شمال مشرقی بھارت پہنچی بنگلہ دیش تشدد کی ہوا

بنگلہ دیش میں اقلیت خطرے میں تو بھارت میں 'کس کا ساتھ' اور کس پر 'وشواس'؟

حسن آزاد

یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر ہند۔بنگلہ دیش فسادات پر ہوئیں گرما گرم بحثیں
کہاجاتا ہے کہ ’تشدد، تشدد کو جنم دیتا ہے‘۔ کہیں بنگلہ دیش کا حالیہ فرقہ وارانہ فساد اسی محاورے کی طرف اشارہ تو نہیں۔ کہیں بھارت میں ہونے والے ہجومی تشدد، فرقہ وارانہ فساد اور شناخت کر کے قتل کرنے کااثر بنگلہ دیش پر تونہیں پڑ رہاہے۔حال ہی میں تریپورہ میں بی جے پی، وی ایچ پی اور آر ایس ایس کا پرتشدد احتجاج ہوا جہاں مساجد اور مسلمانوں کے گھروں پر حملے ہوئے۔ علاقہ میں دفعہ 144 نافذ کیاگیا۔اس سے پہلے آسام کے مسلمانوں پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی اب بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ دلی فرقہ وارانہ فسادات 2020 میں پولیس کی جانب داری اور غیر سنجیدہ کارکردگی جگ ظاہر ہے ، این آر سی اور سی اے اے کے خلاف پر امن مظاہرین پر لاٹھی ڈنڈے برسانا کون بھول سکتا ہے؟ ان تمام اندوہناک واقعات میں بھارتی حکومت، پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی سوالوں کے گھیرے میں ہے جبکہ بنگلہ دیش میں ہوئے تشدد میں فوری کارروائی کی گئی اور مشتعل ہجوم کو قابو میں کر لیاگیا۔ سیکڑوں گرفتاریاں ہوئیں اور متعدد افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ الغرض بنگلہ دیش حکومت اور پولیس کی فی الفور کارروائی کو بھارت نے بھی سراہا بھی۔وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے بنگلہ دیش کی فوری کارروائی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال کو جلد قابو میں کر لیا گیا۔ لیکن دوسری طرف بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے بھارت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’انڈیا میں بھی ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے جو ہمارے ملک کو متاثر کرے اور ہمارے ملک میں ہندوؤں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اگر انڈیا میں ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمارے یہاں بھی ہندو متاثر ہوتے ہیں۔ بھارت کو بھی اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
چونکہ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے بھارت کے رشتے اچھے ہیں۔ لہٰذا بھارت کا جانب دار میڈیا بجائے خارجہ پالیسی اور وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی پر سوال اٹھاتا اس نے اسلام کو ہی آسان ہدف سمجھا۔ جہاد جیسے مقدس لفظ کی توہین کی گئی۔ بدنام زمانہ زی نیوز چینل کے نام نہاد صحافی سدھیر چودھری نے اپنے پروگرام ڈی این اے میں تشدد کو اسلامی شدت پسندی سے تعبیرکیا۔ جماعت اسلامی(بنگلہ دیش) کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اس معاملے کو پاکستان اور کشمیر سے موازنہ کر کے سب کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ سدھیر چودھری نے اقوام متحدہ کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے جبکہ اقوام متحدہ نے سدھیر چودھری کے پروگرام سے ایک دن پہلے ہی اٹھارہ اکتوبر کو بیان جاری کردیا تھا۔میاسیپّو ، یو این ریسیڈینٹ کوآرڈینٹر، بنگلہ دیش نے اقلیتوں پر حملے کو بنگلہ دیش کے آئین کے خلاف قراردیاتھا وہیں وزیر اعظم شیخ حسینہ سے غیر جانبدار جانچ کا مطالبہ کیاگیاتھا۔ جبکہ امریکہ نے بھی بنگلہ دیش تشدد کی مذمت کی تھی۔
ارنب گوسوامی کے چینل ریپبلک ورلڈ کی کہانی ہی الگ تھی۔ اس معاملے میں یہ چینل ممتا بنرجی کی خاموشی پر پروگرام کررہا تھا۔ جب ملک میں فسادات رونماہوتے ہیں تو گھنٹوں تقریر کرنے والے وزیراعظم کیوں خاموش رہتے ہیں اس پر کبھی سوال کرنے کی کسی کو جراءت نہیں ہوتی ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے نہ صرف ٹویٹ کیا بلکہ اس حوالے انہوں خطاب بھی کیا۔ لیکن یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے ردعمل مبنی بر انصاف نظر آئے، مثال کے طور پرمشہور یوٹیوبر دھرُو راٹھی بنگلہ دیش کے تشدد کو سنگھو بارڈر کے قریب گروگرنتھ صاحب کی توہین کے الزام میں وحشیانہ قتل سے مقابلہ کر کے دیکھتے ہیں اور دونوں ہی صورت میں شدت پسندی کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔جبکہ ستیہ ہندی ڈاٹ کام پر اشوتوش کی بات پروگرام کے تحت وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی پر سوال اٹھائے گئے اور اس پروگرا میں بنگلہ دیش میں حکمراں جماعت بنگلہ دیش کی عوامی لیگ کے ترجمان کی جانب سے اقلیتی طبقہ کے حق میں نکالے جانے والی سدبھاؤنا ریلی کی خوب ستائش کی گئی، جس کے تحت بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات محمد حسن محمود رنگ پور جائیں گے اور متاثرین سے ملاقات کریں گے۔ پروگرام میں سوال اٹھایاگیا کہ اس طرح کی پہل ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہوتی ہے؟
اس حوالے سے مشہور یوٹیوبر آکاش بنرجی نے بھی دی دیش بھگت یوٹیوب چینل کے ذریعے ایک ویڈیو اپلوڈ کیا جس میں انہوں نے بنگلہ دیش کی دن بہ دن ترقی کی تعریف کی مگر دوسری طرف تشدد پر اظہار افسوس بھی کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش میں جو ہوا وہ انسایت کے منافی ہے۔اس المناک واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹویٹر پر بنگلہ دیش کے اقلیتی طبقے کے حق میں
Bangladesh#
BangladeshViolence#
BangladeshiHindus#
BangladeshTempleAttack#
BangladeshiHindusInDanger#
جیسے ٹرینڈز عام ہوئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب اسی طرح کے واقعات بھارت میں ہوتے ہیں تو انہیں ہندو شدت پسندی سے کیوں نہیں تعبیر کیا جاتا۔ مثلاً تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف ہوئے ظلم و تشدد کا میڈیا نے احاطہ کیوں نہیں کیا؟ جب بنگلہ دیش میں تشدد ہوا تو وہ اسلامی شدت پسندی کہا گیا پھر تریپورہ میں جو ہوا اسے ہندوشدت پسندی کا نام کیوں نہیں دیا جا رہا ہے؟ حق تو یہ ہے کہ دونوں واقعات کو حیوانیت و بہیمیت سے تعبیر کرنے کی ضروت ہے۔ کسی بھی صورت میں اسلام تشدد کو روا نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند نے بنگلہ دیش اور تریپورہ میں ہوئے فسادات پر افسوس کااظہار کیا اور اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لکھا کہ ’’ہمارے ملک کے تمام انصاف پسند لوگوں کو بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کی مذمت کرنے اور تریپورہ کے واقعات کے خلاف آواز اٹھانے اور حکومتوں کو امن وامان اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
واضح ہو کہ ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی کل 170 ملین آبادی میں سے نو فیصد ہندو ہیں۔ ملک کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بنگلہ دیش کی 149 ملین آبادی میں تقریباً آٹھ عشاریہ پانچ فیصد ہندو ہیں۔ ضلع کومیلا سمیت کئی دیگر اضلاع میں ہندوؤں کی بڑی آبادی ہے۔ وہیں وطن عزیز کی بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ آبادی میں بڑا حصہ (94 فیصد) ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ عیسائی، سکھ، بدھ مت اور جین مت کے ماننے والے 6 فیصد ہیں۔ ملک کی جملہ آبادی میں 79 اعشاریہ 8 فیصد ہندو اور 14 اعشاریہ 2 فیصد مسلمان ہیں۔ اس طرح تقریباً دونوں ممالک کی حالت یکساں معلوم ہوتی ہے۔ایسے میں دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اقلیتی عوام کو تحفظ فراہم کریں تاکہ دونوں ممالک کے عوام امن و امان کے سائے میں سانس لے سکیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021