مربی ورہنما ٹی کے عبداللہ کی رحلت

ایک عہد کا خاتمہ۔ ربّ کریم سےنعم البدل کی دعا

محمد مجیب الاعلیٰ

ایسی شخصیات بہت کمیاب ہوتی ہیں جو ماضی و حال کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور آنے والے دنوں کا منظر نامہ پڑھ کر فکری و عملی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت کا نام تھا ٹی کے عبداللہ۔ کیرلا کی مردم خیز سر زمین سے ابھرنے والی اس شخصیت نے تحریک اسلامی ہند کو حقیقت میں اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔ وہ جہاں کلام اقبال کے شارح تھے وہیں علامہ کے اس مصرعہ کو انہوں نے اپنی زندگی کا عنوان بنالیا تھا:
جنّت تری پنہاں ہے ترے خُونِ جگر میں
ٹی کے عبد اللہ صاحب جمعہ 15 اکتوبر کو اپنے آبائی وطن کیرلا کے کوٹیاڈی میں رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ 1959ء میں جماعت اسلامی ہند کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد وہ دو مرتبہ 1972-1979 اور 1982-1984 میں کیرلا کے امیر حلقہ منتخب ہوئے۔ 1975میں ایمرجنسی کے زمانہ میں عبداللہ صاحب کے بشمول جماعت کے کئی رہنماوں کو جیل میں ڈالا گیا تھا۔ 1972 سے تا دمِ حیات وہ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ 1964 میں جب ہفت وار پربھو دانم کا آغاز ہو تو وہ 1995 تک اس کے پہلے چیف ایڈیٹر رہے تھے۔ بعد میں چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے وہ سہ ماہی رسالہ بودھانم سے وابستہ ہو گئے۔ ٹی کے عبداللہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے بانی رکن اور اتحاد علما کیرلا کے رکن عاملہ تھے۔ وہ کیرلا کے مشہور اشاعتی ادارے آئی پی ایچ کی طرف سے شائع ہونے والی انسائیکلو پیڈیا کے مدیر اعلیٰ بھی تھے۔ انہوں نے مولانا مودودی کی مشہور زمانہ تفسیر تفہیم القرآن کی پہلی جلد کا ٹی اسحق علی مولوی کے ساتھ مل کر ترجمہ کیا تھا۔ وہ ملیالم کے ساتھ ساتھ اردو کے ایک نامور مقرر تھے۔ ان کی تقاریر کا ایک مجموعہ ’’سنگ ہائے میل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔
کوزی کوڈ کے مشہور عالم دین ترکنڈی عبدالرحمن مُسلیار اور فاطمہ بی بی کے فرزند ٹی کے عبداللہ کی پیدائش 1929میں ہوئی تھی۔ مرحوم نے وائکاڑ دارالعلوم، ترورنگاڑی جمعہ مسجد، پولیکل مدینہ العلوم، کاسرگوڈ عالیہ عربک کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ پسماندگان میں زوجہ آمنہ، فرزندان ٹی کے ایم اقبال، ٹی کے فاروق، محمد ساجد اور بے شمار تحریکی رفقا ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کو غریق رحمت کرے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب عطا کرے اور تحریک اسلامی کو نعم البدل عطا کرے۔
محترم ٹی کے عبداللہ کی رحلت پر بہت سے احباب نے رنج وغم کے اظہار کے ساتھ تاثرات پیش کیے ہیں جن میں سے چند قارئین کی نذر ہیں۔
فکری و عملی رہنمائی کے انمٹ نقوش
ٹی کے عبداللہ صاحب کے ساتھ میری شناسائی 1988ء سے ہے۔ مجلس نمائندگان اور مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں کے علاوہ بھی ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ فی والواقع ایک علم دوست، بصیرت مند اور دور اندیش انسان تھے۔ انہوں نے نہ صرف ریاست کیرلا میں بلکہ ملک بھر میں اپنی فکری وعملی رہنمائی کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ٹی کے عبداللہ صاحب جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے پانچ دہوں تک رکن رہے جو اپنے آپ میں ایک غیر معمولی بات ہے۔ ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ بہت دور تک سوچتے تھے اور ان کی سوچ روایتی سوچ سے پرے (Out of the Box) ہوا کرتی تھی۔ وہ تحریک کو درپیش چیلنجس سے اچھی طرح واقف تھے۔ پیش آئند خطرات کے بارے میں آگاہ کرتے اور چاہتے تھے کہ تحریک ملک میں تبدیلیوں کے مطابق نئے انداز سے کام کرے۔ ٹی کے عبداللہ صاحب کہا کرتے تھے کہ تحریک کو دور جدید میں رہنمائی کے مقام پر فائز ہونا چاہیے اور اسے ملک میں مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ملک کے معاملات میں عوامی رہنمائی بھی کرنی چاہیے۔ ٹی کے عبداللہ صاحب کی گفتگو کافی مدلل ہوتی تھی اور حسب ضرورت وہ قرآنی آیات کے حوالے ضرور دیتے تھے۔ ان سے ملنے کے بعد ایک طرح کی تحریکیت اور توانائی کا احساس ہوتا تھا۔ علالت نے اگر چہ انہیں کمزور کر دیا تھا لیکن فکری وذہنی طور پر آخری وقت تک وہ توانا تھے۔
انجینئر محمد سلیم، نائب امیر جماعت اسلامی ہند
سایہ سے محرومی کا احساس
ابا جان 92 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کا سایہ طویل ضرور رہا مگر پھر بھی یتیمی محسوس ہوتی ہے کیونکہ ہر چھوٹی بڑی بات میں وہ رائے مشورہ دیتے تھے اور اسی کے مطابق ہم چلتے تھے۔ یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم اپنے گھر واپس جائیں گے تو ہمارے والد موجود نہیں ہوں گے۔
ٹی کے محمد اقبال (فرزند ٹی کے عبداللہ مرحوم)
وہ قرآن وسنّت کے شناور تھے
ٹی کے عبداللہ صاحب بنی نوع انسان کے اتحاد وباہمی محبت کے زبردست قائل تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تحریک اسلامی کے کسی قول و فعل سے کوئی انسان نفرت محسوس نہ کرے چاہے وہ مسلمان ہو یا برادران وطن۔ جن کا خواب تھا کہ پسماندہ طبقات اور اقلیتیں ترقی کریں اور ایک فرد بھی بھوکا پیاسا نہ رہے۔ کیرلا میں تحریک اسلامی کے سابقین میں وہ آخری کڑی تھے۔ آخری دم تک ان کی سوچ کا محور جماعت اسلامی ہی رہی۔ طلبہ تنظیم کی قیادت سے لے کر آخری سانس تک وہ ہمارے لیے سہارا تھے۔ ان کے بعد ہم یتیمی محسوس کرتے ہیں۔ خاکساری اور اطاعتِ امر جیسی خوبیوں سے انہوں نے کئی مرتبہ ہمیں متعجب کیا ہے۔ وہ خود بھی قرآن وسنت کی گہرائیوں میں غوطہ زن رہتے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دیا کرتے۔
ایم آئی عبدالعزیز ، امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند حلقہ کیرلا
نئی نسل نے ان کی تربیت سے فیض اٹھایا
ٹی کے عبداللہ صاحب ایک نظریاتی اور جہاں دیدہ شخص تھے۔ ان کے مزاج میں تحریکیت تھی۔ ان کی تربیت و رہنمائی سے نئی نسل کی ایک بڑی تعداد نے فائدہ اٹھایا۔ کئی فلاحی اداروں کو انہوں نے اپنے قیمتوں مشوروں سے آگے بڑھایا ہے۔ آج سے بیس سال قبل جب گلوبلائزیشن پر تول رہا تھا تو انہوں نے آنے والے دنوں میں عالم گیریت کے اثرات کے بارے میں جو باتیں کہی تھیں وہ اب من و عن پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
معظم نائک ،جنرل سکریٹری ہیومن ویلفیر فاونڈیشن
ان کی باتیں بھولی نہیں جا سکتیں
اسٹیج پر چار دہوں سے گونجنے والی ایک پروقار آواز خاموش ہو گئی۔ تقریر اگر ایک فن ہے تو ٹی کے صاحب اس کے فنکار تھے۔ ان کی ظرافت بھری تقریریں سامعین کو گدگدانے کے ساتھ فکر مند بھی بناتی تھیں۔ 1982میں دعوت نگر ملّاپورم میں ان کی تقریر کو کوئی بھول نہیں سکتا جب ڈیڑھ لاکھ سامعین کے سامنے انہوں نے کہا ’’مہاتما گاندھی پر رچرڈ ایٹن برا نے فلم بنائی لیکن گاندھی کا رول ادا کرنے کے لیے انہیں ہمارے ملک سے کوئی فنکار نہ ملا اور برطانیہ سے بین کنگس لی کو لانا پڑا۔‘‘ کوویڈ اور لاک ڈاون سے قبل ٹی کے صاحب مرکز حلقہ حرا سنٹر میں ہر ہفتہ آیا کرتے تھے۔ خاکسار سے رد قادیانیت، اردو ادب و شاعری خصوصاً فلسفہ اقبال، کلام فیض وغیرہ پر گفتگو کرتے تھے۔
پی پی عبدالرحمن کوڈینور، کیرلا
’’مجھے تو کسی مجدد کی تلاش ہے‘‘
راقم الحروف کو ۸ سال جامعہ اسلامیہ شانتا پورم کیرلا رہنے کا موقعہ ملا۔ اس عرصہ میں مرحوم ٹی کے عبد اللہ صاحب سے بار بار ملنے اور گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ وہ جب بھی شانتا پورم تشریف لاتے، ہمیں اس کی اطلاع بھجواتے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے۔ وہ ہر بار اپنے ساتھ کچھ سوالات لے کر آتے، یہ سوالات عام طور سے قرآن وحدیث یا سیرت رسول ﷺ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور طویل علمی مذاکرے کا موضوع بن جاتے۔
ٹی کے عبد اللہ صاحب بہت ہی خوش ذوق اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔ وہ ہنسی ہنسی میں بڑے کام کی باتیں کہہ جاتے تھے۔ وہ تحریک اسلامی سے بڑا جذباتی لگاؤ رکھتے تھے اور برابر اس کی ترقی اور کامیابی کے منصوبے بنایا کرتے تھے۔ایک بار کا واقعہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کی نئی میقات شروع ہونے والی تھی اور نئی میقات کے لیے نئے امیر کا انتخاب ہونا تھا۔ کچھ ارکان جماعت ان کے گھر پر جا کر ان سے ملے اور ان کا عندیہ معلوم کرنا چاہا کہ اس بار وہ کس کو امیر بنانا پسند کریں گے؟ بے ساختہ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا، آپ لوگوں کو نئے امیر کی تلاش ہے، مجھے تو کسی مجدد کی تلاش ہے۔
رب کریم رحیم سے دعا ہے کہ وہ انہیں اپنی خوشیوں کے تاج پہنائے، اور صالحین اور صدیقین کی معیت نصیب فرمائے۔
محمد عنایت اللہ سبحانی، سابق ڈین فیکلٹی آف قرآن، جامعہ اسلامیہ شانتا پورم
وہ تاحیات ملک و ملت کی خیرخواہی کرتے ہوئے
جناب ٹی کے عبداللہ کا انتقال ملک وملت بالخصوص ریاست کیرلا کے لیے عظیم نقصان ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ اپنے وقت کے ممتاز دانشور و مفکر تھے۔ ہم عصروں کے درمیان اپنی مجتہدانہ فکر کی وجہ سے ان کا ایک الگ مقام تھا۔ ان کی شخصیت جدیدیت پسندی اور روحانیت کا حسین امتزاج تھی۔ ان کی گفتگو اس قدر مدلل اور جچی تلی ہوتی تھی کہ وہ سامعین کو اپنے سحر میں باندھ لیتے تھے۔
جب مجلسوں میں بولتے تو ہر طرف خاموشی ہوتی اور مجمع ہمہ تن گوش ہوتا۔ وہ تحریک اسلامی کے صف اول کے قائد تھے جو تا حیات اپنی بصیرت کی کرنوں سے ملک وملّت کی خیرخواہی کرتے رہے۔ ملک کے ساتھ ساتھ عالمی حالات بالخصوص مسلم دنیا پر ان کی خاص نظر تھی۔ جماعت اسلامی ہند سے ان کی وابستگی فنائیت کی حد تک تھی۔ مطالعہ کا گہرا ذوق اور ادب سے خاص لگاو تھا۔ ان کی کوئی تقریر اور گفتگو علامہ اقبال کےاشعار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ وہ اکثر علامہ کا یہ شعر پڑھا کرتے
جہانِ نَو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پِیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مُقامِروں نے بنا دیا ہے قِمار خانہ
ملک معتصم خان۔ نیشنل سکریٹری جماعت اسلامی ہند
تفقہ فی الدین اور حالات حاضرہ پر نگاہ مجتہدانہ
ٹی کے عبداللہ صاحب واقعی ایک زندہ دل آدمی تھے۔ باغ و بہار اور خوش مزاج طبیعت پائی تھی۔ محفل ان کی موجودگی سے کبھی قہقہہ زار کی حد تک کشت زعفران ہو جاتی تھی۔ اس میں کھوکھلا مزاح اور ہلکی لطیفہ گوئی نہیں ہوتی بلکہ ان کی ذہانت اور فطانت کا کمال ہوتا تھا۔ ان کے ذہن کی توانائی اور زرخیز گفتگو سے ذہن میں ایک طرح کی گدگداہٹ پیدا ہوتی تھی۔ ان کے خندہ آور خیالات ہی تھے اور ان کے اظہار میں تخلیقی اسلوب کا جمال ہی تھا کہ گفتگو میں ایسی چاشنی، چمک اور خوشبو پیدا ہوجاتی تھی گویا ان کے ساتھ بیٹھنا، بات کرنا، ایک علمی وفطری گاہ میں سیر کرنا تھا۔ اکثر علمی اور قد آور شخصیتیں روکھی سوکھی اور خار دار ہو جاتی ہیں لیکن میں نے ٹی کے عبداللہ صاحب کو کبھی بھی روکھا پھیکا نہیں دیکھا۔اس میقات کی پہلی شوریٰ کے اجلاس میں آتے ہی انہوں نے اپنی موجودگی کی خوشبو کا احساس سبھوں کو دلایا جب ہر رکن شوریٰ کے لیے مشک عطر کی ایک شیشی تحفے میں پیش کی۔ بڑے نفیس اور باذوق آدمی تھے۔ احباب کی قدر شناسی کا ہنر جانتے تھے۔
تفقہ فی الدین اور حالات حاضرہ پر ان کی نگاہ مجتہدانہ تھی۔ ان کی گفتگو اوریجنل ہوتی تھی کوئی مستعار لی ہوئی بات ان سے میں نے نہیں سنی۔ جب بھی کہتے اپنی بصیرت سے کہتے تھے۔ مانگے کا اجالا ان کے پاس نہیں تھا۔ بصیرت کا اظہار اور اسلوب بھی ان کا اپنا تھا۔ علمی گفتگو کو بھی کبھی ملیالی لہجے کے ساتھ نکتہ آفرینی کے ذریعہ پر مسرت اور پر مزاح بنا دیتے تھے۔ ذہانت اور ظرافت ان کی طبعیت کا لازمی جز تھا۔ یہ صفت اللہ اسی کو دیتا ہے جس میں غایت درجہ اخلاص ہوتا ہے۔ تنگ دل آدمی کو یہ عطیہ خداوندی نصیب نہیں ہوتا۔ وہ با ذوق قاری ہی نہیں بلکہ علم وادب کے رسیا تھے بلکہ شناور تھے۔ اچھا علمی و تحقیقی کام انہوں نے ملیالی زبان وادب میں کیا۔ مولانا مودودیؒ کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے بھی وہ گرویدہ تھے۔
دستور جماعت اسلامی ہند کا انہوں نے ملیالی زبان میں ترجمہ ہی نہیں کیا تھا بلکہ عمل سے پوری زندگی تحریک اسلامی کی سعی اور مکمل ترجمانی بھی کرتے رہے۔ ان کے اٹھ جانے سے احساس ہوتا ہے کہ ملیالی حلقہ آج ایک اوریجنل دماغ اور معتبر ترجمان سے محروم ہو گیا، بلکہ اسی کے ساتھ پورا تحریکی حلقہ بھی۔
حسن رضا، اسلامی اکیڈمی، دلی۔
صحافت کو بھی بہت کچھ دیا
ٹی کے عبداللہ صاحب کی ۷۰ سالہ تحریکی زندگی تحریک اسلامی کیرلا اور بیرون کیرلا مختلف جہتوں کا آئینہ تھی۔ ان کے تحریکی سفر کا آغاز سرکوڈ عالیہ کالج میں طالب علمی کے زمانے سے ہاوتا ہے۔ وہ ایک بہترین مقرر تھے۔ کم سے کم ایک گھنٹہ اور کبھی انہوں نے چار گھنٹوں تک بھی تقریر کی۔ مگر زور بیان ایسا ہوتا تھا کہ کوئی بھی مجلس چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا۔ تقریر کا موضوع چاہے الحاد ہو یا مارکسزم وہ سامعین کو موضوع کی گہرائیوں تک لے جاتے تھے۔ تمام جماعتوں کے قائدین کے جماعتوں سے ان کے اچھے روابط تھے۔ ملیالم کی طرح ان کی اردو تقریریں بھی جوش سے بھری ہوتی تھیں۔ انہوں نے صحافت کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ غلطیوں کی اصلاح کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے۔ پیشہ صحافت میں نئی نسل کی آمد پر وہ خوشی کا اظہار کرتے تھے۔
او عبدالرحمن۔ گروپ ایڈیٹر روزنامہ مادھیمم و میڈیا ون چیانل
جدت اور روحانیت کا حسین امتزاج
مرحوم ٹی کے عبداللہ کے ساتھ برسوں تک میری رفاقت رہی ہے۔ محروم نہایت بذلہ سنج، ہنسنے ہنسانے اور گھل مل جانے والی شخصیت کے مالک تھے۔ شانتا پورم میں ایک مرتبہ علامہ اقبال کے موضوع پر سیمینار میں ٹی کے عبداللہ صاحب کو مدعو کیا گیا تھا جس میں بحیثیت مہمان خصوصی الہ آباد سے تعلق رکھنے والے پروفیسر عطا اللہ خان سنجیری بھی شریک تھے جو سری شنکر اچاریہ یونیورسٹی آف سنسکرت کے صدر شعبہ اردو ہیں۔ مرحوم ٹی کے عبداللہ نے جب اقبالیات پر اپنی گفتگو پیش کی تو پروفیسر عطا اللہ خان دنگ رہ گئے اور انہوں نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ اقبال اور ان کے کلام پر اتنے گہرے خیالات انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنے وہ بھی ملیالم زبان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی زبان سے۔
ڈاکٹر ضیاالرحمن مدنی، صدر شعبہ اردو جامعہ اسلامیہ شانتا پورم، کیرالا
***

 

***

 تب و تاب جاودانہ
سید سعادت اللہ حسینی
کسی کی رحلت پر یہ کہنا کہ ایک عہد کاخاتمہ ہوگیا اب بہت عام بات ہوگئی ہےلیکن آج واقعتاً ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ٹی کے عبد اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ بلامبالغہ ایک عہد وابستہ تھا۔ ٹی کے عبد اللہ ۔۔یہ ایک جلیل القدر، جامع صفات، باکمال شخصیت ہی کا نام نہیں تھا بلکہ ایک تحریک کا نام تھا۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ان کی کارگہ فکر،عہد سازخیالات کی تخلیق کا مرکز تھی تو ان کی باغ وبہار شخصیت افراد کی ٹکسال تھی۔ ان کی بے چین طبیعت اور تب و تاب جاودانہ نے بلامبالغہ ہزاروں نوجوانوں کو زندگی کی حقیقی حرارت و توانائی سے آشنا کیا تو ان کی تازہ دم اور حرکت پذیر فکر نے تحریکی فکر کے پودے کو سر سبز و شاداب رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ میرے لیے ذاتی طور پر ایک بڑا سانحہ ہے۔ میری زندگی کے متعدد گوشوں نے ان کی ہمہ پہلو شخصیت کے اثرات قبول کیے ہیں، اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ایک لمبے عرصے تک مختلف حوالوں سے میں گویا ان کا شاگرد رہا ہوں۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے آمین۔
مرحوم ٹی کے عبد اللہ، 1972سے ، یعنی میری پیدائش سے بھی کافی پہلے سے، مسلسل جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے لیے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق، جماعت اسلامی ہند میں کوئی اور فرد اتنے لمبے عرصے تک مرکزی مجلس شوریٰ میں نہیں رہا۔ وہ عربی، اردو، ملیالم زبانوں کے ماہر، ایک بلند پایہ ادیب، محقق، مصنف، مترجم ، مفسر اور نقاد بھی تھے اور ایک مقبول ، سحر انگیزعوامی مقرر بھی تھے۔ایک اچھے استادو مربی بھی تھے اور ایک بہترین مدبر، مشیر اور منصوبہ ساز بھی۔ ان کی محفل میں جہاں ان کے وسیع علم، عبقری ذہانت اور طویل تجربے کا وقار سایہ فگن رہتا وہیں ان کی بذلہ سنجی ، حاضر جوابی، شگفتہ مزاجی، اور نکتہ رسی کے پر لطف اور عطر بیز جھونکے شرکاء کو باندھ کر رکھتے۔ اُن کی ایک بڑی خصوصیت ان کا نہایت زر خیز ذہن تھا جس کی زر خیزی عمر کے اُس آخری حصے میں بھی اپنے تمام کمالات کے ساتھ برقرار تھی جب کہ اُن کے کانوں نے اور دیگر اعضاءنے جواب دے دیا تھا۔
مرحوم سے میرا پہلا تعارف ۱۹۹۲ میں ایس آئی او کے ایک تربیتی پروگرام میں ہوا۔ اس وقت میں اٹھارہ انیس سال کا نو عمر اور تحریک میں نووارد تھا۔ بعد میں جب میں صدر حلقہ مہاراشٹر بنا تو ہم نے ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی تھی۔ دو دن تک صرف ان کو سننے کے لیے جمع ہوئے تھے۔جماعت کے ماحول میں عام طور پر جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان سے ان کی باتیں مختلف اور چونکانے والی تھیں۔ ان میں بڑی تازگی محسوس ہوتی تھی۔ وہ جماعت کی کمزوریوں پر بھی بلاتکلف تنقید کرتے۔ مولانا مودودیؒ سمیت تحریک کے بڑے مفکرین کے بعض خیالات سے بھی برملا اظہار اختلاف کرتے۔ نئے مسائل پر غور و فکر کے ایسے پہلو سامنے لاتے جو بالکل نئے اور اچھوتے ہوتے۔ نوجوانوں سے بالکل برابری کی سطح پر بے تکلف گفتگوکرتے۔ ان کی عالمانہ اور اجتہادی شان کا یہ پہلا خوشگوار تاثر تھا۔
بعد میں ان سےکثرت سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پھر 2007میں جب میں مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تو ان کے ساتھ مسلسل ساتھ رہنے اور ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وقفہ طویل ہوجاتا تو وہ خود یاد فرماتے اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔ تحریکی و جماعتی امور و مسائل سے لے کر ، معاصر افکار و نظریات تک، ملکی و عالمی سیاست و معیشت سے لے کر فقہ، تصوف اور ادب و شاعری تک، مختلف موضوعات پر وہ نہایت بے تکلفی سے بات کرتے۔ گفتگو کا انداز ایسا ہوتا کہ احساس ہی نہیں رہتا کہ ہم اپنے کسی ہم عمر سے نہیں بلکہ تحریک کی ایک بزرگ ترین شخصیت سے بات کررہے ہیں۔ اس مہینے بھی انہوں نے متعدد ذرائع سے پیغام بھیجا کہ وہ جلد سے جلد ملنا چاہتے ہیں ۔ میں نے اگلے مہینے یعنی نومبر کا پروگرام بنالیا تھا لیکن افسوس کہ یہ ملاقات ممکن نہیں ہوسکی اور انہوں نے اپنا عرصہ حیات مکمل کرلیا۔
ٹی کے صاحب مرحوم، مالابار کے ایک معزز علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد علاقے کے ایک بڑے عالم دین اور مذہبی پیشوا تھے۔ کیرلا کے مختلف مدارس سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے والد کی جانشینی کے لیے تیار ہوہی رہے تھے کہ اس دوران ترجمان القرآن اور مولانا مودودیؒ کی کتابوں کا انہوں نے مطالعہ کیااور جلد ہی جماعت سے وابستہ ہوگئے۔ جماعت کے رسالے پربودھنم کے اور پھر علمی مجلے بودھنم کے ایڈیٹر مقررہوئے۔ امیر حلقہ رہے۔ مجلس نمائندگان اور پھر مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئے اور مختلف میدانوں میں جماعت کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
ٹی کے صاحب، کوقرآن مجید، احادیث، کلاسیکی اسلامی لٹریچر اور عربی شاعری پر انہیں غیر معمولی دسترس تھی۔ گفتگو کے دوران اپنی باتوں کو عربی اشعار سے مدلل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان سب کے ساتھ جدید علوم و نظریات سے بھی واقف رہتے۔ مغربی مصنفین کے تازہ ترین افکار سے باخبر رہتے اور ان کے مناسب اسلامی ریسپانس پر ہمیشہ غور و فکر فرماتے۔دو دہے قبل جب گلو بلائزیشن کا زور تھا تو ان سے گھنٹوں اس موضوع پر بات ہوتی۔ گفتگو میں کسی اہم کتاب کا ذکر آجاتا تو اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے بے چین ہوجاتے۔ میں نے حیدرآباد سے بھی انہیں کتابیں اور مضامین روانہ کیے ہیں۔ اس کے بعد اسی طرح کی گہری گفتگو ان سے پوسٹ ماڈرن ازم پر، پھر پلیورزم پر ہوتی رہی۔ حالیہ دنوں میں آئیڈینٹیٹی پالیٹکس کا گہرا علمی تجزیہ، ان کی دلچسپی کا موضوع تھا۔ وسیع علم، عربی و اردو شاعری اور ان کے ساتھ ملیالی ادب کی مخصوص حس مزاح اور الفاظ سے کھیلنے کی مخصوص ملیالی و تمل روایت، ان سب باتوں کے خوبصورت امتزاج سے ان کی گفتگو میں ایک انوکھی کشش پیدا ہوگئی تھی۔ تقریر کرتے تو گھنٹوں، مجمع کو مبہوت و مسحور کیے رہتے۔ ان کی کئی کئی گھنٹوں کی عوامی تقریریں بھی ہم نے سنی ہیں۔زبان سمجھے بغیر بھی ان کی رواں دواں تقریر ہم بے زبانوں کے لیے بھی لطف کا باعث ہوتی۔ فرماتے کہ انگریزی ڈائیلاگ کی زبان ہے، اس میں تقریر ممکن نہیں۔ اسی طرح اردو غزل کی زبان ہے۔ تقریر و خطابت کی زبان تو ملیالم ہے۔۔ان کی تقریر سن کر تو یہ بات واقعی درست محسوس ہوتی۔
علامہ اقبال کی رحلت پر ایک شاعر نے کہا تھا
سازِ مشرق میں سمو دی نغمئہ مغرب کی لے
تونے بھر دی نئے پیالوں میں صہبائے کہن
یہی معاملہ ٹی کے صاحب نے کیرلا اور اردو ریاستوں کے درمیان کیا۔ یہ مرحوم کا ایک بڑا اہم کنٹری بیوشن ہے کہ انہوں نے کیرلا کی بے چینی و اضطراب اور حرکت و عمل کی روح، اردو ریاستوں میں منتقل کرنے کی کوشش کی اور کیرلا کے حوصلہ مند کارکنوں کو تحریک کی اساسی فکر گھول کر پلائی اور ان کی حرکیت کا رشتہ ، مناسب و متوازن فکر سے قائم کیا۔ زندگی بھر وہ انہی دو مقاصد کے لیے لڑتے رہے۔ اردو حلقوں کے عملی و فکری جمود کے شاکی رہے تو ملیالی حلقوں کے فکری و نظریاتی استقلال کے حوالے سے فکر مند رہے۔ وہ دلّی آتے تو تبدیلی اور اجتہاد فکر کے داعی بلکہ اُس کا استعارہ بن جاتے اور کالی کٹ لوٹتے تو تحریک کے اساسی فکر کےسخت گیر محافظ بن جاتے۔ وہ کہتے بھی تھے کہ دلی میں مجھے ریفارمسٹ سمجھا جاتا ہے اور کیرلا میں فنڈامنٹلسٹ۔
ٹی کے صاحب مرحوم کا خیال تھا کہ مولانا مودودیؒ نے جس طرح اپنے زمانے میں حاکمیتِ الہ کو اپنی کوششوں کا محور و مرکز بنایا، اسی طرح موجودہ دور میں اللہ کی مالکیت کو موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی کے زمانے کا اصل طاغوت مغربی سیکولر نیشن اسٹیٹ تھا اور آج کا اصل طاغوت سرمایہ دارانہ استعمار ہے، جس نے سارے وسائلِ حیات پر قبضہ کرکے انسانوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ وہ یہ بات بار بار مختلف پیرایوں میں بیان کرتے۔ خطابات میں بھی یہ ان کا اہم موضوع رہتا اور مرکزی مجلس شوریٰ جیسی مجالس میں بھی۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہندوستان جیسے ملک میں امت مسلمہ کا تحفظ جماعت کی اصل ترجیح ہونی چاہیے۔ چند سال پہلے انہوں نے مرکزی مجلس شوریٰ میں ایک تفصیلی مقالہ پڑھا تھا جس میں بعض اہم اور بنیادی تبدیلیوں کی سفارش تھی۔ اس پر ان کے اصرار پر مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک خصوصی اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔ ان کی تمام باتوں سے تو ہم متفق نہیں ہوسکے لیکن اس اجلاس میں عمر کے اس پڑاو پر بھی ان کی علمی و فکری تازگی کا جو مظاہرہ ہوا تھا، اس کی یادیں ہمیشہ انسپائر کرتی رہیں گی۔
مدتوں کرتی ہے گردش ،جستجو میں کائنات
تب کہیں ملتا ہے ایسا محرمِ رازِ حیات


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021