طنز و مزاح بونتا

دھنک رنگ چادر پر مزاح سے بھرپور تحریر

نعیم جاوید/سعودی عرب

دکنی زبان میں ہم جس دھنک رنگ چادر کو ’’بونتا‘‘ کہتے ہیں اسے ’’رضائی‘‘یا’’ گلیم ‘‘یا پرانی اُردو میں ’’لباسِ راہ راہ ‘‘بھی کہتے ہیں اور انگریزی میں Patchwork quilt کہہ کر ہم پر سب رعب ڈالتے ہیں۔ آتشؔ نے شاید ہمارا بونتا دیکھ کرہی یہ کہا ہو؎ ’’ رنگریزبن کے فکر نے رنگے ہزار رنگ‘‘
’گدڑی‘ کہیے یا ’بونتا‘ (لحاف) جسے کنواری دوشیزائیں کبھی گھریلو صنعت کی مصنوعات کی طرح باہم جٹ کر تیار کرتی تھیں۔ موسم کا مزاج بگڑنے اور افرادِ خاندان کے بڑھنے کے امکانی خطرے کو بھانپ کر ضرورت سے پہلے تیار کرلیتی تھیں۔ نئے پُرانے کپڑوں کی باقیات کے ریزۂ گل سے اس لحاف کو لالہ زار کردیا جاتا اور یہ یادوں کا خوش رنگ نگارخانہ بن جاتا۔ اس پر اُچٹتی نظرڈالنے والوں کو بظاہر رنگوں کا بکھراؤ اور بے جوڑ محسوس ہوتا لیکن Mosaic جیسے صد ہزار رنگ اور شاہوں کے رنگ محلوں سا خوش رنگ فرش جو نہ صرف نگاہوں کو بلکہ اوڑھ کر سونے کے بعد طبیعت کو بھی رنگین کرجاتا۔ بونتے تلے خواب بھی رنگین نظر آتے۔ بلکہ پچھلے زمانے کی کہانیاں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اُن (الف لیلیٰ) جیسے لکھنے والوں نے بونتا اُوڑھ کر ہی رنگ برنگی کہانیاں لکھی ہوں۔ جہاں ہزاروں کردار ابھرتے بچھڑتے اور پھر کہانی میں جڑجاتے ۔جبکہ آج کے قلم کار اور قارئین کا حافظہ اتنا کم زور ہے کہ چند کرداروں میں ہی انہیں بے موسم کے بونتا اوڑھنے جیسا گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ کتاب کو بونتے کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ جب جب ہم گلابی جاڑوں میں بونتا اُوڑھ کر کھلے آسمان کو دیکھتے اور دور تک آسمانوں میں کہکشانوں کے بکھراؤ پر غور کرتے تو لگتا جیسے پوری کائنات بونتا اوڑھ کر سورہی ہو۔
بونتا سیتے ہوئے دکن کے گاؤں میں کبھی ڈھولک کے گیتوں کی تھاپ سن کر گاؤں کی گوریوں کی آوازوں میں چاندی کی گھنٹیوں جیسی خوش آہنگ نغمگی بھی سننے کو ملتی اورجب انکی ہنسی کے اَنار پھوٹ پڑتے تو دور تک خوشیوں کااُجالا پھیل جاتا۔ پھر کسی بات پر سب کے سب بے تحاشہ ہنستے ہوئے اسی زیرِ تکمیل بونتا پر لوٹ پوٹ جاتے۔ اُن میں سے کوئی ایک جب کسی لباس کے ٹکڑے کو کمالِ احتیاط سے پیوند لگاتے ہوئے کوئی واقعہ سُناتا تو پور ے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی۔ تب اچانک معصوم لڑکیوں کے پاکیزہ ہاتھوں میں سوئیوں کا رقص تھم جاتا۔ پھر جھر جھر آنکھوں سے روتے ہوئے بوڑھی نانی بول پڑتیں کہ ’’یہ لال جوڑے کا پیوند ‘جس کو ہم نے بھوکوں رہ کر اپنی بٹیا رانی کو دلہن بنایا تھا ۔ لیکن بارات‘ دلہے راجہ نے واپس لے لی تھی‘ کیونکہ جہیز ان کی آرزووں سے کم تھا۔ اس طرح سے یادوں سے چمٹے لمحات‘ دستاویز بن کر ریکارڈ میں آجاتے۔ پھر بونتا‘ صرف بونتا نہ رہ کر ۔۔ خاندان کی لٹی حسرتوں یا حاصل کردہ مسرتوں کا Time capsule بن جاتا۔
آج گھرانوں کا بکھراو اس قدر عام ہوگیا ہے کہ لوگ کسی بزرگ کی موت کی پلنگ کے اطراف بھی ایسے جمع ہوتے ہیں جیسے سابقہ بونتا کے پھٹے ہوئے ٹکڑے۔ جبکہ بزرگوں نے تو ٹکڑوں کو جوڑ کر بونتا بنانے کا گر سکھایا تھا۔ بونتے کے رنگوں میں سے کچھ رنگ تو قومی پرچم میں آج بھی سر بلند نظر آتے ہیں۔ جو ہمارے ملکوں کی ہمہ رنگ تہذیب کی علامت ہیں لیکن دل ماتم کرتا ہے اور سینہ کوبی کرنے کو جی کرتا ہے جب کچھ رنگوں کے اندھوں کو اپنی پارٹیوں کا ایک ہی رنگ نظر آتا ہے۔ اور خدا کی بنائی ہوئی رنگا رنگی نظرنہیں آتی۔ دراصل یہ لوگ رنگ چور نہیں بلکہ قومی بونتا چور ہیں۔
ہم نے ایکMall میں ایک خوبصورت ہسپانوئی لحاف دیکھی جس کو ایک انگریز بیچ رہا تھا اور یہ ہمیں جتاتا تھا کہ یہ دراصل ایک قیمتی Rainbow Quilt ہے ۔پہلے تو ہمارے دل کو بڑا ترس آیا کہ جانے کیوں اتنا پڑھ لکھ کروہ بونتا بیچ رہا ہے۔ پھر خیال آیا کہ یہ سراسر دھاندلی ہے جو ہماری تہذیبی پہچان کوہمارے سامنے وہ خم ٹھوک کر اپنی کہہ رہا ہے۔ جانے کیوں دل نے چاہا کہ اپنی گم شدہ شئے کو بڑی سی بڑی قیمت دےکر پھر ایک بار حاصل کرلیا جائے ورنہ تہذیبی سطح پر مانگے تانگے پر گزارا ممکن نہیں ہوتا۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو بونتے کی بساط میں ’’ایک ٹکڑا تیر کو تو دوسر ٹکڑا میر کو‘‘ نظر آتا ہے۔ جیسے کسی شاعر کا دیوان وہ بھی آزاد شاعری کا۔ اس لیے شایدنئی نسل اس طرح کے شاعروں کو بدبودار بونتا سمجھ کر رد کرچکی ہے۔ اگر اُسے سیاسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہمارے ملکوں کی مخلوط حکومتیں کسی بے ہنگم و کمزور بونتے سے کم نہیں ہوتیں۔ اگر آپ کو کوئی عالمی سطح کا بدبو دار سیاسی بونتا دیکھنا ہو جس کی قرار دادیں ایک دوسرے پر الٹی پڑی ہوئی ہوں تو آپ عالمی سیاسی اداروں کو دیکھ لیجیے جو خود بونتا پوش نظر آئیں گے۔ بلکہ ہمارا خیال ہے کہ انکا بونتا وہ ہے جو کبھی شیطان چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ بلکہ یہی وہ بونتا ہے جسے پہن کر چنگیزخان اور ہلاکو پرامن بستیوں میں اودھم مچانے چلے جاتے تھے۔
گدڑی کے بارے میں ہم نے یار لوگوں سے پوچھا تو بولے بونتے کے تقدس کا لحاظ نہ ہوتا تو بتاتے کہ آج بونتا‘ لحاف نہیں بلکہ سرگرمی ہے اور آج کل کئی ایک نئی سرگرمیاں ہیں اس کا شمار بونتے کے ٹکڑوں سے زیادہ تعداد میں ہے۔ جیسے اچھے بھلے دل لوٹ لینے والے گانوں میں Remix کے ذریعے نئی میوزک ٹھونس کر اس گانے کو بونتا بنانا۔ کبھی فن مصوری میں کبھی کسی دوشیزہ کی مسکراہٹ پر قابو پاتے ہی وہ تصویر مونالیزا بن کر فن اور فن کار کو شہرت بخش دیتی تھی۔ جبکہ آج تو بونتا نماماڈرن آرٹ کی نمائش کے دن بونتا صفت فن کار شہر چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ ویسے ڈھیٹ فن کاروں کی کمی نہیں ہے۔ خود پینٹنگ کے ساتھ عجوبہ بن کر کھڑا ہوجائیں تو شریف لوگ کیا بگاڑ لیں گے۔
خلیج میں قیام کے دوران بڑے بڑے خوں خوار شوہروں کو نوکریوں نے گھروں سے تڑی پار کرکے جبری کنوارے پن کی قید بامشقت سے گرہستی میں سگھڑ بنادیا ہے۔ اور انہوں نے باورچی خانوں میں وہ کچھڑی پکائی ہے کہ جسے دیکھنے پر NASA کے سائنس دان بھی چیخ اٹھیں گے۔ اس طرح ایک بار ایک مستقل بیچلر دوست کے مشورے پرہم نے اپنی باری پر اپنے روم میٹس کو بونتا (شوخی سے بھر ا ہوا یہ لفظ گھومتا ہوا جانے کب دکن میں گائے اور بکری کے معدے اور چٹوروں کے دل تک پہنچ گیا) بنا کر کھلانے کی پیشکش کی یعنی کسی بدقماش بکرے کی اوجھڑی (بٹ کلیجی‘ آنتیں وغیرہ) پکا کر دعوت کی اور وہ بھی اعلیٰ فنی پیمانے پر۔ پہلے تو ہم نے سب روم پارٹنرس کے کہیں باہر جانے کا انتظار کیا ۔ پھر سب کے جاتے ہی دھڑام سے بکرے کا مذکورہ سامان Washing Machine میں ہلکے سے پوڈر کے ساتھ ڈال کر دھودیا۔ مشین نے تھوڑی دیر میں اس فنی تمسخر سے بونتا کو اتنا گدگدایا کہ آنتوں میں بے جا بل پڑگئے۔ اپنی کاہلی کے بوجھ کوہم نے ٹیکنیکل سپورٹ دے کر بونتے کا بپتسمہ تو کردیا لیکن واشنگ مشین کو اس کی ازلی بد بو سے نجات نہ مل سکی۔ اسکے بعد ’’پس تخلیق عمل‘‘ کے طور پر ہم نے مشین میں کپڑے دھونے کے لیے ڈال دیے اور اس مشین کے دھلے ہوئے کپڑے پہن کر جب ہم آفس پہنچے تو لوگوں نے نہ جانے کیوں اپنی ناک پر ہاتھ رکھ کر ہمارا استقبال کیا جبکہ مشین کی بد بو تو ہمارے کپڑوں سے صاف ہوچکی تھی۔ پھر یہ سب کا Nose piece لگا کر ڈاکووں کی طرح ہمار استقبال کرنا ہمیں سمجھ میں نہیں آیا۔ اچانک اپنے منیجر کی ترقی پر وارفتہ اسکے گلے لگ کر مبارک باددینی چاہی اس نے ہمیں شودر کی طرح خود سے الگ کیا جبکہ ہمیں کل شام تک تو کنگارو کے بچے کی طرح ڈھوئے ڈھوئے پھرتا تھا۔ پھر ندامت سے اس نے ایک Foot length کے فاصلے پر بٹھا کر بڑے مساوات سے سمجھایا کہ کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ میں بھی نہیں نہاتا ہوں لیکن اتنا بھی نہیں کہ بدن کی بد بو سڑانڈ میں بدل جائے۔ آدمی کو جمعہ کو جمعہ تو نہانا چاہیے۔ تب ہمیں سمجھ میں آیا کہ طبیعت میں بونتا کھانے سے جو مستی تھی وہ طبیلے کی بو بن گئی تھی وہ بھی ٹیکنیکل دھلوائی کے سبب۔ یعنی بونتے کی بو مشین میں مشین کی بو کپڑوں میں اور کپڑوں کی منیجر کی ناک میں اور دھتکار کے روپ میں اسکی زبان سے ہمارے گوش گزار ہوئی تھی۔
ہم نے کسی بزرگ تاجر کے بارے میں سنا تھا کہ وہ بازار میں اپنا بونتا بچھاتے اور چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے۔ بستی میں اس بات پر وہ مشہور ہوگئے تھے کہ وہ کھوٹے سکے بھی لے لیتے ہیں بلکہ انہیں کھرے سکوں کی پہچان ہی نہیں ہے۔ جب ان کی موت کا وقت آیا تو انہوں نے لوگوں کے دیے ہوئے سارے کھوٹے سکوں کو سامنے رکھا اور بڑی شفقت سے ان پر ہاتھ پھیر کر آسمان کی جانب اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا مانگی کی ’’میں نے تیرے بندوں کے کھوٹے سکوں کو کبھی رد نہیں کیا ‘ تُو تو خدا ہے اب تو بھی میرے کھوٹے اعمال کو قبول کرلے‘‘۔یہ دعا مانگ کروہ بونتا اوڑھ کر سوگئے۔
[email protected]
***

 

***

 آج گھرانوں کا بکھراو اس قدر عام ہوگیا ہے کہ لوگ کسی بزرگ کی موت کی پلنگ کے اطراف بھی ایسے جمع ہوتے ہیں جیسے سابقہ بنتہ کے پھٹے ہوئے ٹکڑے۔جبکہ بزرگوں نے تو ٹکڑوں کو جوڑ کر بنتہ بنانے کا گر سکھایا تھا۔بنتے کے رنگوں میں سے کچھ رنگ تو قومی پرچم میں آج بھی سر بلند نظر آتے ہیں۔ جوہمارے ملکوں کی ہمہ رنگ تہذیب کی علامت ہیں لیکن دل ماتم کرتا ہے اورسینہ کوبی کرنے کو جی کرتا ہے جب کچھ رنگوں کے اندھوں کو اپنی پارٹیوں کا ایک ہی رنگ نظر آتاہے۔اورخداکی بنائی ہوئی رنگارنگی نظرنہیں آتی۔دراصل یہ لوگ رنگ چور نہیں بلکہ قومی بنتہ چور ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021