جب گاندھی ساورکر سے ملنے ان کے گھر پہنچے

ہندوتو کی نظریہ ساز شخصیت کے 9برسوں میں 6 معافی نامے

افروز عالم ساحل

گزشتہ دنوں اس بات پر خوب تنازعہ ہوا کہ ونائک دامودر ساورکر نے گاندھی جی کے کہنے پر اپنی رہائی کے لیے معافی نامہ لکھا تھا۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ذریعے ایک کتاب کی رسم اجرا میں بیان دینے کے ساتھ ہی پورے ملک میں ایک بحث چھڑ گئی۔ ایک طرف حزب اختلاف کی جماعتیں اس بیان پر حکومت کو نشانہ بنا رہی ہیں تو دوسری طرف مورخین بھی اس بیان کی صداقت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

ملک میں گویا ’فیکٹ چیک‘ کا جیسے سیلاب آ گیا ہو۔ ہر ایک نے اپنے فیکٹ چیک میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’یہ ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ ساورکر نے اپنا سب سے شرمناک معافی نامہ 14 نومبر 1913 کو لکھا تھا، اس سے پہلے بھی وہ ایک معافی نامہ لکھ چکے تھے، جبکہ گاندھی جی ہندوستان کی سیاست میں 1915 کے آخر میں آئے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ساورکر نے گاندھی کے کہنے کی وجہ سے معافی نامہ لکھا، بالکل بے معنی ہے۔‘

کچھ مورخین نے تو یہاں تک کہا ہے کہ گاندھی نے ’ینگ انڈیا‘ میں ساورکر کی معافی ناموں پر ایک مضمون لکھا تھا، جس میں گاندھی نے واضح انداز میں کہا تھا کہ ’’ساورکر جیسے لوگ معافی نامہ لکھ کر اخلاقی طاقت بھی کھو چکے ہیں‘‘۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی گاندھی نے ساورکر کے معافی نامہ پر کچھ لکھا ہے؟ کیا گاندھی جی کا ساورکر سے کوئی تعلق نہیں تھا؟ آخر گاندھی جی ساورکر کے بارے میں کیا سوچتے تھے؟ کیا گاندھی نے کبھی ساورکر سے ملاقات کی؟ ساورکر کی رہائی میں گاندھی کا کیا رول تھا؟ اس طرح کے بہت سے سوالوں کے ساتھ ہفت روزہ دعوت کے اس نمائندے نے تاریخ کے صفحات کو کھنگھالتے ہوئے ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جو باتیں سامنے آئیں، وہ کئی معنوں میں چونکا دینے والی ہیں۔ باتیں تھوڑی تلخ ہیں، لیکن سچ ہیں۔

1909 میں لندن میں ہوئی تھی ساورکر سے ملاقات

27 نومبر 1909کو ’انڈین او پنین‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق لندن میں 24 اکتوبر 1909 کو وجئےدشمی کے موقع پر وہاں رہنے والے ہندوستانیوں کی جانب سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ گاندھی اس تقریب کے صدر تھے۔ تقریب میں شرکت کرنے والے تقریباً 70 لوگوں کے درمیان ساورکر بھی موجود تھے۔ انہوں نے اس تقریب میں رامائن کی عظمت پر ایک پرجوش تقریر کی۔ وہیں حسین داؤد نے جیل کی کئی نظمیں گا کر سنائیں اور حاجی حبیب نے ہندوستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ بتادیں کہ انڈین اوپنین گاندھی جی کے ذریعے 1904 میں شروع کیا گیا ایک اخبار تھا۔

گاندھی لندن میں ساورکر سے مل چکے تھے اور انہیں محب وطن اور بہادر مانتے تھے، اس کا ثبوت گاندھی جی کے ذریعے لکھے گئے ایک مضمون میں ان باتوں سے بھی ہوتا ہے۔ ’ساورکر برادران کی صلاحیتوں کا استعمال عوامی فلاح کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر بھارت اسی طرح سویا پڑا رہا تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے یہ دو وفادار بیٹے ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے چلے جائیں گے۔ ایک ساورکر بھائی کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ مجھے لندن میں ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا تھا، وہ بہادر ہیں، ہوشیار ہیں، محب وطن ہیں۔ وہ انقلابی ہیں اور اسے چھپاتے نہیں ہیں۔ موجودہ نظام حکومت کی برائی کی بدترین شکل کو وہ مجھ سے بھی بہت پہلے دیکھ چکے تھے، وطن سے دل و جان سے محبت کرنے کے جرم میں وہ کالاپانی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اگر سچی اور عادلانہ حکومت ہوتی تو وہ کسی اعلیٰ سرکاری عہدے کی زینت بنتے۔ مجھے ان کے اور ان کے بھائی کے لیے بہت افسوس ہے۔ اگر عدم تعاون کی تحریک نہ ہوتی تو مسٹر ہورنیمین واپس آجاتے اور دونوں ساورکر بھائی بھی کالے پانی کی سزا سے بہت پہلے چھوٹ کر آ جاتے، لیکن ابھی تو عدم تعاون ایک رکاوٹ ہے۔

گاندھی جی نے یہ مضمون 18 مئی 1921 کو ’ینگ انڈیا‘ میں لکھا تھا۔ اس مضمون کی شروعات گاندھی جی نے اس طرح سے کی تھی، ’دوستوں نے مجھ پر مسٹر ہورنیمین کے معاملے سے لاتعلق ہونے کا الزام لگایا ہے اور کچھ دوستوں کو اس پر بھی تعجب ہے کہ میں ساورکر بھائیوں کے بارے میں اتنا کم کیوں لکھتا ہوں… چھوٹے سے اخبار کے ایڈیٹر کی شکل میں، میں صرف انہی معاملوں پر لکھ سکتا ہوں جن کا براہ راست تعلق ملک کے سامنے موجود اہم سوال سے ہو۔ مسٹر ہورنیمین یا ساورکر بھائیوں کے بارے میں لکھنے کا میرا مقصد حکومتی فیصلے پر اثر ڈالنا نہیں، عوام کو عدم تعاون کے لئے پرجوش کرنا ہی ہو سکتا ہے۔

گاندھی جی لندن میں ساورکر بھائیوں سے ملتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت خود ان ہی کے اپنے الفاظ سے ملتا ہے۔ 4 مارچ 1926 کو گاندھی اپنے ایک ’پروچن‘ میں بتاتے ہیں، ’میں لندن میں بہت سے انقلابیوں کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کرتا تھا۔ شیام جی کرشنورمی اور ساورکر وغیرہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ آپ کی باتیں ’گیتا‘ اور ’رامائن‘ کے بیان کے خلاف ہی ہیں۔ اس وقت مجھے ایسا لگتا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر ویاس منی نے ’برہمن گیان‘ کی تبلیغ کرنے کے لیے ایسی جنگ کی تمثیل کی منصوبہ بندی نہ کی ہوتی! کیونکہ جب اچھے اچھےاسکالر اور گہرائی سے سوچنے سمجھنے والے لوگ ہی ’بھگوت گیتا‘ کے ایسا معنی نکالتے ہیں تو پھر عام آدمی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے… ویاس بھگوان کو چاہیے تھا کہ وہ کوئی دوسری مناسب مثال منتخب کر کے واعظ دیتے۔‘

گاندھی جی کی یہ باتیں کتاب ’گاندھی جی نو گیتاشکھچھن‘ میں شائع ہیں۔ واضح رہے کہ گاندھی جی نے 24 فروری 1926 سے 27 نومبر 1926 تک احمد آباد کے ستیہ گرہ آشرم میں بھگوت گیتا پر ’پروچن‘ دیے۔ یہ ’پروچن‘ مہادیو بھائی دیسائی اور ایک دیگر آشرم کے رہائشی پونجابھائی نے نوٹ کیے تھے۔ ان کے انہی نوٹس کو نرہری بھائی پریخ نے ایڈٹ کرکے یہ کتاب لکھی تھی، جو 1955 میں شائع ہوئی۔

جب گاندھی ساورکر سے ملنے ان کے گھر پہنچے

سال 1924 میں ساورکر کو دو شرائط کی بنیاد پر جیل سے رہا کیا گیا۔ ایک، وہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔ دوسرا یہ کہ وہ رتناگری کے ضلع کلکٹر کی اجازت لیے بغیر ضلع سے باہر نہیں جائیں گے۔

ساورکر پر تحقیق کرنے والے نرنجن تکلے کے مطابق، ’’ساورکر نے وائسرائے لنلتھگو کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا تھا کہ ان دونوں کا ایک ہی مقصد ہے گاندھی، کانگریس اور مسلمانوں کی مخالفت کرنا۔‘‘

نرنجن تکلے بتاتے ہیں کہ ’’انگریز ان کو پینشن دیا کرتے تھے، ساٹھ روپے مہینہ۔ وہ انگریزوں کی کون سی ایسی خدمت کرتے تھے، جس کے لیے ان کو پینشن ملتی تھی؟ وہ اس طرح کی پینشن پانے والے اکیلے شخص تھے۔‘‘ اس کے باوجود گاندھی جی ساورکر سے ملنے ان کے گھر گئے۔

گاندھی جی یکم مارچ 1927 کو رتناگری میں ساورکر کے گھر پہنچے۔ اس ملاقات میں ساورکر نے گاندھی جی سے ’اچھوت پن‘ اور ’ شدھی‘ کے بارے میں اپنا موقف واضح کرنے کو کہا۔ گاندھی نے کہا، ’ہم آج لمبی بات چیت نہیں کر سکتے، لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ میں سچائی کے عاشق اور سچ کے لیے جان تک دینے والے ایک شخص کے طور پر آپ کے لیے میرے من میں کتنا احترام ہے۔ اس کے علاوہ، بالآخر ہم دونوں کا ہدف بھی ایک ہے اور میں چاہوں گا کہ ان تمام باتوں سے متعلق آپ مجھ سے خط و کتابت کریں، جن میں آپ کا مجھ سے اختلاف ہے۔ اور دوسری باتوں کے بارے میں بھی لکھیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ رتناگری سے باہر نہیں جا سکتے، اس لیے اگر ضرورت ہو تو مجھے ان باتوں پر جی بھر کر بات چیت کرنے کے لیے مجھے دو تین دن کا وقت نکال کر آپ کے پاس آنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہے۔‘

ساورکر نے گاندھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ’آپ آزاد ہیں اور میں بندھن میں ہوں۔ میں آپ کو اپنے جیسی حالت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ پھر بھی میں آپ سے خط و کتابت کروں گا۔‘

گاندھی اور ساورکر کی اس ملاقات اور بات چیت کی خبر ’ینگ انڈیا‘ میں 17 مارچ 1927 کو شائع ہوئی ہے۔ بتا دیں کہ انگریزی اخبار ’ینگ انڈیا‘ کے ایڈیٹر خود گاندھی ہی تھے۔

تاہم اسی دن گاندھی جی نے رتناگری میں تقریر بھی کی۔ اس تقریر میں ساورکر کا نام لیے بغیر، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’… کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرکے اور تبلیغ کرکے انہیں مسلمان بنا رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ایسے نامرد بن گئے ہیں کہ کوئی آپ کو اسلام مذہب اپنانے پر مجبور کرتا ہے، تو آپ مسلمان بن جائیں گے؟ اگر آپ کا مذہب سچا ہو تو اسے کوئی کرپٹ نہیں کر سکتا۔‘‘

یہی نہیں، اپنی اس تقریر میں گاندھی نے یہ بھی کہا کہ ’’مجھ سے کہا جاتا ہے کہ شدھی تحریک میں حصہ لوں۔ میں یہ کیسے کر سکتا ہوں، جبکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی لوگوں کو مسلمان و عیسائی بنانا بند کر دینا چاہیے۔ یہ بات کہ کوئی شخص اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی خاص مذہب، ہندو، عیسائی یا اسلام کو اپنا لے، تبھی وہ اچھا بنے گا یا نجات پائے گا، سمجھ میں آنے کے لائق بات نہیں ہے۔ کردار کی پاکیزگی اور نجات تو دل کی پاکیزگی پر منحصر ہے۔ اس لیے میں ہندوؤں سے کہتا ہوں کہ تمہیں جو کرنا ہو، وہ کرو، لیکن میرے جیسے شخص کو، جو بہت تجربے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے والا شخص ہو، وہ کام کرنے کو نہ کہو، جسے وہ کر ہی نہیں سکتا ۔ آخرکار انسان کی طاقت محدود ہے۔ میں وہی کر سکتا ہوں، جس کی مجھ میں طاقت ہے، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘

گاندھی کی مکمل تقریر 17 مارچ 1927 کو ’ینگ انڈیا‘ میں بھی شائع ہوئی ہے۔ یہ اس تقریر کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

جب بہار حکومت نے لگائی ہندو مہاسبھا کے سالانہ اجلاس پر پابندی

بہار حکومت نے یکم دسمبر 1941 سے 10 جنوری 1942 تک ہندو مہاسبھا کے سالانہ اجلاس پر پابندی لگا دی تھی۔ حکومت کا کہنا تھا، چونکہ بقرعید اسی مدت میں آئے گی، اس لیے فرقہ وارانہ جھگڑے سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے۔

بہار حکومت کی اس پابندی کے بعد گاندھی نے 27 دسمبر 1941 کو اخبارات کو اپنا بیان جاری کیا۔ اس بیان میں بھی ساورکر کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں لکھا تھا، ’ بہار حکومت نے ہندو مہاسبھا کے اجلاس پر پابندی لگا کر جیسی کارروائی کی ہے، وہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ جن لوگوں نے اجلاس منعقد کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی وہ سب ذمہ دار قسم کے لوگ تھے اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ، جہاں تک مجھے معلوم ہے مرکزی حکومت کا ان پر بھروسہ رہا ہے اور وہ حکومت کے حامیوں کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں۔ وہ جنگی کوششوں میں شریک تھے اور شریک ہیں۔ بہار حکومت یہ بھروسہ کیوں نہیں کرسکی کہ یہ لوگ مہذب سلوک کریں گے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ دیکھتا ہوں کہ ویر ساورکر، حکومت بہار کی سہولت کا خیال رکھتے ہوئے اس سے کوئی رضامندی کا معاہدہ کرنے کے مقصد سے کنونشن کی تاریخ بڑھانے کے لیے بھی تیار تھے۔ سمجھوتے کی تمام کوششوں کے بیکار ہو جانے کے بعد، جبر کا شکار ہندو مہاسبھا کے لیے ستیہ گرہ ہی واحد راستہ رہ گیا تھا۔ اور مجھے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ویر ساورکر، ڈاکٹر منجے اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار ہوتے دیکھ کر میرا من خوشی سے بھر اٹھا ہے کیونکہ انہیں صرف اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے عوامی امن کو محفوظ رکھنے کے لیے پوری احتیاط برتتے ہوئے ایک منظم اجلاس کرنے کے بہت ضروری اور بنیادی حق کے لیے گزارش کرنے کی کوشش کی۔ میں دیکھتا ہوں، بنگال حکومت کے نئے وزیر خزانہ ڈاکٹر شیاما پرساد بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ایک قابل احترام جرم کرکے گرفتار ہو گئے ہیں۔ بہار حکومت کی اس من مانی کارروائی کی شائستگی اور پرامن طریقے سے مخالفت کرنے کے لئے میں ہندو مہاسبھا کے تمام لیڈروں کو مبارکباد دیتا ہوں۔۔۔‘ بتادیں کہ گاندھی جی کا یہ بیان 28 دسمبر 1941 کو ’ہندو‘ اخبار میں بھی شائع ہوا تھا۔

ساورکر بھائیوں کی رہائی کے لیے گاندھی کی کوششیں

ساورکر کے چھوٹے بھائی نارائن دامودر ساورکر نے 18 جنوری 1920 کو گاندھی جی کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں، ’… کل مجھے حکومت ہند کی طرف سے مطلع کیا گیا تھا کہ رہا کیے جانے والے لوگوں میں ساورکر برادران شامل نہیں… براہ کرم مجھے بتائیں کہ اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے۔ میرے دونوں بھائی انڈمان میں دس سال سے زیادہ سخت قید کی سزا کاٹ چکے ہیں، اور ان کی صحت بالکل چوپٹ ہو چکی ہے۔ ان کا وزن 118 پونڈ سے کم ہو کر 95-100 پونڈ رہ گیا ہے… اگر ہندوستان کی کسی اچھی آب و ہوا والی جیل میں بھی ان کا تبادلہ کر دیا جائے تو غنیمت ہو۔ مجھے امید ہے کہ آپ بتائیں گے کہ آپ اس معاملے میں کیا کرنے جا رہے ہیں۔‘

اس خط کے جواب میں گاندھی جی نے 25جنوری 1920کو لاہور سے نارائن دامودر ساورکر کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں۔

محترم ڈاکٹر ساورکر!

آپ کا خط موصول ہوا۔ آپ کو مشورہ دینا مشکل کام ہے۔ تاہم، میری تجویز ہے کہ آپ ایک مختصر پٹیشن تیار کریں جس میں حقائق کو اس طرح پیش کریں کہ یہ بات بالکل واضح طور پر ابھر آئے کہ آپ کے بھائی صاحب نے جو جرم کیا تھا، اس کی شکل بالکل سیاسی تھی۔ میں یہ مشورہ اس لیے دے رہا ہوں کہ تب عوام کی توجہ اس طرف مرکوز کرانا ممکن ہو جائے گا۔ اس دوران، جیسا کہ میں اپنے ایک پہلے خط میں آپ سے کہہ چکا ہوں، اپنے ڈھنگ سے اس معاملے میں قدم اٹھا رہا ہوں۔

’دل سے آپ کا‘

بتادیں کہ گاندھی اس خط کے پہلے بھی ایک خط نارائن دامودر ساورکر کو لکھ چکے ہیں، جیسا کہ وہ خود اس کا کا ذکر اس خط میں کر رہے ہیں، لیکن گاندھی جی کا وہ خط پبلک ڈومین میں موجود نہیں ہے۔

26 مئی 1920کے ’ینگ انڈیا‘ میں وہ ساورکر بھائیوں پر تحریر کردہ اپنے ایک مضمون کی شروعات ایک شاہی اعلان سے کرتے ہیں، جس کے بارے میں گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ منشور گزشتہ دسمبر کے مہینے میں شائع ہوا تھا اور اس منشور کے نتائج میں اس وقت قید کی سزا کاٹ رہے بہت سے لوگوں کو ’راجانوکمپا‘ کا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اس کے بعد گاندھی مزید لکھتے ہیں، ’…لیکن کچھ اہم ’’سیاسی مجرم‘‘ اب بھی چھوڑے گئے ہیں۔ انہی لوگوں میں میں ساورکر بھائیوں کو شمار کرتا ہوں۔ وہ اسی معنی میں سیاسی مجرم ہیں جس معنی میں، مثال کے طور پر، وہ لوگ ہیں جنہیں پنجاب حکومت نے رہا کر دیا ہے۔ لیکن اس منشور کی اشاعت کے آج پانچ ماہ بعد بھی ان دونوں بھائیوں کو چھوڑا نہیں گیا ہے۔‘

اپنے اسی مضمون میں گاندھی لکھتے ہیں، ’’ان دونوں بھائیوں نے اپنے سیاسی خیالات واضح کر دیئے ہیں اور دونوں نے کہا ہے کہ ان کے ذہن میں کوئی انقلابی ارادے نہیں ہیں اور اگر انہیں آزاد کردیا گیا تو وہ ’سدھار قانون‘ کے تحت کام کرنا پسند کریں گے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان ’سدھاروں‘ سے لوگوں کے لیے اس طرح کام کرنا ممکن ہوگیا ہے جس سے ہندوستان کو سیاسی ذمہ داری حاصل ہو سکے۔ دونوں نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ وہ برطانوی تعلقات سے آزاد نہیں ہونا چاہتے۔ اس کے برعکس، انہیں لگتا ہے کہ ہندوستان کی قسمت برطانیہ کےساتھ رہ کر ہی سب سے اچھی طرح گھڑی جاسکتی ہے۔ کسی نے بھی ان کے کھرے پن یا ایمانداری میں شک نہیں کیا ہے، اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے جو خیال ظاہر کیے ہیں، انہیں جوں کا توں صحیح مان لینا چاہیے اور میرے خیال میں جو بات اس سے بھی بڑی ہے، وہ یہ ہے کہ آج یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں متشدد نظریات کے پیروکاروں کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ اب ان دونوں بھائیوں کی آزادی پر آگے روک لگائے رکھنے کی صرف ایک ہی وجہ ’عوامی سلامتی کو خطرہ‘ ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ ہیز ہائنیس نے وائسرائے سیاسی مجرموں کے تئیں، عوامی تحفظ کا خیال رکھتے ہوئے جہاں تک وہ ٹھیک لگے وہاں کا ’راجانوکمپا‘ کا استعمال کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔‘

ساورکر برادران جب تک جیل میں رہے۔ گاندھی جی ہمیشہ ان کی رہائی کے حق میں نظر آئے۔ 29 جون 1921 کے’ینگ انڈیا‘ میں لکھے ایک نوٹ میں گاندھی لکھتے ہیں، ’کیپیٹل‘ کے ’ڈچر‘ نے ان بہادر بھائیوں پر کیچڑ اچھالا ہے۔ ان میں سے ایک پر اس نے یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں نے قید کے دوران بےتار کے تار کا غلط استعمال کیا اور دشمن کے ساتھ مل کر سازش رچی… میں سمجھتا ہوں کہ وہ عدم تعاون کارکن نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ بالکل بے گناہ ہیں اور ان کے پاس متعلقہ اخبار کے خلاف کارروائی کرنے کی واضح بنیادیں بھی ہیں۔ بہرحال جو بھی ہو، ڈاکٹر ساورکر نے مجھے مطلع کیا ہے کہ ایسی سزاؤں میں عام طور پر جتنے دنوں کی معافی دی جاتی ہے، اگر انہیں بھی گنا جائے تو ان دونوں بھائیوں میں سے شری گنیش ساورکر تو چودہ سال دو ماہ کی سزا بھگت چکے ہیں:لہٰذا قانوناً انہیں رہائی کا حق حاصل ہے۔۔۔‘

ساورکر کے معافی نامے

11جولائی 1911 کو ساورکر انڈمان پہنچے اور 29 اگست کو انہوں نے اپنا پہلا معافی نامہ لکھا۔ اس طرح سے اس نام نہاد ویر نے 9 برسوں میں مسلسل 6 بار انگریزوں کو معافی نامہ دیے۔

ان معافی ناموں میں ساورکر نے صاف طور پر لکھا کہ ’’حکومت اگر مہربانی اور رحم دکھاتے ہوئے مجھے رہا کرتی ہے تو میں آئینی پیش رفت اور برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری کا سخت حامی رہوں گا۔ میں حکومت کی کسی بھی حیثیت سے خدمت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جیسا میرا بدلاؤ ایماندار ہے، مجھے امید ہے کہ میرا مستقبل کا برتاؤ بھی ویسا ہی ہوگا۔ میں اور میرا بھائی ایک مخصوص اور معقول مدت کے لیے سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف لینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔‘‘

گاندھی نے ساورکر کی رہائی کی درخواست پر نہیں کیے دستخط

10 جولائی 1937کے ’گیان پرکاش‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کی طرف مہاراشٹر صوبائی کانگریس کمیٹی کے صدر شنکر راؤ دیو نے 14 جولائی کو ایک خط لکھ کر گاندھی جی کی توجہ مبذول کرائی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نرسنگھ چنتامنی کیلکر نے پونا میں تلک میموریل مندر میں ایک میٹنگ میں بولتے ہوئے گاندھی جی پر یہ الزام لگائے تھے کہ انہوں نے ساورکر کی رہائی کے لیے تیار کردہ درخواست پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اپنے اوپر لگےاس الزام کے بعد گاندھی جی نے 15 جولائی 1937 کو پہلے تو شنکر راؤ دیو کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے بتایا کہ ’میں نے تصدیق کے لیے شری کیلکر کو اخبار کی ایک تراش بھیج دی ہے۔ ان کا جواب ملتے ہی میں آپ کو مزید معلومات دوں گا۔‘

پھر اس کے بعد گاندھی جی نے نرسنگھ چنتامنی کیلکر کو خط لکھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں، ’دیو نے مجھے منسلک اخبار کی تراش بھیجی ہے، جس میں آپ کی تقریر کی رپورٹ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس رپورٹ میں میرے بارے میں جو الزام لگائے گئے ہیں، ان کا میں جواب دوں۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ اس رپورٹ کے بارے میں آپ کی رائے جان لوں۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ کتنی ہی بار جان بوجھ کر اور کئی بار انجانے میں ہی عوامی تقریروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔‘

گاندھی جی نے اسی معاملے کو لے کر 20 جولائی 1937 کو پھر سے شنکر راؤ دیو کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں، ’شری ساورکر کی رہائی کے بارے میں جو درخواست تیار کی گئی تھی، میں نے اس پر دستخط کرنے سے انکارکر دیا، کیونکہ جو لوگ اسے لے کر میرے پاس آئے تھے، میں نے انہیں بتایا تھا کہ یہ بالکل غیر ضروری ہے، کیونکہ نئے قانون کے عمل میں آنے کے بعد شری ساورکر کی رہائی تو ہو ہی جائے گی چاہے وزیر کوئی بھی ہو۔ اور وہی ہوا بھی۔ ساورکر برادران کم از کم یہ تو جانتے ہیں کہ ہم میں چاہے کچھ اصولوں کو لے کر جو بھی اختلافات رہے ہوں، لیکن میری کبھی یہ خواہش نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ جیل میں ہی پڑے رہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ میری طاقت میں جو کچھ تھا، وہ سب میں نے ان کی رہائی کے لیے اپنے طریقے سے کیا تو شاید ڈاکٹر ساورکر بھی میری بات کو منظور کریں گے۔ اور بیرسٹر کو شاید یاد ہو گا کہ جب پہلی بار ہم لندن میں ملے تھے، تب ہمارے تعلقات کتنے اچھے تھے اور کیسے جب کوئی آگے نہیں جا رہا تھا تب میں نے اس میٹنگ کی صدارت کی تھی جو ان کے اعزاز میں لندن میں ہوئی تھی۔۔۔‘ بتادیں کہ گاندھی کا یہ خط بمبئی کرانیکل کے 27 جولائی 1937 کے شمارے میں بھی شائع ہوا تھا۔

12 اکتوبر 1939کو گاندھی جی نے ہری بھاؤ جی پھاٹک کو ایک خط لکھا، جس میں وہ ساورکر کا ذکر کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں، ’’۔۔۔ ساورکر کے گھر میں پیدل چل کر گیا۔ ان کا من جیتنے کی میں نے خاص طور سے کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اب چونکہ تم نے میری بات سن لی ہے، اب تم ہی بتاؤ کہ ان لوگوں کو جیتنے کا کون سا جتن کرنا چاہیے۔‘‘

جب ہندو مہاسبھا کے ستیہ گرہ میں شامل ہونے سے گاندھی نے کیا انکار

یکم فروری 1941 کو گاندھی جی نے کلکتہ کے منورنجن چودھری کو ایک خط لکھا۔ دراصل، یہ خط بنگال کے ہندو مہاسبھا کی جانب سے منورنجن چودھری کے لکھے گئے خط کا جواب تھا، جس میں گاندھی سے ان کے ایک ستیہ گرہ تحریک کی قیادت کرنے کو کہا گیا تھا۔ لیکن گاندھی نے اس تحریک کی قیادت کرنے سے انکار کر دیا۔ گاندھی کے اس خط میں بھی ساورکر کا ذکر ملتا ہے۔

گاندھی لکھتے ہیں، ’… ہندو مہاسبھا کے بہت کم ارکان عدم تشدد پر آستھا رکھتے ہیں۔ نہ تو شری ساورکر، نہ ڈاکٹر مونجے اور نہ ہی بھائی پرمانند عدم تشدد میں یقین رکھتے ہیں۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ اپنے آزاد خیال رکھنے کے حقدار ہیں۔ لیکن وہ ستیہ گرہ تحریک کی قیادت نہیں کرسکتے۔ میرے خیال میں اتنا تو وہ خود بھی قبول کرلیں گے۔ آپ کا یہ کہنا کہ اگر آپ کو میرا آشیرواد نہ ملتا تو آپ مہاسبھا کے رکن نہ بنے ہوتے، ہماری بات چیت کا کھینچ تان کر مطلب نکالنا ہوا۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں کہ کانگریس بے طاقت ہے اور مہاسبھا راحت فراہم کر سکتی ہے تو آپ کو اس کا رکن بننے کا پورا حق ہے۔‘

کانگریس کی میٹنگ میں ساورکر کا ذکر

گاندھی 8 اگست 1942 کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں دیئے گئے تقریر میں ایک جگہ کہتے ہیں، ’’ …کانگریس ایسی لڑائی میں شامل نہیں ہو سکتی جس میں بھائی بھائی کو مارے۔ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر مونجے اور شری ساورکر کی طرح تلوار کے نظریے کو ماننے والے ہندو مسلمانوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہیں۔ میں اس طبقے کی نمائندگی نہیں کرتا۔ میں کانگریس کی نمائندگی کرتا ہوں۔ آپ کانگریس کو، جو کہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے، مارنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کانگریس پر شک کریں گے ہیں تو یقین رکھیے، ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہمیشہ لڑائی ہوتی رہے گی اور مسلسل جنگ اور خون خرابہ ہی ملک کا مقدر ہوگا…. ‘

ساورکر کو گاندھی کا خط

22 مارچ 1945 کو گاندھی جی نے ونائک دامودر ساورکر کو خود ہی ایک خط لکھا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں، ’’بھائی ساورکر، آپ کے بھائی کے ’کیلاشواس‘ کی خبر دیکھ کر یہ لکھ رہا ہوں۔ ان کی رہائی کے بارے میں میں نے کچھ کیا تھا، تب سے ان کے بارے میں میں دلچسپی لیتا ہی گیا۔ موت کا سوگ تمہارے سامنے کیا کرنا تھا؟ ہم تو موت کے منہ میں پڑے ہیں نا۔ ان کا پریوار ٹھیک ہوگا۔‘

اس کے باوجود گاندھی کے قتل میں ملوث رہے ساورکر

سال 1948 میں مہاتما گاندھی کا قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کے ساتھ ہی یہ بات سامنے آئی کہ اس کے اصل سازشی ونائک دامودر ساورکر ہیں۔ انہیں اس قتل کے چھ دن بعد ہی ممبئی سے گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن انہیں فروری 1949 میں نچلی عدالت کے ذریعے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا گیا کہ ان کی سازش کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ’آزاد ثبوت‘ موجود نہیں ہے۔ کیونکہ قانون کہتا ہے کہ اگر سازش کو عدالت میں ثابت کرنا ہو تو اس کی تصدیق آزاد گواہوں کے ذریعے کی جانی چاہیے۔ یقیناً ایک انتہائی خفیہ طریقے سے رچی جانے والی سازش کا کوئی ’آزاد ثبوت‘ حاصل کرنا ایک ناممکن کام ہے۔ بہرحال قانون یہی تھا اور ساورکر گاندھی قتل کیس میں سزا پانے سے بچ گئے۔

حالانکہ ساورکر کے گاندھی کے قتل میں شامل ہونے کے بارے میں جسٹس کپور کمیشن نے 1969 میں اپنی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا کہ وہ اس میں شامل تھے، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ ساورکر کی 26 فروری 1966 کو موت ہوچکی تھی۔

***

 ’’ہندو مہاسبھا کے بہت کم ارکان عدم تشدد پر آستھا رکھتے ہیں۔ نہ تو شری ساورکر، نہ ڈاکٹر مونجے اور نہ ہی بھائی پرمانند عدم تشدد میں یقین رکھتے ہیں۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ اپنے آزاد خیال رکھنے کے حقدار ہیں۔ لیکن وہ ستیہ گرہ تحریک کی قیادت نہیں کرسکتے۔ میرے خیال میں اتنا تو وہ خود بھی قبول کرلیں گے۔‘‘
(گاندھی جی)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021