محسن بھوپالی : اردو کی نئیصنف سخن ’نظمانے‘ کے موجد

معاشرے کے گہرے مطالعہ سے اٹھا تھا شاعری کا خمیر

ابوالحسن علی بھٹکلی

شمالی ہند میں اردو کے کچھ ایسے شعرا پیدا ہوئے جنہوں نے اردو شاعری میں کمال حاصل کیا۔ہمارے سامنے ایسے کئی شعرا ہیں جن کے اشعار نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ بسا اوقات ضرب المثل بن گئے۔
سر دست ہم اردو کے ممتاز شاعر عبدالرحمن عرف محسن بھوپالی کا ذکر کرنا چاہیں گے جنہوں نے اپنی شاعری اور تخلیقی صلاحیتوں سے اردو شاعری میں بیش قیمت اضافہ کیا۔ محسن بھوپالی 29 ستمبر 1932 کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حبیبیہ مڈل اسکول اور الیگزینڈرا ہائی اسکول بھوپال سے حاصل کی۔ اپنے دادا کے کتب خانے سے خوب اکتساب فیض کیا۔ جب تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا تو ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان کے شہر لاڑکانہ منتقل ہوا۔ افراد خاندان کے ساتھ محسن بھوپالی بھی وہیں منتقل ہو گئے لیکن تاریخ نگاروں کے بقول وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ پیشے کے لحاظ سے محسن بھوپالی انجینئر تھے اور سندھ حکومت میں ایگزیکٹو انجینئر کے عہدےپر فائز تھے اور ریٹائر ہونے تک یہیں رہے ۔1948 کے آس پاس محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز کیا اور کم وبیش ساٹھ سال میدان ادب میں سرگرم رہے۔ محسن بھوپالی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک نئی صنف سخن’ نظمانے‘ کے بھی موجد تھے۔
ان کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کر چکے تھے ۔خصوصاً ان کا یہ قطعہ تو ان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں اسے سنانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔
تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ معاشرتی اور سیاسی حالات ان کی شاعری کے عمومی موضوعات ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں نت نئے تجربے کیے جو کامیاب سمجھے گئے۔ ان کی شہرت کی وجہ بہرحال شاعری ہی رہی، وہ دس کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’شکست شب‘‘ 1961 میں منظر عام پر آیا، جبکہ دوسرا مجموعہ ’’گرد مسافت‘‘ پھر اس کے بعد ’’جستہ جستہ‘‘، ’’نظمانے‘‘ اور ’’ماجرا‘‘ ’قومی یک جہتی میں ادب کا کردار‘، ’حیرتوں کی سرزمین‘ ’ مجموعہ سخن‘ ’موضوعاتی نظمیں‘ ’روشنی تو دیے کے اندر ہے‘ ’جاپان کے چار عظیم شاعر‘ ’شہر آشوب‘ ’کراچی اور نقد سخن‘ وغیرہ شائع ہوئے اور کافی مقبول بھی ہوئے۔ محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور جاپانی صنفِ سخن ’’ہائیکو ‘‘میں بھی طبع آزمائی کی۔
محسن بھوپالی کے اس قطعے کو خوب شہرت حاصل ہوئی
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہم مصلحتِ وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے
1961 میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اردو میں لکھی جانے والی کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کیے گئے تھے۔
سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ 1988 میں محسن کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا، اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری پیش آئی لیکن اس کے باوجود وہ مشاعروں میں باقاعدہ شرکت کرتے رہے۔ انہوں نے 17 جنوری 2007 کو نمونیا کی وجہ سے کراچی میں وفات پائی۔
ان کی ایک غزل پیش ہے:
چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی،ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے، مصنوعی مجبوری
مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
ہم نے ساری عمر نبھائی اپنی پہلی مجبوری
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021