطمہ مصباح رکن جماعت ہیں۔مرحوم نے بچوں کی تعلیم کے ساتھ بچیوں کو بھی زیور علم سے آراستہ کرنے پر توجہ دی۔ فاطمہ صاحبہ کہتی ہیں کہ مجھے والد صاحب سائیکل سے اسکول پہنچانے جاتے تھے آٹھویں کلاس کے بعد مضامین کے انتخاب کی بات آئی تو میں آسان مضامین چاہتی تھی مگر ابو نے کہا ’’ آسان کام تو سب ہی کر لیتے ہیں، کمال تو یہ ہے کہ مشکل کام کیا جائے‘‘ ابو کے حوصلہ دلانے سے میں نے سائنس کے مضامین منتخب کیے۔
دینی سرگرمیا ں ـ:۔مرحوم مصباح الدین سنہ 1960 میں باقاعدہ جماعت سے رکن کی حیثیت سے وابستہ ہو گئے تھے ۔ دین سے گہری وشعوری وابستگی انسان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ہے ۔ یہی کچھ مرحوم کے ساتھ ہوا ،جب انہوں نے تحریک کے قافلہ میں شرکت کی توپورے شعور کے ساتھ اقامت دین کی جد وجہد میں سرگرم ہو گئے ۔وہ صرف ذاتی اعمال واشغال کی حد تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ ان کی خواہش تھی کہ رامپور میں اللہ کا دین ہر گھر کو روشن کردے اور اقامت دین کی صدا ہر گھر میں پہنچ جائے۔ دین کا اصل ماخذ قرآن مجید ہے اس امت کی ترقی اور انسانوں کی نجات اس سے وابستگی میں ہے لہٰذا مرحوم نے امت کو قرآن سے جوڑنے کے لیے مختلف محلوں میں ذاتی طور سے درس قرآن کا سلسلہ چلایا۔ ان کی تعداد تقریباً بیس تھی۔ بعد میں پیر سے معذور ہونے کے بعد یہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکا البتہ تین سنٹر رامپور، مراد آباد اور علی گڑھ میں مصباح قرآن سنٹر کے نام سے اب بھی مستقل چل رہے ہیں۔
نظم کی پابندی :۔ مرحوم نظم جماعت کی پابندی کرتے تھے اجتماعات میں پابندی وقت کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔ پیروں کی معذوری کے باوجود ضلعی اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔ مرحوم مجھ سے محبت کرتے اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
علمی کارنامہ:۔ مرحوم نے محسوس کیا کہ لوگ میراث جیسے واضح حکم سے غفلت برتتے ہیں تو انہوں نے اس پر خصوصی مطالعہ اور ذاتی اکتساب و محنت سے تقسیم میراث میں مہارت حاصل کی اور اس کی اشاعت کے لیے خصوصی کوششیں کیں۔ مختلف محلہ میں جاکر بچیوں کو ترکہ کی تقسیم سکھانے کامسلسل کئی سال تک سلسلہ جاری رکھا، محترم کو جب بھی اجتماعات میں تقریر کا موقع دیا جاتا تو میراث ہی کے موضوع پر تقریر کرنا پسند کرتے تھے ۔چیزوں کو زبانی منتقل کرنا قدر آسان ہے لیکن ضبط تحریر میں لانا ذرا مشکل کام ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ مرحوم نے ’’ آسان مسائل میراث ‘‘ نامی صخیم کتاب جو دو سو مسائل، ۳۱۸ صفحات پر مشتمل تحریر کی یہ ۲۰۱۴ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی پھر ایک دوسرا ’’میراث کے مسائل اور ان کا حل‘‘ نامی مختصر کتابچہ شائع کیا ۔ یہ جماعت اسلامی کا طرہ امتیاز ہے کہ اس سے وابستگی کے بعد اس کے کارکنوں کے اندر ایسی صلاحیتیں نشو ونما پاتی ہیں جن کو دیکھ کر ایک عام آدمی یہ تصور کرتا ہے کہ شاید یہ حضرات فارغ التحصیل علم ہیں۔ اللہ جماعت کے اس امتیاز کو باقی رکھے۔ مصباح الدین صاحب ۱۸ مارچ ۲۰۲۱ء کو ۸۶ سال کی عمر میں آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ اللہ نے انہیں پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیوں سے نوازا تھا۔ امید ہے کہ یہ سب اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے کوشش کریں گے تو مصباح الدین صاحب کے لیے ذخیرہ آخرت بنیں گے ۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کی کوششوں کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین۔

 

***

 ان کی خواہش تھی کہ رامپور میں اللہ کا دین ہر گھر کو روشن کردے اور اقامت دین کی صدا ہر گھر میں پہنچ جائے۔ دین کا اصل ماخذ قرآن مجید ہے اس امت کی ترقی اور انسانوں کی نجات اس سے وابستگی میں ہے لہٰذا مرحوم نے امت کو قرآن سے جوڑنے کے لیے مختلف محلوں میں ذاتی طور سے درس قرآن کا سلسلہ چلایا۔ ان کی تعداد تقریباً بیس تھی۔ بعد میں پیر سے معذور ہونے کے بعد یہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکا البتہ تین سنٹر رامپور، مراد آباد اور علی گڑھ میں مصباح قرآن سنٹر کے نام سے اب بھی مستقل چل رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021