غزہ کا نوحہ:یہ جنگ نہیں نہتے فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش ہے

معصوموں کی لہو نوشی کے ذریعہ نتن یاہو حکومت سازی کے لیے کوشاں

مسعود ابدالی

 

ہلاکو اور چنگیز خان کی روحیں بھی شرمندہ۔مظالم کی پردہ پوشی کے لیے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا
غزہ سمیت سارے ارض فلسطیں میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تجزیہ تو دور کی بات عنوان کا تعین بھی ممکن نہیں۔ اسے حملہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہلاکو اور چنگیز خان بھی حملوں کے دوران شفا خانوں اور عبادت گاہوں کا خیال رکھتے تھے۔ اسے جنگ کیسے کہیں کہ یہاں کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ایک طرف آسمان، زمین اور سمندر سے آتش وآہن کی بارش، دوسری جانب بے اماں نہتے لوگ۔ جانور بھی ذبح ہونے سے پہلے مزاحمت اور گلا کٹ جانے پر تڑپتا نظر آتا ہے لیکن یہاں تو سینکڑوں نو نہال منہدم عمارتوں کی کنکریٹ میں اس انداز سے زندہ دفن ہو گئے کہ کسی غریب کی چیخ بھی نہ سنائی دی۔ اسرائیل اور مغرب نے غزہ کو قبرستان بنانے سے پہلے سوشل میڈیا کا گلا اچھی طرح گھونٹ دیا تاکہ دنیا کو اس ظلم عظیم کا پتہ ہی نہ چلے۔ اس کارِ خیر میں موساد کے ساتھ امریکہ ویورپ کی سیاسی قیادت ہم نوالہ وہم پیالہ ہیں۔ مثلاً
• اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے غزہ پر حملہ Over-Reaction نہیں قرار دیا جا سکتا۔ صدر جوبائیڈن
• اسرائیلی عوام پر راکٹ بازی سے ہمارے دل افسردہ ہیں۔ آسٹریا کے چانسلر Sebastian Kurz نے ویانا میں اظہار یکجہتی کیلئے چانسلری (ایوان اقتدار) پر اسرائیلی پرچم لہرا دیا۔
• حماس کی دہشت گردی کے حق میں مظاہروں کی اجازت نہیں۔ فرانسیسی وزارت داخلہ کا اعلان
• جرمنی میں گھروں اور مظاہروں میں فلسطینی پرچم لہرانے پر غیر اعلانیہ پابندی
اس وحشت کے ذکر بلکہ انسانیت کا مرثیہ پڑھنے سے پہلے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے محرکات پر امریکہ کے ایک عسکری کالم نگار کا مختصر لیکن جامع تبصرہ ملاحظہ کریں۔
اکیاون سالہ میکس بوٹس (Max Boots) ایک راسخ العقیدہ قدامت پسند یہودی ہیں۔ ان کی مشرق وسطٰی خاص طور سے فلسطین اسرائیل کشیدگی پر گہری نظر ہے۔ امریکہ کے کئی اخبارات میں ان کے کالم چھپتے ہیں۔ گزشتہ روز سی این این پر جناب میکس نے کہا ’چند دن پہلے تک وزارت عظمیٰ سے بی بی (نیتن یاہو) کی رخصتی اور جیل یقینی نظر آ رہی تھی لیکن اب ان کے تسلسلِ اقتدار کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ معاہدہ ابراہیم کے نام پر سابق صدر ٹرمپ کی بی بی کے لیے غیر مشروط حمایت نے فلسطینیوں کو دیوار سے لگا کر مسئلے کے پر امن حل کا راستہ مسدود کر دیا‘۔ جناب بوٹس کے مطابق اسرائیل میں مسٹر ٹرمپ کے نظریاتی اتحادی موجودہ بحران کے ذمہ دار ہیں۔ اس خونریزی کا سب سے زیادہ فائدہ بی بی کو پہنچ رہا ہے۔ چند دن پہلے تک انہیں قومی لٹیرا کہا جاتا تھا لیکن اب اسرائیلی وزیر اعظم کو فاتح بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
جناب بوٹس کے تجزیے کی زمینی حقائق سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں نیتن یاہو حکومت سازی میں ناکام ہو گئے جس کے بعد صدر نے قائد حزب اختلاف یارلیپڈ کو حکومت سازی کی دعوت دی تھی۔ دائیں بازو کی یمینیہ پارٹی کے سربراہ نیفتالی بینیٹ نے وزارت عظمیٰ کے عوض یارلیپڈ سے اتحاد کا اعلان کیا تھا لیکن 14 مئی کو مسٹر بینیٹ نے کہا کہ ملک کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے چنانچہ اس وقت حکومت کی تبدیلی مناسب نہیں۔ یعنی بی بی کا مرجھاتا شجرِ اقتدار فلسطینیوں کا لہو پی کر توانا ہوتا نظر آ رہا ہے۔
حالیہ وحشت کا بنیادی محرک نیتن یاہو کی شیطانی ہوس اقتدار ہے جو مشرقی بیت المقدس کو فلسطینیوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ ان واقعات کے تاریخی پس منظر کا ہم گزشتہ ہفتے کی اشاعت میں تفصیل سے احاطہ کر چکے ہیں۔مختصراً یوں سمجھیے کہ شیخ الجراح انتہا پسندوں کو ہمیشہ سے کھٹکتا رہا ہے اور ایک عام خیال ہے کہ اگر یہاں سے عربوں کو نکال دیا جائے تو یہودیوں کی روحانی یادگار ہیکل سلیمانی کی تلاش کا کام آسان ہو جائے گا۔ بعض یہودی ماہرینِ آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ان کی روحانی یادگار ہیکلِ سلیمانی مسجد اقصیٰ کے قریب ہے اور کئی بار اس کی تلاش میں مسجد کے اتنے قریب کھدائی کی گئی کہ اللہ کے اس قدیم گھر کی بنیادیں نظر آنے لگیں۔ ایسے مواقع پر الشیخ الجراح کے مکینوں نے سینے پر گولیاں کھا کر کھدائی کرنے والے بلڈوزروں کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور اس طرح اللہ کا یہ قدیم گھر انہدام سے بچ گیا۔
دو ہفتہ قبل میونسپل عدالت کے فیصلے کو بنیاد بناکر اسرائیلی وزارت دفاع نے الشیخ جراح محلے کے مکینوں کو بیدخلی کے نوٹس جاری کر دیے۔ ذیلی عدالت نے عثمانی دور کی لیز دستاویزات کو ملکیت کا ثبوت قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ذیلی عدالت کے فیصلے کے خلاف متاثرین نے اعلیٰ عدالت میں درخواست کر رکھی ہے جس کی سماعت 10 مئی کو ہونی تھی لیکن اسرائیلی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی فلسطینیوں سے محلہ خالی کرالینا چاہتی تھی۔ بیدخلی کے نوٹسوں کے خلاف رمضان کے آغاز میں مظاہرے شروع ہوئے اور فوج و پولیس سے جھڑپ روز مرہ کا معمول بن گئی۔ رمضان کی پچیسویں شب پولیس مظاہرین کا تعاقب کرتی مسجد اقصیٰ کی طرف آ گئی جہاں تراویح کی نماز ہو رہی تھی اور ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے صفیں گنبد صخرا تک بنی ہوئی تھیں۔ فوجیوں نے باہر صف بستہ نمازیوں سے مسجد کے اندر جانے کو کہا لیکن مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ’حکم عدولی‘ پر پولیس نے نمازیوں پر آنسو گیس پھینکنی شروع کر دی اور ساتھ ہی لاوڈ اسپیکر کے تار کاٹ دیے گئے۔ اس رات تصادم میں خواتین سمیت سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔
ستائیسویں شب پولیس نے یروشلم آنے والے راستوں کی مکمل ناکہ بندی کر دی۔ اس رات غرب اردن اور غزہ سمیت سارے ارض فلسطین نے مسلمان شب قدر گزارنے مسجد اقصٰی آتے ہیں۔ تقریباً ہر ناکے پر تصادم ہوا لیکن پولیس کا گھیرا توڑ کر ستر ہزار سے زیادہ فلسطینی مسجدِ اقصیٰ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ غروب آفتاب تک سبت کی پابندیوں کی وجہ سے اسرائیلی فوج نے بہت زیادہ سختی نہ کی لیکن نماز عشا کے دوران فوج مسجد اقصیٰ میں گھس گئی اور بجلی بند کر کے بینائی اچک لے جانے والی چمک اور خوفناک اواز پیدا کرنے والے Sound Grenade پھینکنے شروع کر دیے۔ اسی کیساتھ ربر بلٹ سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ یہ سلسلہ نماز فجر تک جاری رہا۔ اکثر لوگ سحری بھی نہ کر سکے اس لیے کہ بابِ دمشق کا پولیس نے محاصرہ کر رکھا تھا۔ خوانچہ فروش نصف شب سے بابِ دمشق کے باہر ٹھیلوں پر سحری فروخت کرتے ہیں۔ آنسو گیس کے گولے لگنے نے مسجد کے قالین کو آگ لگ گئی اور جلد ہی اس کے شعلوں نے مغربی دیوار کو لپیٹ میں لے لیا۔
اتوار کو یہودیوں کا یوم یروشلم تھا۔ یہ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کی یاد میں عبرانی مہینے ایّار کی 28 تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اس دن ہزاروں انتہا پسند مسجد کی دوسری طرف جمع ہو گئے اور مسجد سے بھڑکتے شعلوں پر جش منانے لگے۔ پہلی بار یہ نعرہ بھی سنائی دیا کہ ’عربو! خیبر اب قصّہ پارینہ ہو گیا‘۔ اسی دوران یوم یروشلم منانے والے ایک اور جلوس نے شیخ جراح پر پتھراو کیا۔
مشرقی بیت المقدس کے علاوہ تقریباً ہر شہر میں انتہا پسندوں نے عرب آبادیوں پر حملے کیے۔ تل ابیب کے مضافاتی علاقے لُد میں مسلح جتھوں نے عرب علاقے کے گلی کوچوں میں مار دھاڑ شروع کر دی۔ فلسطینیوں کی دکانوں اور مکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ تیل ابیب کے ساحلی شہر بیتِ یام میں مسلح افراد نے گھروں میں گھس کر ضعیف افراد کو باہر نکالا جس کے بعد لاٹھیوں اور سریوں سے ان لوگوں کو بری طرح پیٹا گیا۔ وحشت کے یہ مناظر دیکھ کر خود دائیں بازوں کے متعصب رہنماوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ قوم پرست یمینیہ پارٹی کے سربراہ اور ممکنہ نئے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ایک ضعیف فلسطینی کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ پٹائی کی ویڈیو دیکھ کر چینل 13 پر چیختے ہوئے کہا ’موسیٰ کے رب کی قسم یہ یہودیت نہیں‘۔ قائد حزب اختلاف یارلیپڈ کا کہنا تھا کہ ’صورتحال قابو سے باہر ہو چکی ہے، اب جنگ دشمن سے نہیں بلکہ اسرائیل خانہ جنگی کا شکار ہے‘۔
اسی دوران اشتعال میں آ کر غزہ سے تل ابیب کی طرف راکٹ پھینکے گئے، اکثر کو امریکی ساختہ دفاعی نظام آئرن ڈوم نے روک لیا تاہم ایک دو راکٹوں سے کچھ عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ ایک راکٹ مغربی بیت المقدس میں گرا جس پر نیتن یاہو نے غرور سے چور لہجے میں کہا حماس نے یروشلم پر راکٹ فائر کر کے ’اپنی حد پار کرلی ہے‘ اسی کے ساتھ اسرائیلی فضائیہ کا خوفناک آپریشن شروع ہوا اور اس کے بمباروں نے غزہ کے بجلی گھروں، آبنوشی کے ذخائر اور اسپتالوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ چوبیس گھنٹے کے دوران 100 سے زیادہ حملے کیے گئے۔ دوسرے دن سے فلک بوس عمارتوں پر حملے شروع ہوئے اور جدید گائیڈیڈ میزائلوں نے اس مہارت سے بنیادوں کو نشانہ بنایا کہ بلندو بالا عمارتیں ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گئیں۔
اسی کیساتھ اسرائیل کی بری فوج کے سینکڑوں ٹینکوں نے غزہ کی سرحد کے قریب مورچہ زن ہو کر گولہ باری شروع کر دی تو دوسری طرف بحر روم سے اسرائیلی بحریہ کے جہازوں نے گولہ باری شروع کر دی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سارے غزہ پر موسلا دھار بارش کی طرح گولے برس رہے ہیں۔ عید کی شب غزہ سے بھیجی جانے والی ایک ویڈیو میں اسرائیلی توپ خانے، مسلح کشتیوں، اور فضائی بمباری کی وجہ سے غزہ کا آسمان دن کی طرح روشن نظر آ رہا تھا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کورنیکس نے رائٹرز کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر حملے میں 160 طیارے، سینکڑوں ٹینک اور درجنوں توپ خانے حصہ لے رہے ہیں۔
اسپتالوں کے ساتھ چھوٹے دواخانے پہلے ہی حملے میں زمیں بوس کر دیے گئے اور زخمی سڑکوں کے کنارے تڑپ رہے ہیں۔ بعض جھلسے ہوئے بچوں کی حالت دیکھ کر ان کی مائیں خود اپنے جگر گوشوں کی موت کی دعائیں کر رہی ہیں۔
اسرائیل کا جنگی جنون اپنی جگہ لیکن اس موقع پر امریکہ نے جس کٹھور دلی کا مظاہرہ کیا اس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ غزہ پر حملے کے آغاز کیساتھ ہی صدر بائیڈن نے وزیر اعظم نیتن یاہو کو فون کر کے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی اکلوتی جمہوریت کے لیے امریکہ کی حمایت ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ ناروے، چین اور تیونس نے 13 مئی کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی جسے امریکہ نے یہ کہہ کر ویٹو کر دیا کہ ہنگامی بیٹھک کے بجائے پہلے سے طے شدہ اتوار (16 مئی) کے اجلاس میں اس پر گفتگو کی جائے۔ اتوار کا اجلاس بھی وقت سے پہلے ختم کر دیا گیا۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ویغور مسلمانوں پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے امریکہ کو فلسطینیوں کا بہتا لہو نظر نہیں آ رہا ہے۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر تشویش ہے۔ اسرائیل پر راکٹ حملے رکنے چاہئیں۔ ہم اسرائیل کے علاوہ مصر، سعودی عرب اور علاقے کے دوسرے ملکوں سے رابطے میں ہیں۔جب ایک صحافی نے شعلوں میں گھرے غزہ کا ذکر کیا تو امریکی صدر شانِ بے نیازی سے no comments کہہ کر آگے بڑھ گئے۔
غزہ پر حملے میں ابلاغ عامہ کی تنصیبات کو چن چن نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہفتے کو غزہ کے برج الجلا کو زمیں بوس کیا گیا۔ حملے سے پہلے اسرائیلی فوج نے پلازہ کے مالک جاوید مہدی کو فون کیا جس میں انہیں بتایا گیا کہ ایک گھنٹے میں یہ عمارت مسمار کر دی جائے گی، اسے خالی کرا لیں۔ مہدی نے بتایا کہ اس بارہ منزلہ عمارت میں درجنوں فلیٹ اور میڈیا کے دفاتر ہیں، ایک گھنٹے میں یہ کیسے خالی ہو سکتی ہے لیکن جواب آیا، یہ آپ کا مسئلہ ہے اس کا حل آپ خود تلاش کریں اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد طیاروں سے پھینکے جانیوالے میزائیلوں نے عمارت کی بنیاد کو نشانہ بنایا اور ساری عمارت نیچے آ رہی۔ یہ انہدام اسرائیلی ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھایا گیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ الجلا ٹاور حماس کا عسکری مرکز تھا لیکن ایسوسی ایٹیڈ پریس کی ایکزیکیوٹیو ایڈیٹر محترمہ سیلی بزبی نے کہا کہ الجلا ٹاور دراصل غزہ کا میڈیا سینٹر تھا جہاں اے پی اور الجزیرہ کے علاوہ کئی دوسرے ذرائع ابلاغ کے دفاتر اور اسٹوڈیوز تھے۔ عمارت کے فلیٹس میں بھی زیادہ تر صحافی اور تیکنیکی عملہ رہائش پزیر تھا۔ سیلی بزبی نے کہا کہ اے پی کے دفاتر وہاں پندرہ سال سے تھے اور ہم وہاں رہنے والے ہر مکین سے واقف ہیں۔ الجلا ٹاور یا اس کے قریب کبھی حماس یا کسی سیاسی گروپ کو نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے الجلا ٹاور پر بمباری کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد غزہ سے خبروں کے اجرا کو روکنا ہے۔
عمارتوں کے انہدام کی جو ویڈیو اسرائیلی ٹیلی ویژن پر دکھائی جا رہی ہیں ان میں بلند وبالا عمارتیں بالکل اسی انداز میں زمیں بوس ہوتی نظر آرہی ہیں جیسے نائن الیون حملے کے دوران نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر مسمار ہوئے تھے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ماضی کے حملوں کے برعکس اس بار غزہ کے متمول علاقوں کی بلند وبالا عمارتوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا اور ان پر حملے سے پہلے مکینوں کو مطلع کر کے انہیں نکل جانے کا موقع دیا جا رہا ہے تاکہ جانی نقصان کم ہو اور عمارات کے مکین اور مالکان حماس کو ان مشکلات کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے تحریک آزادی سے متنفر ہوں۔ تاہم اس سے اسرائیل کے اس دعوے کی بھی تردید ہوتی ہے کہ حملے کا ہدف دہشت گرد ہیں۔ اگر ایسا ہے تو حملے سے پہلے مطلع کر کے ان دہشت گردوں کو فرار کا موقع کیوں فراہم کیا جا رہا ہے؟
تا دم تحریر خونریزی دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ اسرائیل پر جنگ ختم کرنے کے لیے کسی قسم کا دباو نہیں بلکہ امریکی اور یوروپی اتحادی حملے جاری رکھنے کے لیے نیتن یاہو کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ اتوار کو قوم سے خطاب میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ غزہ پر بمباری حماس کے خاتمے تک جاری رہے گی اور ہمیں جنگ ختم کرنے کی کوئی جلدی نہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق غزہ پر حملہ آور جنوبی کمان نے اسرائیلی وزیر اعظم چٹھی بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے صرف بمباری سے اہداف کا حصول ممکن نہیں۔ حماس کی کمر توڑنے کے لیے غزہ میں بری فوج بھیجنا ضروری ہے۔ لیکن فوج کی اعلیٰ قیادت اس ضمن میں اندیشہ ہائے دور درازکا شکار ہے۔ سات سال پہلے غزہ میں فوج بھیجنے کا تجربہ اچھا نہیں رہا تھا اور خاصے نقصان کے بعد پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی۔عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فوجی سورما فضائی بمباری وگولہ باری کے ذریعے غزہ کو ریت کا ڈھیر بنانے کے بعد بری فوج بھیجنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کی سفارشات کے مطابق پیدل فوج کا راستہ ہموار کرنے کے لیے بارود کی بارش کم از کم مئی کے آخر تک جاری رکھی جائے گی۔
کیا وہ وقت نہیں آیا کہ سلیم الفطرت اسرائیلی معاملے کی نزاکت کو سمجھیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر عسکری، سیاسی و سفارتی برتری حاصل ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ طاقت کے بل پر آج تک کسی قوم کو شکست نہیں دی جا سکی بلکہ بے بسی کی تذلیل نفرت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس تنازعے کا منصفانہ حل یہی ہے کہ اسرائیل 1967 سے پہلے کی حدود پر واپس چلا جائے اور سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں سارے بیت المقدس کو مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatum تسلیم کر لیا جائے۔ اقوام متحدہ نے ’مشترکہ اثاثے‘ کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق’ ہتھیار وسیاست سے پاک اس غیر عسکری علاقے کا انتظام مقامی آبادی کے ہاتھ میں ہو گا جہاں لوگ صرف زیارت وعبادت کی غرض سے جا سکیں گے اور علاقہ ساری دنیا کے غیر مسلح و پرامن زائرین کے لیے ہر وقت کھلا رہے گا۔ اسی میں ساری دنیا کا بھلا ہے۔
[email protected]
***

اسرائیل و فلسطین کے درمیان 11 دن چلی غیر اعلانیہ جنگ بالآخر بند ہوگئی ہے۔ اسرائیلی کابینہ نے عالمی غصہ، اقوامِ متحدہ اور امریکہ کے شدید دباؤ کے بعد جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اسے غزہ میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ وہ اسے اپنی جیت کے طور پر دیکھتا ہے۔
لیکن حماس کے رہنما خلیل الحیاہ نے جنگ بندی کو اپنی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے، "آج ہماری مزاحمت کی جیت ہوئی ہے۔ ہم ایک ساتھ دو خوشی منائیں گے۔ ایک فتح اور دوسری عید کی۔” اس اعلان کے ساتھ ہی غزہ میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر اتر کر جیت کا جشن منایا اور مسجد اقصیٰ میں شکرانے کی نماز بھی ادا کی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021