رمضان:فرد کے ایمانی ارتقا معاشی ترقی و غم خواری کا مہینہ

اجتماعی نظام زکوۃ کا قیام موجودہ معاشی بحران کا واحد حل

اسانغنی مشتاق رفیقیؔ، وانم باڑی، تمل ناڈو
برماور سید احمد سالک، ندوی

 

زکوۃ کی وصولی و تقسیم کے منظم میکانزم کی ضرورت۔اسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنلس کا جامع زکوۃ سروے
اسلام کے پانچ بنیادی فرائض میں زکوٰۃ ہی وہ واحد عبادت ہے جو انسانوں کو انسانوں سے براہ راست جوڑتی ہے۔ زکوٰۃ، رب کائنات کی طرف سے اپنے بندوں کو دیا گیا ایک ایسا معاشی نظام ہے جس کے ذریعے معاشرے میں وسائل اور دولت کی تقسیم میں جو اونچ نیچ انسانوں کی فطری کمزوریوں کی وجہ سے یا آپسی استحصال کے نتیجے میں پیدا ہو جاتی ہے اس کو آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے اور سماج میں معاشی مساوات قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جتنا زور اسلام کے دوسرے فرائض پر دیا جاتا ہے اتنا زکوٰۃ پر نہیں دیا جاتا۔ آئے روز ہمارے درمیان نماز، روزہ اور حج کے تعلق سے تو بے شمار وعظ و نصیحت کی محفلیں سجتی ہیں اور یہ ضروری بھی ہیں، لیکن زکوٰۃ کے معاملے میں خاطر خواہ سنجیدگی نہیں دکھائی دیتی۔ مزید یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ زکوٰۃ کو صرف رمضان کے ساتھ ہی عملاً وابستہ کیا گیا ہے حالانکہ زکوٰۃ کے لیے رمضان ہی نہیں بلکہ بنیادی طور پر سال کا مکمل ہونا ضروری ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے دور اول میں جب زکوٰۃ کا نظام مسلمانوں کے درمیان اپنی اصلی شکل میں جاری تھا تو ان پر خوشحالی اور دولت کی فراوانی کا ایک دور ایسا بھی آیا کہ معاشرے سے غریب اور مسکین مکمل طور پر ناپید ہو گئے۔ لوگ زکوٰۃ لے کر مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے لیکن زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔ سماج سے غربت یوں ختم ہو گئی تھی جیسے اس کا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو۔
موجودہ دور جسے سرمایہ دارنہ دور سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے انسانی تاریخ کا ایک ایسا دور ہے جس میں دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ ایک طرف دنیا بھر کی دولت سمٹ کر مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں منتقل ہوتی جا رہی ہے تو دوسری طرف انسانوں کا ایک جم غفیر دانے دانے کو ترس رہا ہے۔ بھکمری ایک وبا کی شکل میں پھیل رہی ہے۔ لوگ مادی وسائل کے حصول کی خاطر ایسے ایسے اعمال کے مرتکب ہو رہے ہیں جن کو دیکھ کر شیطان بھی شرما جائے۔ دولت کے انبار لگانے کو مقصد بنا کر انسانوں کا ایک گروہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پر جنگ تھوپ کر ان کا قتل عام کرر ہا ہے تو ایک اور گروہ اپنے مادی مفاد کے لیے رنگ نسل اور مذہب کے نام پر سماج میں تفریق اور دشمنی پیدا کر کے خانہ جنگی کا ماحول بنانے پر تلا ہوا ہے۔ انسانیت کا درد رکھنے والے دانشور اور خدمت گزار پریشان ہیں کہ انسانیت کو اس معاشی بحران کی سونامی سے کیسے بچایا جائے اور سرمایہ دارنہ نظام کے عفریت کے خونی پنجے سے کیسے انسانوں کو نجات دلائی جائے۔
نفسا نفسی کے اس ماحول میں سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ آسمانی کتاب کے حاملین خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں جن کے پاس انسانیت کے اس درد کا درماں ہے۔ ان میں کا ایک طبقہ خود سرمایہ دارنہ نظریات سے متاثر ہے تو ایک طبقہ دنیا بیزار، اپنے فرائض سے بے پروا اور اپنے آپ میں مست ہے۔ ایک اور دانشور طبقہ اندھی تقلید میں مبتلا، دنیا کے بدلتے ہوئے تیور سے لاعلم، شوگر، کینسر اور کرونا وائرس سے لاحق ہونے والی بیماریوں کو بھی نزلہ اور زکام کی دوائی دینے پر مصر ہے۔ ہزار سال پہلے دنیا جن مشکلات سے دوچار تھی ان کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دیے گئے زکوٰۃ کے مسائل اور ان کے حل کو موجودہ دور پر تھوپنے کی ضد نے نظام زکوٰۃ کو خود مسلمانوں کے درمیان مشکوک بنا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے سماج میں پائے جانے والی معاشی اونچ نیچ کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟
قرآن مجید نے زکوٰۃ کے تعلق سے واضح احکام دے دیے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (التوبہ : ۶۰)
ترجمہ: یہ صدقات تو بس فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن کے لیے جو ان پر عامل بنائے جائیں اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہے اور اس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے اور تاوان زدوں کی مدد کرنے میں، راہ خدا میں اور مسافروں کی بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب منافقین نے زکوٰۃ کے مصارف کو لے کر اعتراض کیا تھا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح لفظوں میں قیامت تک کے لیے اصول بتا دیا کہ زکوٰۃ کی رقم کن کن لوگوں پر خرچ کی جانی چاہیے۔
اول فقرا و مساکین ہیں۔ یہاں فقرا و مساکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے لیکن جن کے پاس مال کے نام پر کچھ نہیں ہوتا یا اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو اتنا کم کہ ضروریات کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ ان میں بھی فضیلت قریب کے لوگوں کو دینے میں ہے جیسے رشتہ دار، پاس پڑوس یا محلے اور شہر والے، ان کے بعد دوسروں کا نمبر آتا ہے۔
العاملین علیھا میں وہ تمام افراد آجاتے ہیں جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مامور ہوں، بالواسطہ یا بلا واسطہ اور وہ افراد بھی جو اس نظام میں کسی بھی قسم کی خدمت پر لگے ہوئے ہوں۔
مولفة قلوبھم کے تحت دعوت کے کام کا ایک وسیع عریض میدان ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ وہ افراد جو اسلام میں داخل ہو گئے لیکن اس کی وجہ سے معاشی بد حالی کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ افراد جو اسلام کے تئیں اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں جن کی اگر مدد کی جائے تو ممکن ہے وہ دعوت قبول کرلیں اور وہ افراد جن کی مدد کی جائے تو ان سے اسلام کی تبلیغ میں مدد مل سکتی ہے اور وہاں بھی اس مد میں خرچ کیا جاسکتا ہے جہاں سے مسلمانوں میں معاشی اور سیاسی استحکام پیدا ہونے کی امید ہو۔
فی الرقاب، یہ مد بھی اپنے اندر ایک وسیع میدان لیے ہوئے ہے۔ یہاں غلامی سے مطلب صرف جسمانی ہی نہیں ذہنی اور فکری غلامی بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس بنیاد پر اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ قرآن مجید کا ہر حرف قیامت تک کے لیے ہر دور میں رہنما ستارے کی طرح ہے۔ یہ کہنا یا سوچنا کہ اب جب کہ غلام اور غلامی دنیا سے ختم ہو چکی ہے اس مد میں خرچ کی ضرورت باقی نہیں رہی غلط ہے۔ فکری اور ذہنی غلاموں کی تعداد آج بہت ذیادہ ہے، ان کو اس غلامی سے چھٹکارا دلانا بھی ہمارا فرض ہے۔
الغارمین کے تحت موجودہ دور کی ایک بڑی آبادی آجاتی ہے جو قدرتی آفات سے یا ظالموں کے ظلم کی وجہ سے شدید معاشی نقصان سے دوچار ہوئی ہے۔ فساد کے متاثرین سے لے کر وبا کی وجہ سے معاشی نقصان میں مبتلا ہوئے افراد اور قرض کے بوجھ تلے کراہ رہے لوگ جو خود کشی جیسے حرام فعل کا ارتکاب کرنے پر بھی مجبور ہو رہے ہوں موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس مد کے تحت مستحق زکوٰۃ ٹھہرتی ہے۔
فی سبیل اللہ، دعوت و تبلیغ کا ہر شعبہ اس کی ذیل میں آتا ہے۔ اللہ کی طرف لے جانے والا ہر راستہ چاہے مدرسے کی شکل میں ہو یا کتابوں کی اشاعت کی شکل میں، انسانوں کی خدمت کی شکل میں ہو یا ان کی فلاح و بہبودی کے لیے ان سب کے لیے رب کائنات نے اس میں راہ واضح کی ہے۔
ابن السبیل یعنی مسافروں پر، ان کے زاد راہ سے لے کر نقل و حرکت کے لیے بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنا بھی اس کے تحت لایا جا سکتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ان آٹھ عنوانات کے تحت ایک ایسے معاشی نظام کو سمیٹ دیا ہے جس پر عمل کر کے کوئی بھی معاشرہ معاشی استحکام حاصل کر سکتا ہے۔
اسلام کے دور اول میں زکوٰۃ کا اجتماعی نظام اُسی نہج پر قائم تھا جس پر سید المرسلین محمد ﷺ نے چھوڑا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ قول کہ ’’ اگر یہ (مانعین زکوٰۃ) مجھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کریں جو وہ رسول اللہ کے زمانے میں دیا کیا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘ اسوہ رسول پر صحابہ کی ثابت قدمی کی شاندار مثال ہے۔ لیکن افسوس زمانے کے ساتھ ساتھ امت کا مزاج بھی بدلتا چلا گیا۔ زکوٰۃ کا اجتماعی نظام تاتاریوں کے حملے بعد باقی نہ رہا۔ انفرادی زکوٰۃ ادا کرنے کی ترغیب میں ایک پورے نظام کو زمیں بوس کردیا گیا وہ بھی ایسا کہ آج صرف اُس کا تصور ہی باقی رہ گیا ہے نہ اس کو پھر سے قائم کرنے کی کوئی کوشش ہوئی نہ کسی اللہ کے بندے کو یہ توفیق کہ اس نظام کو قائم کرنے کے لیے آواز بلند کرے اور امت کے سامنے کوئی لائحہ عمل پیش کرے۔ اگر کہیں سے اکا دکا آواز بلند بھی ہوئی تو وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ ایک ایسا نظام جو مسلمانوں میں ہر دور میں معاشی استحکام کا ضامن تھا اب ناپید ہے۔ اتنا ہی نہیں انفرادی زکوٰۃ کے نظام کو بھی تملیک کے بھول بھلیوں میں ایسا الجھا دیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کو لے کر عوامی فلاح و بہبودی کا کوئی واضح لائحہ عمل ہم دنیا کے سامنے پیش کرنے سے عملاً قاصر ہیں۔
اجتماعی زکوٰۃ کے تعلق سے یہ عذر لنگ پیش کیا جاتا ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے پاس ایسا کوئی اجتماعی ڈھانچہ نہیں ہے جو اس کے لیے معاون ثابت ہو۔ حالانکہ ہمارے پاس مساجد کی شکل میں ایک ایسا نظام موجود ہے جو اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بھی امت کو اکٹھا رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ ہر مسجد اپنے سے ملحق محلے کا ایک مضبوط مرکز ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر ایسی تمام مساجد میں بیت المال قائم کر کے شروعاتی طور پر، کُل نہ سہی جزوی اجتماعی زکوٰۃ کا نظام نافذ کر کے اس محلے میں، اگر استطاعت ہو تو پڑوسی محلے میں موجود افراد کی فلاح و بہبود کی کوشش کی جائے تو ہمارے معاشرے میں ایک خاموش معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔ بس کوشش شرط ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ممکن ہے ایک بڑے نظام کی طرف ہمارا یہ پہلا قدم ثابت ہوگا۔ اور اللہ رب العزت سے امید ہے کہ اگر ہم نے اس کے قائم کردہ حدود کی حفاظت اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے نہج پر شروع کی تو وہ ہم پر برکت و عافیت کے ساتھ ہماری حفاظت کے لیے غیب سے انتظام فرمائے گا۔ یقینا ایسا ممکن ہے اور یہ بات بھی اب پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ دور کا سرمایہ دارنہ نظام اپنی منطقی انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کی وجہ سے جو خلا پیدا ہو رہا ہے وہ ایک ایسے نظام کی تلاش میں ہے جو انسانیت کے درد کا مداوا رکھتی ہو اور دولت اور وسائل کی تقسیم میں منصفانہ طرز عمل کی وکالت کرتی ہو۔ اسلامی زکوٰۃ کا نظام ہی وہ واحد نظام ہے جو انسانی فطرت سے عین مطابق ہے۔ یہ نظام معاشرے میں پائی جانے والی غیر مساویانہ معاشی تقسیم کی حقیقت کا پول کھولتے ہوئے اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی اونچ نیچ کا مستقل حل پیش کرتا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اس نظام کو دنیا کے آگے پیش کرنے میں غفلت برتی تو نہ صرف آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی بلکہ کل قیامت کے دن خدا کے آگے جواب دہی کے سخت مرحلے سے بھی گزرنا پڑے گا جس میں ہماری گلو خلاصی شاید ہی ممکن ہو۔
یوں تو رمضان المبارک کا روزے اور قرآن سے گہرا تعلق ہے لیکن اس ماہ میں اجرو ثواب میں اضافہ کی وجہ سے مواسات اور ہمدردی کی خاطر عملاً زکوٰۃ بھی اس کے ساتھ جڑ گئی ہے۔ زکوٰۃ دین اسلام کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اقامت صلوٰۃ کا حکم ہے وہیں زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاکید ملتی ہے چونکہ یہ مالی عبادت ہے اس لیے صاحب ثروت پر ہی یہ فرض ہے۔معاشرے میں دولت کے کسی ایک کی جاگیر ہونے کے تصور کا خاتمہ زکوٰۃ کی منصفانہ تقسیم سے ہی ممکن ہے۔ نظام زکوٰۃ پر عمل کا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے میں مالداروں سے زکوٰۃ کی رقم لے کر غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے جس سے دولت کا توازن بھی برقرار رہتا ہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اجتماعی عبادت انفرادی عبادت کے مقابلہ میں زیادہ اجر کا باعث ہے۔ جب ہم نماز روزہ اور حج جیسی اہم عبادتیں اجتماعی طور پر انجام دیتے ہیں تو زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے بھی ایسے ہی اجتماعی نظم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے چنانچہ آجکل اس سمت میں کچھ پیش رفت ہو رہی ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کا قیام دور حاضر کا ایک بہت ضروری کام ہے۔ اسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنل نے 2019 میں ملک بھر میں زکوٰۃ سروے کیا تھا جس کا بنیادی مقصد عملی طور پر موجودہ مسلم معاشرے میں زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کی صورتحال کو سمجھنا تھا۔ سماج کے دانشوروں اور محققین اور ماہرین کی مدد سے ایک تفصیلی سوالنامہ تیار کیا گیا جو آن لائن بھی دستیاب تھا جس سے سماج کے مختلف طبقات و برادریوں تک رسائی ممکن ہو سکی۔ پھر اس سروے کی مدد سے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے متعلق جو معلومات حاصل ہوئیں اس کا تجزیہ کیا گیا۔ ہندوستان اور دنیا بھر کے 191شہروں سے 4589 لوگوں نے جوابات دئیے۔
زکوٰۃ کے متعلق جو اعداد وشمار حاصل ہوئے وہ انتہائی چونکانے والے تھے۔ اس لیے کہ 30فیصد لوگ ایسے تھے جنہیں زکوٰۃ اور اس سے متعلق کسی بھی چیز کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ۔ اندازہ ہوا کہ مسلم سماج کو پہلی فرصت میں اس اہم فرض سے واقف کروایا جائے۔
مجموعی طور پر 40فیصد سے زیادہ ایسے لوگ ملے جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں لیکن صحیح طریقہ سے زکوٰۃ کا حساب کتاب نہیں رکھتے۔ دو تہائی ایسے لوگ ملے جو سالانہ 20 ہزار روپے سے بھی کم زکوٰۃ نکالتے ہیں ان میں بھی 30 فیصد ایسے ہیں جو سالانہ 20 ہزار سے زیادہ زکوٰۃ نکالتے ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر جائیداد اور نصاب کا درست حساب کیا جائے تو زکوٰۃ کی رقم ہزاروں کروڑ روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
اسی طرح زکوٰۃ دینے والوں میں آدھی سے زیادہ آبادی ان لوگوں کی ہے جو سال میں حسب سہولت کبھی بھی زکوٰۃ نکالتے ہیں جب کہ 40 فیصد لوگ رمضان میں زکوٰۃ نکالنے کو پسند کرتے ہیں۔ سروے کے اس پہلو سے محسوس ہوا کہ صرف رمضان میں نہیں بلکہ سال بھر زکوٰۃ کی وصولی کے لیے کسی منظم میکانزم کی ضرورت ہے۔
60 فیصد سے زائد زکوٰۃ ادا کرنے والے ایسے لوگ ہیں جو اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ زکوٰۃ لینے والوں کی مالی حالت میں کچھ بہتری بھی آئی ہے یا نہیں۔ زیادہ تر یعنی 55 فیصد لوگوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں وہ بس اپنا فرض ادا کر کے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔
تین چوتھائی سے زیادہ یعنی 75 فیصد ایسے لوگ ہیں جو زکوٰۃ اپنے قریبی مستحقین تک پہنچانے میں یا مقامی سطح کے زکوٰۃ لینے والوں کو دیتے ہیں۔ صرف 15فیصد لوگ اپنی زکوٰۃ بیت المال یا کسی منظم اور منصوبہ بند طریقہ پر فلاحی کام کرنے والی تنظیموں کو دیتے ہیں جبکہ 10فیصد لوگ مدارس کو زکوٰۃ دیتے ہیں۔اسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنل کے سروے میں یہ بات نکل کر سامنے آئی ہے کہ لوگ مختلف مقاصد کے لیے زکوٰۃ دیتے ہیں۔ سروے سے محسوس ہوتا ہے کہ قوم کے لیے ضروری مدات میں تعلیم کے لیے اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے زکوٰۃ استعمال ہونا چاہیے تاکہ قوم کی معاشی اور تعلیمی دونوں ضروریات پوری ہو سکیں۔ مجموعی طور پر 70 فیصد لوگ اجتماعی نظام زکوٰۃ کے قائل ہیں جبکہ زائد از تین چوتھائی لوگ اجتماعی زکوٰۃ کے حق میں سخت موقف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اجتماعی نظم سے قوم کی بہتری ممکن ہے۔ 75 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے تعلیم، معاشی ترقی اور خود روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ عمومی طور پر لوگوں کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ کی وصولیابی اور اس کی تقسیم کے لیے باضابطہ میکانزم بنانے کی ضرورت ہے۔

ایک طرف دنیا بھر کی دولت سمٹ کر مٹھی بھرلوگوں کے ہاتھوں منتقل ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف انسانوں کا ایک جم غفیر دانے دانے کو ترس رہا ہے۔ بھکمری ایک وبا کی شکل میں پھیل رہی ہے۔ لوگ مادی وسائل کے حصول کی خاطر ایسے ایسے اعمال کے مرتکب ہورہے ہیں جن کو دیکھ کر شیطان کی شیطانیت بھی شرما جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021