سماجی انشورنس کا آئیڈیا: وقت کی ضرورت

مہنگا علاج المیوں کاسبب۔ مسئلہ کا انسانی حل نکالنا ضروری

محی الدین غازی

چند روز قبل مجھے ذاتی ذرائع سے خبر ملی کہ ایک بچی کو پھیپھڑےکی پیوند کاری (lungs transplantation) درپیش ہے اور اس کے لیے پچیس لاکھ روپے درکار ہیں۔ بچی کے سرپرست اس کی استطاعت نہیں رکھتے کہ وہ اتنی بڑی رقم کا انتظام کرسکیں۔وہ اپنی حد تک دوڑ دھوپ کرتے رہے۔ خبر نہایت تکلیف دہ اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرنے والی تھی۔
موجودہ زمانے میں علاج کی بہت سی صورتیں حد سے زیادہ خرچ طلب ہوگئی ہیں۔ غریب کی بات چھوڑیں، متوسط درجے کا آدمی بھی اتنے بڑے خرچ کا متحمل نہیں ہوتا ہے۔ یا تو وہ اپنی جائیداد بیچ کر علاج کرتا ہے، اس صورت میں وہ معاشی لحاظ سے بہت کم زور ہوجاتا ہے اور اگلا جھٹکا اسے بالکل مفلوک الحال کردیتا ہے۔ یا وہ بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور بیماری سے جاں بر ہونے کے بعد مقروضیت کی آفت کا طویل عرصے تک شکار رہتا ہے۔ معاشرے میں خون کے آنسو رلا دینے والی ایسی کہانیاں جا بجا سننے کو مل جاتی ہیں۔
موجودہ دور سرمایہ داری کے تسلط کا دور ہے، اس میں زیادہ تر مسائل سرمایہ دارانہ نظام اور ماحول سے پیدا ہوتے ہیں اور ان کا حل بھی سرمایہ داریت کے بطن سے ہی جنم لیتاہے۔ چناں چہ بیماریوں کے کمر توڑ دینے والے نہایت مہنگے علاج سرمایہ دارانہ نظام کی سوغاتیں ہیں اور ان کا علاج میڈیکل انشورنس کی صورت میں نکالا گیا جو خود سرمایہ دارانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ انشورنس کی دیگر صورتوں کی طرح میڈیکل انشورنس میں بھی یہ ہوتا ہے کہ انشورنس کمپنی سالانہ متعین رقم وصول کرکے اس ایک سال کی حد تک متعین حد تک علاج کا خرچ برداشت کرنے کی ذمے داری لیتی ہے۔ اگلے سال کے لیے پھر وہ نئی رقم لیتی ہے اور انشورنس پالیسی فراہم کرتی ہے۔
عمر دراز لوگوں کو یہ پالیسی زیادہ رقم دینے پر ہی ملتی ہے۔ پہلے سے بیماری میں مبتلا لوگ عام طور سے اس سہولت سے محروم رہتے ہیں یا پھر انھیں بھی کافی زیادہ رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انشورنس کمپنیوں کے سامنے اپنے گراہک کے علاج کا خرچ برداشت کرنے سے زیادہ اہم اپنے گراہکوں سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔اس طرح یہاں انسانی ہم دردی کا کوئی گزر نہیں ہوتا ہے، سارا فوکس نفع خوری پر ہوتا ہے۔ صحت مند اور بیماری سے نسبتًا محفوظ لوگوں کو انشورنس کی سہولت آسانی سے کم خرچ پر ملتی ہے، جب کہ بیماری سے قریب (vulnerable)لوگوں کو یہ سہولت مشکل سے اور زیادہ خرچ پر ملتی ہے۔ اور یہ سرمایہ دارانہ سوچ کی کھلی ہوئی علامت ہے جس میں انسانی ہم دردی کا اظہار اشتہار میں تو بہت ہوتا ہے تعامل میں بالکل نہیں ہوتا ہے۔(میڈیکل انشورنس پر شرعی گفتگو ابھی ہم نہیں کر رہے ہیں، مروّجہ انشورنس کی تمام شکلوں کی طرح اسے بھی عام طور سے حرام قرار دیا گیا ہے۔)
بہرحال، نہایت مہنگا علاج سماج کا ایک سنگین مسئلہ ہےاور اس کا حل تلاش کرنا سماج کے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں کوئی بھی شخص خود کو محفوظ تصور نہیں کرسکتا ہے۔ کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت اس طرح کی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے میں اگر ہر شخص اسے واقعی اپنا مسئلہ سمجھنے لگے تو اجتماعی سطح پر اس کا سامنا کرنے کی کچھ شکلیں نکالی جاسکتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ فکر کے اس تجارتی انشورنس کے مقابلے میں ایک تعاون پر مبنی انشورنس کا تصور پیش کیا گیا ہے، اس میں ایک گروپ کے افراد اپنے اپنے حصے کی رقم بطور ڈونیشن ایک فنڈ میں جمع کرتے ہیں اور اس گروپ کے کسی فرد کو علاج کی ضرورت پیش آجائے تو اس فنڈ سے اس کا علاج کرادیا جاتا ہے، بصورت دیگر تمام متعلقہ افراد کی ہر سال جمع ہونے والی رقم اس فنڈ کا حصہ بنی رہتی ہے۔اسے تعاونی انشورنس یا تکافل کہتے ہیں۔ بعض شرطوں کے ساتھ اس صورت کو شریعت کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ایک دشواری تو یہ ہے کہ اس طرح کا فنڈ قائم کرنے اور اسے چلانے کے لیے سنجیدگی، دیانت داری اورانتظامی مہارت درکار ہوتی ہے، جو آسانی سے میسر نہیں آتی، خاص طور سے اگر سرکاری سرپرستی نہ ہو۔ نیز بہت بڑی رقم والے ایسے فنڈ کی کرپشن وغیرہ سے حفاظت قانونی سرپرستی چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ قانونی رکاوٹیں خود اس طرح کے فنڈ کے قیام میں رکاوٹ بھی بن سکتی ہیں۔ بہرحال، جہاں ممکن ہو وہاں تجارتی انشورنس کے مقابلے میں تعاونی انشورنس کہیں زیادہ بہتر ہے۔
بہرحال، ابھی ہمارے پیشِ نظر ان لوگوں کا مسئلہ درپیش ہے، جو عملًا کسی انشورنس کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ تعاونی انشورنس ہو یا تجارتی انشورنس، وہ صرف ان افراد کا احاطہ کرتا ہے جو سالانہ ڈونیشن دے کر اس اسکیم کا حصہ بنتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اس کا حصہ نہیں بنتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ اپنے اخراجات میں اس مد کو شامل کرنے پر مطمئن نہیں ہوتے یا یہ مد ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی یا ان کے پاس اتنی بچت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس مد پر خرچ کرسکیں، وجہ کوئی بھی ہو، بہرحال وہ انشورنس کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔ ابھی ہمارے ملک میں ایسے ہی لوگوں کی اکثریت ہے۔ ان لوگوں کے مسئلے کا حل ہماری فکرمندی کا موضوع بننا چاہیے۔ انشورنس کے نظام پر کلی طور سےتکیہ کرنے والوں سے پوچھیں گے تو وہ یہی کہیں گے کہ ملک کی ساری آبادی کو انشورنس پالیسیوں سے جڑ جانا چاہیے۔ لیکن یہ مسئلے کا غیر انسانی حل ہے۔
مسئلے کا انسانی حل یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سماجی انشورنس کی شکلوں کو فروغ دیا جائے۔ سماجی انشورنس سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہر آبادی اس ذمے داری کو قبول کرلے کہ اس کے افراد ضرورت پڑنے پر مل جل کر اس طرح کے خرچ کے لیے رقم فراہم کریں گے۔
ہم اس کی تجویز نہیں دے رہے ہیں کہ ہر آبادی میں اس مقصد کے لیے کوئی مستقل فنڈ ہو جس میں سے حسب ضرورت رقم نکالی جاتی رہے۔ کیوں کہ ایسا فنڈ خود ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ اس کے بجائے ایسا سسٹم بنایا جائے کہ جس کسی کو ضرورت پڑے آبادی کے افراد مل جل کر اس کی ضرورت پوری کردیں۔ اس کے لیے ہر آبادی میں ایک گروپ تشکیل دیا جائے جو ضرورت مند فرد کے احوال کی تحقیق کرے ، پھر پوری آبادی کو اس کی ضرورت سے آگاہ کرے اور مہم چلاکر اس کی ضرورت کے بقدر رقم اس کو دلادے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مسجدوں میں مختلف لوگ اپنی بیماری کے حوالے سے اعانت مانگتے ہیں، لیکن چوں کہ ان کے بارے میں کوئی معتبر جانکاری نہیں ہوتی ہے اس لیے ان کی مدد بھی صحیح طور سے نہیں ہوپاتی ہے۔ لیکن اگر مسجد میں اعلان تحقیق کے بعد کچھ معتبر لوگوں کی طرف سے کیا جائے ، تو امید ہے کہ بہت سے لوگوں مدد کے لیے آگے بڑھیں۔اسی طرح سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔
یہ ایک دھندلا سا تصور ہے، عملی صورتوں کے ذریعہ اسے زیادہ سے زیادہ واضح اور متعین کیا جاسکتاہے۔ قرآن مجید میں پڑوسی کی مدد کرنے پر ابھارا گیا ہے، پڑوسی سے محلے اور بستی کا تصور سامنے آتا ہے جس کے تمام افراد ایک دوسرے کے پڑوسی ہوتے ہیں۔ محلے اور بستی کی سطح پر سماجی انشورنس کا آئیڈیا بہت سے سانحوں اور المیوں سے بچاسکتا ہے۔
***

 

***

 نہایت مہنگا علاج سماج کا ایک سنگین مسئلہ ہےاور اس کا حل تلاش کرنا سماج کے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں کوئی بھی شخص خود کو محفوظ تصور نہیں کرسکتا ہے۔ ۔مسئلے کا انسانی حل یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سماجی انشورنس کی شکلوں کو فروغ دیا جائے۔ سماجی انشورنس سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہر آبادی اس ذمے داری کو قبول کرلے کہ اس کے افراد ضرورت پڑنے پر مل جل کر اس طرح کے خرچ کے لیے رقم فراہم کریں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021