شعور تحفظات مانگتا ہے، تحت الشعور تحفظ دیتا ہے

نفس کی وحشتوں کے ساتھ برے خیالات نقصان دہ

از:نعیم جاوید، سعودی عرب

تحت الشعور خیالات کا خزینہ اور مسکن ہوتا ہے۔یہ سمندر کی طرح گہرا اور بہت وسیع ہوتا ہے۔ اس میں اٹھنے والے بھنورمیں نئے خیالات ٹھہر نہیں پاتے، سب چکرا کر گرجاتے ہیں۔چاہے کتنے ہی بہتر منصوبے ہوں تحت الشعور کے تالاب میں تڑپتے رہیں۔ ہزار منصوبے خیال کی رہ گزر پر چلتے ہیں لیکن اس کی ترائیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ ہماری پسند نا پسند کے لیے ہماری انا مالکِ مکان نہیں ہے بلکہ تحت الشعور ہے ۔ اس لیے اگر اندر کی دنیا کی ترتیب بدلے گی تو اَنا، ضد اور ہر طرح کی برائی دم توڑدے گی۔ عام سی بات بھی عزم بن جائے گی۔ورنہ شعور ؛تحفظات اور تیقنات سے آگے نہیں بڑھتا۔جوکھم اورجدت اس اندھی دنیا کو سجھائی نہیں دیتے۔شعور تو کار کا ڈرائیورہوتا ہے اور تحت الشعور گاڑی کا انجن۔ اس کے پاس بات پہنچانے کا نظام ہے۔ جو حواس کے کارکنوں سے کام لے کر اپنا نظام چلاتا ہے۔ یہ روح کاتاریک خزینہ جیسے جہاز کا Black Box ہے۔اس کی پر خطر کائنات کے اندھے اثرات تب مرتب ہوتے ہیں جب اسے ڈھنگ سے نہ سمجھاجائے۔یہ لفظوں کی زبان نہیں سمجھتا بلکہ تصویروں اور جذبات کی زبان سمجھتا ہے ۔یہ ہمارا چھپا ہوا ہمدم ہے ہمارا ہم نفس ہے۔ہم اس سے سرگوشی میں زندگی کے حل اور راز پوچھتے ہیں۔ اگر ہم ہر گھڑی اس کو دھتکارتے رہیں تو وہ کہاں ہماری مہمات میں ہمارا ساتھ دے گا۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ نفس کی مجموعی کیفیت کا نام ہی شعور ہے۔
روح تو مفکر ہے۔ خیال نہیں۔روح کے اندر تمنا کے قدم پڑتے ہی امکانات کی ایک دنیا آباد ہونا شروع ہوتی ہے۔روح کو خدا کا سایہ بنائے رکھنا چاہیے۔روح میں شانِ صمَدیت ؛بے جاآرزوؤں پر قابو پانے سے آتی ہے۔مالی ترقی و توازن کا سب سے توانا و اطمینان بخش طریقہ روح کی آسودگی سے ممکن ہے۔ظاہر پرستی جوتے کی چمک تو یاد دلاتی ہے لیکن روح کی چمک کو بھلادیتی ہے۔ایسے میں دل کا باجہ بج بج کر چپ ہوجاتا ہے۔ ہمارے بدن میں روح خدا کا نور ہوتی ہے
ترقی کے تماشوں پر روح رقص نہیں کرتی۔روح فراموش ظاہری ترقی کی مثال بے سری آوازجیسی ہوتی ہے۔ جس پر نغمے نہیں سجتے ۔یہ تو ایسے بہکے ہوئے خیالات ہوتے ہیں جس پر الوہی گیت نہیں گائے جاتے ۔ بدن کی ترائیوں میں ہم نے خام خیالی کے جن بھوت پال رکھے ہیں۔ہم خیالوں کے سفیر ہوتے ہیں۔بدن تو خیالا ت کی چاکری میں لگا رہتا ہے۔کمزور خیالات کو طاقت ور خیالات سے بدلنا ہوگا جیسے چاپلوسی کو سچی تحسین سے‘ٹوہ کو جستجو‘ حسد کو رشک سے ۔کیوں کہ کمزور خیالات کے کچے غبارے بلندی کی حدت سے پھٹ پڑتے ہیں۔کمزور خیالات آرزوؤں کے بدن پر گدھوں کا حملہ ہے۔ جو اس کو تار تار کردیں گے۔زندگی کوبودے خیالات کے ہتھے چڑھنے سے ہمیشہ خود کو بچائے رکھنا چاہیے ورنہ خیالات ہلہ بول دیتے ہیں۔
اب آئیے تھوڑا سا اس خیالستان‘ عادت گھر یا رجحان گھر کا تعارف ہوجائے جسے ہم تحت الشعور Subconscious کہتے ہیں جہاں ہم نے پاتال میں پرانے زمانے کے چند بھوت پریت بھی پال رکھے ہیں۔ یہ Lower House ہوتا ہے۔اس کی مثال یہ ہوگی کہ یہ House Lower ۔ دراصل under world ہوتا ہے اسGang کاایکBoss or Don جو روایات سے گزرا ہوا خیال و تجربہ ہوتا ہے۔ہمارا کام اس کٹیا کو راج محل بنانا ہوگا۔اس کو بہتر خیال اور منصوبہ دینا ہوگا کیوں کہ یہ Lower House دراصل ہم پر حکومت کرتا ہے اپنے پانچ وزیروں سے وہاں پر قانون سازی کرکے ہم پر راج کرتا ہے ۔اس کے پانچ وزیر ہیں۔ شامہ، لامسہ، صامعہ، باصرہ، اور ذائقہ۔۔ یعنی Touch,taste, hear,، vision smell ۔
اگر ہمیں کوئی نئی عادت ڈالنی ہو۔نیا کردار نبھا نا ہو۔نئی مہم سر کرنی ہوتو اس Lower House میں بل پاس کروانا ہوگا۔۔بعض حکومتوں کے لیے یہ کام بہت مشکل ہوتاہے۔ جسے ہم لوگ سیاسی بغاوت کہتے ہیں جس طرح آج بعض ملکوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ہمارے تحت الشعور میں کسی زبردست بھونچال کے سبب یہ گناہوں میں گھر جاتاہے ۔ یہ ایک طرح سے Mix bag of emotions ہوتا ہے۔
کوئی نیا خیال جب اس وادی میں قدم رکھتا ہے تو اس کو ڈر لگتا ہے۔کہیں اس کے پاؤں نہ چھل جائیں ۔جب کوئی جدت میں ڈوبا نیا خیال اس وادی میں اگر مستقل چلتا رہے تو یہ ایک نیا رویہ بن کر ابھرتا ہے ۔رہداریاں بننے لگتیں ہیں۔ اس کا اظہار ہمارا کردار یا Behavior بن کر دنیا کو نظر آتا ہے۔اسی subconscious کا ایک حصہ ضمیر ہے۔جہاں خوں آشام جنگیں لڑیں جاتیں ہیں۔ جہاں فیصلہ کرنے سے پہلے کڑے پارلیمانی اور غیر پارلیمانی زبان میں ہنگامے رہتے ہیں۔ اس chamberکو پوری طرح سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ اس ایوان میں ہم ہر دم الجھتے رہتے ہیں۔تحت الشعور کا ایک منظر شعر میں دیکھیں
اپنے حالات سے میں صلح تو کرلوں لیکن
مجھ میں اک شخص جو رو پوش ہے مرجائے گا
تحت الشعور آپ کاا چھا سا دوست یا کھلا دشمن ہوتا ہے۔یا وہ گھات میں رہتا ہے یا کمک پہنچاتا ہے۔یہ نہ پورا بہتر ہے اور مکمل بدتر ہے۔ اس میں پلنے والا ہماری نفسی وجود کڑی تربیت کا محتاج رہتا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اس لیے Thought Ptterns کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے کہ کیوں یہ عزم و ارادہ نہیں بنتا۔اس عادت گھر یا خیالستان یا رجحان گھر پر صرف cheorography of energy یا توانائی کا اندھا رقص رہتا ہے۔یہ whirlpool یا بھنور ہے اس سے ابھرتے وقت کوئی کچا خیال پہلے پہل کسی بلبلے کی طرح رہتا ہے۔ اس میں پانچوں حواس سے کھینچ کر کوئی باہر کی بات اندر پہنچاتے ہیں تو وہ ہلکے سے cork کی طرح بھنورکی سطح پر گھومتی رہتی ہے۔ اس خیال کی لہر کو اگر آپ مضبوط دھارا بنانا چاہتے ہیں تو بندھ باندھنے یا Dam Designing کے طرز پر سوچنا چاہیے۔ جہاں کیسے پانی کا رخ موڑا جاتا ہے۔کیسے گارا، مٹی اور سمنٹ ملائی جاتی ہے تب جاکر سمندر کے نیچے ارادوں کے ستون کھڑے ہوتے ہیں۔ عزائم کے پل بنتے ہیں۔ یہ ایک گودام ہے جہاں یادو ں کی کہکشاں، تصاویر کا میوزیم ، آوازوں کا اسٹوڈیو یا ریکارڈ گھر اور جذبات کی دنیا آباد رہتی ہے۔
اس کو ایک اور مثال سے سمجھا جائے ؛ یہ ایک Black Box کی طرح ہوتا ہے۔ جوAviation کی دنیا میں بہت اہم ہوتا ہے۔ جہاں Aircraftکی پوری سرگرمی ریکارڈ ہوتی ہے۔ بدن کے Hardware میں subconscious کے software کو سمجھنااور ,&Thought virus Antivirus کو برتنا بہت ضروری ہے۔۔جیسے انا اور غرور کردار کا virus ہوتا ہے اور اس کا Antivirus انکساری اور صبر ٹھہرے گا۔منفی خیال کی سلطنت پر جب virus کا راج ہوتا ہے تویہ رویوں اورکردار کا خون کر دیتا ہے ۔اعلٰی ترین مقاصدکا مقتل بن جاتا ہے۔ہماری اپنی اور دوسروں کی شخصیت کا ،True self, Spritual self &Total self نظر نہیں آتا بلکہ False self ہی ابھر کے آتا ہے۔براخیال ایک بری فلم کی طرح ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایک بار بری فلم دیکھ لے تو وہ اپنی مرضی سے دوسری بار نہیں دیکھتا ۔ پھر برے خیال کو ایک فلم کی طرح اپنی مرضی سے اس کو باربار دیکھنا کونسی دانائی ہے۔ دو آئینوں کے درمیان ٹھہرا ہوا ہر شخص یوں محسوس کرے کہ بھیڑ میں ٹھہرا ہو۔بلکہ اپنا ہی عکس جب چاروں طرف نظر آتا ہے تو اس میں Narssicisimنرگسیت (لت کی حد تک خود پسندی ) پیدا ہوجاتی ہے۔یہ فکری افلاس ہے۔ اس سے خود ستائی ، شیخی بگھارنے کی عادت بڑھ جاتی ہے۔ اس کو ہم Poverty programing بھی کہیں گے۔ ایک طرح سے یہ بے یقینی کا سفر ہوتا ہے۔جسے ہم Doubt delivery mission پر مامور شخص کہیں گے۔کیوں کہ Negative Thoughtsحسنِ فطرت پر گدھ کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔وہ حسنِ فطرت کی بوٹیاں نوچتے رہتے ہیں۔اس لیے ہمیں اپنے حسین خیالوں کا تحفظ اور بدترین خیالوں سے پناہ مانگنی چاہیے۔اس کا روشن اشارہ سورۃ الناس اور سورۃ الفلق میں ہمیں ملتا ہے۔ایک برا خیال جب نفس کی وحشتوں کے ساتھ ہوتا ہے تو کتنا کہرام مچاتا ہے اس کو ابراہیم ذوقؔ کے شعر سے سمجھتے ہیں۔
بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا
نہنگ و اژدھا و شیر و نر مارا تو کیا مارا
گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے میں
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
***

 

***

 براخیال ایک بری فلم کی طرح ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایک بار بری فلم دیکھ لے تو وہ اپنی مرضی سے دوسری بار نہیں دیکھتا ۔ پھر برے خیال کو ایک فلم کی طرح اپنی مرضی سے اس کو باربار دیکھنا کونسی دانائی ہے۔ دو آئینوں کے درمیان ٹھہرا ہوا ہر شخص یوں محسوس کرے کہ بھیڑ میں ٹھہرا ہو۔بلکہ اپنا ہی عکس جب چاروں طرف نظر آتا ہے تو اس میں Narssicisimنرگسیت (لت کی حد تک خود پسندی ) پیدا ہوجاتی ہے۔یہ فکری افلاس ہے۔ اس سے خود ستائی ، شیخی بگھارنے کی عادت بڑھ جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021