سیرت صحابیات سیریز(۶) ام المومنین حضرت زینب بنت جحش
پرہیزگارری وسخاوت نمایاں صفت۔ سابقون الاّولون کا اعزاز
نام زینب، کنیت ام الحکم، ان کا تعلق قریش کے خاندان اسد بن خزیمہ سے تھا۔ والدہ کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب تھا جو رسول کریمﷺ کی پھوپھی تھیں۔ اس لحاظ سے حضرت زینبؓ رسول کریمﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔
حضرت زینبؓ ان خوش قسمت لوگوں میں تھیں جنہوں نے سابقون الاولون بننے کا شرف حاصل کیا۔ ۱۳ بعد البعثت میں اپنے اہل خاندان کے ہم راہ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئیں۔
حضرت زید بن حارثہؓ رسول کریمﷺ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے تھے۔ حضور انہیں بے حد محبوب رکھتے تھے اسی لیے آپؐ نے حضرت زینبؓ کا نکاح حضرت زید بن حارثہؓ سے کردیا۔ علامہ ابن سعدؒ نے لکھا ہے کہ حضرت زینب کو بعض وجوہ کی بنا پر یہ رشتہ پسند نہ تھا اس لیے انہوں نے نکاح سے پہلے رسول کریمﷺ سے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ میں زیدؓ کو اپنے لیے پسند نہیں کرتی‘‘
لیکن حضورؐ س نکاح میں بہتری سمجھتے تھے۔ اس لیے آپؐ کے منشا کے مطابق حضرت زیدؓ کا عقد حضرت زینبؓ سے ہوگیا۔ لیکن دونوں میں نباہ نہ ہو سکا۔ تقریباً ایک برس بعد حضرت زیدؓ نے رسول کریمﷺ کے پاس شکایت کی کہ ’’یا رسول اللہؐ زینبؓ مجھ سے زبان درازی کرتی ہے میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں‘‘۔
حضورؐ نے انہیں سمجھایا کہ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ فعل نہیں ہے۔ چنانچہ سورہ احزاب کی اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے:
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ (الاحزاب،۳۷)
’’اور جب کہ تم اس شخص سے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا، یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو نکاح میں رکھو اور خدا سے ڈرو‘‘۔
بہ ہر حال حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کا نباہ نہ ہونا تھا نہ ہوا اور حضرت زیدؓ نے بالآخر حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی۔
جب حضرت زینبؓ ایام عدت پوری کر چکیں تو حضورؐ نے خود ان سے نکاح کرنا چاہا لیکن عرب میں اس وقت تک رسوم جاہلیت کا اثر باقی تھا اور لوگ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کے برابر سمجھتے تھے۔ چوں کہ حضرت زیدؓ حضورؐ کے منہ بولے بیٹھے تھے اور لوگوں میں زید بن محمدؐ کے نام سے مشہور تھے۔ اس لیے حضورؐ کو عام لوگوں اور بالخصوص منافقوں کے اعتراض کے خیال سے اس نکاح میں تامل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ کو چوں کہ جاہلیت کی رسوم کا مٹانا منظور تھا اس لیے یہ آیت نازل ہوئی:
وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ (الاحزاب،۳۷)
تم اپنے دل میں وہ بات چھپاتے ہو جس کو خدا ظاہر کردینے والا ہے اور لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں معترضین کو متنبہ کیا:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔ (الاحزاب،۴۰)
’’(لوگو) محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں‘‘۔
اور پھر حکم ہوا:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ (الاحزاب،۵)
لوگوں کو ان کے (حقیقی) باپ کے نا م سے پکارو‘‘
اب کوئی امر مانع نہیں تھا۔ چنانچہ حضورؐ نے یہ خدمت حضرت زیدؓ ہی کو تفویض کی کہ وہ آپؐ ا پیغام نکاح لے کر حضرت زینبؓ کے پاس جائیں۔ حضرت زیدؓ حضرت زینبؓ کے گھر گئے اور کہا:
’’زینب! رسول اللہ تم سے نکاح کے خواہش مند ہیں‘‘
حضرت زینبؓ نے جواب دیا:’’میں استخارہ کرتی ہوں‘‘
یہ کہہ کر مصلے پر کھڑی ہوگئیں، ادھر اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ پر وحی بھیجی
فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا(الاحزاب،۳۷)
پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو ہم نے وہ (مطلقہ خاتون) تیرے نکاح میں دی‘‘۔
گویا اللہ تعالیٰ نے خود حضورؐ کا نکاح حضرت زینبؓ سے کردیا۔ اس کے بعد حضور حضرت زینبؓ کے مکان پر تشریف لے گئے۔ صبح کو دعوت ولیمہ ہوئی، جس میں روٹی اور سالن کا انتظام کیا گیا۔ حضورؐ نے حضرت انسؓ کو لوگوں کے بلانے کے لیے بھیجا، تین سو آدمی دعوت میں شریک ہوئے۔ دس دس کی ٹکڑیوں میں آتے اور کھانا کھا کر چلے جاتے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ چند لوگ کھانا کھاکر باتوں میں مشغول ہوگئے اور اٹھنے کا خیال ہی نہ رہا۔ رسول کریم ﷺ ازراہِ مروت انہیں بیٹھنے کے لیے نہ فرماتے اور بار بار اندر آتے اور باہر جاتے۔ اسی مکان میں حضرت زینبؓ بھی دیوار کی طرف منہ کیے یبٹھی تھیں۔ جب بہت دیر ہوئی تو حضورؐ کو تکلیف ہوئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل کی:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبی کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو۔نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آو، پھر جب کھا چکوتو چلے جاو اور باتوں میں نہ لگ جاو کیوں کہ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سو وہ تمہارے لحاظ سے کچھ نہیں کہتے مگر اللہ کو حق بات کہنے میں کوئی شرم نہیں اور جب تم ان (کی ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کی آڑ سے مانگو‘‘۔
اس آیت کے نزول کے بعد حضورؐ نے مکان کے دروازے پر پردہ لٹکادیا اور لوگوں کو گھر کے اندر داخل ہونے کی ممانعت ہوگئی۔
حضرت زینبؓ کا نکاح کئی خصوصیات کا مظہر تھا۔
(۱) جاہلیت کی رسم کہ متبنیٰ حقیقی بیٹے کا درجہ رکھتا ہے، مٹ گئی۔
(۲) لوگوں کو حکم ہوا کہ کسی کو حقیقی باپ کے علاوہ دوسرے (منہ بولے باپ) سے منسوب نہ کرو۔
(۳) بہترین ولیمہ کیا گیا، جس میں بکری کا گوشت اور روٹی اور حضرت ام سلیمؓ کا بھیجا ہوا مالیدہ تھا۔ بہ کثرت لوگوں نے شکم سیر ہوکر کھانا کھایا۔
(۵) اس موقع پر آیت حجاب نازل ہوئی اور پردہ کا رواج ہوا۔
یہی خصوصیات تھیں جن کی بنا پر حضرت زینبؓ کو حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ہمسری کا دعویٰ تھا۔
حضرت زینبؓ نہایت دین دار، پرہیز گار ، حق گو اور مخیر تھیں ۔ ان کی عبادت و زہد کا خود رسول کریمﷺ کو اعتراف تھا۔ حافظ ابن حجرؒ نے ’’اصابہ‘‘ میں لکھا کہ ایک دفعہ حضوؐ مہاجرین کی ایک جماعت میں مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے، حضرت زینبؓ بھی اس موقع پر موجود تھیں۔
انہوں نے کوئی ایسی بات کہی جو حضرت عمر فاروقؓ کو ناگوار گزری۔ انہوں نے ذرا تلخ لہجے میں حضرت زینبؓ کو دخل دینے سے منع کیا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا: عمرؓ ان سے کچھ نہ کہو یہ اوّاہ (بڑی عبادت گزار اور خدا سے ڈرنے والی ہیں)‘‘
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ان کے متعلق فرمایا ہے:
’’میں نے دین کے معاملے میں زینبؓ سے بہتر کوئی عورت نہیں دیکھی‘‘
واقعہ افک میں حضرت زینبؓ کی حقیقی بہن حمنہ بنت جحشؓ بھی غلط فہمی کا شکار ہوگئی تھیں۔ لیکن جب رسول کریمﷺ نے حضرت زینب سے حضرت عائشہؓ کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا:
’’میں عائشہ میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں پاتی‘‘
ابن سعدؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے ازواج مطہراتؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’تم میں سے وہ مجھے جلد ملے گی، جس کا ہاتھ سب سے لمبا ہوگا‘‘
لمبے ہاتھ سے حضورؐ کی مراد فیاضی تھی۔ حضرت زینبؓ نے بے حدفیاض اور مخیر تھیں۔ چنانچہ اس پیش گوئی کا مصداق ثابت ہوئیں اور حضور کے بعد تمام ازواج مطہرات میں سب سے پہلے انہوں نے ہی وفات پائی۔ حضرت زینبؓ خود اپنے دست و بازو سے روزی کماتی تھیں۔ وہ فن دباغت جانتی تھیں۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی، خدا کی راہ میں صدقہ کردیتی تھیں۔
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد خلافت میں حضرت زینبؓ کا وظیفہ بارہ ہزار درہم مقرر کیا۔ یہ وہ وظیفہ ملتے ہی حاجت مندوں میں تقسیم کر دیا کرتی تھیں۔
حضرت زینبؓ نے ۵۳ برس کی عمر میں ۲۰ ھجری میں وفات پائی۔ ان کے انتقال سے مدینہ کے فقرا و مساکین میں حشر برپا ہوگیا کیونکہ ان وہ ان کی مربی و دست گیر تھیں۔ وفات کے وقت سوائے ایک مکان کے کوئی ترکہ نہ چھوڑا، سب کچھ اپنی زندگی میں راہ خدا میں لٹا چکی تھیں۔ وفات سے کچھ دیر پہلے وصیت کی کہ مجھے تابوت رسول اللہ پر اٹھایا جائے۔ چنانچہ ان کی وصیت پوری کی گئی۔ وفات کے دن شدید گرمی تھی، حضرت عمر نے قبر کی جگہ خیمہ لگوادیا۔
نماز جنازہ فاروق اعظمؓ نے پڑھائی، محمد بن عبداللہ بن جحشؓ، اسامہ بن زیدؓ عبداللہ بن ابی احمد اور محمد بن طلحہ نے قبر میں اتارا۔ حضرت عائشہؓ نے ان کی وفات پر فرمایا:ایک بخت بے مثل خاتون چلی گئیں اور یتیموں اور بیواوں کو بے چین کر گئیں۔حضرت زینب بنت جحشؓ سے گیارہ حدیثیں منقول ہیں جن کے راویوں میں حضرت ام حبیبہؓ اور زینب بنت ابی سلمہ وغیرہ شامل ہیں۔
رضی اللہ عنہا
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021