شنگھائی تعاون تنظیم کا سمرقند چوٹی اجلاس،سرحدی تنازعات زیر بحث

مسعود ابدالی

یوکرینی غلے کی سپلائی بحال ہونے کے بعد جلد ہی روسی گندم کی ترسیل متوقع
شنگھائی تعاون کونسل Shanghai Cooperation Organization (SCOایک یورپ ایشیائی تنظیم ہے، جس کا آغاز سرحدی تنازعات کے پرامن حل پر غیر رسمی بحث و مباحثے سے ہوا۔یہ دراصل اعتماد سازی کی ایک کوشش تھی۔ چین کے شہر شنگھائی میں 26 اپریل 1996 کو روس، تاجکستان، کرغیزستان، قازقستان اور چین کے سربراہ جمع ہوئے اور سرحدی معاملات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔ یہاں معاشی مسائل پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ بات چیت کے دوران اس بات پر اصولی اتفاق ہوگیا کہ تصادم و کشیدگی اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی مہلک ہے اور بات چیت کے ذریعے متنازعہ مسائل کے حل میں سب کا فائدہ ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ قازقستان اور چین دیگر چار ممالک کے پڑوسی ہیں۔ روس کی سرحدیں چین اور قازقستان سے ملتی ہیں۔ کرغیزستان، چین، قازقستان اور تاجکستان کے پڑوس میں ہے جبکہ تاجکستان، چین اور کرغیزستان کی سرحدوں پر واقع ہے اور پڑوسیوں کے درمیان کھٹ پٹ چلتی ہی رہتی ہے۔ اس نشست کے دوران گفتگو جاری رکھنے پر اتفاق ہوا اور اس ’کلب’ کا نام شنگھائی 5 طئے پایا۔
گویا SCOکا آغاز بھی گروپ 7 کے انداز میں ہوا جب امریکہ، جرمنی (اس وقت مغربی جرمنی)، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خزانہ تیل کے بحران پر غیر رسمی گفتگو کرنے واشنگٹن میں جمع ہوئے تھے اور جب یہ لوگ صدر نکسن کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان سے قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی لائبریری میں ملاقات کی اور اس غیر رسمی و غیر روایتی مجلس کو نام ’لائبریری گروپ‘ کا نام دیا گیا۔ جاپان، اٹلی اور کینیڈا کی شمولیت کے بعد یہ محفل گروپ 7 کے نام سے ایک مضبوط اقتصادی بلاک میں تبدیل ہوگئی۔
دوسرے برس شنگھائی 5 کلب کا اجلاس ماسکو میں ہوا جہاں تمام ارکان نے اپنی سرحدوں پر فوج کی تعداد میں واضح کمی کا اعلان کیا۔ اس کے ایک ماہ بعد روس اور چین کے رہنماوں نے اعلان کیا کہ دنیا پر ایک طاقت کی بالادستی قابل قبول نہیں۔ یہ دراصل امریکہ کے اس نئے بیانیے کی طرف اشارہ تھا جس کے مطابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ دنیا کی واحد ’سوپر‘ پاور طاقت ہے۔ چینی صدر جیانک ژیمین (Jian Zemin)اور ان کے روسی ہم منصب یورس یلتسن نے ایک دستاویز پر دستخط کیے جو معاہدہ کثیر قطبی دنیا یا Multipolar World کے نام سے مشہور ہوا۔
الماتی (قازقستان) اور بشکیک (کرغزستان) اجلاس روایتی نوعیت کے رہے لیکن 2000 میں جب یہ رہنما دو شنبے (تاجکستان) میں جمع ہوئے تو ’انسانیت اور انسانی حقوق‘ کے نام پر دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عزم کیا گیا۔ ساتھ ہی پانچوں ملکوں نے علاقے میں فوجی، سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا۔
اس کے اگلے سال شنگھائی سربراہ اجلاس میں ازبکستان کو اس کلب کا رکن بنالیا گیا اور اب یہ تنظیم شنگھائی 6 کہلانے لگی۔ اسی سال یعنی 2001 میں تمام کے تمام چھ اراکین نے شنگھائی 6 کی تنظیم نو کے بعد اسے شنگھائی تعاون تنظیم یا SCOبنادیا۔ ایک سال بعد روسی شہر سینٹ پیٹرسبرگ کی سربراہ کانفرنس میں تنظیم کے نئے دستور کی منظوری کی ساتھ اسے ترقی و خوشحالی کے لیے ایک ہمہ جہت ادارے میں تبدیل کردیا گیا، 2015 میں ہندوستان اور پاکستان کی شمولیت کے بعد اب اس ادارے کے ارکان کی تعداد 8 ہوگئی ہے۔ ایران کی رکنیت بھی منظور کرلی گئی ہے تاہم تہران کی اسنادِ رکنیت کا اجرا اگلے سال اپریل میں ہوگا۔رکن ممالک کے رقبے کے اعتبار سے SCOیورپ اور ایشیا کے 60 فیصد حصے کی ترجمانی کرتی ہے، دنیا کی 40 فیصد آبادی اور دنیا کی 30 فیصد پیداوار و وسائل (GDP)کے مالک SCO ممالک ہیں (حوالہ: وکی پیڈیا)
افغانستان، بیلارُس اور منگولیا کو SCOمیں مبصر کا درجہ حاصل ہے۔ بیلارُس کی رکنیت پر اصولی اتفاق ہوچکا ہے لیکن حتمی فیصلہ غالباً اگلے برس دلی سربراہی اجلاس میں ہوگا۔ افغانستان SCOکا مبصر تو ہے لیکن اگست 2021میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اس کی یہ حیثیت عملاً معطل ہے۔
چونکہ SCOکا آغاز ’گپ شپ کلب‘ کے طور پر ہوا تھا اس لیے مکمل رکنیت اور مبصر کے ساتھ شرکاِ گفتگو یا Dialogue Partnersکے نام سے ایک مستقل شعبہ بھی ہے۔ سری لنکا، ترکی، کمبوڈیا، نیپال، آرمینیا، مصر، قطر اور سعودی عرب گفتگو میں ادارے کے ساجھے دار ہیں۔ بحرین، کویت، مالدیپ، میانمار (برما) اور متحدہ عرب امارات SCOکے شرکاِ گفتگو بننے کے خواہشمند ہیں جن کی درخواستوں پر حالیہ اجلاس میں غور کیا گیا۔ شام اور اسرائیل کی جانب سے بھی شریکِ گفتگو ہونے کی درخواست موصول ہوئی ہے لیکن ان پر غور ابھی نہیں شروع ہوا۔ ادارے کا نصابِ رکنیت کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں شریک گفتگو، پھر مبصر اور اس کے بعد رکنیت کی منظوری ہوتی ہے۔
شنگھائی تعاون کونسل بنیادی طور پر باہمی گفتگو کا پلیٹ فارم ہے چنانچہ سمر قند سربراہ کانفرنس کے دوران کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں۔حالیہ بیٹھک کا سب سے چشم کشا پہلو روسی صدر کا یہ انکشاف ہے جس میں جناب پوٹن نے بتایا کہ یوکرین پر روسی حملے سے چین تشویش میں مبتلا ہے اور صدرژی جن پنگ نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے چین نے یوکرین جنگ کے لیے روس کو اسلحہ فراہم کرنے سے معذرت کرلی ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کی روسی صدر سے ملاقات بہت اہم تھی۔ یہاں گفتگو غیر روایتی اور غیر رسمی ہوتی ہے اس لیے بات چیت کا مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوتا۔ شریف پوٹن ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے پاکستان کے وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے بتایا کہ سمر قند میں روسی صدر سے ملاقات کے دوران جناب شہباز شریف نے روسی تیل اور گندم خریدنے کی خواہش ظاہر کی ۔ خواجہ صاحب کے مطابق روسی صدر نے یوکرین جنگ میں پاکستان کی غیر جانبداری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک پاکستان سے تجارتی تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ ملاقات میں صدر پوٹن نے پیشکش کی کہ اگر پاکستان چاہے تو روس، وسط ایشیا آنے والی گیس پائپ لائن کو افغانستان کے راستے پاکستان تک وسعت دینےکے لیے بھی تیار ہے۔ تاہم یہاں اہم سوال چچا سام کا مزاجِ نازک ہے۔پاکستان کی وزارت تجارت نے اس حوالے سے امکانی امریکی اعتراض کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ ہندوستان چارملکی بحری اتحاد QUADکا رکن ہونے کے باوجود روس سے گندم اور خام تیل خرید رہا ہے، لہذا واشنگٹن کو روس پاکستان تجارت پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے، لیکن ’عالمی چودھری‘ کا کونسا مطالبہ منطقی ہوتا ہے جو اس معاملے پر اس سے معقولیت کی توقع کی جائے۔ شہباز شریف نے سمر قند میں قیام کے دوران حضرت امام بخاری کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی۔
ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی صدر پوٹن سے ملاقات کی۔ گفتگو کے اختتام پر شری مودی نے صحافیوں سے بس اتنا کہا کہ ’جنگ کا دور ختم ہوچکا‘۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان کا یہ جملہ دراصل پاکستان اور چین کی طرف شاخِ زیتوں لہرانے کی ایک کوشش تھی۔ اب ہندوستان SCOکا سربراہ اور 2023کے چوٹی اجلاس کا میزبان ہے چنانچہ مودی جی اپنے دونوں پڑوسیوں سے کشیدگی کم کرنے میں سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔لیکن سمرقند کانفرنس کے دوران ہندوستانی پردھان منتری کی اپنے پاکستانی ہم منصب اور چینی صدر سے ملاقات نہیں ہوئی۔پاکستانی وزارت خارجہ کے ذرایع نے بتایا کہ جب تک کشمیر ایجنڈے پر نہ ہو بھارت سے بات چیت نہیں ہوگی۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملکہ ایلزبیتھ کی آخری رسومات کے دوران بھی چوٹی ملاقات نہیں ہوگی اور اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر جب کہ دونوں وزرائے اعظم نیویارک میں موجود ہوں گے، باہمی ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔
چینی صدر اور وزیراعظم نریندر مودی کی سمر قند میں ملاقات نہیں ہوئی لیکن عسکری ماہرین نے مشرقی لداخ سے ہندوستانی اور چینی فوجی دستوں کے پیچھے ہٹنے کا انکشاف کیا ہے جس کا کسی بھی فریق کی جانب سے سرکاری اعلان نہیں ہوا۔ باخبر ذرایع کے مطابق انسدادِ کشیدگی کی اس پیشرفت کا آغاز بھارت نے کیاہے جو دلی کی جانب سے چین کے لیے خیر سگالی کا اظہارہے۔
ترکی SCOکا ایک اہم شریکِ گفتگو ہے اور اب انقرہ نے تنظیم کی رکنیت حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ حالیہ اجلاس میں ترک صدرطیب رجب ایردوان کو شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ ایسی ہی دعوت پر آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور ان کے ترکمن ہم منصب سردار برہان الدینوف بھی شریک ہوئے۔
سمر قند اجلاس کے دوران ترک صٖدر نے چینی و روسی صدور اور ہندوستانی وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں۔ روس اور یوکرین جنگ کے خاتمےکے لیے ترک صدر کی سرگرمیاں شنگھائی تعاون کونسل کے حالیہ سربراہی اجلاس کے دوران بھی جاری رہیں۔ترک صدر نے صدر پوٹن اور ان کے اتحادیوں ازبک، آذری، بیلارس اورایرانی صدر سے ناشتے پر ملاقات کی۔
گفتگو کے دوران صدر ایردوان نے کہا کہ وہ تنازعے کے پرامن حل کے لیے پر امید ہیں اور انہیں اس معاملے میں پر روس اور یوکرین دونوں کاتعاون حاصل ہے۔ صدر پوٹن نے امن کی کوششوں کے لیے صدر ایردوان کی کوششوں کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ باوقار سفارتکاری سے یوکرینی غلے کی فراہمی بحال ہوچکی ہے اور جلد ہی روسی گندم کی ترسیل بھی شروع ہوجائے گی۔ روسی صدر نے غریب ملکوں سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی روسی غلے کی ترسیل شروع ہوئی روس تین لاکھ ٹن کھاد (fertilizers)مفت تقسیم کرے گا اور امید ہے کہ ہمارے دوست ایردوان اس مقصدکے لیے بحراسود اور بحر روم کو پرامن جہاز رانی کے لیے کھلا رکھیں گے۔دنیا بھر کے امن پسند ترک صدر کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کامیابی کے لیے دعا گو ہیں لیکن مغرب کے دلوں میں چھپی آگ اب بھڑکتی نظر آرہی ہے۔بی بی سی پر صرف ایک دن کی سرخیاں ملاحظہ فرمائیں
’’ترکیہ دونوں طرف سے کھیل رہا ہے‘‘
’’اقتدار اور پیسے کی خواہش ۔۔ صدر ایردوان کانیا چہرہ سامنے آرہا ہے‘‘
’’کہنے کو نیٹو کا رکن ، عملا روس کا اتحادی ہے‘‘
’’ایک کوسٹ گارڈ کا بیٹا ترکیہ کا جھگڑالو صدر کیسے بنا؟‘‘
کچھ اسی قسم کی بات فرانس کے صدر بھی کہہ رہے ہیں ۔ ان کو ڈر ہے کہ بحر روم پر باربروس ’’قزاقوں‘‘ کا دور واپس آرہا ہے ۔ عثمانی بحریہ کے امیرالبحر خیرالدین باربروس اور ان کے بھائی عروج باربروس ’’سمندرکےصلاح الدین ایوبی “ کہلاتے تھے جنہوں نے بحر ابیض (بحر روم)، بحر اسود اور بحیرہ بلقان پر ترکوں کی بالادستی کو ناقابل تسخیر بنادیا تھا۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ بحر اوقیانوس سے بحر روم میں داخل ہونےکے لیے یورپی جہاز آبنائے جبل الطارق پر کئی کئی دن ترک بحریہ کی اجازت کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے۔اطالوی اورفرانسیسی نصاب میں باربروس کو قزاقوں یا Piratesکے سرغنے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے
اس دوران ایک مضحکہ خیز بات بھی ہوئی وہ یہ کہ وقت کی پابندی کے معاملے میں صدر پوٹن ذرا غیر ذمہ دار مشہور ہیں اور کئی بار ان کے مہمانوں کو انتظار کی زحمت اٹھانی پڑی ہے، تاہم سمر قند میں معاملہ الٹ ہوگیا۔ہندوستان کے وزیراعظم، ترکی، آذربائیجان اور کرغیزستان کے صدور وقت مقررہ سے کچھ دیر بعد جلوہ افروزہوئے۔روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے فوٹوگرافر نے مہمانوں کی خالی کرسیوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا اور ان کے ناقدین نے ٹویٹر پر طنز و چٹکلوں کے ہلکے پھلکے تیر برسائے۔ مہمانوں کی تاخیر سے آمد پر صدر پوٹن نے شگفتہ لہجے میں کہا کہ دوست دیر سے نہیں بلکہ شو قِ ملاقات میں ہم ذرا جلدی آگئے ہیں یعنی حسابِ دوستاں در دِل
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 صدر پوٹن نے امن کی کوششوں کے لیے صدر ایردوان کی کوششوں کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ باوقار سفارتکاری سے یوکرینی غلے کی فراہمی بحال ہوچکی ہے اور جلد ہی روسی گندم کی ترسیل بھی شروع ہوجائے گی۔ روسی صدر نے غریب ملکوں سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی روسی غلے کی ترسیل شروع ہوئی روس تین لاکھ ٹن کھاد (fertilizers)مفت تقسیم کرے گا اور امید ہے کہ ہمارے دوست ایردوان اس مقصدکے لیے بحراسود اور بحر روم کو پرامن جہاز رانی کے لیے کھلا رکھیں گے۔دنیا بھر کے امن پسند ترک صدر کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کامیابی کے لیے دعا گو ہیں لیکن مغرب کے دلوں میں چھپی آگ اب بھڑکتی نظر آرہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022