مزاح

مہینہ کا آخری ہفتہ

نعیم جاوید،سعودی عرب

مسائل کا بوجھ ۔ منصوبوں کے غبارے
’سُستی‘ مفلسی کی ماں ہے تو کیا’قرض دینے والا ‘سوتیلا باپ ہے جو مقروض لوگوں کو رقیب کے بچوں کی طرح پالتا کم اور کوستا زیادہ ہے،
بلکہ کسی وحشت زدہ مہاوت کی طرح مہنگائی کا آنکس لیے سو سو من ہاتھی جیسے ڈیل ڈول والے کڑیل مردوں کو بھی مار مار کر بھرکس نکال دیتا ہے۔ پھر مہینہ کے آخری ہفتہ میں قرض کا یہی مہاوت سرکس کا رنگ ماسڑ بن کر ہاتھ میں ہنڑ لیے اچھے اچھے شیرِ شور انگیز کو بھی ایک پاوں پر کھڑا کر دیتا ہے۔ یہی بات ہم نے بچت پیشہ اور جزبز معاش لوگوں سے پوچھی کہ زندگی میں آپ کا اور ہفتوں کا کیسا تال میل ہے۔
ایک نے بمبائیہ ٹپوری زبان میں کہا ہفتہ تو بھائی لوگ وصول کرتے ہیں۔ پھر کہا کہ مسائل سے گھبرا کر پہلے ہم بھی سوچتے تھے کہ ’بھائی‘ بن جائیں گے۔ تھوڑی سے کوشش پر پتہ چلا کہ بھائی‘ بہنوئی تو دور۔۔کوئی سالا تک بنانے تیار نہیں ہے۔ ہم نے جتلا جتلا کر کہا کہ صرف آپ ہمیں آخری ہفتہ کا بتائیے لیکن انہوں نے تمام ہفتوں کا لیکھا جوکھا جوڑ جوڑ کر سنایا۔ جیسے کوئی ڈھیٹ افسانہ نگار بے معنی تحریر کو جزئیات سے لاد کر افسانہ قرار دے دے۔ پھر کہا مہینہ کا پہلا ہفتہ مسائل کو لطیفے سنا کر بہلا لیتا ہوں ۔دوسرا ہفتہ جینے کا قرینہ سکھانے کے درپے رہتا ہے کہ اچانک وہی مسائل پھر سے انگڑائیاں لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں انہیں نئے وعدوں سے گدگدا دیتا ہوں۔ تیسرا ہفتہ تازہ ترین آرزوؤں کا ہوتاہے۔
اگر آرزوؤں پر ٹیکس ہوتا تو شاید اسی ہفتہ میرا دیوالیہ نکل جاتا۔ چوتھا ہفتہ تو جیسے مجرموں کی شناخت پریڈ سا ہوتا ہے۔ جہاں بوجھل ہتھکڑیوں کی جگہ فہرست ضروریات‘ پیچھے سے اچانک کسی کا دستِ قہر گردن کو گرفت میں لینے کا دھڑکا ‘ پھر آنکھ لڑجانے کے خدشات کو ٹالنے کے لیے سیاہ چشموں یا آشوبِ چشم کا بہانہ کر کے رات کو بھی اپنی شرمگیں کوری آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ ڈھانکنے میں ٹل جاتا ہے۔
گلی کی نکڑ پر کھڑے ٹریفک پولیس نے ہمیں اپنے دکھی دل کی بات بتائی کہ لوگ جانے کیوں مہینہ کے آخری ہفتے میں اپنی چال چلن تک سیدھی کر لیتے ہیں۔ کوئی طیش میں بھی نہیں لاتا۔ ہر کوئی چلا چلا کر ’’چچا چچا‘‘ کہہ کر ہمارے چالان کی چاہ کو چوپٹ کر دیتا ہے۔ میں چلچلاتی دھوپ میں چپ چاپ اخلاقی چونچلے جتاتا چاوش کی طرح کھڑا رہتا ہوں۔ عوام کی احتیاط پسندی سے دم گھٹ جاتا ہے۔جس کا اثر ہم تمام پولیس والوں کی گرہستی پر پڑتا ہے۔ مہینے کا آخری ہفتہ تو مظلوم شوہر بن کر جینا پڑتا ہے۔ بچوں کو باہر سرکس دکھانے یا گھڑ سواری کروانے کی تمام تفریح ہم پولیس والے گھر میں ہی فراہم کرتے ہیں۔یہ صورت حال کسی بھی نوکر پیشہ فرد کے لیے مستقل سرگرمی ہوتی ہے
اگر یہ سچ ہے کہ’جیت‘ ایک معلومات آفریں اقدام کا نام ہے تو پھر لوگوں کے ہار جانے کا طریقہ واردات اتنا گمبھیر کیوں ہوتا ہے۔
کسی اور ہفتہ زدہ نے کہا کہ آخری ہفتہ کو جیتنے کی دھن میں میں اپنے منصوبوں کے خوش رنگ غباروں میں اڑان بھرتا ہوں نیچے سے اچانک روز مرہ کی وحشی قوت ثقل مجھے میرؔ کی زبان میں آواز دیتی ہے ؎
یوں پکارے ہیں مجھے روز یہ سبزی والے
اِدھر آبے ! ابے ! وہ چاک گریباں والے
اور کبھی پیار سے سمجھا کر کہتے ہیں ؎
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے ’فضائل‘ پر بات کرنی ہے
اور پھر یہ منصوبوں کے غبارے مسائل کا بوجھ دیر تک اور دور تک ڈھو بھی نہیں سکتے بیچ آسمان میں پھٹ پڑتے ہیں۔ ہمارے منہ کے بل گر کر چاروں خانے چت پڑنے کی مبارک گھڑی سے پہلے ہی منصوبوں کے غبارے ہوا ہو چکے ہوتے ہیں اور لوگ ہمارے دھڑام سے گرنے پر حیرت سے پھٹے کپڑوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ خواہ مخواہ آپ نے اپنی خستک پھاڑ لی۔ آئندہ سے منصوبہ بند اڑان بھریے۔۔ یعنی پھر منصوبہ بنائیے، اڑیے اور پھر گریے!۔ میں اوندھے منہ چپ چاپ زمیں پر پڑا چوری چوری مسائل کو دیکھتا ہوں بلکہ کبھی خود سے اٹھ کر اپنے ہی کان پکڑ گھٹنوں میں کہنیاں گھسیڑ مرغا بن کر یا کباب آور مرغی کی طرح چکن فروش کی دکان پر آخری ہفتہ کی پھرکی سے لگے دن اور رات کی سلاخوں پر منہ سے لے کر۔۔۔خیر چھوڑیے۔۔۔پیر تک خود کو لٹکائے عرق عرق ہوتا ہوا چپ پڑا رہتا ہوں۔ دل ہی دل میں جل بھن کر جہاں بھر کو گالیاں دیتا رہتا ہوں۔ اسی طرح کوسنے میں اپنی روشن صبح کو دھواں دھواں شام کر دیتا ہوں۔ آخری ہفتہ زندگی کا خود ایک معتبر حوالہ بلکہ ضمیمہ ہے جس کے حاشیہ میں دوسرے ہفتہ آتے جاتے رہتے ہیں اب تو ہماری گمراہیاں پائے استناد کو پہنچ چکی ہیں۔ آخری ہفتہ کا جگاڑ ہمارے امتیازی اختصاص کی شناخت ہے۔
ایک اور ہفتہ زدہ فرد آفریں نے کہا کہ ہماری زندگی کے جتنے کارِ نادر ہیں وہ آخری ہفتہ میں ہی سر انجام ہوئے ہیں۔ اصلاً تو ہم وہ من موجی خرگوش ہیں جو اپنی ترنگ میں پھدکتے ہوئے شیر وببر کو بھی اس کی کچھار سے کھینچ لائیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ آخری ہفتہ گزار کر مرا پڑا ہو۔
کہتے ہیں کہ ایک ’’اچھی دلیل‘‘ جذبات کی ہاتھوں اتنی ہی مجبور شئے ہے جتنی کی ایک ’’کمزور مرد کی ذات‘‘ جو کسی عیار عورت کے دستِ ہنر میں بے بس ہوتی ہے۔ ہمارے لیے اس مثال کے آئینہ میں آخری ہفتہ عیار عورت اور دلیل کے ہاتھوں ذلیل ہونے والی اس ہفتہ کی ضرورتیں ہیں۔
ایک بار ہمیں ایک پارسا نے راز دارانہ انداز میں کہا کہ شروع کے تین ہفتے رخصت ہوتے ہی تیسرے کی دستک پر ثورِ قیامت کا یقین ہو جاتا ہے ۔میدانِ حشر سا انتشار ذہن ودل پر طاری ہو جاتا ہے ۔بینک کے نکیرین اپنے بہی کھاتوں کے گرز لیے ہم پر پل پڑتے ہیں۔ ایک ایک لمحہ ہزاروں سال پر محیط لگتا ہے۔ قاضی الحاجات کسی روپ ہو اس کی خدائی کا قہر ورنگ ایک جیسا محسوس ہوتا ہے۔ اس آخری ہفتہ میں احتیاط کا یہ عالم رہتا ہے کہ وہ گھر والی کو بھی رغبت کی آنکھ سے نہیں دیکھتے اور پورا ہفتہ قناعت کی الٹی کھاٹ پر ڈھٹائی سے چمٹے ہوئے رقت انگیز لحن میں’’قبر کا کھٹکا‘‘ پڑھ پڑھ کر بیوی پر اور بیوی کو دم کرتے رہتے ہیں۔غربت صلواتیں سناتی ہے۔ حسرتیں طعنہ دیتی ہیں کہ ہائے ہائے تمہارے طیش کو کیا ہوا۔ ان کی بد حواسی تو دیکھو سمجھ داروں کی طرح جی رہے ہیں۔ ارے! مقروض بھی سمجھ دار ہوتا ہے۔ بڑے آگ بنے پھرتے تھے اب خاک بھی نہیں رہے۔ اگر خاک ہی ہونا تھا تو سلیکان وادی کی خاک بنتے۔ پرانا گھورا !!
گھورے کا بھی کبھی نصیب جاگ اٹھتا ہے۔ تم تو وہ بھی نہیں ہو۔ وہ قناعت کا منقا بنے کہتے ہیں بیگم گزرتی عمر سے چہرے پر بڑھتے ہوئے نئے بل ہمارے کردار وحیثیت میں کسی اضافے کے بغیر اصولوں کے کس بل بھی نکال چکے ہیں۔ تمہارے ورغلانے میں آکر جی چاہتا ہے کہ بینک (کی عزت) لوٹ لوں۔ پھر کہاں ایسے میں ذہنی پنڈال میں اپنی نا اہلی اور ذاتی تہمتوں کی کلاہ کج کیے ایک ہارے ہوئے شہنشاہ کی طرح شاہانہ وقارسے داخل ہوتا ہوں۔ بے حسی کا اٹوٹ سہارا مجھے کلیجے سے لگا لیتا ہے۔ رسوائیاں بلائیں لیتی ہیں۔حسرتیں آرتی اتارتی ہیں۔آرزوئیں امام ضامن باندھ کر۔ امید کا ناریل میرے خالی سر پر چٹاخ سے پھوڑتی ہیں۔ پھر مصلحت میرے کانوں میں انگلیاں ٹھوس دیتی ہے۔ کہیں دور اقبالؔ کا مرد مومن super man کی طرح ہواوں میں ٹیڑھا ٹیڑھا اڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
ہم نے ایک غول پسند مرد سے پوچھاکہ آپ کی ’’ماہواری‘‘ الجھن کی پیدا کردہ، ہفتہ واری اتھل پتھل میں آپ کے یار دوستوں کا عمل دخل کتنا رہتا ہے ۔کیا کبھی ان کا دستِ غیب یاان کا دستِ عیب معاون ہوتا ہے۔انہوں نے کہا ’’دوست تو بہاروں کے چڑیوں کی طرح ہوتے ہیں۔خزاں کی آہٹ پر پُھر سے اڑ جاتے ہیں اور ہر موسم کے یار تو ویسے ہی نایاب ہوتے ہیں جیسے چپ چاپ عورت ‘ کامیاب شوہر یا مشترک گھرانوں کے ہنس مکھ افراد۔ اکثر احباب تو پانی کی سطح پر تیرتے بلبلوں بلکہ حبابوں کے سے ہوتے ہیں۔ جب کبھی ہم ان کے وسائل کے وسیع سمندر میں ڈوبنا چاہتے ہیں تو وہ پانی کے بلبلوں جیسے ٹوٹ پھوٹ کے روتے ہیں۔
کریڈٹ کارڈ والوں کا پہلا ہفتہ اور بے اُدھاروں کا آخری ہفتہ ایک جیسا ہوتا ہے ۔کارڈ والے پہلے ہفتہ میں جیب تلاشی یا جھرتی مہم میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف کریڈٹ کارڈ کی گمراہ کن سہولت بلکہ اشتعال انگیز اکساہٹ اور دوسری طرف بینک والے ادھار کھائے بیٹھے رہتے ہیں ان کا انداز یوں ہوتا ہے جیسے چور سے کہے کہ تو چوری کر اور شاہ سے کہے تیرا گھر لٹا۔ ویسے بھی کسی کا ادھار تو ’’چمار کا صدقہ‘‘ ہوتا ہے اور بینک تو وہ بنیا یا ساہوکار ہے جو کسی وحشی باکسر سے کم نہیں ہوتا کیونکہ Banker یا Boxer ایک ہی قماش کے ہوتے ہیں کوئی اپنے حریف کو پہلے راونڈ میں ستائی ‘کٹائی یا دھلائی کرتا ہے اور کوئی آخری راونڈ میں، اور ہم اس نورا کشتی میں اکثر ہار کر ہی جیت جاتے ہیں۔ اسی غم کو غالبؔ جیسا شاہ شناس وسیلہ پرور شاعر نے کچھ یوں کہا تھا ع
میری تنخواہ میں تہائی کا ہو گیا ہے شریک ساہوکار
لیکن گرجاوں سے بڑی بینکوں کی عمارتوں میں چھپے منصوبہ سازوں کی فراہم کردہ مراعات کا کون منکر ہوگا کہ کریڈیٹ کارڈ تو ’’کمر میں توشہ راہ کا بھروسہ‘‘ جیسا بھرم تو رکھتا ہے لیکن اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے ’’سات ماموؤں کا بھانجا ہو کر بھی بھوک بھوک پکارے‘‘ بلکہ آج کل ایسے ماموں کو دیکھ کر اکثر بھانجے بھوت بھوت پکارتے ہیں۔
ہم نے اپنے ایک نئے دوست توپؔ چند سے پوچھا تو کہا ’’آخری ہفتہ تو پوائنٹ آف ٹرن یعنی نقطئہ پیچھے پلٹ ہوتا ہے جہاں زندگی ایسی لگتی ہے جیسے کسی غبی کی پیشن گوئیوں پر یقین کر بیٹھے اور وقت کا سرمایہ تمام غبن ہو گیا۔ شروع شروع کے ہفتے تو غیبتوں کے چاٹ بھنڈار پر تہمتوں کے چٹخارے لیتے ہوئے گزر جاتے ہیں جبکہ وقت اسی دوران ہم جیسے بے کاروں سے بیگار لیتا رہتا ہے۔ ہم اپنے بھوکے ہفتہ کو تاویلات کی کملی میں مست رکھتے ہیں۔ ایسے میں کچالو کا جوشاندہ بھی حریرہ وکھیر نظر آتا ہے‘‘۔ توپؔ چند یہ بھی کہتے ہیں کہ آخری ہفتہ میں قناعت کا پرانا درس پرانے نصاب کی طرح ہوتا ہے۔ منو شاستر پڑھائے جانے والے پاٹھ شالاوں کی طرح۔جبکہ آج کل علم کی دیوی سرسوتی جینس پینٹ پہن کر بلو چِپ کمپنیوں اور اسٹاک مارکٹ کی شاطر بلوائیوں کے پاس ہوتی ہے۔ اس دیوی کا وردان نئے علوم کی آرادھنا و تپسیا کرنے والوں کے لیے یقینی ہو گیا ہے۔ پرانے مکتب ومدارس کی پیدا کردہ ’’بھوک‘‘ میں عصمتؔ بی جس طرح بے ردا تھی اسی طرح آشرموں میں پڑی ساوترؔی بھی بے چادر ہی رہتی ہے۔ اسی مکتب وآشرم کے پرانے مٹکوں کی پرانی شراب کا نشہ ایک ایسے آگاہی کے تکبر میں دھت رکھتا ہے جو نئی علوم کی ترشی سے بھی نہیں اترتا۔ پرانا نصاب نئے زمانہ میں اس غذا کی طرح ہوتا ہے جو تاخیر کے سبب زہر بن جاتا ہے۔ اس لیے منصوبوں کے حیات آفریں نتائج صحیح وقت کے تال میل سے ملتے ہیں ورنہ یہاں بھی آخری ہفتہ کی محرومیاں قومی ترقیوں میں آڑے آتی ہیں۔
ہمارے ایک اور تازہ ترین دوست شوشہؔ خان نے کہاکہ تیسری دنیا کی اقتصادی منصوبہ بندی میں پیش کردہ اعداد وشمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ حکومت اپنے حالیہ منصوبے میں غربت کو قومیا چکی ہے۔ نتیجتاً ہر منصوبہ حماقتوں کا کچا دودھ پیتا بھی ہے پلاتا بھی ہے لیکن چلّا چلّا کر یہ یقین ضرور دلاتا ہے کہ لوگو!۔۔اس بار خوش حال ’’پدمنیؔ تمہیں چماروں میں ملے گی‘‘۔ وقت گزر جاتا ہے ہم چمارؔ ہی رہتے ہیں۔ کسی آنگن میں پدمنیؔ کا جلوہ نظر نہیں آتا۔ پدمنیؔ تو دور کی بات ہے منصوبوں پر وار کر ’’چھوڑے جانے والی صدقے کی بلبل‘‘ بھی نہیں ملتی اور ہم منصوبہ سازوں کی کچی سڑک پر اس اُمید سے چلتے ہیں کہ آگے کہیں ہائی وے ملے گی، لیکن ہر ایک نیا منصوبہ U-turn لے کر مسائل کے چوراہے پر دواری گردش پر ہمیں مشغول کر کے چمپت ہو جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ہمارے ساتھ حکومتیں بھی آخری ہفتہ کا شکار ہیں اور سیاست کار ہمیں غچہ دینے میں نہیں چوکتے۔ اور ہم ہیں کہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر تاریکی نور پر تمام ہوتی ہے۔ یعنی ایک ایسا وقت بھی آئے گا جہاں آخری ہفتہ مہینے کے نصا ب میں شامل نہیں ہوگا اور اس کو بھگتے بغیر وسائل کے گریس نمبروں سے ہم سالم مہینہ جیت جائیں گے۔
0000}=00000÷×+ %={000000
[email protected]

 

***

 کریڈٹ کارڈ والوں کا پہلا ہفتہ اور بے اُدھاروں کا آخری ہفتہ ایک جیسا ہوتا ہے ۔کارڈ والے پہلے ہفتہ میں جیب تلاشی یا جھرتی مہم میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف کریڈٹ کارڈ کی گمراہ کن سہولت بلکہ اشتعال انگیز اکساہٹ اور دوسری طرف بینک والے ادھار کھائے بیٹھے رہتے ہیں ان کا انداز یوں ہوتا ہے جیسے چور سے کہے کہ تو چوری کر اور شاہ سے کہے تیرا گھر لٹا۔ ویسے بھی کسی کا ادھار تو ’’چمار کا صدقہ‘‘ ہوتا ہے اور بینک تو وہ بنیا یا ساہوکار ہے جو کسی وحشی باکسر سے کم نہیں ہوتا کیونکہ Banker یا Boxer ایک ہی قماش کے ہوتے ہیں کوئی اپنے حریف کو پہلے راونڈ میں ستائی ‘کٹائی یا دھلائی کرتا ہے اور کوئی آخری راونڈ میں، اور ہم اس نورا کشتی میں اکثر ہار کر ہی جیت جاتے ہیں


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021