علامہ شبلی نعمانی ؒ ۔’ تھے ہند میں سرمایہٗ ملت کے نگہباں‘

علی گڑھ، ندوۃ العلماء اور دارالمصنفین۔ شبلی کے انقلابی اقدامات کے نمونے

’سیرۃ النبی ‘ شاہکار تصنیف، تعلیمی اورادبی میدان کےبے مثال کارنامے نئی نسل کےلیے نقوش راہ
علامہ شبلیؒ مشہور عالم دین مصنف مؤرخ اور مفکر تھے۔ وہ علم و عمل کا ایک پیکر تھے ۔ ان کی پیدائش کا وقت وہی تھا جب جدوجہد آزادی ہند اپنے عروج پر تھی اور اعظم گڑھ کی جیل سے مجاہدین آزادی جیل کے دروازے توڑ کر باہر آگئے تھے۔ علامہ شبلی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کا جذبہ لے کر اس دنیا میں وارد ہوئے تھے ۔ وہ ۱۹ویں اور بیسوی صدی کی ایک عظیم شخصیت تھے جنہوں نے ملک و ملت کے لیے ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے۔اپنے والد کے کہنے پر شبلی نے وکالت کا امتحان پاس کیا لیکن انہیں وکیل بننا پسند نہ تھا۔البتہ قرق امینی کی ملازمت اختیار کی لیکن دو ماہ کے بعد استعفیٰ دے کر الگ ہوگئے۔ تصنیفی ذوق تھا ہی چنانچہ مضامین لکھے ،شاعری کا سودا بھی ذہن میں سرایت کیے ہوئے تھا۔ چنانچہ اردو فارسی میں طبع آزمائی کرتے اور دوسرے شعراء پر نقد بھی کرتے تھے۔ مرحوم نے ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ مطالعہ کا ذوق میرے خون میں سرایت کرگیا ہے۔
علامہ شبلی نے ۱۸۸۱ء میں علی گڑھ کا سفر کیا وہاں سرسید احمد خاں سے ملاقات ہوئی اور ان کی شان میں عربی زبان میں قصیدہ لکھا۔ جو بعد میں علی گڑھ گزٹ میں شائع ہوا۔ ۱۸۸۳ء M.A.O. College میں ایک اسامی پروفیسر مشرقی علوم کی نکلی ۔ شبلی نے اپنی درخواست ارسال کی جو منظور ہوگئی اور پھر بحیثیت استاد وہاں تدریسی اور تربیتی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۶ء جب شبلی کی عمر صرف ۲۹ سال کی تھی سرسید احمد خاں نے انہیں مسلم ایجوکیشن کانفرنس کے اجلاس علی گڑھ میں بلایا۔ اس کا اولین نام محمڈن ایجوکیشنل کانگریس تھا۔ اجلاس میں ملک کے علماء دانش ور اور امراء و رؤسا شامل تھے۔ اس کانفرنس کا مقصد دینی تعلیمی نظام کی مضبوطی ، مسلمانوں کے تمدنی و ثقافتی ورثہ کا تحفظ، تعلیمی اداروں کا قیام اور عصری علوم کا فروغ تھا۔ اس اجلاس میں علامہ شبلی نے ایک زبردست تقریر کی۔ انہوں کہا کہ قوم کو اعلیٰ درجہ کی انگریزی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایسا دعویٰ تھا جو دلیل کا محتاج نہیں تھا۔گورنمنٹ کے صیغہ ملازمت میں ہمارا کم حصہ ہے۔ ہم اپنا موقف گورنمنٹ کے سامنے پیش نہیں کرسکتے۔ اس لیے کہ ہم اعلیٰ تعلیم میں پیچھے ہیں۔مشرقی علوم کے لیے علماء کا جاری کردہ قدیم نظام جاری رہنا چاہیے۔ہمارے تعلیمی نظام میں حکومت کی مداخلت کی کوشش مناسب نہیں ہے۔
شبلی، سرسید احمد خاں کے ساتھ ۱۶ سال رہے اُن سے کچھ اختلاف بھی رہا۔ شبلی کہتے ہیں کہ علی گڑھ کے طلبہ گو مغربی علوم حاصل کررہے ہیں لیکن اُن میں دینی جذبہ اور فکر کا فقدان ہے۔ وہ مغربی تہذیب کو اختیار کرنے کی طرف راغب ہیں۔علی گڑھ میں رہ کر شبلی نے سرسید احمد خاں کی ذاتی لائبریری سے خوب فائدہ اٹھایا۔ سرسیداحمد خاں بھی ان کے ذوق مطالعہ سے متاثر تھے۔ اسی سال ۲۰؍جون ۱۸۸۳ء کو نیشنل اسکول اعظم گڑھ کی بنیاد رکھی جو اب شبلی ڈگری کالج کے نام سے مشہور ہے۔
اسی زمانے میں علی گڑھ میں پروفیسر تھامس آرنالڈ(Thomas Arnold)فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوکر آئے تھے۔ وہ علامہ شبلی کی فارسی اور عربی دانی سے متاثر تھے۔پروفیسر آرنالڈ نے علامہ شبلی سے درخواست کی کہ وہ انہیں عربی زبان پڑھا دیا کریں ۔ شبلی تیار ہوگئے۔وہ لکھتے ہیں کہ آرنالڈ ٹھیک وقت پرمیری رہائش گاہ پر آتے تھے ایک منٹ بھی دیر نہ کرتے۔ ایک مرتبہ چند منٹ کی تاخیر ہوگئی تو اتنی معذرت کی کہ مجھے شرمندگی ہوئی کہنے لگے یورپ میں وقت کی بڑی قیمت ہے۔آرنالڈ مجھ سے عربی پڑھتے اور اپنی رہائش گاہ پر انگریزی میں عربی گرامر کا مطالعہ کرتے اس طرح بہت جلد عربی سیکھ گئے ۔ ایک دفعہ کہنے لگے: دیکھیے میں عربی کی عبارت پڑھتا ہوں کہیں اعراب کی غلطی تو نہیں ہے۔ اس کے بعد عبارت پڑھی اتنی صاف اور صحیح کہ مجھے حیرت ہوئی۔
ایک دفعہ میں نے آرنالڈ سے کہا کہ ہمارے یہاں استاد کی جتنی عزت ہوتی ہے آپ کے یہاں نہیں ہوتی۔ آرنالڈ نے جواب دیا۔ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں علم روز ترقی کررہا ہے اور ہر شاگرد اپنے استاد سے زیادہ جانتا ہے اس لیے وہ اپنے استاد کی رسمی عزت کہاں تک کرے؟
علامہ شبلی لکھتے ہی کہ جس زمانے میں مجھے ہیروز آف اسلام (Heroes of Islam) لکھنے کا خیال ہوا، اُس وقت ہندوستان میں تاریخی سرمایہ کافی نہ تھا۔ اس لیے روم اور مصر کے سفر کا جذبہ پیدا ہوا، جہاں اس طرح کا سرمایہ موجود تھا، یہ ۱۸۹۲ء کا زمانہ تھا۔
شبلی کو معلوم ہوا کہ پروفیسر آرنالڈ ولایت جانے والے ہیں، سوچا یہ سفر ان کے ساتھ ہی کرلیا جائے۔ ان سے ذکر کیا۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔چنانچہ پہلے ہم بمبئی پہنچے وہاں سے بحری سفر شروع ہوا۔ ایک دن جب میں صبح سوکر اُٹھا تو معلوم ہوا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے جہاز کا کپتان اور دیگر عملہ پریشان اور انجن کی درستگی کی کوشش کررہے ہیں۔ مسافر پریشان اور میں بھی فکرمند۔ طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔ میں پروفیسر آرنالڈ کے پاس گیا وہ اطمینان سے کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں نے اُن سے کہا کچھ خبر بھی ہے ؟ کہا ہاں، جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے۔ میں نے کہا آپ کو کچھ اضطراب نہیں۔ کتاب پڑھنے کا کیا موقع ہے؟ جواب دیا جہاز کو اگر برباد ہونا ہے تب یہ تھوڑا سا وقت قابل قدر ہے اس کو استعمال کرلینا چاہیے۔ ایسے وقت کو رائیگاں کرنا بے عقلی ہے۔ آٹھ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد الحمدللہ انجن ٹھیک ہوگیا۔ میں درمیان سفر اتر کر قسطنطنیہ چلا گیا اورپروفیسر آرنالڈ نے اپنی منزل کی راہ لی۔ (شبلی کی آپ بیتی ، ص۶۹)
اس سفر کے بعد میں اعظم گڑھ جانے کے بجائے علی گڑھ آگیا۔ ایک رات ۲؍بجے ڈاکیہ تار لے کر آیا میں گھبرا گیا، اس لیے کہ اہلیہ کی علالت کی خبر مل گئی تھی دل میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔ تار انگریزی میں تھا اور میں انگریزی نہیں جانتا تھا۔میں سرسید کے پوتے کے پاس گیا دروازہ کھٹکھٹایا تار دکھایا۔ انہوں نے کہا نواب بھوپال حسن خاں صاحب کا تار ہے انہوں نے سفر سے واپسی پر مبارکباد دی ہے۔ کہا ارے یہ ہے ہم مولویوں کا حال۔ انگریزی نہ جاننے پر افسوس۔
۱۹۰۹ء میں انجمن حمایت الاسلام کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے علامہ شبلی نے صاف الفاظ میں کہا۔ ان جدید تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں پر افسوس ہوتا ہے جو مغربی تہذیب کی تقلید پر فخر کرتے ہیں۔ دین اسلام کی تکمیل اسلام کے بہترین نظام اخلاق اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے متعلق ذکر کرنے کے بعد کہا۔ ہمارے نوجوان انگریزی تمدن انگریزی وضع قطع پر عمل کرنا فخر سمجھتے ہیں۔ہر آدمی انگریزی تہذیب کو اپنا مقتدیٰ اور امام بناتا ہے تمام اخلاق حسنہ کا مخزن اسی تہذیب کو سمجھتا ہے۔ اپنی تقاریر میں مشاہیر یورپ کو بطور نمونہ اور مثال پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے لائق اور بزرگوار گزرے ہیں جو اس دنیا میں آسمان شہرت کے سورج بن کر چمکے ہیں۔
’’سرسید کے مذہبی افکار کے بارے میں ایک جگہ تحریر کرتے ہیں: زمانہ جانتا ہے کہ مجھ کو سرسید احمد خاں کے مذہبی مسائل سے سخت اختلاف تھا لیکن اس سے مجھ کو کبھی انکار نہ ہوسکا کہ ان مسائل کو سرسید نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا ہے کوئی اور شخص ادا نہیں کرسکتا۔‘‘ (مقالات شبلی حصہ دوم)
علی گڑھ میں رہ کر شبلی نے کئی کتابیں لکھیں۔ سیرت النبی کا کام یہیں شروع کیا۔ الفاروق بھی یہیں رہ کر لکھنا شروع کی۔ جب سرسید احمد خاں کو معلوم ہوا کہ شبلی الفاروق لکھ رہے ہیں تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا اور زور ڈالا کہ یہ نہ لکھیں کیونکہ اس سے کسی نہ کسی طرح شیعہ ناراض ہوں گے لیکن شبلی نہ مانے اور انہوں نے اس کام کو مکمل کیا۔ ’المامون والجزیہ‘ بھی علی گڑھ میں رہ کر لکھی بلکہ اسے سرسید احمد خاں نے شائع کیا۔علی گڑھ کے بعد علامہ شبلی حیدرآباد چلے گئے جہاں وہ کافی عرصہ قیام پذیر رہے۔
ندوۃ العلماء لکھنو کے ذمہ داروں نے شبلی کو ۱۹۰۵ء میں ناظم تعلیمات کی حیثیت سے ندوہ بلا لیا۔ندوہ کے مقاصد کچھ یوں تھے
٭یہاں ہر فن کے علماء پیدا ہوں گے
٭ایسے علماء پیدا کرنا جو جدید تقاضوں سے باخبر ہوں
٭اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ انگریزی زبان اور علوم جدیدہ سے پوری طرح باخبر ہوں
٭مسلمانوں میں تعصبات کو کم کرنا اور اشاعت اسلام کے لیے مل جل کر کام کرنا۔ ۱۹۰۸ میں شبلی نے انگریز گورنر سے ندوۃ العلماء کے لیے ایک وسیع زمین حاصل کی اور چند کمروں کی تعمیر کرائی۔ یہ وہی زمین ہے جس پر آج ندوہ قائم ہے۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد اسی انگریز گورنر نے رکھا۔ جب اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو شبلی نے کہا کہ مسجد نبوی کا منبر بھی ایک نصرانی کا بنایا ہوا ہے۔
شبلی ندوہ کے نصاب میں انگریزی، ہندی اور سنسکرت اضافی مضامین کی حیثیت سے شامل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن لوگوں نے ان سےاختلاف کیا جس کے جواب میں انہوں کہا کہ جدید فلسفہ کا علم اور انگریزی زبان سیکھنا لازم و ملزوم ہے۔یورپ کے اسکالر جو ہمارے مذہب پر حملہ کررہے ہیں ان سے واقف ہونے کی ضرورت ہے یا نہیں، اگر علماء ان کے خیالات سے واقف نہ ہوں گے تو ان کے شبہات کو کون دور کرے گا۔دین اسلام پر جو اعتراض کیے جارہے ہیں ان کو دور کرنا کس کا فرض ہے، کیا علمائے سلف نے یونانی فلسفہ سیکھ کر ان کے جوابات نہیں دیے اگر اس زمانے میں یونانی فلسفہ سیکھنا جائز تھا تو اب کیوں ناجائز ہے؟
ندوۃ العلماء میں جب تفسیر کا کمرہ تعمیر ہونا شروع ہوا تو طلبا کو کمرے کے پاس جمع کیا اور کہا دارالعلوم کی تمام عمارت اگرچہ خود ایک علمی اور مذہبی عمارت ہے لیکن اسلامی علوم میں علم تفسیر تمام علوم دینیہ کا سرتاج ہے اس لیے جو کمرہ خاص علم تفسیر کے لیے تعمیر ہورہا ہے اس کے پاس جاکر تمام راج اور مزدوروں کو ہٹادیا اور خود اپنے ہاتھ سے چونا گارا لاکر ڈھیر کرنا شروع کیا۔ لڑکے مصالحہ دیتے اور خود اینٹیں چنتے اور پھر الگ ہٹ کر اللہ سے دعا مانگتے۔
انگریزی زبان کی افادیت کے سلسلہ میں علامہ شبلی نے اپنی ایک تقریر میں کہا عالم یا فاضل کے درجہ کے بعد ضروری ہے کہ چند طلباء کو دو برس تک خالص انگریزی زبان سکھائی جائے تاکہ انگریزی زبان میں تحریر و تقریر کا ملکہ ہو اور ایسے علماء پیدا ہوں کہ یورپ کی علمی، تحقیقات کو اسلامی علوم میں اضافہ کرسکیں اور انگریزی داں جماعت کے سامنے اُن ہی کی زبان و خیالات اسلامی عقائد اور مسائل پر تقریر کر سکیں۔‘‘ (مقالات شبلی سوم ص:۱۶۰،۱۶۱)
اپنی بے لاگ اور بے مثال کتابوں کے لیے شبلی یاد رکھے جائیں گے لیکن اگر یوں کہا جائے کہ ’سیرت النبیؐ علامہ شبلی کا عظیم کارنامہ ہے جس سے کوئی مصنف بے نیاز نہیں ہوسکتا‘ تو اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ۔
شبلی نے ندوہ سے الگ ہو کر اعظم گڑھ میں دارالمصنفین قائم کیا جو آج تک عظیم خدمات انجام دے رہا ہے۔
***

 

***

 شبلی کو معلوم ہوا کہ پروفیسر آرنالڈ ولایت جانے والے ہیں، سوچا یہ سفر ان کے ساتھ ہی کرلیا جائے۔ ان سے ذکر کیا۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔چنانچہ پہلے ہم بمبئی پہنچے وہاں سے بحری سفر شروع ہوا۔ ایک دن جب میں صبح سوکر اُٹھا تو معلوم ہوا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے جہاز کا کپتان اور دیگر عملہ پریشان اور انجن کی درستگی کی کوشش کررہے ہیں۔ مسافر پریشان اور میں بھی فکرمند۔ طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔ میں پروفیسر آرنالڈ کے پاس گیا وہ اطمینان سے کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں نے اُن سے کہا کچھ خبر بھی ہے ؟ کہا ہاں، جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے۔ میں نے کہا آپ کو کچھ اضطراب نہیں۔ کتاب پڑھنے کا کیا موقع ہے؟ جواب دیا جہاز کو اگر برباد ہونا ہے تب یہ تھوڑا سا وقت قابل قدر ہے اس کو استعمال کرلینا چاہیے۔ ایسے وقت کو رائیگاں کرنا بے عقلی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021