’رنج ہوتا ہے تو ایسا کہ بتائے نہ بنے‘

فرقہ پرستی کے الزام پر وسیم جعفر کو دلی تکلیف

(دعوت نیوز ڈیسک)

 

’’ملک کے لیے کھیلا مگر اب وفاداری کا ثبوت پیش کرنا پڑ رہا ہے‘‘
بھارت کا مسلمان عجیب کشمکش کا شکار ہے۔ اسے قدم پر قدم پر وفاداری اور حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ گویا اس کے گناہ گار ہونے کے لیے محض مسلم نام ہی کافی ہے۔ ان دنوں کچھ ایسا ہی سلوک گھریلو کرکٹ کے بے تاج بادشاہ اور رانجی ٹرافی کے لیجنڈ کہے جانے والے ممبئی کے بیٹسمین وسیم جعفر کے ساتھ ہوا۔ جب ان پر فرقہ پرستی کا الزام لگا۔ اس الزام کے بعد وسیم جعفر پر کیا بیتی وہ خود میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرا دل ٹوٹ گیا۔ سچ کہوں یہ میرے لیے بہت افسوس ناک ہے۔ میں نے پوری لگن اور خلوص کے ساتھ اتر اکھنڈ کے کوچ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ میں ہمیشہ مستحق امیدواروں کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ مجھے انتہائی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے بھی لڑائی لڑنی پڑتی تھی۔ سلیکٹروں کا اتنا زیادہ عمل دخل ہے کہ بعض اوقات غیر مستحق کھلاڑیوں کو بھی آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔‘‘ وسیم جعفر مزید کہتے ہیں کہ ’’یہ انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ ہے کہ انہیں فرقہ پرست ہونے کے الزامات پر اپنی صفائی دینی پڑ رہی ہے جبکہ انہوں نے اتر اکھنڈ کے کرکٹ کوچ کی حیثیت سے پورے لگن اور خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔‘‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ جب اتنی بڑی شخصیت کے ساتھ اس قدر ناروا سلوک کیا جا سکتا ہے تو عام مسلمانوں کو اپنی بے گناہی اور وفاداری ثابت کرنے کے آئے دن کتنے جتن کرنے پڑتے ہوں گے؟ اگر ایک مسلمان اپنی صلاحیت کی بنیاد پر ترقی کے منازل طئے کرتا ہے تو وہ اس کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ ملک کی اکثریت نے اسے اس مقام پر پہنچا کر گویا احسان کیا ہو۔ سابق نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری پر بھی کیے گیے احسانات ان دنوں خوب شمار کرائے گیے تھے جب انہوں نے اپنی کتاب میں بی جے پی کی حکومت کو آئینہ دکھانے اور پی ایم مودی کی حقیقت کو سامنے لانے کا کام کیا تھا۔
شاید بھارتی کرکٹ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب کسی مشہور ومعروف کرکٹر پر فرقہ پرستی کا الزام لگا ہو۔ دراصل اتر اکھنڈ کرکٹ اسوسی ایشن کے سکریٹری ماہم ورما نے دعویٰ کیا تھا کہ وسیم جعفر نے ان کے ساتھ کئی مرتبہ بد تمیزی کی اور وہ چاہتے تھے کہ سلیکشن کمیٹی ان کی پسند کی تائید کرے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ماہم ورما کہتے ہیں کہ ”میں یہ بات دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ انہیں کھلاڑیوں کے بارے میں سفارش کرنے کا حق ہے لیکن وہ کھلاڑیوں کی فہرست بھیج کر سلیکشن کمیٹی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں کھلاڑیوں کو سلیکٹ کیا جائے۔ ہم اپنی اسوسی ایشن میں کرکٹ کا اچھا ماحول بنانا چاہتے تھے اسی لیے ان کی خدمات حاصل کی تھیں۔” اگر بات یہی ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر ماہم ورما نے وسیم جعفر پر ٹیم میں مذہبی بنیادوں پر امتیاز برتنے اور فیلڈ میں مولویوں کو مدعو کرنے جیسے الزمات بھی لگائے۔ وسیم جعفر پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے امتیازی سلوک کرتے ہوئے اقبال نامی کھلاڑی کو ٹیم کا کپتان مقرر کیا۔
ان الزامات کے بعد اپنے ٹویٹ میں وسیم جعفر نے لکھا ’’میں نے جے بستا کو کپتان بنانے کا مشورہ دیا تھا لیکن سی اے یو کے افسروں نے اقبال کی حمایت کی۔ میں نے مولویوں کو نہیں بلایا۔ میں نے استعفیٰ دے دیا کیونکہ سلیکٹر اور سکریٹری نا قابل کھلاڑیوں کو منتخب کر رہے ہیں۔ ٹیم سکھ برادری کا ایک نعرہ لگاتی تھی، میں نے مشورہ دیا کہ اس کی جگہ ’گو اتر اکھنڈ‘ کا نعرہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘ وسیم جعفر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اگر واقعی وہ فرقہ پرست ہوتے تو وہ استعفیٰ نہ دیتے بلکہ انہیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا۔
اپنے استعفیٰ اور سی اے یو کے متعلق وسیم جعفر کہتے ہیں کہ ’’آخری دنوں میں ان لوگوں نے وجے ہزارے ٹرافی کے لیے مجھے بتائے بغیر سلیکشن مکمل کر لی۔ انہوں نے کپتان بدل دیا، گیارہ کھلاڑی بدل دیے، اگر ایسا چلے گا تو کوئی کیسے کام کرے؟ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ مجھے ٹیم کو سلیکٹ کرنا ہے، لیکن اگر آپ میری رائے نہیں لیں گے تو پھر میرے وہاں ہونے کا کیا مطلب ہے؟‘‘۔جبکہ دوسری طرف اتر اکھنڈ کرکٹ اسوسی ایشن وسیم جعفر پر بد نظمی اور من مانی کا الزام لگاتے رہے ہیں اور دیکھا جائے تو یہی ہوتا بھی ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے موقف ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں لیکن فرقہ پرستی کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔
آج جب وسیم جعفر کی شخصیت اور ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھایا گیا ہے تو ان کی حمایت میں بڑے کھلاڑیوں میں سوائے انل کمبلے، عرفان پٹھان اور منوج تیواری کے علاوہ کوئی دوسرا بڑا نام نظر نہیں آیا۔ جعفر کے ٹویٹ کے جواب میں سابق انڈین کرکٹر انل کمبلے نے لکھا کہ ’’میں آپ کے ساتھ ہوں وسیم، آپ نے صحیح کیا۔ بدقسمتی سے کھلاڑیوں کو آپ کی رہنمائی نہیں ملے گی۔‘‘
کرکٹر منوج تیواری نے اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ سے معاملے میں دخل اندازی کی گزارش کی۔ انہوں نے لکھا کہ ’’میں اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راوت سے گزارش کرتا ہوں کہ اس معاملے میں فوراً دخل دیں جس میں ہمارے قومی ہیرو وسیم بھائی پر کرکٹ اسوسی ایشن کی جانب سے مذہبی امتیاز کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں فوراً ایکشن لیا جائے۔ یہ وقت ایک نظیر قائم کرنے کا ہے‘‘۔
اب وسیم جعفر کس کس کو بتائیں کہ انہوں نے ملک کی خاطر بنگلہ دیش ٹیم کی بیٹنگ کوچ کی پیشکش سمیت کئی اچھے آفرز ٹھکرا دیے تھے۔ جن کے والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا ملک کے لئے کھیلے چنانچہ انہوں نے ملک کے لئے کھیل کر والد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ وسیم جعفر ملک کے کس کس گوشے میں جا کر یہ بتائیں گے کہ ان کے لیے اپنے کیریئر میں سب سے زیادہ یادگار لمحہ پاکستان کے خلاف 202 بنانا تھا۔
*کرکٹ کی دنیا میں وسیم جعفر کامقام*
وسیم جعفر کے نام ملک کے قومی کرکٹ رانجی ٹرافی میں سب سے زیادہ رن بنانے کا ریکارڈ ہے۔ 2018 میں جعفر رانجی ٹرافی میں 11,000 اور ایک مرتبہ 12,000 رن بنانے والے واحد بلے باز بنے تھے۔ جعفر نے 97-1996 میں رانجی ٹرافی میں ڈیبو کیا اور دو دہائی سے زیادہ وقت تک اس میں کھیلتے رہے۔ وسیم جعفر نے فرسٹ کلاس کیریئر میں 260 میچوں میں 50.67 کی اوسط سے 19410 رن بنائے جس میں 57 سنچریاں اور 91 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ اسکور 314 ناٹ آؤٹ رہا ہے۔ انہوں نے 299 کیچز بھی پکڑے ہیں۔ جعفر نے لسٹ اے میں 118 میچوں میں 4849 رنز اور 23 ٹی-20 میچوں میں 616 رن بنائے۔
گھریلو کرکٹ کے اس سرکردہ بلے باز نے ہندوستان کے لئے 31 ٹسٹ اور دو ون ڈے میچز کھیلے جس میں انہوں نے بالترتیب 1944 رنز اور 10 رن بنائے۔ جعفر نے ہندستان کے لئے اپنا ٹسٹ ڈیبو فروری 2000 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ممبئی میں کیا تھا۔ ان کا آخری ٹسٹ اپریل 2008 میں کانپور میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہی تھا۔ جعفر نے ٹسٹ میچوں میں پانچ سنچریاں اور 11 نصف سنچریاں بنائیں۔ ان کا سب سے بڑا اسکور 212 رنز تھا۔

رانجی ٹرافی میں وسیم جعفر کے کارنامے
سب سے زیادہ میچز (156)
سب سے زیادہ رنز (12038)
سب سے زیادہ سنچریاں (40)
سب سے زیادہ کیچز (200)
دلیپ ٹرافی میں سب سے زیادہ رنز (2545)
ایرانی کپ میں سب سے زیادہ رنز (1294)
ایک رانجی سیزن میں دو بار 1000 سے زیادہ رن

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021