رمضان ، اسکول و کالج اور کورونا وبا کا سایہ

مایوسی کے وائرس سے ملّت کا تحفظ ضروری

ابونقیب ، اُودگیر

 

رمضان کی پرنور فضا آب و تاب سے منور ہو چکی ہے۔ ہرمسلمان خوشی اور مسرتوں سے جھوم رہا ہے۔ پچھلے رمضان میں امت مسلمہ بہت مایوسی کے دور سے گزری تھی۔ سارے ملک میں سخت لاک ڈاون تھا، نمازوں اور تراویح پر پابندیاں تھیں۔ یہاں تک کہ عید کی نماز بھی گھر وں پر ادا کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اس مرتبہ سب امید لگائے بیٹھے تھے کہ رمضان کو پوری آب و تاب کے ساتھ گزارنے کا موقع مل جائے گا لیکن موجودہ صورتحال میں کورونا کا منڈلاتا سایہ پھر ایک بار مایوسی پیدا کر رہا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں میں اسکولس اور کالجز اپنی روش پر آنے لگے تھے، امتحانات کی تیاریاں بھی زوروں پر نظر آرہی تھیں لیکن اچانک اس وبا کے پھیلنے کے نتیجہ میں بیشتر جماعتوں کے امتحانات یا تو ملتوی کر دیے گئے ہیں یا منسوخ کر دیے گئے ہیں ۔
مسلم طلبہ کے سامنے ایک طرف رمضان کی آمد کی خوشی ہے تو دوسری طرف امتحان کے ملتوی ہونے کا غم۔ طلبہ کے امتحانات اگر مقررہ وقت پر انجام پا جائیں تو طلبہ تناو محسوس نہیں کرتے۔ملتوی یا منسوخ ہونے پر ایک طرح کا تناو ان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ اگر امتحانات ہو جاتے تو طلبہ رمضان کو مزید یکسوئی کے ساتھ مناتے۔ لیکن اب پڑھائی، امتحان کا تناو اور رمضان کی مصروفیات ان سب کو بہتر طریقہ سے منظم کرنا اب طلبہ کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اس پر مزید ملک کی مختلف ریاستوں میں لاک ڈاون کی مختلف شکلیں اور وبا کے پھیلاو کا خوف۔
رمضان کو تقویٰ اور پرہیزگاری کا مہینہ قرار دیا جاتاہے۔ رمضان انسان کو مشقت اور جدوجہد سکھاتا ہے۔ رمضان تربیت کا مہینہ ہے جو اس مہینہ میں مشقت، جدوجہد اور تقوی سیکھ لیتا ہے وہ کامیاب اور بامراد ہو جاتا ہے۔ اس کا فائدہ دو طرح کا ہے ایک تو خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور دوسرا ہمارے اندر وہ صلاحتیں پروان چڑھتی ہیں جو ہماری زندگی کو منظم اور مربوط بناتی ہیں جو ہماری زندگی میں نہ صرف حصول علم بلکہ حصول دولت میں بھی معاون ہوتی ہیں۔
اس مرتبہ طلبہ اگر مناسب منصوبہ بندی کریں تو اس وبائی ماحول میں بھی رمضان سے زیادہ فایدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
مایوس نہ ہوں
اس بات کا قوی امکان ہے کہ وبا کی شدت میں اضافہ کے ساتھ نوجوانوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے ان کے اپنے عزیز واقارب میں بعض کا بیماری میں ملوث ہوجانا اور ان میں بعض افراد کا لقمہ اجل ہو جانا نوجوان طلبہ کی ہمت توڑ سکتا ہے۔ ایک طرف سال بھر سے تعلیمی نقصان کی وجہ سے روشن مستتقبل سے متعلق ان میں بہت سے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔ اس پر مزید ستم کورونا اور لاک ڈاون کا ہو رہا ہے۔ فطری بات ہے کہ اس سے مایوسی پیدا ہو سکتی ہے۔ نوجوان اگر اس رمضان میں رجوع الی اللہ کو مضبوط کریں گے، روزہ، نماز اور صبر کو اپنا ہتھیار بناییں گے تو ایک طمانیت ان کے اند پیدا ہو گی۔ وہ اللہ کے فیصلوں پر صبر کرنا سیکھیں گے جو ان کی پوری کامیاب زندگی کے لیے شاہ کلید ثابت ہو سکتی ہے۔
خدمت کریں
رمضان انسانوں کی خدمت اور خبر گیری کا مہینہ ہے۔ اس پر کورونا کی ستم ظریفیوں نے انسانوں کو معاشی میدان میں اور صحت کے اعتبار سے کمزور کر دیا ہے۔ طلبہ اپنے وقت کا استعمال ضرورت مندوں کی حسب استطاعت دامے درمے سخنے مدد کر سکتے ہیں۔ رمضان میں دل بھی نرم ہو جاتا ہے اور نیکی کا ماحول بھی پروان چڑھتا ہے۔ ان سازگار حالات کا فائدہ اگر طلبہ اٹھائیں تو وہ اپنی زندگیوں ایک نئی اٹھان محسوس کریں گے۔
عقل کی سطح کو اونچا کیجیے
دوران رمضان بعض طلبہ امتحانات کے تناو سے پوری طرح آزاد نہیں ہوں گے۔ اگر وہ قرآن میں غور وفکر کرنا شروع کردیں گے تو ان کی عقل کی سطح میں اضافہ ہوگا۔ قرآن انسانوں کو غور وفکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ جتنا زیادہ قرآن پر غور وفکر کیا جائے گا اتنا ہی زیادہ ان پر اسرار ورموز کھلتے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں غور فکر طلبہ کی عقل کو صحیح رخ پر سوچنے کی تربیت کرتا ہے چاہے وہ سائنس کا طالب علم ہو یا ادب و معاشیات کا، ہر ایک کے لیے قرآن علم کے دروازے کھولتا ہے۔ طلبہ میں فیصلہ لینے یا کسی رائے پر پہنچنے سے پہلے عقل کے استعمال کی خوبی پیدا ہوتی ہے۔
عبادات میں یکسوئی پیدا کیجیے
اگر آپ رمضان اور لاک ڈاون سے گزر رہے ہیں تو عبادت میں یکسوئی کی طرف خاص توجہ دیجیے۔ فرائض، تراویح، تہجد اور نوافل کی کثرت کے ذریعہ ذہنی یکسوئی حاصل کیجیے۔ کوشش کیجیے کہ ہر نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ اور کامل یکسوئی کے ساتھ انجام دیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ اللہ کی رضاہے۔ اس کے علاوہ اس یکسوئی کے ذریعے سخت محنت کرنے اور مکمل یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کی خوبی پروان چڑھتی ہے جو حصول علم میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
جذبات پر قابو پانے کی کوشش کیجیے
رمضان کی تربیت کا اصل ہدف جذبات ہی ہیں۔ اگر انسان جذبات پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے تو خواہشات خود بخود اس کے تابع ہو جاتی ہیں۔رمضان میں اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ انسان جذباتی عدم استحکام کا شکار ہو جائے۔بھوک پیاس اور مشقت اس کے جذبات میں اشتعال بھی پیدا کر سکتی ہے لیکن روزہ کا احساس اس کو جذباتی ہونے سے روکتا ہے۔ اس کی مشق توجہ اور انہماک چاہتی ہے۔ طلبہ و نوجوانوں کا ایک بڑا مسئلہ جذباتی ہیجان بھی ہے۔ موجودہ کورونا کی بے یقینی صورتحال، لاک ڈاون اور اسکول وکالجز کا بند ہوجانا، نوجوانوں میں جذباتی ہیجان کا باعث ہوتا ہے۔ روزہ کی حلاوت سے اور قرآن کی تلاوت سے جذباتی ہیجان کو قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہنر کسی بھی نوجوان کی ترقی و ارتقاء میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔
سادگی میں لذت کی تلاش
ساری دنیا کے سرمایہ دار لذت کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں ۔”لذت” کے حصول کو مقصد زندگی یا طرز زندگی کے طور پر مشہور کیا جا رہا ہے۔ ہر طالب علم یا نوجوان کا مقصد لذت کا حصول بن گیا ہے۔ یہ لذت کھانے پینے کی اشیا میں بھی ہے اور آگے بڑھ کر جنسی تعلق میں بھی۔گویا لذت ہی زندگی ہے۔ رمضان کا یہ مہینہ لذت کی بے راہ روی سے بچنے کا مہینہ ہے۔ نوجوان مسالہ دار، تلی ہوئی یا فاسٹ فوڈ میں لذت محسوس کرتے ہیں اور دیوانہ وار اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں جو ان کی صحت کی خرابی کی وجہ بن جاتی ہے۔ فحاشی کی دنیا ان کو وقتی لذت کا احساس دلاتی ہے اور وہ گمراہ ہو جاتے ہیں۔ رمضان میں لذتوں کے حصول کو قابو میں کیا جا سکتا یے جس سے نہ صرف ان کی صحت اچھی ہوتی ہے بلکہ کردار میں بھی نکھار آتا ہے اور ایمان کی حلاوت محسوس ہوتی ہے۔
ہر لمحہ امتحان کا تصور
زندگی دراصل امتحان کا نام ہے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں جو زندگی عطا کی ہے وہ امتحان کا دورانیہ ہے۔ کالج اور اسکول کے باہر کی زندگی بھی ہر لمحہ امتحان ہے۔ ہر امتحان کامل درجہ کی یکسوئی، انہماک اور جدوجہد چاہتا ہے۔ بہت سے طلبہ امتحان کا تناو لے کر رمضان میں داخل ہوتے ہیں وہ روزہ کے ذریعے امتحان میں کامیابی کا ہنر سیکھ سکتے ہیں اور ہر لمحہ امتحان کے تیار ہونے کا احساس ان کو بڑی بڑی کامیابیاں دلا سکتا ہے ۔
دعاوں کا اہتمام کیجیے
اللہ تعالی نے انسان کو جو بیش بہا نعمتیں عطا کی ہیں ان میں دعا کی نعمت کا کوئی ثانی نہیں۔اللہ نے اپنے بندوں کو دعا کا موقع دے کر اپنے سے زیادہ قریب ہونے کا موقع عنایت فرمایا ہے۔ اس نعمت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رمضان میں خوب دعاوں کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اللہ کی مدد آسکے اور آپ نہ صرف دنیا کے امتحان میں کامیاب ہو جائیں اور آخرت کی کامیابی بھی آپ کا مقدر ہو جائے۔ آپ کی دعاوں سے یہ کرونا کی وبا سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔ اسکول و کالج کھل جائیں گے اور تعلیم کا آغاز ہو جائے گا۔

رمضان کی تربیت کا اصل ہدف جذبات ہی ہیں۔ اگر انسان جذبات پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے تو خواہشات خود بخود اس کے تابع ہو جاتی ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021