قیامت دیکھ کر بھی ہاتھ کے پودے کو بونا ہے

شجر کاری :شریعت کی تعلیم اور صاف ستھرے ماحول کے لیے ضروری

ترنم انجم ایوب خان (مہاراشٹر)

 

اللہ نے انسان کی تشکیل کے بعد انسان کی سہولت کے لیے بہت سی چیزیں پیدا کی ہیں۔ جس میں زمین، پہاڑ، آسمان، سورج، چاند، ستارے، سبزی، میوہ جات، دریا، سمندر، جنگل، شجر شامل ہیں۔
شجر کے معنی درخت یا پیڑ کے ہیں۔ شجرکاری سے مراد پودا لگانا ہے۔ عالم ارواح سے ہی آدم اور درخت کا رشتہ چلا آ رہا ہے۔ حضرت آدمؑ کو شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی وجہ سے ہی جنت سے نکالا گیا تھا۔ اس لیے درخت شروع ہی سے انسان کے دوست ہیں۔ شجر کاری سنتِ رسول ﷺ ہے اور ماحول کو خوبصورت اور دلکش بنانے کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی میں مدد گار ہے۔شجر سے زندگی خوبصورت محسوس ہوتی ہے۔ دل آویز سبزہ زار، دل فریب گھنے جنگلات، ہرے بھرے درختوں کی لمبی قطاریں، باغات میں ثمر آور اشجار کسی بھی خطے کو خوبصورت بنا دیتے ہیں کہ جس کی طرف دل کھنچا چلا جاتا ہے۔ بھینی بھینی خوشبو، ٹھنڈی ہوائیں، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور بلبل کی نغمہ ریزی کان میں رس گھولتی ہے، اس سے دل کو سکون ملتا ہے، رنجیدگی دور ہوتی ہے اور انسان مظاہرِ قدرت سے متاثر ہوتا ہے۔
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے
شجر سے محبت انسانیت سے محبت ہے، کیونکہ یہ درخت آکسیجن مہیا کر کے ہماری زیست کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ درختوں کی کٹائی اور کمی سے گلوبل وارمنگ کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور پینے کے صاف پانی کے ناپید ہونے کے باعث پوری نوع انسانی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے پہاڑوں سے برف تیزی سے پگھلنے لگی ہے جس سے سمندروں کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں شہروں کے شہر زیر آب آنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے اشد ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوں کی ضرورت اور اہمیت سے متعلق شعور کو بیدار کیا جائے اور ان کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ لیکن صد افسوس کہ پوری دنیا سے درختوں کی مسلسل کٹائی کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کے آسیب نے آج ہمیں جکڑ رکھا ہے۔ انسان کی خود غرضی ومفاد پرستی کی تلوار لے کر بڑی بے دردی سے جنگلات کی کٹائی کی جا رہی ہے۔ جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی کی صورتحال اگر یہی رہی تو ہمیں 2080ء تک سدا بہار درختوں سے محروم ہونا پڑے گا۔شجرکاری باغات اور جنگلات کی اہمیت وضرورت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب چاروں طرف آلودگی بسیرا ڈالے ہوئے ہو، صاف وشفاف ہوا کے لیے جسم ترستا ہو اور زہر آلود ہوائیں نسل انسانی کو گھن کی طرح کھا رہی ہوں۔ دور جدید اور صنعتی ترقی کے اس دور میں ہر طرف آلودگی چھائی ہوئی ہے۔ ہوا، پانی اور زمین پر دیگر حیاتیات اپنی خصوصیات کھو رہی ہیں جس کی وجہ سے عالمی حدت کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں پودے، گھنے باغات اور جنگلات کی اہمیت وضرورت شدت سے بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اللہ نے مخلوق کی تخلیق کو اس طرح مربوط کیا ہے کہ یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے چلا آرہا ہے۔ چنانچہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے جس کا منبع نباتات ہیں، جب کہ نباتات، انسان اور دیگر مخلوقات سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اسی طرح اللہ نے انسان کو نباتات کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ بنایا ہے جس کی وجہ سے فضا میں توازن قائم ہے۔ اگر اس میں کسی طرح کی مداخلت کی جائے تو توازن میں خلل پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے براہِ راست نقصانات انسانوں اور دیگر مخلوقات کو بھگتنے پڑتے ہیں۔شجر کاری قرآن کریم میںموجودہ سائنس شجر کاری کی جس اہمیت وافادیت کی تحقیق کر رہی ہے، قرآن واحادیث نے چودہ سو سال قبل ہی آگاہ کر دیا تھا۔ قرآن کریم میں مختلف حوالے سے شجر (درخت) کا ذکر آیا ہے ۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے: وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو۔ اسی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔ بے شک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور وفکر کرتے ہیں۔ (النحل : ۱۰-۱۱)
ان آیات میں درختوں کو چوپایوں کی غذا اور انسانوں کی ضرورت بتایا ہے۔ ایک جگہ درختوں اور پودوں کے فوائد اس طرح بیان کیے گئے ہیں:
آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹٹیوں میں اپنے گھر (چھتے) بنا۔(النحل)
اللہ نے درخت کا ذکر آگ کے حوالے سے کیا ہے:وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو۔ (یٰس ۸۰:۲۳)
ایک جگہ شجر مبارکہ کے طور پر ذکر کیا گیا: اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نسل اور کھیتی باڑی کو تباہ کرنے والوں کی مذمت کی ہے:
جب وہ لَوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے۔(البقرہ : ۲۰۵)
اس کے علاوہ قرآن کریم میں اور حوالوں سے بھی شجر کا تذکرہ ملتا ہے ۔
شجرکاری احادیث میں
احادیث نبویہ میں شجرکاری کے حوالے سے صریح ہدایات موجود ہیں۔ ایک روایت میں شجر کاری کو صدقہ قرار دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں پرندے، انسان اور جانور کھالیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے ۔(بخاری)
اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں درخت ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو ضرور لگائے ۔ (مسند احمد)
یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے درخت وغیرہ جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، کاٹنے یا برباد کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ نبی ﷺ نے حالت جنگ میں بھی شجر کو کانٹے سے منع فرمایا ہے آپ لشکر کی روانگی کے وقت دیگر ہدایات کے ساتھ ایک ہدایت یہ بھی فرماتے تھے کہ: کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ اقتدار میں باغبانی اور شجرکاری میں گہری دل چسپی دکھائی ہے، اسے علوم وفنون کی شکل دی اور دنیا میں فروغ دیا۔موسم برسات جاری ہے، شجرکاری کی اہمیت وضرورت اور افادیت کے تعلق سے قرآن وحدیث اور سائنس کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے لیے اچھا موقع ہے نیکیوں میں اضافے کا، اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے کا۔ آگے بڑھیے قومی فریضہ نبھائیے، خود پودے لگائیے، دوسروں کو ابھارئیے اور اپنا تعاون کیجیے۔
درخت لگانے کے اور بھی بہت سارے فائدے ہیں جو اس طرح سے ہیں:
• درخت پھل اور پھول دونوں دیتے ہیں جو انسان اور جانور دونوں کے کھانے کے کام آتے ہیں۔
• درخت پانی کو محفوظ رکھتے ہیں۔
• درخت پر پرندے اپنا گھر بناتے ہیں۔
• درخت مٹی کو محفوظ رکھتے ہیں۔
• حیاتی تنوع بنائے رکھتے ہیں۔
• ان کی لکڑیاں کھانا پکانے کے کام آتی ہیں۔
• ان کی لکڑیوں سے فرنیچر، دروازے، کھڑکیاں، برتن، پینسل اور سجاوٹ کے سامان وغیرہ بھی بنائے جاتے ہیں۔
• درخت قدرتی ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں۔
• سیلابوں کو سے روکتے ہیں۔
• مسافروں کو سایہ دیتے ہیں۔
درخت ہمارے لیے ہر طرح سے فائدہ مند ہیں۔ جس طرح بڑی تیزی سے درخت کاٹے جا رہے ہیں اس کے نقصان کو پورا کرنے کیلئے ہم سب کو زیادہ سے زیادہ پودے لگانے کی ضرورت ہے۔ اسی سے ہم سب کی زندگی ہے۔اب ہمیں اپنے حصے کی شمع جلانا ہے، ہم کو شجرکاری مہم میں حصہ لینا ہے ہمیں درخت لگانا ہے اور درخت نہ صرف لگانا ہے بلکہ اس کی حفاظت بھی کرنا ہے، اگر ہم جنگلات میں اضافہ نہیں کر سکتے تو اپنے طور پر درختوں اور پودوں میں اضافہ کریں اپنے محلے اور گلی کوچوں کو سر سبز وشاداب بنائیں کیونکہ درخت ہماری بقا کے لیے ضروری ہیں۔
عجیب درد کا رشتے تھا سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
اگر آپ بھی درخت لگانا چاہتے ہیں تو ہمیشہ ایک قطار میں لگائیں اور ان کا آپس کا فاصلہ دس سے پندرہ فٹ ضرور ہونا چاہیے۔ گھر میں درخت لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں۔ ان تجاویز پر عمل کر کے ہم بھی شجرکاری مہم کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ آئیے! ہم سب مل کر کوشش کریں اور اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کریں اور اپنی ذمہ داری پوری کریں اور اپنے ملک اور دنیا کو محفوظ بنائیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے تعلیمی نصاب میں درختوں کی اہمیت اور افادیت کو نصاب کا حصہ بنانا پڑے گا تاکہ وہ بھی ایک شجر سایہ دار کی مانند ہر شجر پر سایہ فگن ہوں اور ہمارا مستقبل تابناک ہو سکے۔ آمین
ہم تو محروم ہیں سایوں کی رفاقت سے مگر
آنے والوں کے لیے پیڑ لگا دیتے ہیں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021