دہلی فسادات: عدالت نے عمر خالد کو چارج شیٹ کی ای کاپی دینے پر اتفاق کیا

نئی دہلی، جنوری 6: لائیو لا کی خبر کے مطابق دہلی کی ایک عدالت نے کارکن عمر خالد کے خلاف فروری میں ہونے والے فسادات کے معاملے میں ان کے خلاف دائر چارج شیٹ کی ای کاپی انھیں دینے پر اتفاق کیا ہے۔

خالد نے عدالت کو بتایا ’’تقریبا 1.5 ڈیڑھ ماہ ہوگئے ہیں، لیکن مجھے اب تک پتا نہیں ہے کہ مجھ پر لگے الزامات کیا ہیں۔ یہ منصفانہ سماعت کے میرے حق کے خلاف ہے۔‘‘

عمر خالد کے وکیل نے عرض کیا کہ خالد سے ملنے کے لیے انھیں صرف آدھا گھنٹہ ملا ہے اور چارج شیٹ ہزاروں صفحات پر بنائی گئی ہے۔

دریں اثنا عدالت نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی سخت شقوں کے تحت گرفتار ہونے والے تمام ملزمان، جن میں خالد، شرجیل امام، آصف اقبال تنہا، دیونگنا کلیتا، نتاشہ نروال اور دیگر کی عدالتی تحویل میں 19 جنوری تک توسیع کردی۔

شرجیل امام نے کہا کہ تمام ملزمان کو ایک جیسی راحت (یعنی چارج شیٹ کی ای کاپی) دی جانی چاہیے۔ امام نے کہا ’’جب فسادات ہو رہے تھے، اس وقت میں جیل میں تھا۔ اس میں میرا کوئی کردار نہیں تھا۔‘‘

شرجیل امام نے مزید کہا کہ میں نے دو ماہ جیل میں میڈیا رپورٹس پڑھ کر اپنے اوپر لگے الزامات کے بارے میں قیاس آرائیوں میں گزارے۔

خصوصی سرکاری وکیل امت پرساد نے کہا کہ خالد کی درخواست پرکوئی خدشہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ چارج شیٹ کی ایک کاپی جیل کے کمپیوٹر پر دی جائے گی اور کارکن کو اس تک رسائی حاصل ہوگی۔

پیر کو خالد نے عدالت کو تفتیشی افسر سے یہ پوچھنے کے لیے کہا تھا کہ ان کے خلاف دائر ضمنی چارج شیٹ کو میڈیا کے سامنے کیسے منظر عام پر لایا گیا، جب کہ ابھی انھیں بھی اس کی کاپی نہیں ملی۔ کارکن اور اس کے وکیل نے اس طریقے پر بھی خدشات کا اظہار کیا تھا جس کے ذریعہ میڈیا کا ایک مخصوص طبقہ اس کے خلاف ’’شیطانی میڈیا مہم‘‘ چلا رہا ہے۔

دہلی فسادات کے معاملے میں عمر خالد کو یکم اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تشدد میں بڑی سازش سے متعلق ایک الگ مقدمے میں خالد کو ستمبر میں سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے 22 نومبر کو اس معاملے میں خالد اور طلبا کارکنان شرجیل امام اور فیضان خان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔

200 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں پولیس نے دعوی کیا ہے کہ خالد نے دہلی فسادات کو ’’دور سے کنٹرول کیا‘‘ تھا۔ دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنھوں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کیا۔

پولیس نے ان ’’سازشی‘‘ الزامات کی بنا پر متعدد کارکنوں اور طلبا کو گرفتار کیا ہے۔