ماحولیات پر توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کےمضر اثرات
کرہ ارض پر کاربن کا بے تحاشہ اخراج زندگی کے لیے خطرہ۔ توانائی کے غیرروایتی ذرائع پر انحصار بڑھانے کی ضرورت
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
انسانی سماج جس تیزی کے ساتھ ترقی کرتا جا رہا ہے اسی تیزی کے ساتھ توانائی کے استعمال میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ توانائی پر انحصار اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی محال ہو گیا ہے۔ توانائی کا استعمال ہماری معیشت کا ایک جزو لاینفک بن چکا ہے، معاشی ودیگر سرگرمیوں کا دار ومدار اسی پر ہے، چاہے وہ کھیتی باڑی ہو، گھریلو صنعتیں ہوں یا بھاری صنعتیں ہوں، ان تمام کے لیے ہم توانائی پر ہی منحصر ہو چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری طرزِ زندگی بھی زیادہ سے زیادہ توانائی کے استعمال والی بن چکی ہے۔ ایک دور تھا جب ہمارے آبا واجداد برقی پنکھے کے بغیر ہی زندگی بسر کرتے تھے لیکن آج ہمارے لیے اے سی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔
دور حاضر میں جس قدر الکٹرانک اشیاء کا استعمال ہو رہا ہے سابق میں کبھی نہیں ہوا۔ آج ہر گھر میں ایک سے زائد موبائل فونوں کے علاوہ ریفریجریٹر، ٹی وی، واشنگ مشین تو ضرور ملیں گے ہی اس کے علاوہ اور نہ جانے کیا کیا الکٹرانک اشیاء موجود ہوں گے۔ گویا کہ ہماری پوری زندگی الکٹرانک اشیاء کے گرد گھوم رہی ہے۔ پھر اسی طرح جس قدر الکٹرانک اشیاء کا استعمال بڑھا ہے اسی قدر اس کی صنعتیں بھی بڑھی ہیں جس کی وجہ سے توانائی کے طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ جس قدر معاشی سرگرمیوں کا اضافہ ہو گا اسی قدر توانائی کے استعمال میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے رہے ہیں مثلا کوئلہ، پانی، ہوا، مختلف گیسیں اور جوہری توانائی وغیرہ۔ ان میں پانی اور ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی ہی روایتی توانائی کہلاتی ہے اور اس کی پیداوار بہت ہی کم پیمانے پر ہوتی ہے، اس کے مقابلے میں کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کا استعمال حد سے زیادہ ہے۔
اسی کی وجہ سے کرہ ارض پر کاربن کا اخراج زیادہ بڑھ گیا ہے جو انسانی زندگی کے لیے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ کاربن کے اخراج کی وجہ سے ہمارے ماحول کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کاربن کے اخراج نے ہمارے ماحولیاتی نظام کو ایک طرح سے تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ کرہ ارض کے درجے حرارت کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے لیکن اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اسی کوشش کا ایک نتیجہ نیوکلیائی توانائی کی شکل میں نکل کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ یہ توانائی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک نیوکلیئر فیشن اور دوسری نیوکلیئر فیوژن۔ نیوکلیئر فیشن میں جوہر کو الگ کر کے اس کی ریزہ کاری سے توانائی پیدا کی جاتی ہے اور دوسرے طریقے میں دو جوہروں ملا کر توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ اس کی آسان مثال شمسی توانائی سے لی جا سکتی ہے۔ سورج میں ہونے والی حرکات کو فیوژن توانائی کہا جاتا ہے۔ سورج میں یہ توانائی قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہے اور یہ حرارت و توانائی نہ صرف کرہ ارض کو بلکہ دیگر سیاروں کو بھی پہنچ رہی ہے۔ یعنی ایک اکیلا سورج سارے نظام سمشی کو توانائی پہنچانے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ غور کریں کہ کس درجے کی آگ سورج میں ہو گی جس سے وہ اتنی حرارت و توانائی پیدا کر رہا ہے۔ سورج کی تپش ایک کروڑ پچاس لاکھ سنٹی گریڈ ہوتی ہے جو مستقل جلنے سے پیدا ہو رہی ہے۔ اس درجہ حرارت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم پانی کو سو ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کرتے ہیں تو وہ بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے سوچا کہ کیا ہم اس طرح کا عمل جو سورج پر ہوتا ہے زمین پر کر سکتے ہیں؟ سورج میں جس طرح کا نظام کار فرما ہے اسی کے مثل ہم بھی ایک سورج زمین پر بنائیں گے اور اس سے توانائی پیدا کریں گے۔ یعنی نیوکلیئر فیوژن توانائی۔ اس طرح کی توانائی پیدا کرنے کی کوششیں کافی عرصے سے لگاتار جاری ہیں۔ اسی کوشش میں کئی ممالک نے مصنوعی سورج بھی بنائے۔ امریکا، چین، فرانس اور کوریا نے ایک بڑا مصنوعی سورج بنایا۔ فرانس میں ایک انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر اکسپرمنٹل ری ایکٹر بنایا گیا، اس پروجیکٹ میں فرانس کے ساتھ امریکا، روس، چین اور دیگر یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک بھی اپنے طور پر فیوژن توانائی کے حصول کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، بین الاقوامی تھرمونیوکلیئر تجرباتی ری ایکٹر، ایک بین الاقوامی جوہری فیوژن ریسرچ اور انجینئرنگ کا بہت بڑا پروجیکٹ ہے جس کا مقصد زمین پر توانائی پیدا کرنا ہے۔ جس طرح سورج میں فیوژن کا عمل ہوتا ہے اسی کو نقل کرتے ہوئے زمین پر بھی فیوژن توانائی پیدا کرنا ہے۔ منصوبہ ہے کہ 2025ء تک مرکزی ری ایکٹر اور پہلے پلازما کی تعمیر مکمل ہو جائے گی۔ اگر یہ پروجیکٹ مکمل ہو جاتا ہے تو یہ دنیا کا سب سے بڑا تجرباتی ٹوکامک نیوکلیئر فیوژن ری ایکٹر ہو گا۔ آئی ٹی ای آر 1950ء سے لے کر اب تک بنائے گئے سو سے زیادہ فیوژن ری ایکٹرز میں یہ سب سے بڑا ری ایکٹر ہے، جس میں آج کام کرنے والے پلازما حجم کا کسی بھی دوسرے ٹوکامک پلازما کے حجم سے دس گنا زیادہ ہے۔
اس ری ایکٹر میں ٹوکامک کی مدد سے توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ ٹوکامک ایک ایسا آلہ ہے جو پلازما کو ٹورس کی شکل میں قید کرنے کے لیے ایک طاقتور مقناطیس کا استعمال کرتا ہے۔ ٹوکامک کئی مقناطیسی آلات کی اقسام میں سے ایک ہے جو تھرمونیوکلیئر فیوژن توانائی پیدا کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ 2006ء میں اس کا کل تخمینہ تقریباً 6 بلین پاؤنڈ تھا جو آج بڑھ کر 22 بلین پاؤنڈ ہو چکا ہے۔ ان ساری کوششوں کے باوجود 1992ء میں 22 میگا ذول توانائی یعنی تقریباً 4 عشاریہ 4 میگاواٹ بجلی ہی پیدا ہو سکی۔ اور ابھی دسمبر میں اس نے 5 سیکنڈ میں 59 میگا ذول توانائی یعنی 11 میگاواٹ بجلی پیدا کی ہے۔ (برقی کو واٹ میں اور توانائی کو ذول میں ناپا جاتا ہے) اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان تمام تجربات سے انسان مستقبل قریب میں توانائی پیدا کرسکتا ہے اور سورج میں جو عمل ہوتا ہے اس کی نقل کر کے نیوکلیئر فیوژن سے توانائی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے انتھک محنت اور خطیر رقم کی ضرورت بھی ہو گی۔
آج انسانی سماج خدا سے کس قدر غافل ہے کہ اس کی بنائی ہوئی ہر نعمت کو بڑے مزے سے استعمال کر رہا ہے لیکن اس کا شکر ادا نہیں کر رہا ہے۔ اس نے خدا کی نعمتوں کی تحقیق کی اور پھر اس کی ہوبہو نقل بنانے کی کوشش کی پھر بھی وہ اس سے منہ موڑے ہوئے ہے، اپنی رہائش چاند پر بنانا چاہتا ہے لیکن اس کے خالق کو ماننے سے انکاری ہے۔
***
***
سائنسدانوں نے سوچا کہ کیا ہم اس طرح کا عمل جو سورج پر ہوتا ہے زمین پر کر سکتے ہیں؟ سورج میں جس طرح کا نظام کار فرما ہے اسی کے مثل ہم بھی ایک سورج زمین پر بنائیں گے اور اس سے توانائی پیدا کریں گے۔ یعنی نیوکلیئر فیوژن توانائی۔ اس طرح کی توانائی پیدا کرنے کی کوششیں کافی عرصے سے لگاتار جاری ہیں۔ اسی کوشش میں کئی ممالک نے مصنوعی سورج بھی بنائے۔ امریکا، چین، فرانس اور کوریا نے ایک بڑا مصنوعی سورج بنایا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022