سڑک سے لے کر سوشل میڈیا تک غصے کی آگ میں جھلستی اگنی پتھ اسکیم

ون رینک ،ون پنشن کی وکالت سے نورینک اور نو پنشن تک کا سفر

نور اللہ جاوید ، کولکاتا

نئی اسکیم میں سماجی انصاف کی یقین دہانی کا فقدان۔ساورکر کے خوابیدہ ملٹرائیزیشن کی جانب بڑھتا نیا بھارت؟
بھارتی افواج میں چار سالوں کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی مرکزی حکومت کی انتہائی متنازعہ اسکیم ’’اگنی پتھ‘‘ کے خلاف ملک بھر میں طلباء اور نوجوانوں کے پرتشدد احتجاج ، ہنگامہ آرائی، آتش زنی اور گولی باری کےمناظر نے حکومت کی فیصلہ سازی کی صلاحیت اور پالیسی کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ کہاں تو’’ون رینک ،ون پنشن‘‘ کے نعرے والی مودی حکومت ریٹائرڈ فوجیوں کی واہ واہی لوٹنے کےخواب دیکھ رہی تھی اور آج اس کی یہ درگت ہو گئی ہے کہ بھارتی افواج میں ’’نہ رینک ہوگا اور نہ ہی پنشن‘‘
بھارتی افواج کو درپیش چیلنجز
دنیا کے تمام ممالک اپنی فوج کے ڈھانچے اور اس کی ضروریات کو جدید ٹکنالوجی سے لیس کرنے کے لیے نت نئے اقدامات کرتے ہیں، چناں چہ بھارتی افواج کو مضبوط، پیشہ ور اور طاقت ور بنانے کے لیے اختراعی سوچ کے ساتھ نئے فیصلے کرنے سے بھی شاید کسی کو اختلاف نہ ہوتا۔ زمانے کے مطابق انقلابی قدم اٹھانا فی نفسہ کوئی بری بات نہیں ہے مگر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارتی افواج اس وقت کن چیلنجوں سے گزر رہی ہیں اور ان میں کیا تبدیلی ناگزیر ہے؟ سن 2022-2023 کے دفاعی بجٹ میں 9.8 فیصد کا اضافہ کرتے ہوئے وزارت دفاع کے لیے 5.25لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ۔دفاعی ماہرین بتاتے ہیں کہ ایک بڑی رقم تنخواہ اور پنشن میں چلی جاتی ہے اوراس کی وجہ سے بھارتی افواج کی جدید کاری ، اصلاحات اور نئے ہتھیاروں کی خریداری متاثر ہورہی ہے جس کے لیے وزارت دفاع کو مزید فنڈز کی شدید ضرورت رہتی ہے۔
بھارت اس وقت مالی بحران سے گزررہا ہے، اگرچہ حکومت اس کا کھلے دل سے اعتراف نہیں کررہی ہے۔ اس کے اوٹ پٹانگ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس بحران پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔
ملٹرائزیشن ساورکر کے خوابوں کی تعبیر تو نہیں؟
اگنی پتھ اسکیم کے مختلف پہلوؤں پر اور اس کے ملٹرائزیشن کے نتیجے میں سماج پر پڑنے والے اثرات پر جو گفتگوئیں ہو رہی ہیں اور جن خدشات اور اندیشوں کا اظہار کیا جارہا ہے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اقلیتیں ہی نہیں ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ اور ماہرین بھی خدشے کا اظہار کررہے ہیں۔ اس کی تاریخی وجوہات ہیں ۔دراصل 1904میں گاندھی اور ساورکر کے درمیان رام کے کردار پر زور دار بحث ہوئی تھی ۔ایک طرف گاندھی جہاں رام کے عدم تشدد کے کردار کے حامی تھے تو ساورکر راون کے ساتھ رام کی جدوجہد کا حوالہ دے کر ہندو سماج کو تربیت یافتہ بنانے کی پرزور وکالت کررہے تھے۔ساورکر کی سوچ کا محور یہ تھا ہندوؤں کے غیر تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ کئی صدیوں سے ہندو سماج شکست و ریخت کاشکار ہے اور اگر ہمیں طاقت کا محور بننا ہے تو ہر ایک ہندو نوجوان کو فوجی تربیت یافتہ ہونا چاہیے۔چنانچہ اس کے بعد سے ہی جن سنگھ، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد ہندو سماج کا ملٹرینائزیشن کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔چار سال بعد ریٹائرمنٹ ہونے والے سابق نوجوان فوجیوں کے آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی دائیں بازو کی جماعتوں سے وابستہ ہونے اور ان کے اقلیتوں کے خلاف استعمال ہونے کے خدشہ کا اظہار غیر معقول نہیں ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ اس طرح کے خدشات کا اظہار صرف مسلم تنظیمیں یا ادارے کررہے ہیں بلکہ کئی غیر مسلم دانشور ، صحافی اور ماہرین سماجیات بھی اندیشوں کا اظہار کررہے ہیں۔یہ دلیل دی جارہی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی مختصر وقفے کے لیے انگریزی افواج میں نوجوانوں کی بھرتی ہوئی تھی مگر جب وہ نوجوان سماج کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوئے تو ہمارے نوجوان سماج کے لیے خطرہ کیسے ثابت ہو سکتے ہیں؟ ماہرین کہتے ہیں کہ ماضی کی اس مثال کو آج منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ آج حالات کافی تبدیل ہوچکے ہیں۔سماج مذہبی اور ذات پات کی بنیادوں پر منقسم ہے۔حکمراں جماعت کی سرپرستی میں فرقہ واریت بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے اور انہیں دشمن کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر آنند کمار کہتے ہیں کہ اگر 23سال کی عمر میں کوئی ملازمت نہیں ملتی ہے تو ایسے نوجوانوں کے تناؤ کی سطح کافی بلند ہو گی ایسے میں ایک معمولی لالچ بھی انہیں غلط راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ یہ صرف آر ایس ایس اور بجرنگ دل سے ہی وابستہ ہوں گے بلکہ ماو نواز، پنجاب اور شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی پسند گروپوں کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ جنگی تربیت یافتہ نوجوانوں کے ذریعہ پیدا ہونے والے بحران پر پہلے ہی نظر ثانی کی جائے۔ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ونود شرمانے آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کے ایک انتہائی متنازعہ بیان کاذکر کیا کہ ’’آر ایس ایس صرف تین دن میں فوج کھڑی کرسکتی ہے‘‘۔اس مضمون کا ویب لنک شیئر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ موجودہ معاملے کو موہن بھاگوت کے اس بیان کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ کون چار سال بعد اپنی فوج کھڑی کرے گا؟ اگر ان خدشات کو ’’جینوسائڈ واچ‘‘ کے خدشات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پھر یہ سوال لازمی ہے کہ بھارت اقلیتوں کے قتل عام کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوجائے گا۔
آخری بات
اگر اس پوری اسکیم کا سماجی انصاف کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ اگنی پتھ کے لیے ہر سال جو بحالیاں ہوں گی اس میں سماج کے پسماندہ طبقات، دلت اور اقلیتوں کی حصہ داری کیا ہوگی؟ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگنی ویر میں سے ہر سال 25 فیصد نوجوانوں کو فوج میں مستقل طور پر لیا جائے گا اس میں کیا اقلیت، دلت اور پسماندہ طبقات کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم ہو گا؟ حکومتی سطح پر افواج میں مذہبی بنیاد پر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں مگر فوج میں افسروں کے عہدوں پر فائز افراد کے سماجی پس منظر کے تناظر میں اس کو دیکھا جانا چاہیے۔ اگرچہ فوج سے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے فوج کی تشکیل سیکولر اقدار پر ہوتی ہے ۔فوج کو مذہب ، سماجی تفریق اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر تربیت دی جاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسروں کی بڑی تعداد بی جے پی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں سے وابستہ کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ اس بات کو ریسرچ اسکالر عمر خالدی کی کتابKhaki and the Ethnic Violence in India: Army, Police and Paramilitary Forcesکے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔انہوں نے یہ کتاب 2002میں گجرات قتل عام کے بعد لکھی تھی۔انگریزی نیوز پورٹل ’’انڈیا ٹومارو‘‘پر سید خلیق احمد نے اس کتاب کے حوالے سے لکھا ہے:
عمر خالدی کی کتاب کئی ریٹائرڈ فوجی اور پولیس افسران کے ساتھ بات چیت پر مبنی ہے جن میں آنجہانی فیلڈ مارشل مانک شا، آنجہانی جنرل کے سندر جی، لیفٹیننٹ جنرل ایس کے چھبّر، سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آر کے راگھون اور ’’سپر پولیس‘‘ جے ایف ریبیرو شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی معاشرے میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان مذہبی تقسیم نے مسلمانوں کے تئیں فوج اور پولس کے رویے کو متاثر کیا ہے۔
عمر خالدی نے جنرل کے ایم کری اپا کے 1964 میں آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے۔ جنرل کری اپا نے لکھاہے کہ’’ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی شیخ عبداللہ نے ان سے سوال کیا کہ ہندوستانی افواج میں کشمیریوں کے حقوق کو بحال کیوں نہیں کیا جاتا ہے تو ہم نے جواب دیا کہ ’’مسلمانوں کی وفاداری بنیادی طور پر پاکستان کے ساتھ ہے۔ اکثر غیر مسلم دانشوروں اور بعض حکمرانوں کی یہی سوچ رہی ہے اس لیے کارگل کے مسلمانوں کو بھارتی فوج میں بھرتی ہونے سے حکمتاً روکا جاتا ہے ۔تاہم، 1965 کی ہند-پاک جنگ میں جموں و کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں تعینات راجپوت ریجمنٹ کی ایک مسلم اکثریتی بٹالین کے مسلمانوں نے اس خام خیالی اور پاکستان کے تئیں وفاداری کے بے بنیاد تصور کو غلط ثابت کر دیا کیونکہ مسلمان فوجیوں نے بہادری سے لڑا اور پاکستانی افواج کو شکست دی‘‘۔ عمر خالدی نے آنجہانی جنرل مانک شا کا یہ بھی حوالہ دیا ہے کہ سابق وزرائے دفاع سورن سنگھ اور بابو جگجیون رام نے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر دو مسلم افسروں کی ترقی کی شدید مخالفت کی تھی ۔انہوں نے جارج فرنانڈیز کا بھی حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے عمر خالدی کو بتایا تھا کہ ’’مسلمان مسلح افواج میں مطلوب نہیں ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ مشتبہ رہتے ہیں۔ چاہے اسے تسلیم کیاجائے یانہیں لیکن اقتدار اور اعلیٰ انتظامیہ بھارتی مسلمانوں کو پاکستان کے لیے ’’پانچواں کالم‘‘ سمجھتے ہیں یعنی حالت جنگ میں ملک کے اندر مسلمان ایسا گروہ تصور کیاجائے گا جو اس کے دشمنوں سے ہمدردی رکھتا ہے یا ان کے لیے کام کرتا ہے۔ عمر خالدی نے یکم اپریل 2001 کو جموں میں پریس انفارمیشن بیورو کے دفاعی شعبہ کے ذریعے فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک ہینڈ آؤٹ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا تھاکہ ’’اس بحالی میں مسلمانوں اور تاجروں کے لیے کوئی جگہ خالی نہیں ہے‘‘۔مصنف کا کہنا ہے کہ فاروق عبداللہ اور مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود کشمیر میں فوج نے اس بیان کی تردید نہیں کی‘‘۔
ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ کیا بھارتی افواج کی ذہنیت مسلمانوں کے حوالے تبدیل ہوچکی ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ فوج میں امتیازی سلوک کے خاتمے اور زیادہ سے زیادہ مسلم نوجوانوں کی بحالی کے لیے مسلم اداروں کو کس طرح کردار ادا کرنا چاہیے؟ یہ بات صحیح ہے کہ بھارت کی افوج اور نیم فوجی عسکری دستوں میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر کی حدتک ہے مگر یہ بات بھی درست ہے کہ مسلم نوجوانوں میں فوج میں جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اگرچہ عدم اعتماد کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں مگر کئی تجزیہ نگار مشورہ دے رہے ہیں کہ مستقبل کے امکانی خطرات سے نمٹنے اور اپنے کریئر کے لیے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اگنی پتھ اسکیم سے مسلم نوجوانوں کو بھی زیادہ سے زیادہ فائدھ اٹھانا چاہیے۔
روزگار کے سکڑتے مواقع
گزشتہ چند سالوں میں مرکزی حکومت کے بڑے سیکٹر جیسے افواج، ریلوے ، نیم عسکری دستے اور دیگر مرکزی حکومت کے شعبوں میں نئی بحالیاں نہیں ہوئی ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر کو ٹیکس میں بڑے پیمانے پر چھوٹ دینے کے باوجود نئی نوکریاں پیدا ہونا تو دور الٹا موجودہ ملازمتیں بھی ختم کی جارہی ہیں۔گزشتہ تین سالوں میں نہ صرف بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اپریل 2022کی ایک رپورٹ کے مطابق 22سال سے 27سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 50فیصد تک پہنچ گئی ہے۔اگرچہ حکومت کی کسی بھی ایجنسی کے پاس کارپوریٹ سیکٹر میں ملازمت ختم ہونے اور نوکری سے نکالے گئے افراد کے صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں تاہم ماہرین بتاتے ہیں کہ 30فیصد نوکریاں ختم ہوئی ہیں، چنانچہ ہرسال دو کروڑ افراد کو نوکری دینے کا وعدہ کرنے والی مودی حکومت روزگار فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔اپنے کارپوریٹ سیکٹرکے دوستوں کے زیر ملکیت نیوز چینلوں اور اخبارات کے ذریعہ نوجوانوں میں مذہبی جنون کا چورن فروخت کرکے الجھائے رکھنے کی کوششیں بھی ناکام ہوتی ہوئی نظرآرہی ہیں ۔ پہلے یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ پی ایم مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے اگلے ڈیڑھ سالوں میں 10لاکھ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا ماسٹر پلان تیار کیا ہے۔ مگر یہ ماسٹر پلان بھی سوالوں کی زد میں آگیا کہ آپ نے تو ہر سال دو کروڑ روزگار کی بات کی تھی اور اب دس لاکھ پر کیسے سمٹ گئے؟ یہ نوکریاں کس سیکٹرمیں پیدا ہوں گی۔اس کی سوشل سیکیورٹی کیا ہوگی؟ یہ وہ سوالات تھے جن کا وزیر اعظم مودی کو سامنا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک اور نئی اسکیم ’’اگنی پتھ‘‘ نوجوانوں کے سامنے پیش کردی ۔اس اسکیم کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ گویا اس سے ہندوستانی افواج میں انقلابی تبدیلی آنے والی ہےاور مزید یہ دعویٰ بھی کیاگیا کہ فوج کی طاقت میں اضافہ ہوگا اور نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی ۔
مگر اس اسکیم کے اعلان کے فوری بعد گزشتہ دو سالوں سے فوج میں مستقل نوکری کا انتظار کرنے والے نوجوانوں کا غصہ ایسا ابل پڑا کہ بھارت کی ایک بدنما تصویر ایک بار پھر دنیا کے سامنے آنے لگی۔ہرطرف آتشزنی ، ٹرین کے جلتے ہوئے ڈبے اور پولیس اہلکاروں پر حملے یہاں تک کہ حکمراں جماعت کے لیڈروں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے نوجوانوں کےمناظر کو دیکھ کر بدحال پڑوسی سری لنکا جیسی صورت حال کے اندیشے نظر آنے لگے۔گزشتہ دنوں ملک میں جو کچھ ہوا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگنی پتھ اسکیم ہے کیا ؟ نوجوانوں کی ناراضگی کن وجوہات کی بنیاد پر پھیلتی چلی گئی؟ شمال مشرق سے لے کر پوراہندی بیلٹ اور مغربی ہند سے لےکرمکمل جنوب میں پرتشدد مظاہرے آخر بلاوجہ تو نہیں ہوئے؟
اگنی پتھ اسکیم سے ہندوستان کی دفاعی صلاحیت متاثر ہونے کا خدشہ؟
مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مسلح افواج کے تینوں ونگس کے سربراہوں کے ساتھ پریس کانفرنس میں اگنی پتھ اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے اسے بھارتی افواج اور نوجوانوں کے لیے انقلابی قدم بتایا ۔
انہوں نے کہا کہ ساڑھے 17سال کی عمر کے نوجوانوں کی اگلے چار سالوں کے لیے بھارتی افواج میں بھرتی کی جائے گی اور اس کے بعد وہ ریٹائٹر ہوجائیں گے۔چھ مہینے کی فوجی تربیت اور مزید ساڑھے تین سال کی ملازمت کے بعد نوجوانوں کی زندگی میں نظم و ضبط آجائے گا اور تنخواہ کے علاوہ 11لاکھ 70ہزار روپے بھی ملیں گے ۔ پہلے سال 46 ہزار نوجوانوں کو اس اسکیم کے تحت بھرتی کیا جائے گا اور اگلے سالوں میں اس تعداد میں اضافہ ہوگا ۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس اسکیم کا نفاذ بہت ہی سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور یہ کہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مگرسینئر فوجی افسروں اور ماہرین دفاع کے ساتھ ساتھ حکمراں جماعت کے علاوہ تمام ہی سیاسی جماعتیں بھی اگنی پتھ کو ایک آگ کا دریا قرار دے رہی ہیں۔
غیر متوقع طور پر پھوٹ پڑنے والے گیر احتجاجات نے حکومت کی چولیں ہلا دیں۔اقتدار ہڑبڑا کر نیند سے جاگ اٹھا اور تین دنوں میں تین اہم ترمیمات کا اعلان کیا گیا۔راج ناتھ سنگھ کے دعوؤں اور زمینی حقائق میں تفاوت انہیں واقعات سے اجاگر ہوتا ہے۔
پی ایم او آفس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے متعلق خود راج ناتھ سنگھ کو بہت ساری معلومات نہیں تھیں۔انہیں پریس کانفرنس کے دوران بس پرچہ تھما دیا گیا ہے۔ ایک صحافی نے یہ تک دعویٰ کیا ہے کہ مودی حکومت کے کئی سارے فیصلے ایک غیر ملکی ایجنسی کے مشورے پر لیے جاتے ہیں اور یہ اسکیم بھی اسی غیر ملکی ایجنسی کے مشورے کی مرہون منت ہے۔
موجودہ حکومت اس بات کو لے کر خاصا پریشان ہے کہ دفاعی بجٹ کا ایک بڑا حصہ تنخواہ اور پنشن میں چلاجاتا ہے ۔چونکہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت تنخواہ بہت ہی قلیل ہے اور اس کےتحت پنشن بھی نہیں ہے اس کی وجہ سے اگلے چند سالوں میں وزارت دفاع میں بڑی بچت ہوگی ۔دوسرے یہ کہ بھارتی افواج میں اس وقت اوسط عمر 32سال ہے ۔اگلے چھ اور سات سالوں میں اس اسکیم کی وجہ سے جوانوں کی عمر 26-24کے درمیان ہوجائے گی اس کی وجہ سے جوانوں کے قوت ارادی اور عزم کا فائدہ افواج کو سرحد پر ملے گا۔ ٹیکنالوجی کی زیادہ سمجھ رکھنے والے نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجز نمٹنے کے لیے تیار کیا جائے گا۔ اگنی پتھ سے نکلنے والے نوجوانوں کو اگنیویر جیسے پرکشش الفاظ دے کرذہنی کھیل میں الجھادیاگیاہے اور یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ فوج سے چار سال کے بعد ریٹائر ہو کر آنے والے یہ مبینہ اگنی ویر سول سوسائٹی کو مزید نظم و ضبط کا پابند بنائیں گے اور ملک کی تعمیر میں بھی اپنا حصہ ادا کریں گے۔ اس اسکیم سے فوج میں بڑھتی ہوئی تنخواہ اور پنشن کے بلوں میں کمی آئے گی۔ کیونکہ اگر جوان طویل عرصے تک سروس میں نہیں رہتا ہے تو حکومت پر پنشن دینے یا تنخواہ بڑھانے کی ذمہ داری بھی نہیں رہتی۔ تینوں افواج کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کے لیے مزید رقم ملے گی۔حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے دنیا کے کئی ممالک میں اس طرح کی اسکیم چلائی جارہی ہے جہاں اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔
حکومت کی جانب سے جو دعوے کیے جارہے ہیں وہ ایسے بھی نہیں ہیں جو سب کو مطمئن کر سکیں۔ چنانچہ جنرل جی ڈی بخشی جیسے مودی نواز بھی اس پروجیکٹ پر نکتہ چینی کررہے ہیں ۔سینئر جنرلوں میں میجرجنرل اشونی سیواچ اور میجر جنرل یش مور جیسی شخصیات جو ریٹائر منٹ کے بعد نوجوانوں کو فوج میں لانے کے لیے کام کررہی ہیں اس اسکیم کی پرزو مخالفت کررہی ہیں ۔ان کی دلیل ہے کہ اس اسکیم کی وجہ سے فوج کی پیشہ ورانہ مہارت میں کمی آئے گی۔ معاشرے میں فوج کی عزت کم ہوگی اور اس سے دشمن سے لڑنے کا جذبہ کمزور ہوگا۔ تینوں خدمات(بری ، بحری اور فضائی) میں مکمل طور پر تربیت یافتہ جنگ کے لیے تیار سپاہی بننے میں 7-8 سال لگتے ہیں۔جب کہ اگنی پتھ کے تحت بحال ہونے والے نوجوانوں کی محض 6مہینے ٹریننگ ہوگی اور اتنے کم تربیت یافتہ نوجوان سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔دفاعی تجزیہ نگار اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت پنشن اسکیم کے لیے طویل مدتی منصوبہ بنا سکتی تھی جیسا کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ونود مہتا کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے لیے الیکٹورل بانڈ اورکارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی سے فنڈ لینے کے انتظامات ہیں تو وزارت دفاع کے لیے کوئی نہیں ہے۔کیا دفاع کے لیے کارپوریٹ گھرانوں سے دفاعی بانڈ نہیں لیے جاسکتے ہیں؟اس کے علاوہ حکومت کی یہ دلیل کہ کم عمر نوجوانوں سے فوج کی طاقت میں اضافہ ہوگا، اسے بھی ماہرین اس لیے مانتے کہ ان کے سامنے روس اور یوکرین کی حالیہ جنگ ہے۔روس بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود گزشتہ چار مہینوں میں ایک چھوٹے سے ملک یوکرین پر فتح حاصل نہیں کرپایا ہے۔دراصل روس میں بھی مختصر ٹریننگ کے ساتھ مختصر وقت کے لیے فوج میں نوجوانوں کی بحالی کی جاتی ہے۔یہ کم تریافتہ نوجوان یوکرین کی تربیت یافتہ فوج کی چالوں کو سمجھنے میں ناکام رہے اس لیے روسی افواج کی ہلاکت بھی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔اس ضمن میں بعض کم عقل اسرائیل کی مثال دے رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ دراصل اسرائیل کا مقابلہ کسی طاقتور ملک سے نہیں ہے بلکہ وہ نہتے فلسطینی نوجوانوں کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک نہتا فلسطینی نوجوان کئی مسلح اسرائیلی فوجی جوانوں کا مقابلہ کرتا ہوا نظرآتا ہے۔ ایک نہتے فلسطینی نوجوان کے عزم و ہمت کے سامنے یہ سب بونے نظر آتے ہیں ۔اسرائیلی اخبار’’دی یروشلم ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق مختصر مدت کے لیے اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد اسرائیلی نوجوان ذہنی مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور نشے کے عادی بن جاتے ہیں اور ان کی تربیت کے لیے یہودی ربیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔جہاں تک امریکہ کی بات ہے توامریکہ عام طور پر اپنے تمام شہریوں کو سوشل سیکوریٹی فراہم کرتا ہے ۔سابق فوجیوں کے لیے اس کے پاس بڑی بڑی اسکیمیں ہیں ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ چار سال خدمات انجام دینے کے بعد یہ نوجوان روزگار نہ ملنے کی صورت میں کس ذہنی کیفیت سے دوچار ہوں گے۔ اس وقت کے حالات سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی ایجنڈا بھی موجود نہیں ہے۔جنرل یش مور کہتے ہیں کہ فوج میں کوئی اصلاحات نافذ کرنے سے قبل کچھ تجربات کیے جاتے ہیں مگر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس اسکیم کے نفاذ سے قبل اس کا تجربہ کیوں نہیں کیا گیا؟
نوجوانوں میں ناراضگی کے اسباب
اسی سال پارلیمنٹ میں وزارت دفاع نے جو معلومات شیئر کی ہیں اس کے مطابق جونیئر کمشنر اور دیگر عہدوں پر فوج میں ایک لاکھ سے زائد عہدے خالی ہیں ،گزشتہ کئی سالوں سے کوئی بھرتی ہوئی نہیں ہے۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2015 اور 2020 کے درمیان، فوج نے ہر سا ل صرف 50,000 سے زیادہ فوجیوں کی خدمات حاصل کیں۔2015-2016 میں، فوج نے ملک بھر میں 71,804 افراد کو بھرتی کیا، جو 2016-217 میں کم ہو کر 52,447 رہ گئے۔ 2017-2018 میں، فوج نے اس سے بھی کم یعنی 50,026 لوگوں کو بھرتی کیا۔تاہم2018-2019 میں یہ تعداد بڑھ کر 53,431 ہوئی ۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 2015 سے اب تک فوج میں ہونے والی تمام بھرتیوں میں صرف آٹھ ریاستوں کا حصہ 60 فیصد سے زیادہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے لے کر اب تک پنجاب، ہریانہ، بہار، اتر پردیش، مہاراشٹر، راجستھان، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ سے ایک لاکھ 86 ہزار 7سو 95 افراد کو فوج میں بھرتی کیا گیا ہے۔ ان برسوں میں فوج میں کل بھرتی 308,280 تھی۔ کل بھرتی میں ان ریاستوں کا حصہ 60 فیصد سے کچھ زیادہ تھا۔فوج میں بھرتی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تین چوتھائی سے زیادہ بھرتی دیہاتوں کے پس منظر سے آنےوالے نوجوانوں سے ہوتی ہے۔ چناں چہ اس وقت اگنی پتھ اسکیم کے خلاف انہی ریاستوں میں سب سے زیادہ احتجاج ہورہا ہے۔
بہار میں پٹنہ کے علاوہ کوئی بڑا شہر نہیں ہے جہاں روزگار کے مواقع ہوں، تعلیم کی صوررت حال بھی انتہائی تشویش ناک ہے،ہائی سیکنڈری کوکالج کا درجہ دیا گیا ہے مگر وہاں کلاسیس نہیں ہوتے ہیں ۔مکمل طور پر ٹیوشن پر منحصر رہناپڑتا ہے۔انڈرگریجویٹ کے امتحانات کبھی بھی تین سال پر مکمل نہیں ہوتے ہیں ۔چار سال سے پانچ لگ جاتے ہیں ۔ایسی صورت میں نوجوانوں کے پاس فوج اور ریلوے میں ملازمت حاصل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ہندی اخبار پربھارت خبر سے وابستہ سینئر صحافی سمیع احمد کہتے ہیں کہ بہار میں احتجاج کی شدت کی متعدد وجوہات ہیں، بہار میں گنگا کنارے اور سڑکوں پر صبح صبح دوڑ تے ہوئے نوجوان بڑی تعداد میں ملیں گے وہ کئی سالوں تک فوج میں بھرتی ہونے کے لیے محنت کرتے ہیں مگر اگنی پتھ اسکیم نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کردیا ہے۔محض چار سالوں کی ملازمت کے بعدان کے سامنے مستقبل غیر یقینی ہوگا۔زیادہ تر افراد غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے متحمل نہیں ہوتے۔سنٹرل ریزور پولس میں ریزرویشن کی یقین دہانی کرائی جارہی ہے مگر آپ دیکھیں گے وہاں بھی دو دوسالوں کے بعد بحالی ہوتی ہے۔سمیع احمد کہتے ہیں دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق 122افراد میں سے ایک شخص کی بحالی ہوتی ہے اور 121افراد خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں ۔
دراصل اگنی پتھ کے خلاف نوجوانوں کا احتجاج صرف ایک اسکیم کے خلاف نہیں ہے۔ اقتصادی امور کے ماہرین بتاتے ہیں کہ بھارت میں بے روزگاری اور ملازمت کے مواقع کی کمی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔مودی حکومت اور حکمراں جماعت کی کوشش رہی ہے کہ نوجوانوں کو مذہبی منافرت میں الجھائے رکھے۔ہندوستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ونود کمار مہتا کہتے ہیں کہ اگنی پتھ اسکیم کے کئی پہلو ہیں ۔اس اسکیم کا جواقتصادی پہلو ہے وہ حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ملک میں آمدنی میں اضافے کے لیے صحیح سمت میں اقدامات کرنے کے بجائے کارپوریٹس کے طریقے کار پر گامزن ہوگئے ہیں۔مہتا کہتے ہیں کہ مودی نے ہندوستان میں ’’ہندوتوا فلاحی اسکیم‘‘کی جو شروعات کی ہے اس کے لیے فنڈز کی شدید ضرورت ہے ۔اس کے لیے ہر طرف کٹوتی کی جارہی ہے۔
کیا اگنی پتھ اسکیم بھی دیگر اسکیموں کی طرح ناکام ہو گی؟
سنسنی خیزی ،بلند و بانگ دعوے اور خوبصورت لفاظی وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت اور طرز حکمرانی کا حصہ ہے۔ ان کے 8سالہ دور اقتدارمیں ہم نے مختلف مواقع پر اس کا نظارہ دیکھا ہے۔ 2014میں اقتدار میں آنے کے بعد مودی نے حصول اراضی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے نوٹی فیکشن جاری کیا ۔اس وقت اس آرڈی نینس کے بے شمار فوائد شمار کرائے گئے تھے لیکن کیا ہوا؟ عوامی دباؤ کے پیش نظر ا س کو واپس لینا پڑا ۔اب تو اس پر بات بھی نہیں ہوتی ہے۔مودی جی نے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی بات کی مگر کیا ہوا؟ اس کے لیے متنازعہ زرعی بل لایا گیا ۔اس کے خلاف کسانوں نے ایک سال سے زائد عرصے تک احتجاج کیا اور پھر انہیں قدم واپس لینا پڑا۔ شہری ترمیمی ایکٹ اگرچہ واپس نہیں لیا گیا مگر اب تک نافذ بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ یہ اسکیم دراصل فرقہ واریت کو بڑھانے کے لیے لائی گئی تھی مگر آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں احتجاج نے بی جے پی کی زمین کو ہی نقصان پہنچا دیا ۔ایسے میں سوال یہ بھی ہے کہ اگنی پتھ اسکیم کا مستقبل کیا ہوگا؟ آج اس ملک کا نوجوان پوچھ رہاہے کہ نئی پارلیمنٹ کی عمارت پر ایک اندازے کے مطابق 22ہزار کروڑ روپے خرچ ہوسکتے ہیں وزیر اعظم کے خصوصی طیارے کی خریداری کے لیے 800کروڑ روپے مختص کیےگئے تھے، ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کے پنشن خزانے پر بوجھ نہیں بن رہے ہیں تو دیہات اور غریب کسان کے بچوں کو نوکری دینے کے لیے ملک کے خزانے میں روپے کیوں نہیں ہیں؟ دراصل ’’اگنی پتھ اسکیم‘‘ ملک میں سماجی تفریق میں مزید گہرائی لائے گی۔ ایک طرف ہندوستانی افواج میں ہی افسران اور کرنل و جنرل کا طبقہ ہے جنہیں اچھی تنخواہیں بھی ملیں گی اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی۔ دوسری طرف دیہات اور غریب خاندان سے آنے والے نوجوانوں کے لیے محض چار سال کی نوکری اور نوکری ختم ہونے پر محض11لاکھ روپے؟ جنرل یش مور کہتے ہیں کہ کسی بھی افواج کے لیے افسران سے زیادہ جوان زیادہ اہم ہوتے ہیں کیوں کہ یہی جوان سرحد پر براہ راست دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی فوج کے اس اہم حصے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ایک طرف شہری پس منظر اور سماج کے اعلیٰ طبقات سے آنے والے افسران ہیں جنہیں ہر طرح کی سہولتیں حاصل ہیں اور انہیں 58سال تک ملازمت کرنے کے مواقع ملتے ہیں اس کے بعد انہیں پنشن بھی ملتا ہے لیکن ان جوانوں کو کیا ملے گا؟ اس سے تو سماجی تفریق اور ناانصافی کے احساس میں اضافہ ہی ہوگا۔ کیا کوئی عوامی فلاحی ریاست اپنے نوجوانوں کو اس طرح بے یارو مدگار چھوڑ سکتی ہے۔ اقتصادی امور کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اس اسکیم کے ذریعہ مودی نے11لاکھ کروڑ روپے بچائے ہیں۔ تشدد کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے مگر دیہی علاقے کے نوجوان جو سوالات اٹھارہے ہیں اور ان کی جو ناراضگی ہے اس پر کسی قسم کا سوال نہیں اٹھانا چاہیے۔نوجوانوں کی ناراضگی اورا ن کے غم و غصے کے سامنے مودی کی یہ اسکیم کب تک باقی رہے گی یہ اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)
[email protected]
فون:8777308904
***

 

***

 ’’کیا اگنی پتھ فوج کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے آرایس ایس کے خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہے؟ کیا باقی 75 فیصد، جنہیں چار سال کی سروس کے بعد 11لاکھ روپے کے ساتھ رہا کرکے ملک بھر میں تقسیم کیا جائے گا، آیا وہ بھی آرایس ایس کی طاقت بن جائیں گے؟‘‘
کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ کماراسوامی کا سوال


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022