لکھیم پور:کسانوں کے ساتھ ان کاوقاربھی کچلا گیا ملک بھر میں غم و غصے کی لہر ۔ وزیر کاملزم بیٹاوی آئی پی انداز میں گرفتار

وزیر کے استعفیٰ کے بغیر منصفانہ جانچ ممکن نہیں۔ وزیر اعظم کی خاموشی پر بھی اٹھے سوال جانبدار میڈیا سوا لات کے گھیرے میں۔ انصاف پسند سوشل میڈیا صارفین نے کیے حقائق آشکار

عرفان الہی ۔ لکھنو ؍ حسن آزاد

اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں کسانوں کو کار کے پہیے تلے روندنے والے مملکتی وزیر داخلہ کے بیٹے اشیش مشرا عرف مونو کو آخر کار گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ایس آئی ٹی نے تقریباً ۱۲ گھنٹے کی طویل پوچھ تاچھ کے بعد اشیش کو قتل ، حادثے میں موت، لاپروائی سے گاڑی چلانے اور مجرمانہ سازش کی دفعات کے تحت گرفتار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اشیش اپنے وکیل کے ساتھ حلفیہ بیانوں اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ ایس آئی ٹی کے روبرو صفائی کے لیے پیش ہوا۔ اس نے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ حادثے کے وقت وہ کار کے بجائے کشتی کے دنگل میں موجود تھا جو جائے حادثہ سے تقریباً چھ کلو میٹر دور واقع ہے۔ تاہم تمام سیاسی رسوخ اور بودی دلیلوں کے باوجود وہ ایس آئی ٹی کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکا لیکن پولیس نے جس انداز میں اسے ایس آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا موقع دیا اس نے قانون کی بالادستی اور برابری پر سوال کھڑے کردیے کہ کیا قتل کے ایک عام ملزم کو وی آئی پی اندازمیں اپنی مرضی سے ایس آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کا موقع مل سکتا ہے؟
عینی شاہدین کےمطابق اشیش مشرا ایک مقامی رکن اسمبلی کے اسکوٹر پر سوار ہوکر ایس آئی ٹی دفتر پہنچا اس کا وکیل اور مملکتی وزیر کا نمائندہ بھی اس کے ہمراہ تھا جبکہ ملزم کے والد اور مرکزی مملکتی وزیر داخلہ اجے مشرا ایس آئی ٹی دفتر سے صرف چند میل کے فاصلے پر بی جے پی کے پارٹی دفتر میں موجود پل پل کی جانکاری لے رہے تھے اور اپنے کارکنوں کو یہ تسلی دے رہے تھے کہ ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے اس سرکار میں غیر جانبدارانہ جانچ ہوگی وغیرہ۔
ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ نے اس سلسلہ میں غازی پور بارڈر پر کسانوں کے احتجاجی دھرنے میں موجود انقلابی مزدور کیندر کے انچارج روہیت روہیلہ سے خصوصی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ مملکتی وزیر داخلہ کو فوراً ان کے عہدے سے ہٹایا جائے ان کے عہدے پر برقرا رہتے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ جانچ نہیں ہوسکتی۔ روہت نے مزید کہا کہ سرکار اور انتظامیہ مسلسل وزیر کے بیٹے کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ متحدہ کسان مورچہ اس کی پر زور مخالفت کررہا ہے۔ ۱۲ اکتوبر کو مہلوک کسانوں کی آخری رسومات میں ہزاروں کسان اپنے شہید ساتھیوں کے حق میں انصاف کی آواز بلند کریں گے۔ کسانوں کے اہل خانہ کو صرف ۴۵ لاکھ روپے کا معاوضہ کافی نہیں ہے، ان کے ساتھ پورا انصاف ہونا چاہیے۔
مہلوک صحافی کے اہل خانہ کے الزامات:
اس سانحہ میں چار کسانوں کے ساتھ ایک مقامی صحافی رمن کشیپ کی بھی موت ہوئی ہے۔ رمن کشیپ کے بھائی نے انڈیا ٹومارو کے نمائندے خصوصی سے بات چیت کرتے ہوے کئی انکشافات کیے۔ رمن کے بھائی پون کشیپ نے بتایا کہ ان کے بھائی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے سے پہلے ہی ایک نجی ٹی وی چینل کے نمائندہ نے ان سے یہ کہلوانے کی کوشش کی کہ رمن کشیپ کسانوں کے تشدد اور مارپیٹ میں مارا گیا۔ چینل کے نمائندے نے دھمکی بھی دی۔ ان کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لاٹھی ڈنڈوں سے چوٹ کا ذکر ہے لیکن رپورٹ اتنی غیر واضح ہے کہ ایک رپورٹر نے اسے پڑھنے والے کو دس ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ پون کشیپ نے معاوضے پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے مہلوک بھائی کی بیوہ کے لیے نوکری اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
انقلابی مزدور کیندر کے پروہیت روہیلا نے بھی رمن کی موت پر شبہات ظاہر کیے ہیں، ان کے مطابق ہوسکتا ہے کہ اس کو حادثے کے ثبوت مٹانے کے لیے بعد میں قتل کیا گیا ہو۔ انہوں نے کسانوں کے ساتھ رمن کے لیے بھی انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کی سرزنش کی۔ لکھیم پور کھیری میں چار کسانوں کو کار کے پہیوں سے کچلنے کے سانحہ سے پورا ملک حیران اور غم زدہ ہے۔ اس سانحہ میں ایک مقامی صحافی سمیت کل آٹھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ریاستی حکومت نے حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے فوری طور پر مہلوکین کے اہل خانہ کے لیے نوکری اور فی کس پینتالیس لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کردیا۔ ساتھ ہی کسانوں کے متوقع ردعمل کو روکنے کے لیے لکھیم پور کھیری کے آس پاس اضلاع میں بھی انٹرنیٹ خدمات معطل کردیں لیکن اس کے باوجود جائے واقعہ کے جو ویڈیوز مختلف ذرائع سے منظر عام پر آئے ہیں انہوں نے عوام کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بھی بے چین کردیا ہے۔سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت سے کارروائی کی رپورٹ طلب کی اور اس پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے ریاستی انتظامیہ کی سخت سرزنش کی۔ عدالت عظمیٰ نےدسہرے کی تعطیلات کے بعد دوبارہ سماعت کا عندیہ دیا ہے۔
ڈبل انجن کی سرکار کا وقار داؤ پر:
اس سانحہ کا سب سے خاص پہلو یہ ہے کہ کار کے پہیے سے کچلے جانے والے کاشت کار اقلیتی طبقے کے سکھ ہیں جبکہ کسانوں کو کچلنے والی کار کا مالک مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ اجے مشرا کا بیٹا اشیش مشرا عرف مونوہے۔ ان کے سیاسی رسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کسان تنظیموں کے دباو میں مملکتی وزیر اور ان کے بیٹے کے خلاف مختلف دفعات میں ایف آئی آر تو درج ہوئی لیکن نہ تو وزیر موصوف نے وزارت سے استعفیٰ دیا ہے نہ ہی ریاستی پولیس ان کے بیٹے کو عام ملزموں کی طرح پکڑنے کی ہمت کر سکی ہے، اس کی گرفتاری کے لیے یو پی پولیس کو پانچ دنوں کا انتظار کرنا پڑا تب کہیں جا کر بارہ گھنٹے کی پوچھ تاچھ اور دس راؤنڈ چائے بسکٹ سے ضیافت کے بعد سنیچر دیر رات کو اس کی گرفتاری کا یہ کہہ کر اعلان کیا کہ اس نے تفتیش میں تعاون نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد آشیش مشرا پولیس کے دوسرے سَمن پر ایسے پیش ہوا جیسے قانون اس کی جیب میں ہو۔ پولیس نے اس سے واقعہ کی تفصیلات کے بارے میں آرام سے پوچھ تاچھ کی جبکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے عام ملزم کی طرح برتاو کرنے کی ہدایت دی تھی۔
متنازعہ زرعی قوانین اور کسان تنظیموں کا احتجاج:
دراصل لکھیم پور کھیری کا سانحہ ان تین زرعی قوانین کی مخالفت کے سبب ہی پیش آیا جس کے خلاف کسان تنظیمیں ایک عرصے سے احتجاجی مظاہرے کررہی ہیں۔ لکھیم پور کھیری کے تکونیا مقام پر ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور مملکتی وزیر داخلہ اجے مشراکا پروگرام طے تھا۔ مشترکہ کسان مورچہ کے کارکن اپنے مطالبات کے لیے احتجاج درج کرانے پہنچے تھے واپسی میں پرامن کسان مظاہرین کو کاروں کے قافلے نے موقع پر ہی کچل دیا جبکہ کار کا ڈرائیور ایک مقامی صحافی اور بی جے پی کے دو کارکن بھی مارے گئے۔ متحدہ کسان مورچہ نے اس سانحہ کے خلاف ۱۸ اکتوبر کو ریل روکو تحریک کی اپیل کی ہے۔ ایس کے ایم کے لیڈر یوگیندر یادو نے ملک کے مختلف حصوں میں دسہرے کے موقع پر راون کے ساتھ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے پتلے بھی نذر آتش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ مملکتی وزیر داخلہ اجے مشرا مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کرچکے ہیں لیکن ابھی تک ان کے مستعفی نہ ہونے سے کسان لیڈر ناراض ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اجے مشرا کا نام ایف آئی آر میں شامل ہے۔ ان کے وزیر رہتے بیٹے کے خلاف منصفانہ کارروائی نہیں ہوسکتی ہے۔
سانحہ کے سیاسی اثرات:
سیاسی تجزیہ کاروں کےمطابق یو پی اسمبلی انتخابات سے قبل ہونے والے اس سانحہ کے سیاست پر دور رس اثرات ہوں گے۔ ریاستی حکومت نے اس واقعہ کو جس انداز میں شروع سے ہی دبانے کی کوشش کی ہے اس نے سیاسی جماعتوں کو برافروختہ کردیا۔ اپوزیشن میں سب سے پہلے کانگریس کی جنرل سکریٹری اور یو پی امور کی انچارج پرینکا گاندھی جائے واقعہ کے دورے کے لیے نکل پڑیں، ان کے پیچھے کانگریس کے علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر بھی میدان میں کود پڑے۔ یو پی حکومت کی طرف سے رکاوٹوں کے بعد اپوزیشن کے ہنگامہ کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت کو آخر کار پرینکا اور راہل گاندھی کے بعد دیگر جماعتوں کے لیڈروں کو بھی مہلوکین کے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دینی پڑی لیکن یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہونے والا ہے۔ کانگریس نے بنارس میں ’’کسان نیائے‘‘ یعنی کسانوں کے ساتھ انصاف ریلی کی۔ کسان تنظیمیں بھی مظفر نگر طرز پر لکھیم پور اور دیگر مقامات پر کسانوں کے مسائل پر بڑی بڑی ریلیوں کی تیاری میں لگ گئی ہیں۔ دوسری جانب یوتھ کانگریس نے لکھیم پور واقعہ کے خلاف دلی میں پرزور احتجاجی مظاہرہ کیا، انہوں نے وزیر مملکت برائے امور داخلہ کے استعفےٰ کا مطالبہ کیا۔ اس دوران پولیس کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی لیکن وہ اپنے مطالبات پر قائم رہے۔ مظاہرین نے وزیر موصوف کا پتلا نذر آتش کیا ساتھ ہی خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔حالانکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے قصور واروں کے خلاف سخت کارروائی کا یقین دلایا ہے۔ لیکن اپوزیشن کی جانب سے سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ریاستی حکومت کی کارروائی پر طنز کستے ہوئے کہا ہے کہ خاطیوں کو پکڑنے کے بجائے انہیں گلدستے دیے جارہے ہیں سَمن تو برائے نام دیا جارہا ہے اصل میں انہیں سمّان (اعزاز) دیا جا رہا ہے۔ اس پورے معاملے میں وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی نے ایک بار پھر سب کو حیران کیا ہے۔ وہ اس واقعہ کےبعد لکھنو کے ایک پروگرام میں شامل بھی ہوئے لیکن انہوں نے اس معاملے میں اپنا سکوت برقرار رکھا۔ ملک کے عام عوام جہاں پرامن کسانوں کے کچلے جانے کو جلیاں والا باغ سانحہ کے مماثل قرار دے رہے ہیں وہیں وزیراعظم کی پراسرار خاموشی کسانوں کے تعلق سے ان کی ہمدردی اور جذبات پر سوال کھڑے کررہی ہے۔
لکھیم پو رواقعہ کے بعد سوشل میڈیا پرشدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ بعض صارفین نے اسے جلیان والا باغ کے واقعہ کی یاد کو تازہ کرنے والا سانحہ بتایا تو بہت سے صارفین نے اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ حکمراں جماعت کے سلوک اور کسانوں کے مطالبات کو ماننے کے بجائے لکھیم پور واقعہ کے ملزم کو بچانے کے لیے حکومت پر شدید تنقیدیں کیں۔ اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر بہت زیادہ سرگرمی دیکھی گئی۔ذیل میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
6 اکتوبر 2021کو اپنے ’پرائم ٹائم وِتھ رویش کمار‘ میں رویش کمار نے ملکی میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے سچ ہی کہا تھا کہ دنیا میں آزاد صحافت کی فہرست میں بھارت کا مقام 180 میں سے 142واں ہے، اور اگر جھوٹ بولنے اور کسی قاتل کو بچانے کی صحافتی کردار کی فہرست بنتی تو بھارتی میڈیا دنیا میں پہلا مقام حاصل کر لیتا اور آپ گاؤں گاؤں رقص کر رہے ہوتے کہ بھارت ’وِشوگرو‘ بن گیا ہے۔ گویا رویش کمار بزبان شاعر کہہ رہے ہوں:
جہل بازار میں سب جھوٹ کے گاہک ہیں ثاقبؔ
جو اس ماحول میں سچ بولتا ہے، لاپتا ہے
3 اکتوبر 2021 کو ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری میں قتل وغارت گری کا وہ ننگا ناچ دیکھا گیا جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ یہ المناک واقعہ جلیانوالہ باغ، ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام کی یاد تازہ کراتا ہے۔ بس ان واقعات میں فرق اتنا ہے کہ لکھیم پور کھیری سانحہ کا دردناک منظر ویڈیو کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جبکہ گزشتہ سانحات پرانے اخبارات کے بنڈلوں اور سرکاری فائلوں میں بند ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جھوٹ کے طرفدار میڈیا نے لکھیم پور کھیری سانحہ کو تشدد کا معمولی سا نام دے کر انسانیت اور ہمدردی جیسے الفاظ کو گالی دی ہے اور جابر وظالم حکمرانوں اور قاتلوں کے جرم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کسانوں کے متعلق گمراہ کن خبریں دکھا کر حکمراں جماعت کو خوش کرنے کے نت نئے جتن کیے ہیں۔ دوسری جانب لکھیم پور سانحہ کے محض دو دن بعد ہی 5 اکتوبر 2021 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کی آزادی کا 75 سالہ جشن ‘امرت مہوتسو‘ منانے کے لیے یو پی کے دارالحکومت لکھنؤ آ کر وہاں ’بھاشن‘ دے کر مہلوک کسانوں کی موت پر ماتم کرنے والوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے، اور میڈیا اس خبر کو اس طرح سے کَور کرتا ہے جیسے ملک میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہر وقت اسٹیج پر جذباتی ہو جانے والے پی ایم کی آنکھوں سے ایک آنسو نہ ٹپکا بلکہ لکھیم پور کھیری کا انہوں نے تذکرہ تک نہ کیا، نہ حق مخالف ٹی وی چینلوں نے اس دوران لکھیم پور سانحہ کے متعلق کوئی خبر دکھائی۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر ’مودی لکھیم پور جاؤ‘(मोदी_लखीमपुर_जाओ#) جیسے ٹرینڈ عام ہوئے۔
یاد دلا دیں کہ لکھیم پور کھیری میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے بیٹے اشیش مشرا کی گاڑی سمیت مزید تین گاڑیوں نے پر امن طور پر مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو دانستہ طور پر کچل ڈالا جس میں 8 لوگوں کی موت واقع ہو گئی تھی جن میں چار کسان شامل تھے۔ اشیش مشرا پر الزام ہے کہ وہ بھی اس گاڑی میں موجود تھے جس کے بعد ان کے خلاف ایف آر درج کی گئی۔ لیکن واہ رے یو پی کا رام راج، تا دمِ تحریر اشیش مشرا کیا کسی بھی ملزم کی گرفتاری نہیں ہو سکی۔ جبکہ بہت ہی کم میڈیا چینلوں نے اس تعلق سے اتر پردیش کے نظم ونسق پر سوال اٹھایا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا ہاتھرس اجتماعی عصمت ریزی وقتل کیس، گورکھپور میں کانپور کے تاجر کا پولیس کے ذریعے پیٹ پیٹ کر قتل کیے جانے کا معاملہ، وکاس دوبے انکاؤنٹر کا معمہ اور مہنت نریندر گری کی پر اسرار موت کو سامنے رکھ کر بی جے پی اقتدار والی یو پی حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتا۔ ٹی وی کے بحث ومباحثہ میں بی جے پی ترجمان سے سخت سوال کیے جاتے؟ لیکن جو میڈیا اڈانی کی بندرگاہ پر کروڑوں روپیوں کے ڈرگس پائے جانے پر خاموش رہتا ہے وہی میڈیا اس ہائی پروفائل ڈرگس کیس کو خوب بھنانے میں لگ جاتا ہے جس میں اداکار شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کا بھی نام سامنے لایا گیا۔ جہاں ملکی میڈیا ٹی آر پی، حکومت کے خوف اور پیسے کی لالچ میں آ کر شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کے تعلق سے طرح طرح کے ڈبیٹ (Debate) کروا رہا تھا تو دوسری طرف وہ مرکزی وزیر کے بیٹے کو بچانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ خبریں اس طرح سے چلنے لگیں کہ ’اشیش نے دی صفائی‘، ’میں جائے حادثہ پر نہیں تھا‘ اور ’بیٹے کے خلاف ایف آئی آر، والد نے دی صفائی‘ وغیرہ، بعض چینلز اور اخبارات نے تو سرخیاں ایسی لگائیں جن سے اصل مجرمین پس پردہ چلے جاتے ہیں اور مظلومین ہی مجرمین بن جاتے ہیں مثلاً ’لکھیم پور میں کسانوں کا ہنگامہ، آٹھ افراد کی موت‘ اور ’کسانوں کا تانڈَو، وزیر کے بیٹے کی دو گاڑیاں نذر آتش کی گئیں‘ وغیرہ۔ حکومت کے جانب دار میڈیا نے اپوزیشن کے احتجاج اور مظاہرہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ حد تو یہ ہوئی کہ زی نیوز کے صحافی اور پی ایم مودی کے ساتھ سیلفی لینے پر فخر محسوس کرنے والے سدھیر چودھری نے اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں پر الزام لگایا کہ تمام سیاسی لیڈر مہلوک افراد کے لواحقین کےساتھ سیلفی کھچوانا اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ گویا میڈیا جمہوریت کا نہیں بلکہ حکومت کا چوتھا ستون بن گیا ہو۔ اداکارہ سورا بھاسکر (ReallySwara@) اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھتی ہیں کہ ’’گودی میڈیا کے ذریعے لکھیم پور کھیری تشدد معاملے میں ایسے ہیڈلائنس چلائے جارہے ہیں جسے دیکھ کر الٹی آرہی ہے۔ یہ کسانوں اور متاثرین کو برا بھلا کہنے کی بیمار اور مایوس کن کوشش ہے۔ میں کسانوں کے ساتھ کھڑی ہوں‘‘ یہاں سورا بھاسکر نے بھی لکھیم پور ’تشدد‘ کا استعمال کیا ہے جو کہ شاید میڈیا سے ہی متاثر ہو کر لکھا ہوگا۔ کیونکہ لکھیم پور کھیری میں کسانوں کے قتل عام کے بعد ہی ’تشدد‘ برپا ہوا تھا جو کہ فطری عمل تھا۔ وہیں پریتی چودھری (_HryTweet @)لکھتی ہیں کہ ’’لکھیم پور میں کسانوں کے ساتھ پیش آئے واقعہ کی اشاعت روزنامہ ’دینک جاگرن‘ نیوز سے لگتا ہے کہ نامہ نگار کے تمام جذبات مردہ ہو چکے ہیں۔ ایسی خبر شائع کرنے والے اخبار کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے‘‘۔
بہر حال جیسے جیسے مین اسٹریم اور جانب دار میڈیا میں کسانوں کے تعلق سے گمراہ کن خبریں چلائی جاتیں ویسے ویسے سوشل میڈیا پر سرگرم ایکٹیوسٹوں نے حق کا ساتھ دیتے ہوئے سچائی کو سامنے لانے کی کوششیں کیں جن میں دھرو راٹھی، آکاش بنرجی، نوین کمار، ساکشی جوشی، اشوتوش اور گریجیش وششٹ جیسے کئی نڈر اور بے باک صحافی شامل ہیں جنہوں نے طرفدار میڈیا کی پول کھولنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
سوشل میڈیا پر لکھیم پور سانحہ کی کئی ویڈیوز وائرل ہوئے۔ صارفین نے بھی زبردست غم وغصے کا اظہار کیا اور یہ ٹرینڈس عام ہوئے:
#StandWithFarmers
#LakhimpurKheri
#lakhimpur_farmer_massacre
#LakhimpurKheriViolence
#Lakhimpurkhericase
#GodiMedia
#Zee_दलाल_मोदी_का
#ZeeNewsGhatiyaThaHaiRahega
#दैनिक_जागरण_दलाल_है
#BJP_KillerOfFarmers
#मोदी_लखीमपुर_जाओ
#मोदी_अजयमिश्र_का_इस्तीफा_लो
#BJPMassacredFarmers
#hindustantimes_sold
قابل ذکر ہیں۔ ان ٹرینڈس کے ذریعے صارفین نے لکھیم پور سانحہ کی ویڈیوز بھی شیئر کیں۔ مشہور خاتون صحافی برکھا دت (@BDUTT) لکھتی ہیں۔ ’’اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ لکھیم پور کے واقعہ سے کوئی ناراضگی محسوس نہیں کر سکتے تو اس ویڈیو کو دیکھیں۔ یہ کوئی ’حادثہ‘ نہیں ہے بلکہ یہ منظم قتل عام ہے۔ ہاں! اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی مجرمانہ تھا‘‘۔ یعنی قتل عام کے بعد کسانوں کا مشتعل ہونا اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنا وغیر بھی غلط تھا۔
ان سب میں ورون گاندھی کے ٹویٹس سب سے دلچسپ تھے۔ یعنی بی جے پی کے پہلے رکن پارلیمنٹ جنہوں نے لکھیم پور سانحہ پر کھل کر کہا۔ ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ورون گاندھی نے لکھا کہ ’’یہ ویڈیو بالکل شیشے کی طرح صاف ہے۔ مظاہرین کا قتل کر کے ان کو خاموش نہیں کرا سکتے۔ بے قصور کسانوں کا خون بہانے کے واقعہ کے لیے جوابدہی طے کرنی ہوگی۔ ہر کسان کے دماغ میں اشتعال اور بے رحمی کا جذبہ گھر کر جائے، اس سے پہلے انہیں انصاف دلانا ہوگا‘‘۔ ورون گاندھی نے مزید کئی ٹویٹس کیے۔ شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ 7 اکتوبر 2021 کو جب بی جے پی کی قومی عاملہ کی فہرست جاری ہوئی تو دو بار رہ چکے رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی اور 5 بار رہ چکی رکن پارلیمنٹ مینکا گاندھی کا پتہ کٹ چکا تھا۔ حق گوئی کی سزا اتنی جلدی ملے گی کسی کو توقع نہیں تھی۔
سوشل میڈیا پر کسانوں کے خلاف بھی ٹرینڈس عام ہوئے۔ خاص طور پر
योगी_जी_लठ_बजाओ#
फिर_आएगी_भाजपा #
جیسے ٹرینڈس کے ذریعے کسانوں کو تنقید کانشانہ بنایا گیا۔ لیکن زیادہ تر صارفین نے کسانوں کی حمایت میں ہی اپنی آواز بلند کی۔
سوشل میڈیا پر حکومت نواز میڈیا کی کارکردگی پر سوالات کا اٹھنا لازمی تھا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویہ پر انگلیاں اٹھی ہوں۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کسانوں کے احتجاج اور مظاہروں کو متعصب میڈیا نے داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا سب سے بڑا کسان احتجاج سب سے بڑی کسان تحریک اور مہم بن گئی ہے۔ متنازع زرعی قوانین کے خلاف دلی کی سرحدوں پر گزشتہ دس مہینوں سے کسان ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان دس مہینوں میں ان پر طرح طرح کے الزامات لگے، طرح طرح کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خالص کسانوں کے احتجاج کو کبھی خالصتانی‌ تو کبھی چینی اور پاکستانی قرار دیا گیا بلکہ ہندو مسلم زاویہ بھی دینے کی کوشش کی گئی اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے داخلے کی بھی بات کی گئی۔ حکومت کی جانب سے بھی کسانوں کو گمراہ کہا گیا اور یہ سب حکومت کے جانبدار میڈیا کی کارستانی رہی ہے۔ اسی میڈیا نے مہلوک کسانوں کے وارثین کو معاضہ میں دی جانی والی مبینہ رقم کی بھی خوب تشہیر کی تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ یو پی حکومت مہلوک کسانوں کی ہمدرد ہے۔ واضح ہو کہ یو پی کی حکومت نے ہلاک ہونے والے کسانوں کے لواحقین کے لیے فی کس پینتالیس لاکھ روپے جبکہ زخمی ہونے والوں کے لیے فی کس دس لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔
اکثر یو ٹیوبرس اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کا کہنا ہے کہ لکھیم پور کھیری سانحہ کسانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کا نتیجہ ہے۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ احتجاجی کسانوں کو سبق سکھانے کے لیے ان پر تشدد کرو اور جیل جانے کی فکر نہ کرو کیوں کہ ایک دو مہینے جیل میں رہنے کے بعد انہیں بڑا لیڈر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ٹھیک اسی طرح ایک سرکاری افسر کا ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں وہ کہتا ہوا نظر آ رہا تھا کہ مظاہرہ کرنے والے کسانوں کا سر پھوڑ دو۔ اس طرح کے اور بھی کئی بیانات سامنے آچکے ہیں، ان میں خاص طور پر مرکزی وزیر اجے مشرا کا بیان قابل ذکر ہے۔ کچھ دن پہلے اجے مشرا سمپورن نگر، لکھیم پور میں کسانوں کی کانفرنس میں اسٹیج سے کسانوں کو دھمکیاں دیتے ہوئے نظر آئے تھے۔ انہوں نے کالے جھنڈے دکھانے والے کسانوں کو خبردار کیا تھا کہ اور کہا تھا ’’میں صرف وزیر یا رکن پارلیمنٹ نہیں ہوں جو لوگ مجھے ایم پی اور ایم ایل اے بنانے سے پہلے میرے بارے میں جانتے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں کسی بھی چیلنج سے بھاگنے والا نہیں اور جس دن میں نے اس چیلنج کو قبول کر کے کام شروع کیا اس دن پالیا ہی نہیں بلکہ لکھیم پور تک چھوڑنا پڑ جائے گا، یہ یاد رکھنا‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اجے مشرا کی بات کو کافی سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔
بہت ہی کم میڈیا چینلوں نے اجے مشرا کے بیان کو لکھیم پور سانحہ سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اگر کسی چینل نے جوڑا بھی تو اسے دوسرا رخ دے دیا۔ جانب دار میڈیا سے ایمانداری اور دیانت داری کی امید نہیں ہے لہٰذا اب سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے ہی صالح انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے حق بات کو عام کریں۔ سوشل میڈیا پر لہو ولعب میں پڑے رہنے کے بجائے تقریر، تحریر اور مثبت تنقیدوں وتبصروں سے معاشرے کی خدمت کریں۔ اسلام کے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کریں۔ کیونکہ نہیں کہا جا سکتا کہ نہ جانے کب اور کس کی بات لوگوں کے دل میں گھر کر جائے۔
’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘۔

 

***

 کسان تنظیموں کے دباو میں مملکتی وزیر اور ان کے بیٹے کے خلاف مختلف دفعات میں ایف آئی آر تو درج ہوئی لیکن نہ تو وزیر موصوف نے وزارت سے استعفیٰ دیا ہے نہ ہی ریاستی پولیس ان کے بیٹے کو عام ملزموں کی طرح پکڑنے کی ہمت کر سکی ہے، اس کی گرفتاری کے لیے یو پی پولیس کو پانچ دنوں کا انتظار کرنا پڑا تب کہیں جا کر بارہ گھنٹے کی پوچھ تاچھ اور دس راؤنڈ چائے بسکٹ سے ضیافت کے بعد سنیچر دیر رات کو اس کی گرفتاری کا یہ کہہ کر اعلان کیا کہ اس نے تفتیش میں تعاون نہیں کیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021