قومی ورثے کے تحفظ کے نام پر تاریخی مغل مسجد کا کردار بدلنے کی کوشش

قطب مینار کمپلکس کی مسجد میں خفیہ آپریشن!

افروز عالم ساحل

آج سے چھ سال پہلے ایک فلم آئی تھی جس کا نام تھا ’واہ تاج‘۔ اس فلم میں ایک خاندان تاج محل کے سامنے دھرنے پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے، تاج محل میرا ہے، شاہ جہاں کا نہیں، یہ رہا دستاویز۔۔۔‘ وہ کہتا ہے کہ یہ زمین اس کے آباء و اجداد کی ہے۔ اگر کسی نے زمین پر قبضہ کر کے عمارت بنائی ہے تو وہ اس کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ اس کے اس دعوے پر پولیس بھی پریشان اور میڈیا بھی حیران ہے۔ یہ فلم تھی اور یہ کہانی پوری طرح سے خوابیدہ۔ لیکن آج اس ملک میں حقیقت میں یہی کہانی دہرائی جارہی ہے اور کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔

دراصل قطب مینار کے معاملے میں ایک نیا موڑ آچکا ہے۔ دہلی کے ساکیت کورٹ میں ایک شخص نے خود کو متحدہ آگرہ صوبہ کا وارث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے مداخلت کی درخواست دائر کی ہے۔ اس شخص کا کہنا ہے کہ دریائے جمنا کے درمیان کے علاقے اور آگرہ سے میرٹھ، علی گڑھ، بلند شہر اور گروگرام تک کی زمین پر اس کا حق ہے اور اب وہ اپنا حق واپس چاہتا ہے۔ یہ درخواست کنور مہندر دھوج پرساد سنگھ نامی ایک شخص کی جانب سے ایڈووکیٹ ایم ایل شرما کے ذریعے دائر کی گئی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وہ بیسوان خاندان کا فرد ہے اور راجہ روہنی رمن دھوج پرساد سنگھ کا وارث ہے جس کی موت 1950 میں ہوئی تھی۔ درخواست کے مطابق بیسوان خاندان کے نام سے جانا جانے والا خاندان اصل میں جاٹ راجا نند رام کی اولاد تھا جس کی موت 1695 میں ہوئی تھا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’جاٹ خیال‘ 1658 میں شاہ جہاں کی وفات کے بعد مضبوطی سے قائم ہوا اور جنگ کے دوران تخت پر قبضہ کرتے ہوئے ماکن کا ایک مہان پوتا راجہ نند رام اپنے قبیلے کا سربراہ بن گیا جسے دریا پور کے راجا پورچ کی حمایت ملی۔

اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’1947 میں راجہ روہنی رمن دھوج پرساد سنگھ کی زندگی میں مذکورہ خاندان کے ایک اور حکمراں، برطانوی ہندوستان اور صوبہ آزاد ہو گیا اور وہ بیسوان ایک ناقابل تقسیم ریاست بیسوان اسٹیٹ، ہاتھرس اسٹیٹ، مسران اسٹیٹ اور ورندابن اسٹیٹ مہابھارت کے دور سے میرٹھ سے آگرہ تک گنگا جمنا کے درمیان سال 1950 میں اپنی موت تک مالک رہا۔ راجہ روہنی رمن دھوج کی موت کے بعد جائیداد اس کے ورثاء یعنی 4 بیٹوں اور دو بیواؤں (بشمول درخواست گزار) کو 1950 کے ایکٹ کے مطابق وراثت میں ملی تھی۔‘

اس درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ناقابل تقسیم ریاست بیسوان اور بیسوان خاندان کی بیسوان اسٹیٹ کی آبائی زمین اور جائیدادوں کے لیے کسی انضمام پر دستخط نہیں کی گئی تھی اور یہ جائیداد 1873 سے 1950 کے درمیان تک کی نسل کو وراثت میں ملی تھی۔ درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد حکومت ہند نے بیسوان کی ناقابل تقسیم ریاست بیسوان کے ساتھ کوئی معاہدہ، کوئی انضمام یا انضمام کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ الحاق کا کوئی عمل نہیں کیا گیا تھا اور اس وجہ سے بیسوان ایک ناقابل تقسیم ریاست ہے، جو آج تک آزاد ہے اور متحدہ صوبہ آگرہ کے تمام علاقوں اور آگرہ سے میرٹھ، علی گڑھ، بلند شہر اور گڑگاؤں پر اس کا قبضہ ہے۔

اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور یو پی حکومت نے قانون کی مناسب کارروائی کے بغیر درخواست گزار کے قانونی حقوق پر قبضہ کیا اور درخواست گزار کی جائیداد کے ساتھ الاٹ کرنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔‘ اس درخواست میں اہم دلیل یہ دی گئی ہے کہ جنوبی دہلی کے تحت آنے والا علاقہ درخواست دہندہ کے قانونی حقوق کے تحت جھوٹا ہے۔ تنازعہ کا مرکز قطب مینار بھی مذکورہ دائرہ اختیار کی حیثیت میں ہے۔ اس لیے اس معاملے میں کسی بھی فیصلے سے درخواست گزار کے قانونی حقوق کو نقصان پہنچے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت نے اس درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرلیا ہے ساتھ ہی اس درخواست پر تمام فریقوں سے جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب اس درخواست پر 24 اگست 2022 کو سماعت ہو گی۔

غور طلب امر یہ ہے کہ عدالت کو گزشتہ 9 جون کو اس عرضی پر اپنا فیصلہ سنانا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ محمد غوری کی فوج کے ایک جنرل اور مملوک خاندان کے پہلے حکمران قطب الدین ایبک نے 27 مندروں کو مسمار کر کے مسجد قوۃ الاسلام کی تعمیر کی تھی۔ ساکیت کورٹ کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج نکھل چوپڑا نے گزشتہ ماہ ہی اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، لیکن ان کا تبادلہ راؤس ایونیو کورٹ میں ہو جانے کی وجہ سے اس معاملے کو اے ڈی جے دنیش کمار کے سامنے درج کر لیا گیا تھا اور انہیں یہ فیصلہ سنانا تھا، لیکن 9 جون کو عدالت نے کہا کہ ’آج کوئی حکم نہیں دیا جائے گا۔ عدالت پہلے نئی درخواست کی سماعت کرے گی۔‘

مندر ہونے کے دعوے کو عدالت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے

29 نومبر 2021 کو دہلی کے ساکیت کورٹ نے اس درخواست کو خارج کر دیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قطب مینار کمپلیکس کے اندر واقع مسجد قوت الاسلام جین اور ہندو مندروں کے ملبے پر بنائی گئی ہے اور انہیں اس کے اندر مورتیاں رکھنے اور پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا تھا کہ ’ماضی میں کی گئی غلطیاں موجودہ دور اور مستقبل کے امن کو خراب کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔ دسمبر 2020 میں یہ ’سول مقدمہ‘ جین مذہب کے پہلے ترتھانکر بھگوان ریشبھ دیو اور ہندو مذہب کے بھگوان وشنو کی طرف سے ہری شنگر جین، رنجنا اگنیہوتری اور جیتندر سنگھ ’ویشین‘ نے دائر کیا تھا۔ جس میں حکومت ہند کی وزارت ثقافت، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور اس کے دہلی سرکل کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس میں کئی دعوؤں کے ساتھ ایک دعویٰ یہ بھی کیا گیا تھا کہ ’مسلمانوں نے اس جگہ کو کبھی بھی وقف قرار نہیں دیا۔‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ’چونکہ یہ مسجد کئی مندروں کو گرا کر بنائی گئی ہے، اس لیے ہندو مندر کو گرانے کے بعد جو اسلامی ڈھانچہ یا مسجد تعمیر کی گئی اسے قانون میں کوئی قانونی منظوری نہیں ملے گی کیونکہ وہاں کوئی وقف نہیں بنایا گیا ہے۔‘ یہ کہتے ہوئے کہ ’’ماضی کی غلطیاں ہمارے حال اور مستقبل کے امن کو خراب کرنے کی بنیاد نہیں ہو سکتی ہیں‘‘ ساکیت کورٹ کی سول جج نیہا شرما نے دسمبر 2021 میں اس مقدمے کو خارج کر دیا تھا جس کے بعد درخواست گزاروں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے سامنے اس حکم کو چیلنج کیا ہے اور پھر سے قطب مینار کمپلیکس کے اندر ’’مندروں کی بحالی‘‘ کا مطالبہ کیا جبکہ عدالت نے 24 مئی 2022 کو 9 جون تک کے لیے محفوظ کردہ اپنے حکم کو اب ٹال دیا ہے۔

ہری شنگر جین نے گزشتہ حکم کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میں عبادت گزار ہوں۔ ابھی بھی ایسی تصویریں موجود ہیں، وہ اب بھی نظر آتی ہیں… اگر وہ مورتیاں باقی ہیں تو پوجا کرنے کا حق بھی باقی رہتا ہے۔‘‘ وہیں عدالت کا مشاہدہ ہے کہ بتوں کے موجود ہونے پر تنازعہ نہیں ہے، لیکن معاملہ پوجا کے حق سے متعلق ہے۔

بتادیں کہ اس معاملے میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ہندو فریق کی درخواست کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ہندو فریق کی درخواستیں قانونی طور پر درست نہیں ہیں۔ پرانے مندر کو گرا کر قطب مینار کمپلیکس کی تعمیر ایک تاریخی حقیقت ہے۔ قطب مینار کو 1914 سے ایک محفوظ یادگار کا درجہ حاصل ہے، یہ عبادت گاہ نہیں ہے۔ اس کی شناخت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اب وہاں عبادت کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ان کا واضح طور پر کہنا ہے کہ آثار قدیمہ کے تحفظ کے ایکٹ 1958 کے مطابق، محفوظ یادگار میں صرف سیاحت کی اجازت ہے۔ کسی بھی مذہب کو عبادت کی اجازت نہیں ہے۔ جب یہ قطب مینار کمپلیکس اے ایس آئی کی حفاظت میں آیا تو اس وقت بھی کسی مذہب کے لوگ وہاں کوئی عبادت نہیں کر تے تھے۔ ایسے میں اب قطب مینار کی حیثیت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی۔

یہاں یہ بات بھی غورطلب رہے کہ سخت گیر ہندو قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ قطب مینار در اصل ایک مندر تھا اور اسے قطب الدین ایبک کے بجائے ایک ہندو راجہ نے تعمیر کروایا تھا۔ قوم پرست ہندو اسے قطب مینار کی بجائے، ’وشنو استمبھ‘ کا نام دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ اس کی تصدیق کے لیے جلد ہی قطب مینار کمپلکس میں کھدائی کا بھی امکان ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں مرکزی وزیر ثقافت جی کے ریڈی نے کہا ہے کہ معروف قطب مینار کمپلیکس میں کھدائی سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے، اس لیے اس حوالے سے میڈیا کی رپورٹ درست نہیں ہے۔ تاہم وزیر ثقافت نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ آیا حکومت مستقبل میں ایسا کرنے والی ہے یا نہیں، البتہ انہوں نے صرف اتنا کہا، ’’ابھی تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

اس سے قبل حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر عام ہو گئی تھی، کہ مرکزی حکومت نے قطب مینار کے کمپلیکس میں موجود مورتیوں کی نقش نگاری کروانے کی ہدایات جاری کی ہیں اور قطب مینار کے جنوب میں واقع مسجد قوت الاسلام سے 15 میٹر کے فاصلے پر بہت جلد کھدائی شروع کی جا سکتی ہے۔ ان خبروں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس جائزے کے لیے کہ آیا قطب مینار بھی کسی مندر کا حصہ تھا یا نہیں، اس کا پتہ لگانے کے لیے بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی شروع کرنا تھی اور پھر وزارت ثقافت کو اپنی رپورٹ دینی تھی۔ میڈیا رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ وزارت ثقافت کے سکریٹری گووند موہن نے اچانک قطب مینار کا دورہ کیا تھا اور اس کے بعد ہی حکومتی ذرائع سے یہ خبر عام ہو گئی کہ محکمہ آثار قدیمہ کو یہ معلوم کرنے کے لیے کھدائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ آیا قطب مینار کو قطب الدین ایبک نے تعمیر کیا تھا یا ہندو راجہ چندرگپت وکرمادتیہ نے؟ تاہم وزارت کا اصرار ہے کہ یہ ایک معمول کا دورہ تھا اور ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

مسجد قوت الاسلام پر محکمہ آثار قدیمہ کا غیر قانونی قبضہ

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ یہ تاریخی قوت الاسلام مسجد وقف کے تحت ہے اور اس پر محکمہ آثار قدیمہ نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ دعویٰ کسی اور کا نہیں، بلکہ دلی وقف بورڈ کا ہے۔ دو سال قبل دلی وقف بورڈ نے راقم الحروف کو حق اطلاعات ایکٹ (آرٹی آئی) کے تحت ایک سوال کے جواب میں یہ اطلاع دی تھی کہ دلی میں 156 وقف جائیدادوں پر محکمہ آثار قدیمہ کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ راقم الحروف کے پاس ان 156 وقف جائیدادوں کی فہرست موجود ہے اور اس فہرست میں مسجد قوت الاسلام کا نام بھی درج ہے۔

تاریخی الاسلام ہندوستان کی فتح کے بعد دلی میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1190ء کی دہائی میں ہوا۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی دلی میں اوقاف کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ بہرحال، 13 ویں صدی میں التمش کے دور حکومت میں اس مسجد میں توسیع کرکے اس کے رقبے میں تین گنا اضافہ کیا گیا تھا اور ساتھ ہی ایک عظیم مینار تعمیر کیا گیا۔ اس کے بعد مشہور قطب مینار کی تعمیر کا آغاز 1199ء میں ہوا تھا۔

اس سے قبل بھی دلی وقف بورڈ نے راقم الحروف کو سال 2010 میں آر ٹی آئی کے تحت 158 وقف جائیدادوں کی فہرست دی تھی، جس کے بارے میں وقف بورڈ کا کہنا تھا کہ ان جائیدادوں پر محکمہ آثار قدیمہ نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ وہیں سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں 172 وقف جائیدادوں کی فہرست دی ہے۔ سچر کمیٹی کے مطابق یہ تمام جائیدادیں وقف بورڈ کی ہیں جن پر محکمہ آثار قدیمہ نے اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ ان فہرستوں میں بھی مسجد قوت الاسلام کا نام بھی درج ہے۔ یہی نہیں، دلی وقف بورڈ کا گزٹ اعلامیہ بھی بتاتا ہے کہ اس مسجد کا اندراج وہاں بھی موجود ہے۔

یاد رہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ ’ناجائز قبضوں‘ والی دلی وقف بورڈ کی اس فہرست میں قطب مینار کیمپس (احاطہ) میں اس مسجد قوت الاسلام کے قریب موجود سلطان شمس الدین التمش، سلطان علاؤالدین خلجی اور امام ضامن کا مقبرہ بھی درج ہے۔ اس فہرست میں اس کیمپس کا قبرستان بھی درج ہے، جو 17 بیگھا سے زائد زمین پر واقع ہے۔ یہی نہیں، قطب مینار کے مشرقی دروازے سے قریب ایک دوسری مسجد پر بھی محکمہ آثار قدیمہ نے ’قبضہ‘ کر رکھا ہے۔ غور طلب رہے کہ قطب مینار کا یہ احاطہ کئی سلطنتوں کا اہم مرکز رہا ہے۔ حکومت نے اسے قومی وراثت کے طور پر برقرار رکھا ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے اس تعلق سے محکمہ آثار قدیمہ سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی، لیکن اس رپورٹ کے لکھے جانے تک کوئی بات نہیں ہو سکی۔ حالانکہ راقم الحروف نے پانچ سال قبل وقف بورڈ کی جائدادوں پر محکمہ آثار قدیمہ کے قبضے کے متعلق آثار قدیمہ کے سروے سیکشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بی آر منی سے بات چیت کی تھی، تب انہوں نے دلی وقف بورڈ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے سوالیہ لہجے میں کہا تھا، ’کیا حکومت کبھی غیر قانونی قبضہ کرتی ہے؟‘ان کا کہنا تھا کہ ’محکمہ آثار قدیمہ اسی تاریخی وراثت کو اپنی نگرانی میں لیتا ہے جن کی تاریخی اہمیت ہوتی ہے۔‘

محکمہ آثار قدیمہ ہی کر رہا ہے وراثتوں سے کھلواڑ

ملک میں بین الاقوامی و قومی اہمیت کی حامل تاریخی عمارتوں و یادگاروں کے تحفظ کی ذمہ داری آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا یعنی محکمہ آثار قدیمہ کی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے پہلے ہی محفوظ قرار دی گئیں عمارتوں کے تحفظ کے لیے ایک جامع پالیسی وضع کررکھی ہے۔ اس کا مقصد ملک کی تاریخی عمارتوں کو اچھی حالت میں برقرار رکھنا ہے۔ یعنی ماضی کی جو بھی وراثت ہیں، نشانیاں ہیں، ان کو ’جوں کا توں‘ برقرار رکھنا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ملک کی تاریخ سے واقف ہوسکیں، لیکن محکمہ آثار قدیمہ پر ہمیشہ سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انہوں نے تحفظ کے لیے جو مسلم وراثت کو لیا ہے، ان کا صحیح ڈھنگ سے تحفظ نہیں کررہی ہے۔

اگر بات قطب مینار کمپلیکس کی کریں تو ہمیشہ سے محکمہ آثار قدیمہ پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اس کیمپس میں موجود تاریخی عمارتوں میں اندرونی و بیرونی ڈیزائن کو خفیہ طور پر تبدیل کرکے اس کی بے حرمتی کر رہا ہے تاکہ ہندو دائیں بازو کے گروہوں کو موقع ملے اور وہ مندر ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں، بلکہ موقع ملے تو آستھا کے نام پر وہ اس تاریخی عمارت کو مسمار کر کے اپنے نام کرلیں۔

میڈیا میں شائع رپورٹس بتاتی ہیں کہ ملک میں جب سے ہندو شدت پسند جماعتوں نے سر اٹھایا ہے تب سے قدیم تاریخی مساجد پر پر ان کی بری نظر ہے۔ جس عہد میں یہ لوگ بابری مسجد کو منہدم کرنے کی تحریک چلارہے تھے، اس عہد میں مسجدقوت الاسلام پربھی نشانہ سادھا گیا تھا اور اچانک سے یہاں ایک مورتی برآمد کر لی گئی، جو ابھی بھی ایک دیوار پر نصب ہے اور اس پر لوہے کی جالی لگا دی گئی۔

اس تاریخی مسجد میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ اگر کوئی نماز پڑھے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔ لیکن سال 2012 میں ہی یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ ہر اتوار کی صبح مسجد کے احاطے میں ہندو انتہا پسند تنظیم ’آر ایس ایس‘ کے کارکنان کی پنچایت لگتی ہے۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ویسے تو قطب مینار کیمپس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لگتا ہے، لیکن اس پنچایت میں شامل ہونے والے لوگوں کو کسی طرح کی کوئی اجازت یا ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ غور طلب ہے کہ تب دلی کا اقتدار بی جے پی کے ہاتھوں میں نہیں تھا۔

حالیہ دنوں میں مشہور ویب سائٹ ’انڈیا ٹومورو‘ کے ایڈیٹر سید خلیق احمد نے اس تاریخی مسجد کا دورہ کیا تھا اور ایک تفصیلی رپورٹ بھی لکھی تھی۔ ان کے مطابق، کوئی بھی قطب مینار کمپلیکس کا دورہ کرکے یہ دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح محکمہ آثار قدیمہ پرانے اور سادہ پتھروں کی جگہ ہندو یا جین مندر کی خصوصیات والے نئے پتھروں کو لگا رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ مسجد قوت الاسلام احاطے میں تحفظ کے بہانے کیا جا رہا ہے۔

خلیق احمد اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ’محکمہ آثار قدیمہ اس کمپلیکس میں کیا کر رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ عمارتوں کے کردار کو تبدیل کر رہا ہے، اس کی قدیم شناخت کو تباہ کر رہا ہے۔۔۔ جبکہ مسجد کا زیادہ تر حصہ محکمہ آثار قدیمہ کی حفاظت میں ہونے کے باوجود غائب ہو چکا ہے۔ مسجد کی چھت کو چھونے والے ستونوں کے اوپر موجود سادہ پتھروں کو ہٹا کر اس مسجد کی نوعیت بدلنے کاایک خفیہ آپریشن بتدریج جاری ہے۔ اور یہ سب کچھ اس تاریخی مسجد کے تحفظ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسجد کے بیرونی حصے میں کسی بھی ستون یا دیوار پر ایسی انسانی شکلیں یا تصاویر موجود نہیں ہیں۔ تو مسجد کے اندر ستونوں پر یہ کیسے آگئے؟ جبکہ کسی بھی حالت میں مسجد کے اندر پتھروں پر اس طرح کی انسانی تصاویر کی موجودگی کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ اور جب ایک مسلمان حکمران کی طرف سے قوت الاسلام یعنی’’اسلام کی طاقت‘‘ کے نام سے مسجد تعمیر کی جا رہی ہو تو کیا وہ ایسی غلطی کر سکتا ہے؟ کیا مسلمان ایسی مسجد میں نماز ادا کریں گے، خواہ ایک دن یا سینکڑوں سال؟ اسلام کی بنیادی باتیں جاننے والے کسی بھی شخص کاجواب نفی میں ہوگا ۔

وہ مزید لکھتے ہیں، ’اور اگر دلیل کی بنا پر یہ مان بھی لیا جائے کہ حکمرانوں کو اپنی فتح کا مظاہرہ کرنے کے لیے مسجد بنانے کی جلدی تھی، اس لیے انہوں نے مسمار کیے گئے مندروں کا سامان استعمال کیا، تو کیا انسانی یا جانوروں کی تصویروں والے پتھر مسجد کے اندرونی حصوں میں استعمال ہوں گے؟ مسجد میں مندر کے باقیات کے استعمال پر محکمہ آثار قدیمہ کی دلیل میں کوئی منطق نہیں ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں چھ سال کا وقت لگا، یہ بات خود محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے شائع اس کتاب میں ہے، جو ان دنوں قطب مینار کمپلیکس کے اندر فروخت ہوتی ہے۔ تو سوال ہے کہ جب ایک مسجد کو مکمل کرنے میں چھ سال لگے تو کیا ان 72 مہینوں میں تعمیراتی سامان کا بندوبست کرنا کوئی مشکل کام تھا؟ وہ بھی تب، جب محمد غوری اور قطب الدین دلی سے افغانستان تک حکومت کر رہے تھے۔ دراصل، محکمہ آثار قدیمہ کے دلائل پہلے سے طے شدہ دائیں بازو کے ایجنڈے کو ثابت کرنے کے لیے دھوکہ دہی کے ایک بنڈل کے سوا کچھ نہیں۔‘

خلیق احمد کے مطابق یہی کارنامہ محکمہ آثار قدیمہ قطب مینار کے ساتھ بھی انجام دے رہی ہے۔ مینار کے مختلف منزلوں و اونچائیوں پر قرآنی آیات کی خطاطی ہے۔ لیکن قطب مینار کی بنیاد سے تقریباً ایک میٹر اوپر عربی خطاطی کے پتھروں کو سادہ پتھروں سے بدل دیا گیا ہے۔ ایک مرحلے پر محکمہ آثار قدیمہ کے محافظوں نے خطاطی کے کچھ حصے کو سادہ پتھروں سے ڈھانپ دیا ہے اور باقی خطاطی ابھی تک برقرار ہے۔ لیکن خطاطی کا مکمل مفہوم اب سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ بعض خطاطی کو ہٹا کر ان کی جگہ سادہ پتھر لگا دیے گئے ہیں۔ اصل پتھر، جن میں قطب مینار کے عربی خطاطی کے کچھ پتھر بھی شامل ہیں، پورے کمپلیکس میں بکھرے پڑے ہیں، ان میں سے زیادہ تر التمش کے مقبرے کے پیچھے اور اس سے متصل قبرستان کے اطراف میں پھینکے گئے ہیں۔ یعنی اس یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کو اس کے نام نہاد محافظ ہی اس جگہ کی اصلیت کو تبدیل کر رہے ہیں۔ آثار قدیمہ کی یہ چالاکی عالمی ورثے کی بہت بڑی توہین ہے۔

وہ مزید اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ کیمپس کے اندر موجود’مدرسہ‘کے کمرے، جو کبھی طلبہ کے لیے اسکول ہوا کرتے تھے، اب وہاں پیشاب کی بدبو آتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ کی دیکھ بھال کس طرح سے کی جارہی ہے۔ کیمپس کے اندر موجود باغات کی بھی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ سیاحوں کے لیے احاطے میں بنائے گئے واش رومز اور بیت الخلاء قابل استعمال حالت میں نہیں ہیں۔

خلیق احمد صاحب نے قطب مینار کمپلیکس کے اس دورے کے لیے ایک گائیڈ بھی لیا تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ یہاں کے گائیڈ پورے دن ہزاروں کی تعداد میں آنے والے سیاحوں کو اس تاریخی مقام کی کیا تاریخ بتاتے اور سمجھاتے ہیں۔ خلیق احمد صاحب نے اپنے تجربے کو اپنی رپورٹ میں بھی لکھا ہے، جس سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ گائیڈ کس طرح یہاں آنے والے سیاحوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ کھیل پورے ملک میں چل رہا ہے۔ خود راقم نے یونیسکو کی ایک فیلوشپ کے درمیان ہندوستان کے مختلف مقامات پر جاکر یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ہمارے ملک کے گائیڈ باہر سے آنے والے سیاحوں کو غلط اور من گھڑت تاریخ بتاتے ہیں۔ بہرحال، خلیق صاحب نے لکھا ہے، ’اس گائیڈ نے ہمیں مسجد اور دیگر عمارتوں کے بارے میں بتانے کے بجائے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ مندر ہے۔۔۔‘

کیا ہے مندر توڑ کر مسجد بنانے کے دعوے کی حقیت؟

عدالت میں داخل عرضی میں کہا گیا تھا کہ اس مسجد کی تعمیر 27 ہندو و جین مندروں کو مسمار کرنے کے بعد ہوئی ہے۔ محمد غوری کے غلام قطب الدین نے دلی میں قدم رکھتے ہی ان 27 مندروں کو توڑنے کا حکم دیا۔ جلد بازی میں مندروں کو توڑ کر اس کے باقیات سے مسجد بنا دی گئی، پھر اس مسجد کو ’قوت الاسلام‘ نام دے دیا گیا۔ اس کی تعمیر کا مقصد عبادت سے زیادہ مقامی ہندوؤں و جین طبقہ کے لوگوں کے جذبات کو مجروح کرنا اور اسلام کی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا، ہندو مذہب کے ماننے والوں کے دل میں خوف پیدا کرنا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس عرضی میں یہ بھی کہا گیا کہ اس مسجد کی تعمیر 1192 میں ہوئی، لیکن مسلمانوں نے یہاں کبھی نماز ادا نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسجد مندر کی باقیات سے تعمیر کی گئی ہے اور اس میں ہندو دیوی دیتاؤں کی مورتیاں لگی تھیں۔ آج بھی ہندو مذہب سے متعلق ان مورتیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا واقعی اس مسجد کی تعمیر مندروں کو توڑ کر ہوئی ہے؟ اس بارے میں عطاء الرحمن قاسمی اپنی کتاب ’دلی کی تاریخی مساجد‘ میں لکھتے ہیں، ’آج جہاں مسجد قوت الاسلام واقع ہے، عہد قدیم میں اس علاقے میں بدھوں کی عبادت گاہیں تھیں۔ اس عہد میں بدھوں کے اندر چھوٹے چھوٹے بدھ مندر اور استوپیں بنانے کا عام رواج تھا، جیسا کہ ویشالی، گیا اور چمپارن میں بدھوں کے چھوٹے چھوٹے مندر اور استوپ ہیں۔ مہاراجہ اشوک کے دور اقتدار میں بدھ مذہب کو بڑا عروج حاصل ہوا تھا اور اس مذہب کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی، لیکن مہاراج شنکر اچار کے دور میں بدھوں پر بڑے مظالم ڈھائے گئے تھے اور ان کے مظالم سے تنگ آکر بہت سارے بدھ لوگ ہندوستان چھوڑ کر نیپال اور چین کی طرف بھاگ گئے تھے۔ شنکراچار کے ماننے والوں نے بہت سارے بدھ مندروں اور استوپوں کو مسمار کردیا تھا، یا شیو مندر، شنکر مندر اور ہنومان مندر میں تبدیل کردیئے تھے، جیسا کہ آج بھی گیا کے بدھ مندر کا جھگڑا عدالت میں زیرسماعت ہے۔ چونکہ گوتم بدھ اور ان کے ماننے والوں نے برہمنوں کی مخالفت کی تھی، چنانچہ جب برہمن لوگ طاقت و اقتدار میں آئے تو بدھوں کے آثار کو مٹانا شروع کردیا۔ مہرولی میں بھی بدھوں کے آثار تھے۔ مہاراجہ اشوک کی حکومت دلی پر بھی رہی ہے اور اس کی سرپرستی میں بدھ مندر اور استوپ تعمیر ہوئے ہیں۔۔۔‘

وہ اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں، ’قطب الدین ایبک نے جب پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر رائے پتھورا کے قلعے پر قبضہ کیا تو مسلمان فوجیوں کے لیے ایک مسجد کی تعمیر کی ضرورت محسوس کی اور اس مقصد کے تحت معماروں کو جمع کرنے کا حکم صادر کیا۔ شاہی فرمان جاری ہونے کے بعد معمار دربار میں حاضر ہوئے جو ہندو مذہب کے ماننے والے تھے۔ اس وقت تک ہندوستانی اینٹیں بنانے کے طور طریقوں سے ناواقف تھے حالانکہ مسلم ممالک میں اینٹیں بنتی تھیں اور اتنا وقت نہیں تھا کہ اس کے لئے غزنی اور دوسرے علاقوں سے کاریگر لاکر دلی میں بھٹے لگائے جاتے، چنانچہ ان ہندو معماروں نے بدھ دشمنی کے جذبے کے تحت بدھ مندروں کے لمبے، کھمبوں اور پتھروں سے مسجد تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی۔ بادشاہ نے مجبوراً ان کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے ان ہندو معماروں کو حکم دیا کہ ان ہی بدھ مندروں کے ملبہ سے مسجد تعمیر کردی جائے اور ان ہی بدھ مندروں کے ملبہ سے مسجد تعمیر کردی جائے اور ان ہندو معماروں نے بھی ان بدھ مندروں کے ملبہ اور ستونوں سے مسجد تعمیر کرنے میں دلچسپی لی اور دلی و نواح دہلی سے ملبے اور ستونوں کو جمع کیا اور مسجد تعمیر کردی گئی۔۔۔‘

غورطلب ہے کہ مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی کی یہ کتاب سال 1995 میں نئی دلی کے مولانا آزاد اکیڈمی نے شائع کی ہے۔

سر سید احمد خان نے اپنی کتاب ’آثار الصنادید‘ میں اس مسجد کے بارے میں لکھا ہے، ’اس مقام پر جہاں اب مسجد ہے، رائے پتھورا کا بت خانہ تھا اور یہ بت خانہ بھی ایسا نامی و گرامی تھا کہ سومناتھ کے بت خانہ کو اور دلی کے بت خانہ کو برابر سمجھا کرتے تھے۔ آخرکار سلطان معزالدین محمد بن سام نے جو سلطان شہاب الدین کے نام سے مشہور ہیں، 587 ہجری میں رائے پتھورا کو شکست دی اور اس بت خانہ کو فتح کرکے تمام بت توڑ ڈالے اور اس مسجد عالی کی بنا رکھی۔۔۔ جاننا چاہیئے کہ جب رائے پتھورا کا بت خانہ فتح ہوا ، اس وقت یہ تجویزسامنے آئی کہ اس بت خانہ کی عمارت بھی بہت عمدہ اور نہایت بے نظیر ہے، یہ عمارت بھی بدستور باقی رہے اور مسجد بھی بن جائے، کہ اس میں دو فائدے تھےایک باقی رہنا عمارت عمدہ کا، دوسرے پایا جانا شان و شوکت اور نشان قوت اسلام کا، کہ ایسا بڑا بت خانہ اسلام کے زور سے ٹوٹ کر خانہ خدا اور مسجد اعلی بنا۔‘ سرسید احمد خان کی یہ کتاب سن 1847 میں شائع ہوئی تھی۔یہی بات ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفرنامے میں لکھی ہے، ’اس مسجد کی جگہ پہلے بت خانہ تھا۔ جب دلی فتح ہوئی بت خانہ کی جگہ یہ مسجد تیار کی گئی۔‘ غورطلب ہے کہ اپنے 28 سالہ سفر کے اختتام پر ابن بطوطہ ( 1304-1369) نے ایک مایہ ناز سفرنامہ ’’رحلہ‘‘ (جس کا مکمل نام: رحلۃ ابنِ بطُوطَہْ، المُسَمّاہ تحفۃ النطارفِی غرائب الامصار و عجائب الاسفَار ہے) تصنیف کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے 75 ہزار میل طویل سفر کی رُوداد نقل کی ہے۔ راقم نے ابن بطوطہ کی یہ بات اس کے سفرنامہ کے اردو ترجمہ سے لی ہے، یہ ترجمہ خان بہادر مولوی محمد حسین نے کیا اور یہ کتاب لاہور کے ’تخلیقات‘ نے شائع کی ہے۔

ہمایوں کا مقبرہ بھی ہے وقف کی ملکیت

محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے غیر قانونی قبضے کی فہرست میں دنیا کا مشہور ہمایوں کا مقبرہ بھی شامل ہے۔ دلی وقف بورڈ کے مطابق ہمایوں کا مقبرہ وقف کی جائیداد ہے اور محکمہ آثار قدیمہ نے اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔

یہی نہیں، بلکہ 156وقف جائیدادوں کی اس فہرست میں کوٹلہ فیروز شاہ کے اندر موجود جامع مسجد، لال قلعہ کے اندر موجود موتی مسجد، کناٹ پیلیس کے نزدیک ہیلی روڈ کی مسجد، دہلی گولف کلب کے کمپاؤنڈ میں موجود مقبرہ سید عابد، مقبرہ بیگم جان اور مسجد، پرانا قلعہ کے اندر موجود مسجد کوہنہ، صفدر جنگ مقبرہ کے اندر موجود مسجد اور مدرسہ، گرین پارک کی نیلی مسجد اور مخدوم مسجد، حوض خاص مسجد، مقبرہ فیروز شاہ تغلق، لودھی روڈ مسجد، داؤد سرائے کی مسجد و مقبرہ جمالی کمالی، مہرولی میں مقیم درگاہ حضرت بختیار کاکی کے اندر موجود موتی مسجد، نظام الدین علاقے میں واقع مسجد عرب کی سرائے، مسجد بیگم پور، متھرا روڈ کی مسجد خیر المنزل، آئی ایس بی ٹی کشمیری گیٹ کے قریب مقیم مسجد قدسیہ باغ جیسی کئی اہم مسجدوں و مقبروں پر دلی وقف بورڈ نے’’ محکمہ آثار قدیمہ کے غیر قانونی تجاوزات کے تحت‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

اس طرح محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے 156 جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے کی فہرست میں 38 مساجد کے نام شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم مساجد کے نام آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔

لیکن دوسری طرف، محکمہ آثار قدیمہ ایک آر ٹی آئی کے جواب میں کہتا ہے ’33 مساجد یا وہ مساجد جو کسی مقبرے سے منسلک ہیں، ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ، دہلی ڈویژن کے دائرہ اختیار میں، مرکزی یادگاروں کی فہرست میں آتی ہیں۔‘ اس کے ساتھ انہوں نے 12 مساجد کی فہرست بھی دی تھی، جس میں صرف تین مساجد میں نماز ادا کی جا رہی ہے۔ وہ تین مساجد ہیں۔ پالم مسجد، نیلی مسجد اور سنہری مسجد۔ اب سوال یہ ہے کہ باقی مسجدیں کہاں غائب ہوگئیں، جن کو لے کر دلی وقف بورڈ کا الزام ہے کہ اس پر محکمہ آثار قدیمہ نے قبضہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ راقم الحروف نے ان میں کچھ مسجدوں کا آج سے تین سال قبل دورہ بھی کیا تھا، اس دوران پایا کہ جتنی بھی مسجدیں محکمہ آثار قدیمہ کے تحت آتی ہیں، ان میں زیادہ تر کی حالت بے حد خراب ہے۔ راقم الحروف نے صرف دلی ہی نہیں، بلکہ ملک کی ان تمام مساجد کی فہرست آرٹی آئی کے ذریعہ حاصل کی تھی، جو محکمہ آثار قدیمہ کی دیکھ بھال میں ہیں اور جہاں نماز نہیں ہورہی ہے۔ راقم کی خواہش تھی کہ ان مساجد کے تازہ حالات سے لوگوں کو واقف کرایا جائے، لیکن تب اس کام میں کسی تنظیم نے دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔

یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ دلی وقف بورڈ سے آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے علاوہ 114 وقف جائیداد دلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ اور غیر قانونی قبضے والی 114 وقف جائیدادوں کی اس فہرست میں 18 مساجد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دلی میں ایسی 26 وقف املاک ہیں جن پر دیگر سرکاری اداروں کا ’غیر قانونی قبضہ‘ ہے۔ ’26 ناجائز قبضوں‘ والی وقف جائیدادوں کی اس فہرست میں بھی 12 مساجد کے نام شامل ہیں۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ اولڈ روہتک روڈ پر واقع ریلوے اکاؤنٹ آفس کے قریب دلی وقف بورڈ کی ایک نیم والی مسجد تھی، جس پر ریلوے نے ’ناجائز قبضہ‘ کر کے مسجد کو ’شہید‘ کر دیا۔ وہیں مہرولی کے مدرسہ والی مسجد پر ایم سی ڈی کا ’ناجائز قبضہ‘ ہے۔

دستاویزات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دلی کے لیڈی ہارڈنگ اسپتال میں دلی وقف بورڈ کی ایک چھوٹی سی مسجد تھی، جسے اسپتال انتظامیہ ’اسٹور روم‘کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

آگے کی کہانی اور بھی پریشان کن ہے۔ کیونکہ وقف بورڈ کی دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دلی وقف بورڈ کی 373 جائیدادوں پر دلی کے ’دبنگ‘ مولویوں اور دیگر افراد کا ’ناجائز قبضہ‘ ہے۔ ان ’ناجائز قبضوں‘ میں 138 مساجد کے نام شامل ہیں۔ غورطلب ہے کہ دلی وقف بورڈ سے آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل کردہ اہم دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ دلی گزٹ اعلامیہ کے تحت پوری دلی میں 827 مساجد ہیں جن میں سے صرف 193 مساجد دلی وقف بورڈ انتظامیہ کے کنٹرول میں ہیں اور ان تمام مساجد میں نماز ادا کی جارہی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار دلی وقف بورڈ سے آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں اور یہ دستاویز پانچ سال پرانی ہیں۔ ایسے میں ان اعداد و شمار میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے۔

***

 دلی وقف بورڈ سے آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل شدہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے علاوہ 114 وقف جائیداد دلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ اور غیر قانونی قبضے والی 114 وقف جائیدادوں کی اس فہرست میں 18 مساجد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دلی میں ایسی 26 وقف املاک ہیں جن پر دیگر سرکاری اداروں کا ’غیر قانونی قبضہ‘ ہے۔ ’26 ناجائز قبضوں‘ والی وقف جائیدادوں کی اس فہرست میں بھی 12 مساجد کے نام شامل ہیں۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ اولڈ روہتک روڈ پر واقع ریلوے اکاؤنٹ آفس کے قریب دلی وقف بورڈ کی ایک نیم والی مسجد تھی، جس پر ریلوے نے ’ناجائز قبضہ‘ کر کے مسجد کو ’شہید‘ کر دیا۔ وہیں مہرولی کے مدرسہ والی مسجد پر ایم سی ڈی کا ’ناجائز قبضہ‘ ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022