غریبوں کو رعایتی اناج دینے سے گریزکیوں؟

بھکمری کے انڈیکس میں ملک 94 ویں مقام سے 102 ویں مقام پر پہنچ گیا

زعیم الدین احمد ، حیدر آباد

ہندوستان میں لاکھوں غریب ایسے ہیں جنہیں مودی حکومت کی سب سے بڑی اور سب سے اہم فوڈ سکیورٹی اسکیم ’’پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا‘‘ (پی یم جی کے اے وائی )سے کوئی فایدہ نہیں پہنچتا انہیں اس اسکیم سے اس لیے خارج کر دیا گیا ہےکیوں کہ ان کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے یا ان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ہے جس کے تحت غریبوں کو مفت یا رعایتی قیمت پر غذا فراہم کی جاتی ہے ۔راشن کارڈ ایک ایسی دستاویز ہے جو ریاستی حکومتوں غریب عوام کو جاری کرتی ہیں ، اسی راشن کارڈ کی بنیاد پر انہیں قومی تحفظ تغذیہ قانون یعنی نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے) کے تحت عوامی تقسیم کے نظام سے رعایتی اناج خریدنے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے ۔
(پی ایم جی کے اے وائی) جو شاید دنیا کا سب سے بڑا فوڈ سکیورٹی پروگرام ہے اس کا مقصد ہندوستان کے غریب ترین افراد کو غذا فراہم کرنا ہے۔ یہ اسکیم کا فایدہ اسی کو ہوتا ہے جس کے پاس راشن کارڈ ہو ۔ راشن کارڈ رکھنے والے ہر خاندان کو ۵ کلو چاول یا گندم اور ایک کلو دالیں مفت دی جاتی ہیں اس کے علاوہ اور بھی خوردنی اشیاء اس کے ساتھ فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی نظام تقسیم کے تحت وبائی مرض کوویڈ کے دوران بھی مفت غذا فراہم کی گئی ۔ لیکن لاکھوں لوگوں کو اس نظام کے تحت غذا مل نہیں پائی کیوں کہ ان کے پاس راشن کارڈ موجود نہیں ہے ۔ ریاستوں کو اتنے ہی لوگوں کےکوٹہ کی غذا فراہم کی گئی جتنے لوگوں کے پاس راشن کارڈ ہے ۔ اسی وجہ سے ریاستوں نے ایسے افراد کو مفت غذا دینے سے انکار کردیا جن کے راشن کارڈ موجود نہیں تھا سال رواں ملک کی ۲۹ ریاستوں میں سے ۲۲ ریاستیں ایسی ہیں جن کے پاس ۵ فیصد سے بھی کم کا کوٹہ باقی رہ گیا ہے ۔ ریاستوں کو یہ کوٹہ بھی ۲۰۱۱ کی مردم شماری کی بنیاد پردیا جاتا ہے، لازمی بات ہے دس سال قبل کی مردم شماری کا اگر تخمینہ لیا جاتا ہے تو یہ موجودہ حالات میں بہت ہی کم ہے، اس ایک دہائی دوران ایسے لوگوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جو (ین یف یس اے ) نظام کے تحت آتے ہیں لیکن ان کا اندراج نہیں ہو پایا جب کہ اگلی مردم شماری کو اسی سال مکمل ہونا تھا لیکن وبائی مرض کوویڈ کی وجہ سے اسے غیر معینہ مدت تک لیے مأخر کردیا گیا ہے۔
(این ایف ایس اے) تحت ملک کی۵۰ فیصد شہری آبادی اور ۷۵ فیصد دیہی آبادی کا احاطہ کرتا ہے، اس مذکورہ آبادی کو راشن کارڈ کے ذریعے عوامی تقسیم کے نظام کے تحت رعایتی یا مفت اناج فراہم کیا جاتا ہے۔ اور یہ راشن کارڈ ریاستوں نے ۲۰۱۱ تا ۲۰۱۲ کے قومی نمونہ کے سروے یعنی (این ایس ایس) کے گھریلو کھپت سروے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر دیا ہے ۔ اس اعداد و شمار کی اشاعت کو ۱۰ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، نئی دہلی کی امبیڈکر یونیورسٹی میں معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر دیپا سنہا جیسے ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ ’’ یہ پالیسی کا اندھا پن ہے ، حکومت کو سارے حالات معلوم ہیں وہ زمینی حقائق سے آگاہ ہے۔ وہ غذائی اجناس پر رعایت (سبسڈی) بڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ رعایت (سبسڈی) بڑھانے سے ملک کا مالیاتی خسارہ براہ راست بڑھ جائے گا جبکہ ملک میں وافر اناج دستیاب ہے‘‘۔ ملک میں فی الحال فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے پاس ۱۰ کروڑ میٹرک ٹن اناج کے ذخائر موجود ہیں جو اپنی استطاعت سے تین گنا زیادہ ہے۔
راشن کارڈ نادہندگان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب دلی حکومت نے ۲۰۲۰ میں یہ اعلان کیا تھا کہ وبائی مرض کوویڈ کے دوران عارضی طور پر وہ ان لوگوں کو بھی مفت غذا فراہم کرے گی جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں ۔ تو ۶۹ لاکھ لوگوں نے اس فہرست میں اپنا اندارج کروایا جب ۷۳ لاکھ افراد کے پاس راشن کارڈ موجود تھے۔ اندازہ لگائیے کہ دلی میں تقریباً نصف لوگ ایسے ہیں جہیں (ین یف یس اے ) کے نظام میں شامل نہیں کیاگیا یا ان کا نام اس میں شامل نہیں ہے یعنی ۷۰ لاکھ لوگ ایسے ہیں جہیں بنیادی غذا کی ضرورت ہے اور ان کا نام اس اسکیم میں شامل نہیں ہے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں نے راشن کارڈ کے لیے اپنا نام درج نہیں کروایا ہے بلکہ ان میں سے کئی لوگوں نے فارم بھی پُر کیا لیکن ان انہیں ابھی تک راشن کارڈ نہیں مل پایا وہ انتظار میں ہیں دوسری بات راشن کارڈ حاصل کرنے کے لیے جو نظام ہے وہ انتہائی پیچیدہ ہے جیسے انہیں اپنی رہائش کا ثبوت پیش کرنا ، بجلی کے بل اور دیگر دستاویزات بھی انہیں پیش کرنا ہوتا ہے ان میں بہت سوں کے پاس رہائش کا ثبوت ہی نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اور دستاویز موجود ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ راشن کے لیے درخواست دینے سے قاصر ہیں۔ اگر ایسی صورت حال قومی دارالحکومت دلی کی ہے تو ملک کے دیگر ریاستوں کی کیا صورت حال ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
پچھلے سال جب شاہراہیں تارکین وطن مزدوروں سے بھری پڑی تھیں ان کے کرب و ابتلاء کو ، ان کے مصائب کو اپنی ٹی آر پی کی خاطر ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دکھایا جارہاتھا لیکن حکومت کی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی اس وقت سپریم کورٹ ازخود کارروائی کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ان کو غذا فراہم کی جائے کیوں کہ ان میں زیادہ تر تارکین وطن مزدور ہیں اور وہ بھوک اور انتہائی غربت میں مبتلا ہیں ان کے پاس راشن کارڈ ہیں اور نہ ہی یہ کسی مفت غذائی تقسیم کے نظام سے جڑے ہوئے ہیں ۔حکومت نے عدالت عظمیٰ سے پھٹکار لگنے کے بعد بڑی پریشانی کے عالم میں ماہ مئی ۲۰۲۰ میں اعلان کیا کہ وہ ایسے ۸ کروڑلوگوں کو راشن فراہم کرے گی جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں، لیکن یہ راشن صرف مئی اور جون کے مہینوں کے لیے ہوگا ۔ اس اعلان کے باوجود حکومت نے اسے مناسب طریقے سے نافذ نہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے صرف ۲ کروڑ ۸۰ لاکھ افراد کو ہی راشن فراہم کیا ۔ مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش،گجرات اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں نے تو اپنی منظور شدہ غذائی اجناس کے کوٹے میں سے ۳ فیصد سے بھی کم تقسیم کیا۔ کچھ ریاستوں نے راشن کارڈ نہ رکھنے والوں کو اناج دیا ہی نہیں، جبکہ کچھ ریاستوں نے یک وقتی ریلیف فراہم کیا۔
۲۰۱۶ میں عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا تھا کہ حکومت کو ایسے لوگوں کو اناج دینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے جن کے پاس راشن کارڈ موجود نہیں ہیں ۔ اس سال بھی عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم کا اعادہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ کوٹے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اسے آبادی کے کے حساب سے تخمینوں پر نظر ثانی کی جانی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ عدالت نے تمام ریاستی حکومتوں یہ بھی تاکید کی کہ وہ بھوکے افراد کو خشک راشن فراہم کرے جب تک کہ ملک میں وبائی مرض کا قہرجاری رہے گا۔ تاہم ریاستی حکومتوں کی جانب سے ابھی تک ایسی کوئی اسکیم وضع نہیں کی گئی ہے۔ سماجی کارکن انجلی بھردواج نے کہا کہ انہوں نے کئی ریاستوں کو قانونی نوٹسیں بھیجیں ہیں، ’’یہ پوچھتے ہوئے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں ؟‘‘ ۲۴ اگست کو بھردواج کے سوال کے جواب میں وفاقی وزارت برائے صارفین امور، خوراک اورعوامی تقسیم نے کہا کہ کوٹہ میں کسی بھی قسم کا اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب تک کہ الگی مردم شماری نہیں ہوجاتی یعنی تخمینوں میں نظر ثانی اگلی مردم شماری کی اشاعت کے بعد ہی ممکن پائے گی۔ بھردواج حکومت سے سوال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ہوسکتا ہے کہ اگلی مردم شماری وبائی مرض ختم ہونے کے بعد شائع کی جائے گی، اس دوران یہ لوگ کیا کریں گے؟ کیا وہ بھوکے مرجائیں ؟‘‘
اس ناقص عوامی تقسیم کے نظام کا براہ راست اثر ملک کے معاشی طور پرانتہائی کمزور طبقہ پر ہوتا ہے ان افراد کو اسکیم میں شامل نہ کرنا انتہائی معیوب بات ہے اور ان کے تئیں حکومت کی غیر سنجیدگی و بے حسی ظاہر ہوتی ہے ، لوگ پہلے ہی وبائی مرض کوویڈ سے بد حال ہیں ، کوویڈ کے دوران وہ بھوک اور بے روزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ بھوک سے غذاکی عدم فراہمی سے موت کا شکار ہوئے ہیں ۔ پچھلے سال شہر آگرہ جو دلی سے محض چند کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے پانچ سالہ سونیا فوت ہوگئی، کیونکہ اس کے والدین کے پاس کھانا نہیں تھا ان کے پاس کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران ۱۵ دن تک کھانے کے لیے کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ اس جیسے لاکھوں افراد ہیں جن کے پاس ایک وقت کا کھانا موجود نہیں تب ہی تو ہمارا ملک بھوک مری انڈیکس میں اپنا مقام مزید مضبوط کرتا جارہا ہے پچھلے سال وہ 94 ویں مقام پرتھا اور اس سال وہ 102 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے ۔ اب اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے ۔

 

***

 حکومت نے عدالت عظمیٰ سے پھٹکار لگنے کے بعد بڑی پریشانی کے عالم میں ماہ مئی ۲۰۲۰ میں اعلان کیا کہ وہ ایسے ۸ کروڑلوگوں کو راشن فراہم کرے گی جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں، لیکن یہ راشن صرف مئی اور جون کے مہینوں کے لیے ہوگا ۔ اس اعلان کے باوجود حکومت نے اسے مناسب طریقے سے نافذ نہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے صرف ۲ کروڑ ۸۰ لاکھ افراد کو ہی راشن فراہم کیا ۔ مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش،گجرات اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں نے تو اپنی منظور شدہ غذائی اجناس کے کوٹے میں سے ۳ فیصد سے بھی کم تقسیم کیا۔ کچھ ریاستوں نے راشن کارڈ نہ رکھنے والوں کو اناج دیا ہی نہیں، جبکہ کچھ ریاستوں نے یک وقتی ریلیف فراہم کیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021