قرآن کے خلاف پروپیگنڈہ : باطل کا پرانا حربہ

کتابت و تدوین قرآن کی تاریخ بیک نظر

مولانا سید احمد ومیض ندوی

 

قرآن مجید اللہ کی طرف سےجبرئیل امین کے ذریعہ پیارے نبی پر نازل ہوا ۔ اس میں کسی زمانے میں انسان کو حذف واضافہ کا اختیار نہیں رہا۔ کج فہموں نے قرآن پر ہر دور میںبعض انتہائی سطحی اعتراضات کیے۔ اسی قبیل کے اعتراض میں قرآن مجید کی بعض آیات کے تعلق سے شبہ پیدا کر کے انہیں خلفاء ثلاثہ کے ذریعہ نعوذ باللہ قرآن میں شامل کرنے کی بات بھی ہے، نیز یہ کہ اس کی آیتیں سماج میں دہشت پھیلاتی ہیں اور ان سے مسلمانوں میں تشدد کو فروغ مل رہا ہے وغیرہ۔ رمضان المبارک کو قرآن سے ایک خاص نسبت ہے اس لیے اس ماہ میں بطور خاص مختلف طور پر قرآن سے استفادہ کی شکلیں نکالی جا سکتی ہیں ۔ اس پر غور و فکر کے ذریعہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن پر اعتراض کرنے والوں کی عقل کا معیار کس قدر سطحی ہے ۔
‏ارشاد ربانی ہے: وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُھَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ(البقرۃ:۲۳)اگر تم اس کلام میں جسے ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے شک کرتے تو اس جیسی ایک سورت پیش کرکے بتاؤ اور بلا لاؤ اللہ کے علاوہ اپنے گواہوں کو اگر تم سچے ہو۔ اسی طرح قرآن مجید پر دہشت گردی پھیلانے کا الزام بھی کوئی نیا نہیں ہے، کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ محمدﷺ جو دین اور کلام لیکر آئے ہیں اس سے ایک گھر کے افراد میں باہمی رنجش پیدا ہوتی ہے، باطل روز اول سے قرآن کے خلاف پروپیگنڈہ کا سہارا لیتا رہا ہے، یہ در اصل عام افراد انسانی کو اسلام اور قرآن مجید سے متنفر کرنے کا حربہ ہے۔
قرآن مجید اور دہشت گردی
جن آیتوں میں جہاد وقتال اور کفار سے ترک موالات کا تذکرہ ہے اُن آیات کو ان کے سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسلام میں قتال وجہاد فساد فی الارض یا کشور کشائی کی خاطر نہیں ہے بلکہ جہاد کا اصل مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی کا قیام، روئے زمین سے ظلم وفساد کا ازالہ اور ظالموں اور سرکشوں کا صفایا کر کے بندگان خدا کے لیے امن وسلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو اپنے پیروکاروں کو امن وسلامتی، باہمی رواداری اور حقوق انسانی کی تعلیم نہ دیتا ہو، عام حالات میں امن مطلوب ہے، لیکن درجۂ مجبوری میں جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے
حفاظتِ قرآن پر انگشت نمائی
محفوظیت قرآن ایک ایسی زندہ حقیقت ہے جس کا اعتراف بہت سے غیر مسلم محققین نے بھی کیا ہے اور ساری امت کا اجماع ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف وتبدیلی سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتب کے درمیان یہ بنیادی فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ کیا ہے اور سینوں میں حفظ قرآن کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ ابتدائے اسلام میں قرآن مجید کو لکھا ضرور جاتا تھا لیکن اس کے ساتھ حفظ قرآن پر بھی توجہ دی جاتی تھی۔ قرآن کریم کے ۲۳ سالہ عرصہ میں تھوڑا تھوڑا نازل کیے جانے کی ایک حکمت حفظ قرآن کو آسان بنانا تھی، علامہ ابوالفضل رازی فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے دیگر کتابوں کی طرح ایک ہی دفعہ مکمل قرآن نازل نہیں فرمایا، بلکہ ایک ایک آیت ایک ایک سورت ۲۳ سال کے عرصہ میں نازل کی گئی، ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ بندوں کے لیے قرآن کریم کا حفظ آسان ہو جائے۔ (فضائل القرآن : ۴۹)
عہد رسالت ہی سے حفظ ِقرآن کا اہتمام چلا آرہا ہے، جوں جوں قرآن کی آیات نازل ہوتیں آپ صحابہ کو سناتے تھے اور صحابہ کی جماعت میں ایک بڑی تعداد انہیں حفظ کرلیا کرتی تھی اور وہ اس لیے کرتے تھے کہ آپ نے ان کے سامنے حفظ قرآن کے فضائل بیان فرمائے تھے، اسی ترغیب کے سبب صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے حفظ قرآن کو اپنا مشغلہ بنالیا تھا۔ عہد صحابہ میں کثرتِ حفاظ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک روایت کے مطابق جنگ یمامہ میں ۷۰۰ حفاظ صحابہ شہید کر دیے گئے، غزوۂ بئر معونہ کے موقعہ پر ۷۰ قراء صحابہ شہید ہوئے، کم عمر صحابہ میں عمر بن سلمہ اپنے علاقہ میں مدینہ سے آنے والے قافلوں سے ملا کرتے تھے اور ان سے قرآن سن سن کر یاد کر لیا کرتے تھے، حتیٰ کہ کمسنی میں انہوں نے مکمل قرآن کریم کو حفظ کرلیا۔ (مسند احمد) حضرت زید بن ثابت کو کم عمری میں دس سے زائد سورتیں یاد ہو چکی تھیں، یہی حال تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ میں تھا۔ امام نووی کے بارے میں ان کے استاد یاسین بن یوسف المرقشی کہتے ہیں کہ میں انہیں دس سال کی عمر ہی سے قرآن حفظ کرتے دیکھا، حتیٰ کہ بلوغت سے قبل ہی حفظ مکمل کرلیا۔ (شرح نووی ۱؍ ۷۴) علی بن ھبۃ اللہ حمیری نے دس سال کی عمر میں حفظ کر لیا۔ (معرفۃ القراء الکبار۲؍۶۵۱)
دورِ رسالت میں کتابتِ قرآن
متعدد احادیث شریفہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ نزول قرآن کے دور میں نہ صرف قرآن مجید کے حفظ کا اہتمام کیا جاتا تھا بلکہ اسے لکھا بھی جاتا تھا۔ بنیادی طور پر جمع قرآن کا عمل تین مراحل سے گزرا:
پہلا مرحلہ: عہد ِرسالت
دوسرا مرحلہ: عہد صدیقی
تیسرا مرحلہ: عہد عثمانی
پہلے مرحلے میں جو دورِ رسالت سے تعلق رکھتا ہے حفاظِ قرآن کے دو طریقے عام تھے، ایک سینوں میں محفوظ کرنے کا، دوسرا کتابت کا۔ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا تھا نبی کریمﷺ اسے لکھوایا کرتے تھے، کتابت ِقرآن کے لیے آپ نے صحابہ کی ایک جماعت مقرر فرمائی تھی، جنہیں کاتبین وحی کہا جاتا ہے، جن کی تعداد بعض علماء نے ۴۰ اور بعض نے ۵۶ شمار کی ہے۔ (علوم القرآن صبحی صالح،ص:۱۰۱) ترمذی شریف کی ایک روایت میں حضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ پر متعدد سورتیں نازل ہوتی تھیں، جب بھی آپ پر وحی کا نزول ہوتا تھا تو آپ کسی کاتب کو بلواتے اور فرماتے تم ان آیات کو اُس سورت میں لکھ دو جس میں اس اس طرح کے مضامین مذکور ہیں اور جب کوئی آیت نازل ہوتی تو فرماتے تم اس آیت کو اُس سورت میں لکھ دو جس میں اس اس طرح کے مضامین مذکور ہیں۔(ترمذی شریف: ۳۰۸۶) اتنا ہی نہیں لکھنے کے بعد آپ اسے پڑھواتے، اگر درست ہوتا تو باقی رکھتے ورنہ اصلاح فرماتے، اس سلسلہ میں حضرت زید بن ثابتؓ کا یہ بیان قابل ملاحظہ ہے:
’’حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا، جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ کو سخت گرمی لگتی تھی اور آپ کے جسم اطہر پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے، پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہو جاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ہڈی یا کسی اور چیز کا ٹکڑا لیکر خدمت میں حاضر ہوتا آپ لکھواتے رہتے اور میں لکھتا جاتا، یہاں تک کہ جب میں لکھ کر فارغ ہوتا تو قرآن کو نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے اور کبھی چل نہیں سکوں گا۔ بہر حال جب میں فارغ ہو جاتا تو آپ فرماتے پڑھو، میں پڑھ کر سناتا اگر اس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرماتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے‘‘۔(مجمع الزوائد ۱؍۱۵۲)
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ کے دور میں قرآن مکمل لکھا جا چکا تھا، البتہ چوں کہ اس زمانے میں کاغذ کمیاب تھا اس لیے زیادہ تر قرآنی آیات پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کیے گئے۔(فتح الباری ۹؍۱۸)
عہدِ رسالت میں کتابتِ قرآن پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں:
’’اس طرح عہد رسالت میں قرآن کریم کا ایک نسخہ تو وہ تھا جو آنحضرتﷺ نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا، اگرچہ وہ کتابی شکل میں نہ تھا، بلکہ متفرق پارچوں کی شکل میں تھا اس کے ساتھ ہی بعض صحابہ کرام بھی اپنی یادداشت کے لیے قرآن کریم کی آیات اپنے پاس لکھ لیتے تھے اور یہ سلسلہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور سے جاری تھا جس کی شہادت اس بات سے ملتی ہے کہ حضرت عمر کی بہن فاطمہ بنت خطاب اور بہنوئی حضرت سعید ابن زید حضرت عمر سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے اور جب حضرت عمر ان کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر غصہ میں بھرے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ رکھا ہوا تھا، جس میں سورہ طہٰ کی آیتیں درج تھیں، اور حضرت خباب ابن ارت انہیں پڑھا رہے تھے‘‘۔(سنن دارا قطنی۱؍۱۲۳)
اس کے علاوہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے انفرادی طور پر اپنے پاس قرآن کریم کے مکمل یا نامکمل نسخے لکھ رکھے تھے، مثلاً صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے قرآن کریم کو لیکر دشمن کی سر زمین میں سفر کرنے سے منع فرمایا، نیز معجم طبرانی میں آں حضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص قرآن کریم کے نسخے میں دیکھے بغیر تلاوت کرے تو اس کا ثواب ایک ہزار درجہ ہے، اور اگر قرآن کے نسخے میں دیکھ کر تلاوت کرے تو دو ہزار درجے ہیں۔ (مجمع الزوائد۷؍۱۶۵ )ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے پاس عہد رسالت ہی میں قرآن کریم کے لکھے ہوئے صحیفے موجود تھے، ورنہ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنے یا اسے لیکر دشمن کے علاقے میں جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔(علوم القرآن : ۱۸۰)
جمع قرآن عہد صدیقی میں
عہدِ رسالت میں مکمل قرآن لکھا ہوا ضرور تھا مگر اس کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ وہ متفرق اشیاء پر لکھا ہوا تھا، کچھ آیات چمڑے پر، کچھ ہڈیوں پر، کوئی درخت کے پتوں پر، کسی صحابی کے پاس ایک سورت، کسی کے پاس پانچ دس سورتیں لکھی ہوئی تھیں، اس طرح قرآن کتابت کی شکل میں محفوظ ضرور تھا لیکن منتشر تھا، حضرت صدیق اکبر کے زمانہ میں ان متفرق اجزاء کو جو مختلف صحابہ کے پاس موجود تھے یکجا کرنے کو ضروری سمجھا گیا، اس طرح عہد ِصدیقی میں قرآن لکھا نہیں گیا، بلکہ لکھے ہوئے اجزاء قرآن یکجا کیے گئے۔ وسیم رضوی کا یہ کہنا کہ خلفاء ثلاثہ کے زمانہ میں قرآن لکھا گیا سراسر غلط ہے، اگر انہیں تھوڑی سی بھی جانکاری ہوتی تو وہ اس طرح کی باتیں نہ کرتے۔ عہد ِصدیقی میں منتشر اجزاء قرآن کو یکجا کرنے کی ضرورت کیوں کر پیش آئی؟ اس کی وضاحت حضرت زید بن ثابتؓ کے درج ذیل بیان سے ہوتی ہے:’’حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے فورا بعد حضرت ابو بکرؓ نے ایک روز مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، میں ان کے پاس پہنچا وہاں حضرت عمرؓ بھی موجود تھے، حضرت ابو بکر نے مجھ سے فرمایا کہ عمرؓ نے ابھی آکر مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگ یمامہ میں قرآن کریم کے حفاظ کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی ہے اور اگر مختلف مقامات پر قرآن کریم کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا ایک بڑ ا حصہ ناپید نہ ہو جائے، لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے حکم سے قرآن کریم کو جمع کروانے کا کام شروع کر دیں۔ میں نے عمرؓ سے کہا کہ جو کام آنحضرتﷺ نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں؟ عمرؓ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد عمرؓ مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرح صدر ہو گیا اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمرؓ کی ہے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے مجھ سے فرمایا: ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے، تم رسول اللہﷺ کے سامنے کتابتِ وحی کا کام بھی کرتے رہے ہو، لہٰذا تم قرآن کریم کی آیتوں کو تلاش کرکے انہیں جمع کرو۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم اگر یہ حضرات مجھ کو کوئی پہاڑ ڈھونے کا حکم دیتے تو مجھ پر اس کا اتنا بوجھ نہ ہوتا جتنا جمع قرآن کے کام کا ہوا، میں نے ان سے کہا آپ وہ کام کیسے کر رہے ہیں جو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا؟ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: خدا کی قسم یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ بار بار مجھ سے یہی کہتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ اس رائے کے لیے کھول دیا جو حضرت ابو بکر وعمرکی رائے تھی۔ چنانچہ میں نے قرآنی آیات کو تلاش کرنا شروع کیا اور کھجور کی شاخوں، پتھر کی تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کریم کو جمع کیا‘‘۔(بخاری مع فتح الباری ۹؍۱-۸بحوالہ علوم القرآن۱۸۲:)
جب یہ کام حضرت زید بن ثابتؓ کے سپرد ہوا تو انہوں نے اس کام کو کس احتیاط کے ساتھ انجام دیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں:’’حضرت زید خود حافظ قرآن تھے، لہٰذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے، ان کے علاوہ سیکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے، ان کی ایک جماعت بنا کر بھی قرآن کریم لکھا جا سکتا تھا، نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخے آنحضرتﷺ کے زمانہ میں لکھے گئے تھے، حضرت زید ان سے بھی قرآن کریم نقل فرما سکتے تھے لیکن انہوں نے احتیاط کے پیش نظر ان میں سے صرف ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری یا زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں، اس کے علاوہ آنحضرتﷺ نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ کے پاس محفوظ تھیں۔ حضرت زید نے انہیں یکجا فرمایا؛ تاکہ نیا نسخہ ان سے بھی نقل کیا جائے، چنانچہ اعلان کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو وہ حضرت زید کے پاس لے آئے۔ (بخاری مع فتح الباری ۹؍۱۱) اور جب کوئی شخص ان کے پاس قرآن کریم کی کوئی آیت لیکر آتا تو وہ مندرجہ ذیل طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے:
۱- سب سے پہلے اپنی یادداشت سے اس کی توثیق کرتے تھے۔
۲- جب کوئی شخص کوئی آیت لیکر آتا تو حضرت زید اور عمرؓ دونوں مشترکہ طور سے اسے وصول کرتے، حضرت عمرؓ بھی اپنے حافظہ سے اس کی توثیق کرتے۔
۳- کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی جب تک دو قابل اعتبار گواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دی ہو کہ یہ آیت آنحضرتﷺ کے سامنے لکھی گئی تھی۔
۴- اس کے بعد لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا جو مختلف صحابہ نے تیار کر رکھے تھے۔ امام ابو شامہ فرماتے ہیں کہ اس طریقہ کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے‘‘(علوم القرآن۱۸۳: )
صحابہ کرام کے اس درجہ احتیاط کے بعد کیا کسی کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ ان حضرات نے قرآن کے معاملہ میں کوئی خیانت کی ہو گی؟ مذکورہ تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ عہد صدیقی میں لکھے ہوئے قرآن کو ایک جگہ جمع کیا گیا اور اس میں وہ احتیاط برتی گئی جس کا ذکر سابق میں کیا گیا ہے پھر عہدِ عثمانی میں جمع قرآن کی شکل عہد صدیقی سے مختلف تھی۔ خلافت ِعثمانیہ میں جب عجم کے بہت سارے علاقے داخل اسلام ہوئے تو ان عجمیوں کو قرآن کی مختلف لغات میں تلاوت دشوار ہونے لگی اور اس سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہونے لگے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے لغت قریش پر ایک نسخہ تیار کیا اور پھر اس کی مختلف کاپیاں بنوائیں اور ان کاپیوں کو مختلف اسلامی شہروں میں روانہ کیا گیا۔ قرآن پر اس حذف و اضافہ کے واقعات کے پس منظر میں ہمیں چند باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے:
۱- شر سے خیر کا پہلو نکالا جائے، اس واقعہ کے نتیجہ میں اُردو، ہندی،انگریزی اور دیگر زبانوں میں قرآن مجید پر کیے جانے والے اعتراضات کے کافی وشافی جوابات شائع کیے جائیں، نیز سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیوز عام کیے جائیں جن میں دشمنان اسلام کے اس قسم کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہو۔
۲- یہ موقع برادرانِ وطن اور عام غیر مسلم بھائیوں کے درمیان قرآن مجید اور دین اسلام کے تعارف کے لیے زرین موقع ہے، غیر مسلموں کا یہ خیال ہے کہ قرآن صرف مسلمانوں کی کتاب ہے، انہیں بتایا جائے کہ قرآن ساری انسانیت کے نام خدا کا پیغام ہے، یہ کتاب جس طرح مسلمانوں کے لیے ہے اسی طرح غیر مسلموں کے لیے بھی ہے۔
(مضمون نگار، دارالعلوم حیدرآباد میں حدیث کے استاد ہیں)
Email: [email protected]
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021