غازی آباد میں بزرگ کی پٹائی کا واقعہ اور یو پی پولیس کی کارروائی

تفتیش وتحقیق کے بغیر کوئی بھی خبر نہ کریں شیئر، اسلامی واخلاقی تعلیمات کا تقاضہ

 

سوشل میڈیا پر جعلی اور فرضی خبریں عام کرنے والوں کے خلاف سخت سزا متعین ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شر پسند عناصر فیک نیوز پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں لیکن جانبدارنہ کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ جس طرح ریاست اتر پردیش کے غازی آباد میں واقع لونی علاقے میں ایک معمر شخص کی پٹائی کی ویڈیو وائرل کی گئی۔ ابتداً ویڈیو کو دیکھ کر مذہبی منافرت کی بو آئی۔ کیوں کہ ویڈیو میں عبد الصمد نامی بزرگ شخص خود اس بات کا اقرار کرتے ہوئے نظر آئے تھے کہ ان کے ساتھ ظلم کیا گیا کیوں کہ انہوں نے ’جےشری رام ‘ کے نعرے نہیں لگائے تھے۔ بعد میں پولیس کی جانچ میں معلوم ہوا کہ معاملہ کچھ اور تھا۔ پولیس کے مطابق عبدالصمد تعویذ دیا کرتے تھے جس کا غلط اثر نظر آنے کی وجہ سے کچھ لوگ برہم ہوئے اور پٹائی کر دی اور ان کی داڑھی بھی کاٹ ڈالی۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ عبد الصمد کی ویڈیو تیزی کے ساتھ وائرل کر دی گئی۔ خبر کو مذہبی رخ دیا جانے لگا۔ وائرل ویڈیو کی خبر دینے والوں میں کئی سیاسی لیڈر اور نیوز چینلز شامل تھے۔ لیکن یو پی پولیس نے ریاستی اور مرکزی حکومت کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف ہی مقدمہ درج کیا۔ گویا وہ موقع کی تلاش میں تھی۔ یو پی پولیس نے ’الٹ نیوز‘ کے بانی محمد زبیر، سنیئر صحافی رعنا ایوب، ’دی وائر‘ مشہور مصنفہ اور خاتون صحافی صبا نقوی، ٹویٹر انڈیا، کانگریس لیڈر سلمان نظامی اور مشکور عثمانی کے خلاف کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ جبکہ ٹائمس ناؤ (Times Now) نے باضابطہ بریکنگ کے طور پر اس خبر کو چلا کر سنسنی پھیلائی تھی۔ لیکن ٹائمس ناؤ پر کسی طرح کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی آخر کیوں؟
دوسری طرف ’الٹ نیوز‘ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرتا ہے، فرضی خبروں کے بخیہ ادھیڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں افواہوں کے شعلوں کو مدھم کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے جو کہ حکومت وقت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
ٹویٹر پر الزام یہ لگا کہ اس نے غازی آباد پولیس کی وضاحت کے باوجود ٹویٹ کو حذف (delete) نہیں کیا۔ آئی پی سی دفعات 153 (فساد برپا کرنے کے ارادے سے اشتعال انگیزی) 153اے (مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینا) 295 اے (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کا ارادہ) 505 (عوام میں فساد برپا کرنے والے دیے گیے بیانات) 120بی (مجرمانہ سازش) لونی پولیس اسٹیشن میں درج کیے گیے ہیں۔
واضح ہو کہ مرکزی حکومت اور ٹویٹر کے بیچ نئے آئی ٹی قوانین کے حوالے سے کئی دنوں سے رسہ کشی جاری تھی۔ 25 فروری 2021 کو بنائے گئے نئے آئی ٹی قوانین میں حکومت نے صاف کردیا تھا کہ جس کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے 50لاکھ یوزرس ہوں گے انہیں بھارت میں شکایت آفیسر (grievance officer) کی تقرری کرنی ہو گی۔ اس کے لیے تین مہینے کا وقت دیا گیا تھا۔ 25 مئی تک ٹویٹر کو شکایت افسر مقرر کرنا تھا لیکن حکومت کے مطابق ایسا نہیں ہوا۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ میں ٹویٹر کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اس نے 28؍ مئی کو ہی شکایت افسر کو مقرر کر لیا تھا۔ وزارت برائے آئی ٹی کی جانب سے قوانین کے سلسلے میں 26 مئی کو پہلی بار ٹویٹر کو نوٹس بھیجا گیا تھا۔ اس کے بعد 28؍ مئی اور 2؍ جون کو بھی نوٹس ارسال کیا گیا اور 5؍ جون کو حتمی نوٹس بھیجا گیا۔
بی جے پی ترجمان اور بدنام زمانہ سمبت پاترا کے ایک ٹویٹ پر ٹویٹر انڈیا نے جوڑ توڑ (manipulated media) کا لیبل لگا دیا تھا۔ جس کے بعد دہلی میں واقع ٹویٹر آفس پر اچانک چھاپے بھی مارے گئے تھے۔
یہاں پر یو پی پولیس کی کارکردگی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ عبدالصمد کا معاملہ پانچ جون کا ہے۔ ویڈیو 10جون کے بعد وائرل ہوتی ہے لیکن کارروائی کرتے کرتے کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اس قدر سست روی سے کام کیوں ہوا۔ جب تک اس میں ’جے شری رام‘ کا عنصر نہ ڈالا گیا تب تک دھیمی رفتار سے کام کیا گیا۔ پولیس کے ابتدائی بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے کیس کو نوٹس میں لے لیا ہے اور 15 جون کو ٹویٹ کیا جاتا ہے کہ اس معاملے میں تین گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ جبکہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تحقیق کے بعد کوئی دوسرا بھی زاویہ نکل کر سامنے آئے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر مستقل پرانے ویڈیوز کو دوبارہ وائرل کر کے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جسے کئی فیکٹ ویب سائٹس اور پورٹل بے نقاب کرتے ہیں۔ کورونا وائرس میں تبلیغی جماعت کے بہانے تمام مسلمانوں کو فیک ویڈیوز کے ذریعے ہی بدنام کیا گیا اور فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دی گئی۔ لیکن کہیں بھی ان صارفین کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ اسی طرح متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرین کے حوالے سے بھی کئی گمراہ کن ویڈیو سوشل میڈیا پر عام کیے گئے لیکن اس وقت بھی یو پی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔
آسام میں بی جے پی کی حکومت ہے اور حال ہی میں اسمبلی الیکشن سے پہلے آسام کے دھوبری سے رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل کا ایک ویڈیو وائرل کیا گیا جس میں وہ آسامی زبان میں کہتے ہوئے نظر آئے ’’اسی بھارت پر مغلوں نے آٹھ سو سال حکومت کی۔ ہم اس ملک کو اسلامی ملک بنائیں گے، وزرات میں کون بیٹھے گا؟ ہماری پارٹی، کانگریس، یو پی اے، عظیم اتحاد کی حکومت بنے گی اور سرکار میں اپنی پارٹی، آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) کی بھی شراکت داری ہو گی۔ پورے ملک میں ایک ہندو بھی نہیں ہو گا بلکہ ہر کوئی مسلمان ہو گا‘‘۔ اس طرح کی خوفناک باتیں ان سے منسوب کر کے غیر مسلموں کو اس لیے ڈرایا گیا تاکہ بدرالدین اجمل کے بجائے آسام کے لوگ بی جے پی کو ووٹ دیں۔ لیکن اس گمراہ کن ویڈیو کی بنیاد پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔
بہر حال اسلامی اور اخلاقی تعلیمات کی بات کی جائے تو کسی بھی خبر کو واقعی بغیر تحقیق کے کہیں ارسال یا شیئر نہیں کرنی چاہیے۔ فوری طور پر کسی بھی ویڈیو کو دیکھ کر جذباتی ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ آج کل ویڈیوز کو توڑ مروڑ کر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ کئی طریقوں سے آپ خبروں کی چھان بین کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جس علاقے کی خبر ہے وہاں کی پولیس کا آفیشیل ٹویٹر ہینڈل دیکھا جائے۔ معتمد چینلوں پر بھی نگاہ ڈالی جاسکتی ہے۔ اگر اس علاقے میں آپ کے رشتہ دار موجود ہوں تو ان سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے اور کچھ نہ میسر ہو تو ایسی خبر کو عام کرنے سے بالکل پرہیز کریں تاوقتیکہ حقیقت کھل کر سامنے نہ آ جائے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021