مابعد جدید یت :مغربی نظریات کی ناکامی اور دعوتِ دین کے امکانات

حقیقی سکون مذہب سے بغاوت میںنہیں مذہب سے وابستگی میں ہے

محمد انس فلاحی مدنی

 

کلیسا کے جبر واستبداد کے نتیجے میں یورپ میں مذہب سے بغاوت پیدا ہوئی۔ یہ دور یورپ کی تاریخ میں مذہب سے بیزاری، بغاوت اور مذہبی اجارہ داری کے خاتمہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان ہی عناصر کے بطن سے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں یورپ میں جدیدیت (Modernism) نے جنم لیا جس کے نتیجے میں متعدد افکار ونظریات منصہ شہود پر آئے جن کے تعلق سے یہ باور کرایا گیا کہ یہ نظریات اور آئیڈیاز انسان اور انسانی زندگی کے لیے کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ جمہوریت، حقوق انسانی، ترقی پسندی، آزادی اظہار رائے اور فیمنزم وغیرہ جیسے نظریات کا بیسوی صدی کے اختتام تک بڑا شور اور غلغلہ رہا۔ ان نظریات کی تائید وتوثیق بڑے بڑے مسلم مفکرین بھی کرنے سے پیچھے نہیں رہے۔ اس دور میں یہ فکر پیدا ہوئی کہ صرف عقل ہی کامیابی کی کسوٹی ہے۔ انسان اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں عقل سے فیصلہ کرے یہی دنیا میں کامیابی کا نظریہ ہے۔ ان نظریات کی قلعی اس وقت کھلی جب مغرب نے ان کے خوفناک نتائج دیکھ لیے۔ جمہوریت کے نتیجے میں نیشنلزم کا تصور پیدا ہوا۔ جس کے نتیجے میں مختلف ممالک کے درمیان غیر معمولی سرحدی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کی کرب ناک داستان سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہو چکے ہیں۔
یہ دور صحیح اور غلط کی تمیز کے لیے صرف عقل ہی کو مرکز اور فیصلہ کن ماننے اور سمجھنے سے یاد کیا جائے گا۔ جدیدیت کا فتنہ اس قدر ہمہ گیر اور متاثر کن ثابت ہوا کہ ہمارے یہاں بھی ایسے مسلم مفکرین پیدا ہوئے جنہوں نے مغرب اور اسلام کے درمیان پل بننے کا کام کیا۔ انہوں نے اسلام کی ایسی تصویر پیش کی جس سے اسلام مغرب کے لیے قابلِ قبول ہو اور ہدفِ تنقید بننے سے بچ سکے۔ چنانچہ مسلمہ عقائد اور دینی اصطلاحات کی من مانی تاویل اور تشریح وتوضیح کی گئی۔ حال ہی میں اس موضوع پر ایک گرانقدر کتاب ’’جدید اسلامی فکر ایک تنقیدی جائزہ ‘‘ (مصنف: مولانا ذکی الرحمن غازی مدنی) منظر عام پر آئی ہے جس میں فاضل مصنف نے گزشتہ صدی کے ایسے مفکرین پر زبردست علمی نقد اور گرفت کی ہے جنہوں نے مغرب اور اسلام میں مطابقت اور موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔
جدیدیت کے نتائج وعواقب سے مغرب گزشتہ صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز میں واقف ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مغربی مفکرین اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ انسانی عقل حق کی دریافت کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ یہ دور اب جدیدیت کے افکار ونظریات سے بغاوت اور انکار کا دور ہے۔ اس دور کو اب ما بعد جدیدیت (Post Modernism) کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ما بعد جدیدیت کے افکار ونظریات اور مغربی مفکرین کی پوزیشن، موجودہ رجحان اور ان کی ذہنی وفکری سطح، نیز اب وہ کس مقام پر کھڑے ہوئے ہیں ان کا جائزہ لیا جانا از حد ضروری ہے۔افسوس ہے کہ ہمارے یہاں ابھی اس کا مکمل جائزہ نہیں لیا جا سکا ہے۔ اس حوالے سے چند کتابیں اردو زبان میں ضرور آئی ہیں۔ ’ما بعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام‘ از سید سعادت اللہ حسینی، ’ما بعد جدیدیت اور اسلام (تحقیق وتجزیہ)‘ از احمد ندیم گہلن اور ڈاکٹر محمد رفعت کی کتاب ’’علم وتحقیق کا اسلامی تناظر ‘‘۔
جب تک غالب افکار ونظریات سے صحیح معنی میں واقفیت ان کے اثرات ومضمرات کا مکمل علم اور ان پر نظر نہ ہو تو ان کی تردید اور اسلام کی تبلیغ دونوں نا ممکن ہے۔ ہمارے یہاں مسلم مبلغین اور دعاۃ میں عالمی حالات اور ملکی منظر نامہ، موجودہ افکار ونظریات اور انسانی ذہن کی اٹھان اور رجحان اور اس کی فکری سطح سے قابل افسوس حد تک ناواقفیت پائی جاتی ہے۔ جب تک حالات کا صحیح تجزیہ نہ کیا جائے حال کے لیے لائحہ عمل اور مستقبل کے صحیح خطوط کار متعین نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی دعوتی کوششیں ثمر آور ہو سکتی ہیں۔
جدیدیت کا دور اور اس کے افکار ونظریات اب اپنی جائے پیدائش میں ہی دم توڑ رہے ہیں۔ مغرب کا انسان اور مغربی مفکرین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انسانی عقل حق کی کسوٹی اور حق کی دریافت کا ذریعہ نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ صدی میں کائنات کے حوالے سے سائنسی انکشافات نے اس نظریہ کو اور پختہ کر دیا ہے کہ یہ کائنات از خود وجود میں نہیں آئی ہے۔ انسانی عقل اس کائنات اور کائنات کے خالق کی قدرتوں اور حکمتوں کا صحیح معنی میں مشاہدہ کر سکتی ہے اور نہ ہی ادراک کر سکتی ہے ۔
ما بعد جدیدیت کے دور میں اب انسان اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ انسانی نظریات نظامِ زندگی کو چلانے کے لیے کار گر نہیں ہو سکتے ہیں اور اب وہ یہ ماننے پر بھی مجبور ہو رہا ہے کہ انسان کو حقیقی سکون مذہب سے بغاوت سے نہیں بلکہ مذہب سے وابستگی کے بعد ہی مل سکتا ہے۔ روحانی افلاس اور ذہنی ونفسیاتی مسائل نے انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مذہب، مذہبی تعلیمات اور مذہبی اقدار سے تعلق پیدا کرنے میںہی حقیقی سکون کا حصول ممکن ہے۔ اب مذہب بیزاری کے بجائے مذہب سے وابستگی کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اہل اسلام کے لیے نہایت سنہری موقع ہے کہ وہ اسلامی نظام اور اسلامی تعلمات کو پیش کریں جو ان کے روحانی افلاس اور نفسیاتی مسائل کا حل ثابت ہو سکے۔
روحانی افلاس اور نفسیاتی مسائل نے موجودہ دور میں انسانی زندگی کو تمام تر معاشی آسودگی اور خوش حالی کے باوجود بے اطمینان کر رکھا ہے۔ ایسے میں اسلام کی روحانی تعلیمات اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے اسلامی ہدایات کو پیش کرنے کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔جدیدیت کے پیدا کردہ خوشنما افکار ونظریات نے دنیا کو چند بڑے مسائل سے دور چار کیا ہے۔ خاندانی نظام کا بحران: جب عقل ہی فیصلہ کن بن جائے تو انسان بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جدیدیت کے فتنے نے انسان کو یہ کہنے پر آمادہ کر دیا کہ ’میرا جسم میری مرضی‘ یہ نعرہ خوب زور وشور سے اٹھا اور اس کے بڑے تباہ کن اثرات انسانی معاشرے پر مرتب ہوئے۔ عورت جس کا اصل مرکز اور دائرہ کار گھر ہوتا ہے وہ تحریک ِنسائیت سے اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ مردوں کے مساوی حقوق اور ان کے شانہ بشانہ چلنے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ گھریلو تشدد کے واقعات تیز رفتاری سے قابلِ افسوس حد تک سامنے آنے لگے۔
جنسی بے راہ روی: ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے نے انسان کو بے لگام اور تمام انسانی اخلاقی حدود سے آزاد کر دیا ہے، جنسی تسکین کا حصول نہ صرف ہر قید سے آزاد ہو گیا بلکہ شرمناک حد تک بڑھتا ہی چلا گیا اس کے نتیجے ’ہم جنسیت‘ کا فتنہ نمودار ہوا جسے بعض ممالک میں قانونی طور تسلیم کر لیا گیا۔ یہ سب انسانی عقل کو فیصلہ کن سمجھنے کے نتیجے میں ہوا۔ ایسے میں اسلام کے تصورِ حیا، نکاح، شادی بیاہ کے تعلق سے اسلامی ہدایات پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مغرب کی اسلام دشمنی، مغرب کے پھیلائے ہوئے اسلاموفوبیا اور آزادی اظہارِ رائے کے نام پر رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کے رد عمل میں مسلمانوں کا کیا موقف ہونا چاہیے اور ان حالات میں سیرت نبوی کو اسوہ حسنہ وکاملہ کے طور پر کیسے پیش کیا جائے؟موجودہ حالات اور انسانی ذہن کی فکری اٹھان اور رجحان کا بادی النظر میں مطالعہ کریں تو حالات سخت اور مشکل معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ وقت دعوتِ دین اور سیرت نبوی کو پیش کرنے کا نہایت قیمتی، مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔
مغرب میں مذہب سے بغاوت، جدیدیت کا آغاز اور اس کے اثرات ونتائج اور مابعد جدیدیت کے حالات اور مغربی مفکرین کے موجودہ فکری رویے اور رجحانات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوتِ دین اور سیرت نبوی کو پیش کرنے کے مواقع جہاں روشن ہیں وہیں جدید وسائل وذرائع نے فریضہ دعوت وتبلیغ کے لیے نہایت ساز گار موقع فراہم کر دیے ہیں۔
گزشتہ صدیاں نئے نظریات کے وجود اور خاتمے سے یاد کی جائیں گی۔ ان صدیوں میں نئے نظریات وجود میں آئے جن کے افکار سے انسان متاثر ہوا ہے اور ان کے مفید اور مضر اثرات بھی محسوس کیے گئے۔ اب انسانوں کا سوادِ اعظم یہ ماننے پر تو تقریباََ تیار ہو ہی چکا ہے کہ انسان کے خود ساختہ نظریات اور نظام ہائے زندگی انسان کے لیے بیساکھی تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کے سہارے زندگی گزاری نہیں جا سکتی۔ ان کی حقیقت صحرا میں سراب کی مانند ہے، یہ انسان کو وقتی بے لگام لذت اور آسائش تو مہیا کر سکتے ہیں لیکن اسے معیاری، اخلاقی اور پرسکون زندگی نہیں دے سکتے ہیں۔ اب وہ ایسے نظام اور نظریات اور شخصیت کی تلاش میں سرگرداں اور پریشاں ہیں جو اسے کائنات کی حقیقتوں سے بھی روشناس کرائے اور نظام زندگی کو بھی پر سکون بنائے۔ ایسے میں سیرت نبوی ﷺ کو پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس انداز سے پیش کرنے کی ضرروت ہے جس سے آپ کا اسوہ حسنہ اور کاملہ واضح ہو۔ انسان یہ ماننے پر مجبور ہو جائے کہ حقیقی فلاح وکامیابی، سکونِ دل اور نظام زندگی کی درستگی تعلیمات نبوی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم موجودہ حالات کو اپنے مخالف سمجھتے ہیں اور اسلاموفوبیا کو ایشو بناتے ہیں۔ اسلاموفوبیا کی تحریک تو دراصل مغرب نے اس لیے شروع کی ہے کہ کہیں مغرب کے خود ساختہ نظریات سے ناکامی اور مایوسی محسوس کرنے والا شخص اسلام کی طرف نہ پلٹ جائے اور یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جب سے مغرب نے اسلاموفوبیا کا نعرہ بلند کیا ہے، تب سے قبولِ اسلام کی شرح میں قابلِ قدر اور تسلی بخش اضافہ ہو رہا ہے۔
مغرب کی طرف سے آزادی اظہارِ رائے کے نام پر نبی ﷺ کی شان میں جو گستاخیاں ہوتی ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب نہیں چاہتا کہ انسان نبی ﷺ کی شخصیت اور تعلیمات سے واقف ہو۔ ہمیں ایسے میں اپنی کوششیں تیز سے تیز کرنے کی ضرورت ہے اور زندہ زبانوں میں سیرت نبوی اور تعلیمات نبوی کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں اردو میں تو کسی قدر اہم لٹریچر اس حوالے سے تیار ہو چکا ہے لیکن مدعو کی زبان میں ابھی تک کوئی قابل ذکر یا تسلی بخش لٹریچر کی ضرورت تاحال باقی ہے۔
عالمی منظر نامے اور ما بعد جدیدیت انسانی ذہن اور مغربی مفکرین کے فکری رجحان پر نظر ڈالتے ہیں تو حالات اتنے زیادہ سنگین معلوم نہیں ہوتے ہیں جس قدر ہمارے اخبار نویس مضمون نگار اور خطبا ومقررین پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس حالات پہلے سے کہیں زیادہ ساز گار ہیں اور مستقبل اسلام کے لیے روشن اور تابناک نظر آتا ہے۔ جدید ذرائع ووسائل نے ان امکانات کو مزید روشن کر دیا ہے۔ یہ وقت کام کرنے کا ہے نہ کہ ماضی کی داستانوں پر فخر ونوحہ کرنے کا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ماضی قریب کی غلطیوں سے سبق لیں اور موجودہ حالات میں ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھائیں تاکہ مستقبل اسلام کا ہو۔ ما بعد جدید یت مغربی نظریات کی ناکامی اور دعوت دین کے امکانات کے تناظر میں مذکورہ باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار علی گڑھ میں ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی سے وابستہ ہیں)
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021