صداقت نامہ ذات حاصل کرنے میں طلبا و سرپرستوں کو مشکلات

منڈل دفاتر پر ٹال مٹول کی شکایات۔ عملی و تیکنکی دشواریاں دور کرنے کے اقدام ناگزیر تاخیر کے سبب طلبا کا مستقبل داؤ پر۔حکومت آسانیاں پیدا کرے۔ ماہرین تعلیم کا مشورہ

ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین

ایس سی، ایس ٹی، بی سی اور او سی طبقہ کے افراد کے لیے صداقت نامہ ذات یا کاسٹ سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ اس صداقت نامہ کا استعمال تعلیم یا ملازمت کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسکالرشپس اور سرکاری ملازمت کے لیے بھی صداقت نامہ ذات کی ضرورت پڑتی ہے۔ حکومت کی جانب سے ذات کے صداقت نامہ کے لیے مندرجہ لازمی دستاویزات یہ ہیں:۔1 اپلیکیشن فارم۔2.خاندان کے کسی فرد کو جاری کردہ ذات کا صداقت نامہ3.۔دسویں جماعت کا مارکس میمو/صداقت نامہ پیدائش/ صداقت نامہ ایکسٹراکٹ/ ٹرانسفر سرٹیفکٹ۔4.پہلی تا دسویں جماعت کا اسٹڈی سرٹیفکٹ/ جی پی یا ایم اے کا جاری کردہ صداقت نامہ پیدائش۔5. راشن کارڈ/ ایپک کارڈ / آدھار کارڈ۔6.شیڈول ایک تا چار ذات کا صداقت نامہ۔ ان تمام دستاویزات کو پیش کرنے کے بعد بھی تاخیر کی جا رہی ہے یا کوئی وجہ بتا کر درخواست کو مسترد کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح مطلوبہ ذات کا کالم میں ذکر نہ ہونے کی بھی شکایت ہے۔ بیرون ریاست سے آنے والے طلبا اور ان کے سرپرستوں کو کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ سرکاری حکمنامہ (جی او) کے مطابق بیرون ریاست سے آنے والوں کو کاسٹ سرٹیفکیٹ جاری کیا جانا چاہیے۔ بی سی ویلفیئر آفس تلنگانہ کا جاری کردہ جی او دکھانے کے باوجود می سیوا سنٹروں پر اس کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔ مسلم ایڈووکیٹ فورم نے بھی اس تعلق سے حکومت سے نمائندگی کی جس کے بعد حکومت نے ایک اور جی او جاری کیا جس میں کہا گیا کہ صرف نام میں فرق کے لیے ان کے سرٹیفکیٹس کو نہ روکا جائے۔
می سیوا سنٹرس پر تربیت یافتہ عملہ نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں طلبا کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے ان کو صرف پیسہ کمانے سے غرض ہوتی ہے۔ وہ بیرون ریاست والوں کو ذات کے سرٹیفکیٹ کے بجائے بی سی ای سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔ اس سے می سیوا والوں کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ظاہر ہوتا ہے۔ می سیوا پر زیادہ تر کام مقامی افراد کا ہوتا ہے۔ وہ اسکالرشپس کے لیے آنے والوں کی صحیح رہنمائی نہیں کرتے۔ ضروری اور قانونی کاموں سے بچنے کے لیے، تفصیل میں گئے بغیر فارموں کی برائے نام خانہ پری کر کے آگے بڑھا دیتے ہیں جو کہیں نہ کہیں رک جاتے ہیں۔ اس کا خمیازہ غریب طلبا و مستحقین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حیدرآباد دکن کے پرانے شہر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی بیٹی کو اسکول میں کاسٹ سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑ گئی جس کے لیے انہوں نے می سیوا کا رخ کیا جہاں پر انہیں حکومت کی منظورہ فیس سے کئی گنا زیادہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا۔ دو دن بعد جب وہ می سوا گئیں تو کہا گیا کہ درخواست منڈل آفس کو بھیج دی گئی ہے۔ ایک ہفتے کے بعد پوچھنے پر کہا گیا کہ اگر جلدی ہے تو منڈل آفس جاکر معلوم کرلیں۔ وہاں پر بھی عملہ کا رویہ بھی درست نہیں تھا۔ کوئی صحیح معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کافی جدوجہد کے بعد پتہ چلا کہ کارروائی زیر دوراں ہے۔ الغرض کئی دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد انہیں کاسٹ سرٹیفکیٹ حاصل ہوا۔
ڈاکٹر علی بازہر نے کہتے ہیں کہ ایک جانب مسلمانوں میں غربت ہے تو دوسری جانب تعلیمی مراعات اور سرٹیفکیٹس کے ملنے میں دشواری پیش آرہی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کا فیصد کافی کم پایا جاتا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی شرح خواندگی 59 فیصد تھی جبکہ پورے ملک کی شرح خواندگی 65 فیصد تھی۔ ان اعداد وشمار کے مطابق رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں یہ پایا گیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی سطح مڈل یعنی آٹھویں کلاس میں صرف 15.14 فیصد تھی جبکہ ملک کی عام تعلیمی سطح 16.09 فیصد تھی۔ لیکن اس کے بعد سیکنڈری میں یہ تعلیمی سطح گھٹ کر 10.96 فیصد ہوگئی جبکہ عام تعلیمی سطح 14.13 فیصد تھی اور گریجویشن کی سطح پر یہ صرف 3.06 فیصد تک آ گئی جبکہ عام تعلیمی سطح 6.72 فیصد تھی۔ 2011ء کی مردم شماری میں مسلمانوں کی شرح خواندگی میں کچھ اضافہ ضرور ہوا اور یہ بڑھ کر 68.53 فیصد تک پہنچ گئی لیکن اس وقت تک عام ہندوستانی کی شرح خواندگی 72.98 تک پہنچ چکی تھی۔
تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے اور شرح خواندگی کا فیصد بڑھانے کے لیے پسماندہ طبقات کے طلبا کو کاسٹ سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے اجرائی میں تاخیر سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ طلبا کو ترک تعلیم سے بچانے کے لیے سرٹیفکیٹس کی اجرائی میں عجلت کی جانی چاہیے۔
ناندیڑ مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے محمد منصب نے بتایا کہ کاسٹ ویلیڈیٹی سرٹیفکیٹ کی اجرائی میں لاپروائی اور تساہلی سے مدنپورہ کی ایم بی بی ایس کی طالبہ حمنیٰ عبدالسلام انصاری کا داخلہ منسوخ ہو گیا تھا جبکہ انہوں نے امسال ہونے والے نیٹ امتحان میں 700میں سے 612 مارکس حاصل کیے ہیں۔ میرٹ کی بنیاد پر حمنیٰ کا داخلہ ایچ بی ٹی میڈیکل کالج اینڈ آر این کوپر اسپتال میں ہو گیا تھا لیکن کاسٹ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے 18دسمبر کو ان کا داخلہ منسوخ کر دیا گیا۔ حمنیٰ نے 4 نومبر کو کاسٹ سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دی تھی۔ عموماً ایک ہفتہ میں یہ سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے مگر 45 دن گزر جانے کے باوجود سرٹیفکیٹ نہ ملنے سے ان کا داخلہ رد ہو گیا۔ ممبئی کے ایک اخبار میں اس خبر کی اشاعت کے بعد انہیں سرٹیفکیٹ دیا گیا لیکن اوپن زمرے میں اورنگ آباد کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں ان کا داخلہ ہوا۔
مہاراشٹرا میں گزشتہ دنوں گیارہویں جماعت میں داخلے کے لیے پہلے کالج میں داخلہ کے وقت او بی سی زمرے کے طلبہ ’نان کریمی لیئر سرٹیفکیٹ‘ جمع کرتے تھے مگر امسال آن لائن درخواست کے وقت ہی اس سرٹیفکیٹ کی تفصیلات طلب کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے متعدد طلبہ اور سرپرست پریشان ہوئے۔
می سیوا سنٹر اور منڈل آفس میں رشوت کی گرم بازاری کی بھی شکایات موصول ہورہی ہیں۔حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عبدالباری نے بتایا کہ جب وہ کاسٹ سرٹیفکیٹ کے لیے گئے تو ان سے دو ہزار روپے کا مطالبہ کیا گیا اور اندرون ایک ہفتہ کاسٹ سرٹیفکیٹ پہنچانے کا وعدہ کیا گیا۔ انہوں نے حکومت کی مقرر کردہ رقم دینے کی بات کی تو انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر چھوٹی سی غلطی کو نکال کر دکھایا گیا اس طرح جو کام کم وقت میں ہو سکتا تھا اسے غیر ضروری طول دیا گیا جس کی وجہ سے ان کے داخلے کی آخری تاریخ گزر گئی جس کے بعد سرٹیفکیٹ ان کے ہاتھ لگا۔
سرٹیفکیٹ کے لیے آنے والے ایک اور شخص نے کہا کہ اگر آپ شہر کے کسی منڈل آفس پر جائیں گے تو آپ کو لازماٌ تلخ تجربہ ہوگا۔ وہاں کوئی افسر وقت پر موجود نہیں رہتا جبکہ عملہ غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بیس روز گزرنے کے باوجود انہیں سرٹیفکیٹ نہیں ملا۔
تلنگانہ میں سرکاری تقررات میں مسلمانوں کو چار فیصد تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں وضع کردہ قواعد کے مطابق تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کے تقررات سے متعلق امتحانات میں شرکت کرنے والے طلباء کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ بی سی ای سرٹیفکیٹ کے علاوہ نان کریمی لیئر سرٹیفکیٹ داخل کریں۔ کمیشن نے بی سی زمرہ کے A تا E طبقات کے لیے کاسٹ سرٹیفکیٹ کے علاوہ نان کریمی لیئر یعنی غریب طبقہ سے تعلق کا سرٹیفکیٹ داخل کرنے کی شرط رکھی ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ انتخاب اور انٹرویو کے موقع پر پیش کرنا ہوتا ہے لیکن امیدواروں کو منڈل ریونیو دفاتر میں سرٹیفکیٹ کے حصول میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر م ق سلیم کا کہنا ہے کہ منڈل آفس میں کافی درخواستیں ہوتی ہیں ان سب کی یکسوئی جلد کر پانا کم اسٹاف کی بنا پر ممکن نہیں ہوتا۔ حکومت کے پاس اسٹاف کی کمی ہے جس کی وجہ سے ان کو جانچنا اور تصدیق کرنا آسان کام نہیں ہے۔ طلبا کو قبل از وقت درخواست دینا چاہیے۔ داخلہ کی تاریخ یا اسکالرشپس کی تاریخ بالکل قریب آنے کے بعد یا ملازمت کے لیے صداقت نامہ پیش کرنے سے عین قبل درخواست دے کر شور وغوغا مچانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ حکام کو اس کام کو نمٹانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
محمد یوسف (شعبہ تعلیم) نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ طلبا اور سرپرستوں کی مشکل کو دیکھتے ہوئے ذات کے سرٹیفکیٹ کے حصول کو آسان اور سہل بنائے اور عملہ میں اضافہ کرے تاکہ طلبا کو مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑے۔
ذات کا سرٹیفکیٹ نکالنے میں دشواریوں کے سلسلے میں ایک طالب علم سیف کے سرپرست نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ سیف کو او بی سی زمرہ میں ذات کا صداقت نامہ درکار تھا جس کے لیے انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ مسلسل چھ مہینوں تک کوشش کی اس کے باوجود انہیں صحیح رہنمائی نہیں ملی۔ حالاں کہ وہ بی سی ویلفیر آفس، کلکٹر آفس اور سی سی ایل اے آفس سے رجوع ہوئے تھے۔ ابراہیم پیٹ منڈل، چارمینار منڈل اور عنبر پیٹ منڈل کے ایم آر او سے بھی ملاقات کی لیکن ان لوگوں نے بھی صحیح رہنمائی نہیں کی کیوں کہ انہیں بھی صحیح طریقہ معلوم نہیں تھا۔ سی سی ایل اے (Chief Commissioner Of Land Administration) کے چکر بھی لگائے جہاں پر ایک عہدیدار کو جی او بتانے کے بعد انہوں نے کہا کہ دراصل ایک چھوٹی سی غلطی کی جو کہ می سیوا والوں سے سرزد ہوتی ہے وہ یہ کہ ریاست کے خانے میں متعلقہ امیدوار کی ریاست کے بجائے حیدرآباد کی مناسبت سے تلنگانہ ٹائپ کر دیتے ہیں۔ اس غلطی کی وجہ سے سسٹم ان کی وہ کاسٹ نہیں بتاتا جس کے لیے وہ درخواست دے رہے ہوتے ہیں۔ پھر می سیوا والے بی سی ای سرٹیفکیٹ کے لیے اپلائی کرنے کے لیے کہتے ہیں
جب کہ ان کی کاسٹ دوسری ہوتی ہے اور اسکول کے ریکارڈ میں دوسری۔ والد اور دادا کی ذات بھی اگر مختلف ہو تو وہ اسے بی سی ای زمرہ میں لے لیتے ہیں۔ یوں ان کی ذات ان کی خاندانی ذات سے مختلف ہو جاتی ہے۔ اگر می سیوا والے کے کہنے پر باپ دادا کی ذات سے مختلف ذات لے لی جائے تو بعد میں اعلیٰ تعلیم، ملازمت یا سیاسی عہدہ پر جانے سے پہلے ان کی جانچ ہو گی اور اگر فرق پایا گیا تو طلبا کو نقصان ہو سکتا ہے۔
حیدرآباد دکن پر نظام کے دور حکومت میں ذات پات کی تفریق نہیں تھی اس لیے کاسٹ سرٹیفکیٹ کا رواج نہیں ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے لیے مختلف کاسٹ کے بجائے صرف بی سی ای سرٹیفکیٹ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
تمام ریاستوں میں او بی سی کا مرکزی کوٹہ 27 فیصد ہے جب کہ تلنگانہ میں صرف بی سی ای کا کوٹہ ہے وہ بھی صرف 4 فیصد۔ اگر کوئی او بی سی طالب علم او بی سی سرٹیفکیٹ کے بجائے بی سی سرٹیفکیٹ حاصل کرتا ہے تو اسے کافی نقصان ہوتا ہے، اس کے اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے مواقع 27 فیصد سے کم ہوکر 4 فیصد رہ جاتے ہیں جبکہ دیگر ریاستوں میں یہ سرٹیفکیٹ کارآمد بھی ثابت نہیں ہوتا۔ دھوبی، قصاب، جولاہے کے علاوہ کئی مسلم غریب ہیں جن کے کام کی مناسبت سے انہیں ذات کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے جسے حاصل کر کے مراعات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ایجنٹوں کے پیچھے اپنا وقت اور پیسہ ضائع نہ کریں اور ان کی باتوں میں آنے کے بجائے جو اپنی اصل ذات ہے اس کا سرٹیفکیٹ حاصل کریں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اسٹاف کو تربیت دے اور ان کے کام کرنے کے طریقے کی باقاعدہ نگرانی کرے۔ جس کاسٹ کے لیے طلبا رجوع ہوتے ہیں انہیں وہی کاسٹ سرٹیفکیٹ دیا جائے۔
اسلام میں ذات پات کی کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن سرکاری اسکیموں اور اقلیتی طلبا کو تعلیم اور روزگار میں جو مواقع فراہم کیے جارہے ہیں ان سے استفادہ کے لیے اپنی اصل ذات کا ہی سرٹیفکیٹ حاصل کریں، یہ ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ضروری ہے۔
سرکاری دستاویزات کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اصل دستاویزات کو ہی پیش نظر رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق ہی عمل کرنا چاہیے۔ باپ، دادا کے دستاویزات میں ذات کے کالم میں جو لکھا جا رہا ہے وہی لکھنا چاہیے۔ ناموں کا املا بھی درست ہونا چاہیے اور ہر جگہ ایک ہی نام اور ایک ہی پتہ ہونا چاہیے۔ مسلمانوں میں اس کا شعور بیدار کرنا ازحد ضروری ہے تاکہ طلبا اور روزگار کے متلاشیوں کا مستقبل روشن ہو سکے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021