طلاق کے نظام کی پیچیدگی اور نتائج

ایڈووکیٹ ابوبکرسباق، دہلی

 

ہندوستانی سماج میں طلاق یا شوہر بیوی کی علیحدگی انتہائی گھناؤنا تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تصور بعض اوقات دونوں کی زندگی کو ایسی گھٹن سے دوچار کرتا ہے کہ جینا مشکل ہوجاتا ہے۔ سماج میں کیونکہ کونسلنگ اور صلح و مصالحت کا کوئی مضبوط نظام موجود نہیں ہے اور واحد متبادل قانون ہے، جس سے بچنا ضروری تصور کیا جاتا ہے، اس لیے مرد وخواتین، بعض اوقات خود کشی اور بعض اوقات قتل کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یہ بات فطری ہے کہ قتل ہمیشہ کمزور کا ہوتا ہے اور کمزور عورت ہے اس لیے ہمارے سماج میں دلہنوں سے چھٹکارے کا ایک ذریعہ اسے کسی بہانے مار ڈالنا ہے۔
جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں فریقین عدالت کا رخ کرتے ہیں اور اپنی جوانی کے قیمتی ماہ و سال قانونی مراحل سے گزرنے میں گنواں بیٹھتے ہیں۔ مسئلے کے دونوں ہی پہلو تکلیف دہ اور تشویش ناک ہیں۔
عصر حاضر میں خاندانی نظام کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں طلاق کےاعداد و شمار میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے، اگر طلاق عدالتی اور قانونی داؤ پیچ کے درمیان پھنس جائے تو دونوں خاندان کے برسہا برس عدالت کے چکر کاٹنے میں گزرجاتے ہیں، تاہم اگر فریقین باہم رضامندی سے شادی کے رشتے سے باہر نکلنا چاہیں تو بحسن و خوبی علیحدگی ممکن ہوسکتی ہے۔ باہم رضامندی سے بھی اگر فریقین عدالت کے ذریعے طلاق کا فیصلہ لینا چاہتے ہوں تو بھی فریقین کو عدالت میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ دونوں ہی فریق گزشتہ ایک سال سے علیحدگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے پاس علیحدگی کے لیے مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ جنوری2020ء میں سپریم کورٹ نے ہندو میرج ایکٹ 1955 کے تحت طلاق کے لئے چھ ماہ کا کولنگ پیریڈ ختم کردیا ہے یعنی اگر عدالت کو یہ یقین ہوجائے کہ اب فریقین میں صلح مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو وہ طلاق کی عرضداشت پر غور کرسکتی ہے۔
ہمارے ملک میں چونکہ طلاق کو مذہب کا داخلی معاملہ تصور کیا جاتا ہے اس لیے ہندو، بدھ، جین اور سکھ مذاہب میں طلاق’’ہندو میریج ایکٹ 1955‘‘ کے تحت، مسلمانوں کے لئے Dissolution of Muslim Marriages Act,1939 اور پارسیوں کے لئے ’’پارسی میریج اینڈ ڈائیوورس ایکٹ 1936‘‘ (Parsi Marriage and Divorce Act,1936) جب کہ عیسائی مذہب کے لئے ’’انڈین ڈائیوورس ایکٹ 1869‘‘ کے تحت طلاق کی قانونی صورتیں موجود ہیں۔ تمام ہی سول اور بین المذاہب شادیاں اور طلاق ہمارے ملک کے الگ قانون’’اسپیشل میریج ایکٹ 1955‘‘ کے تحت ہوتی ہیں۔
طلاق حاصل کرنے کے لئے فریقین میں سے کوئی ایک دوسرے کو شوہر بیوی کے رشتے کو ختم کرنے سے پہلے لیگل نوٹس بھیج سکتا ہے۔ طلاق پیٹیشن کی متفرق قسمیں ہیں جو الگ الگ حالات اوراصول و قوانین کے تحت آتی ہیں۔ ان ہی وجوہات سے طلاق کا قانونی پروسیجر بہت ہی دشوار مانا جاتا ہے۔
فیملی کورٹس میں مقدمات کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ داخل مقدمات کا جائزہ لینےپر تو معلوم ہو تا ہیکہ عدالت میں زیرالتوا مقدمات طلاق، خلع، سامان جہیز کی واپسی ، نان و نفقہ اور بچوں کی کسٹڈی وغیرہ کے ہیں۔ آج معاشرے میں یہ صورتحال ہماری خصوصی توجہ کی متقاضی ہے کیونکہ طلاق عموماً دو ہی صورتوں میں ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ جب شوہربیوی دونوں کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہ ہو، اور دونوں باہمی رضامندی سے طلاق لینا چاہتے ہوں تو وہ راضی نامہ کے ساتھ عدالت میں طلاق کی عرضداشت داخل کرتے ہیں، عدالت کو فریقین یہ یقین دلاتے ہیں کہ اب دونوں کا شادی کے رشتے میں مربوط رہنا ممکن نہیں ہے، نیز دونوں ہی ایک یا دو سال سے علیحدہ رہ رہے ہیں، بچوں کی کفالت و حضانت (کسٹڈی) وغیرہ کی شرائط پر دونوں کی رضامندی ہے تو عدالت میں معمولی پروسیجر کے بعد طلاق کی کاروائی اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر طلاق کا استعمال اپنی مرضی سی جب چاہے کرلے اور اس کو کسی کے سامنے جوابدہی کا احساس نہ ہو لیکن اس صورت میں عورت کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل کی نوعیت قانونی بھی ہے اور سماجی بھی، جس کے لئے عورت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے اور ایک نا ختم ہونے والی عدالتی کاروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
موجودہ سماجی صورت حال میں طلاق کے نظام کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ پرسنل لا کا استعمال کرتے ہوئے اکثر مرد توطلاق کے تین الفاظ ادا کرکے الگ ہوجاتا ہے لیکن عورت کے لئےسماجی مسائل جہاں ان گنت تلخ تجربوں سے بھرپور ہوتے ہیں وہیں قانونی مسائل مالی، جسمانی، نفسیاتی وجذباتی لحاظ سے مطلقہ خاتون اور اس کے خاندان کے لوگ گوناگوں آزمائشوں میںپھنس جاتے ہیں۔ طلاق کے بعد جہاں عورت پہلے ہی اپنا گھر ٹوٹنے کے باعث اپنی جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی کیفیت کےایک بدترین دور سے گزرہی ہوتی ہے وہیں اسے اپنے متفرق شرعی یا قانونی حق کے حصول یا اپنے دفاع کے لیے قانونی چارہ جوئی کا طریقہ اختیار کرنا پڑتاہے۔ عدالت میں قانونی لڑائی کے لئے عورت کو بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ موجودہ معاشرے میں مطلقہ خواتین کو درپیش قانونی مسائل درج ذیل ہیں :
1- حصول انصاف کے لئے مالی مسائل
بہت سی مطلقہ خواتین کو اپنے سامان جہیز کی واپسی، حق مہر کی طلبی، نان و نفقہ کی فراہمی، بچوں کی کسٹڈی کے معاملے میں عدالت سے بسا اوقات رابطہ کرنا مجبوری ہوجاتا ہے کیونکہ سماج میں کوئی متبادل ادارہ یا نظام موجود نہیں ہوتا ہے۔ اکثر ان کے مالی وسائل ان کے بچوں کی کفالت کے لئے کافی نہیں ہوتےاور نہ ہی ان کے والدین یا بھائی اس مالی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کی مالی اعانت کرسکیں،ایسے میں یہ کہاں ممکن ہے کہ وہ عدالتی معاملے میں بھی ان کی مدد کرسکیں۔
2-عدالتی و قانونی پیچیدگیاں
عدالتی نظام میں مختلف حیلے بہانوں سے تاخیر ہوتی ہے۔ کبھی فریق ثانی کا عدالت میں پیش نہ ہونا، کبھی وکیل کا موجود نہ ہونا، کبھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کرکے حاضری سے ایک لمبے عرصے تک استثنا وغیرہ۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تنگ آکر کیس ہی واپس لے لیں یا تاخیر سے تنگ آکر عدالت ہی آنا چھوڑ دیں۔بسا اوقات شوہر اپنی بیوی کو اذیت دینے کے لئےطرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں لیکن عدالتیں اس حوالے سے تیزی سے اقدامات نہیں کرتیں۔
3-بچوں کی کسٹڈی کا حق
مطلقہ عورت کی اگر اولاد بھی ہیں تو ایسی صورت میں اس کے لئےمزید پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ خصوصا بچوں کی کسٹڈی اور ان کے نان و نفقہ کا مسئلہ۔ طلاق اگرچہ خاندانی طور پر ہوچکی ہو لیکن ان معاملات کے لئے مطلقہ اور اس کے ورثا کو عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام میں بھی بہت سے نقائص ہیں اور حصول انصاف اور داد رسی کے لئے اسے بہت صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سے ذہنی اذیت، بے بسی، وقت اور پیسوں کا ضیاع، عدالتوں کے چکر اور دیگر مسائل سے مطلقہ خاتون کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔بچے بھی جذباتی و نفسیاتی لحاظ سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے کیونکہ اپنی والدہ کی سرپرستی میں زیادہ ترہوتے ہیں ،اس لئے بھی خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
4-نان و نفقہ کے مسائل
نان و نفقہ کے مسائل کے لئے ہمارے ملک میں سبھی مذاہب کے لئے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 125کا قانون ہی لاگو ہوتا ہے۔ مطلقہ خواتین کے نان و نفقہ اور زیر سرپرستی بچوں کے نان و نفقہ کے مقدمات بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہوتے ہیں۔ ان مقدمات میں ایسی خواتین جن کو شوہر نے گھر سے نکال دیا ہو اور طلاق بعد میں دی ہو تو اس کے شوہر کے گھر سے آنے سے لے کر طلاق کی عدت تک کا نان ونفقہ شوہر کے ذمہ واجب ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر مطلقہ عورت کے ہمراہ بچے ہیں تو ان بچوں کی معاشی کفالت والد کا ذمہ ہے لہٰذا اسے بچوں کا نان ونفقہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر اوقات والد یہ ذمہ داری ادا کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے جس کے لئے عورت کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ شوہر کی ہٹ دھرمی و نان و نفقہ اور کفالت کے لئے ہمارے سماج میں کوئی مستحکم متبادل نظام چونکہ موجود نہیں ہے اس وجہ سے عدالت کا رخ کرنا بسا اوقات مجبوری ہوتی ہے۔
5-حق مہر و سامان جہیز کی واپسی
عدالتی طلاق کے بعد خواتین کی جانب سے شوہر پر حق مہر کی ادائیگی اور سامان جہیز کی واپسی کے بھی مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ عموماً ہمارے ہاں حق مہر شادی کے موقع پر ادا نہیں کیا جاتا ، بعد میں مرد حضرات اکثر اوقات یہ حق بخشوا لیتے ہیں ، اگر عورت نے یہ حق معاف نہیں کیا تو ایسے میں طلاق ہونے کی صورت میں عورت عدالت سے اپنے اس حق کی ادائیگی کے لئے رجوع کرتی ہے۔ تاہم ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب مہر کی رقم کی حصولیابی کے لئے عورت کے پاس کوئی متبادل شکل موجود نہ ہو۔
طلاق کے بعد مطلقہ کو یہ بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ شادی کے موقع پر اورشادی کے بعد دلہن کو والدین اور عزیز و اقارب کی جانب سے دئیے جانے والے تحائف سابقہ شوہر کے گھر اس کی یا اس کے والدین کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ لڑکی کو جس وقت طلاق دی جاتی ہے تو عموما اسے بے یارو مددگار گھر سے نکال دیا جاتا ہے ایسے میں اس کا تمام سامان جہیز اور دیگر سامان سسرال میں روک لیا جاتاہے۔ بعدازاں وہ اس سامان کی واپسی کے لئے عدالت سے رجوع کرتی ہے لیکن ایسے مقدمات میں فیصلے بہت تاخیر سے ہوتے ہیں۔ لڑکے والے سامان جہیز کا عموما انکار کرتے ہیں یاکچھ ہی سامان دینے پر راضی ہوتے ہیں۔
طلاق کے بعد زوجین کے سامان کی واپسی کا معاملہ شرعی اور قانونی لحاظ سے اہم اور نازک ترین ہے ۔ دیکھاجاتا ہے کہ طلاق کا اسلامی رویہ اپنانے کی بجائےعورت کے سامان جہیز ، تحائف و دیگر اسباب پر جبرا قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
6-قانون اور حصول انصاف
سماج میں پیدا مسائل اور بگڑی ہوئی تشویشناک صورت حال ہی قوانین وضع کرنے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ چنانچہسماج میں قوانین کا وضع کرنا اور ان کا نفاذ یقینی بنانا ایک اہم مسئلہ ہوتا ہےتاکہ سماجکے منفی اثرات کو ختم کرکے مثبت رخ دیا جاسکے اور مثبت سماج میں سماج اپنا ارتقاء جاری رکھےنیز معاشرہ ایک حقیقی فلاحی معاشرہ بن سکے لیکن یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ صرف قوانین کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ سماج کا ایک ذہن بھی مثبت انداز میں تیار کیا جانا ضروری ہے جو قوانین پر عمل اور سماجی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کو اپنا سماجی و اخلاقی فریضہ تسلیم کرائے۔ اسی طرح طلاق، خلع و تنسیخ نکاح کے مقدمات میں بھی زوجین میں مصالحت کے لئے اختیار کئے جانے والے اقدامات میں بھی سماج کو اپنا اخلاقی فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ لہٰذا سماج میں ایسی سماجی اصلاحات متعارف کروانی چاہئیں جن سے حتی الامکان مصالحت ممکن ہو۔
قانونی مسائل کے حل کے لئے تجاویز و سفارشات
مطلقہ خواتین کے مسائل کے حل اورطلاق کی شرح کو کم کرنے کے لئے سماجی و قانونی تجاویز و سفارشات درج ذیل ہیں۔
1- سماج میں ازدواجی مسائل کے حل کے لئے ایسے نظام کی تشکیل ہو یا مقامی ادارے قائم ہوں جہاں ازدواجی مسائل کے حل کے لئے باقاعدگی کے ساتھ کوشش ہوسکے اور اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ سماج میں کسی بھی فریق کے حقوق سلب نہیں ہوں گے اور مظلوم کے ساتھ سماجی سطح پر انصاف کا حصول ممکن ہوگا۔
2- خاندانی یا عائلی مسائل کا حل عدالت سے باہر سماجی سطح پر یقینی بنایا جائے نیز اگر مقدمات عدالت میں جاتے بھی ہیں توکوشش کی جائے کہ عدالت میںبنا کسی تاخیر کے مقدمات اپنے نتائج تک پہنچیں نیز عدالت میں فریقین کو انصاف حاصل کرنے میں اگر وسائل کے کمی ہو تو سماجی سطح پر اس کو پورا کرنے کی کوشش ہو۔
3- ہمارے نظام عدلیہ میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ عائلی و خاندانی مسائل کو پہلے فیملی کونسلنگ یا مصالحتی ادارے میں بھیجا جاتا ہے تاکہ حتی المقدور فریقین میں مصالحت ممکن ہو۔ ضرورت ہے کہ ان مصالحتی اداروں کو مزید کارگر اور مؤثر بنایا جائے۔
4- عائلی عدالتوں کی ججز کی تعدادبڑھائی جائے نیز کوشش کی جائے کہ خواتین ججز کی تعداد میں اضافہ ہو۔
5- فیملی کورٹس یعنی عائلی عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔
6- عائلی یا خاندانی مسائل میں قانونی صلاح و امداد کے لئے فری ہیلپ لائن کا قیام عمل میں لایا جائے،جہاں خواتین اپنے مختلف مسائل و مشکلات کی رپورٹ درج کرواسکیں اور ان کے مسائل کے حل کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021