دلی کے فسادات سے لکھیم پور کی گولی باری تک

قانون کو پیروں تلے روندنے والے عوامی احتجاجوں سے کیوں ہیں خائف؟ کپل مشرا سے اجےمشرا تک ۔۔ دھمکیوں کے یکساں سُر

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری کا معاملہ جسے راتوں رات رفع دفع کردیا گیا تھا اب مختلف جہتوں سے سر ابھارنے لگا ہے۔ کبھی عدالت عظمیٰ میں اس پر ہلچل ہوتی ہے تو کبھی اقلیتی کمیشن از خود جواب طلب کرتا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ گزشتہ ماہ اقبال سنگھ صاحب کو کمیشن کے منتظم اعلیٰ کے اہم ترین عہدے پر فائز کیا گیا اور اس کے بعد سےسکھوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ لکھیم پور کھیری میں کسانوں کی تحریک کے دوران سکھوں پرحملہ ہوا اور پھر ہریانہ میں اسے دُہرایا گیا۔ کمیشن نے اتر پردیش کے چیف سکریٹری سے تین دن میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ زیر سماعت ہے اس لیے اتر پردیش حکومت نے جو رپورٹ عدالت میں داخل کرنے کے لیے تیار کی ہے اسی کی ایک نقل کمیشن کو بھی روانہ کردی گئی ہوگی۔ ویسے یوگی سرکار اتنی حساس تو ہے نہیں کہ وہ عدالت عظمیٰ کی ڈانٹ پھٹکار یا کمیشن کی سرزنش سے شرم محسوس کرےگی۔
وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے وزیر داخلہ برائے امورِ داخلہ اجئے شرما کے بیٹے آشیش شرما کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاری الزامات کی بنیاد پرنہیں بلکہ ثبوت کی بنیاد پر ہوگی۔ اس اصول پر اگر انہوں نے کفیل خان کے معاملے میں عمل کیا ہوتا تو عدالت میں بار بارکی رسوائی سے بچ جاتے لیکن وہ تو اب ایسے ڈھیٹ ہوچکے ہیں کہ غلطی کو بار باردُہرانے میں عار نہیں محسوس کرتے۔ یوپی حکومت کے اس دُہرے رویہ کی وجہ سے کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نےالزام لگایا کہ لکھیم پور کھیری کیس میں سپریم کورٹ میں حکومت نے اپنے رویہ سے ثابت کردیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت قانون کو ٹائر کے نیچے روندنے والے مجرموں کو بچا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے جب حکومت سے پوچھا کہ اب تک کتنے لوگ گرفتار ہوئے تو اترپردیش انتظامیہ نے دو لنگڑے لولے بہانے کیے جس سے اس کی نیت میں خطرہ واضح ہوگیا۔
سرکار نے عدالت عظمیٰ میں بتایا کہ پیش ہونے کا نوٹس دیا گیا ہےحالانکہ قتل کےملزم کو نوٹس نہیں دیا جاتا بلکہ گرفتار کیا جاتا ہے ۔ یہ ملک کا پہلا معاملہ ہے جس میں ساتویں دن گرفتاری عمل میں آئی ۔ ملزم کی پیشی اور معاملے کی تحقیق کے بغیر اتر پردیش حکومت نے جائے وقوع پرگولی کے ثبوت کا انکار کردیا جو ملزمین کو بلا واسطہ کلین چٹ دینے کے مترادف ہے جبکہ اب تو دو زندہ کارتوس بھی پولیس کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے صاف کہہ دیا کہ اجئے مشرا کے بیٹے کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ اس جملے کے بعد یہ کہنا کہ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی کوئی قصور وار ہو تو اسے چھوڑیں گے نہیں چاہے وہ رکن اسمبلی کیوں نہ ہو، یہ بے جان فلمی مکالمہ منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ فسطائیوں کے لیے یہ تازیانہ عبرت ہے کہ آشیش مشرا کی گرفتاری نے ان کے دعویٰ کو غلط ثابت کر دیا ۔
اس دوران لکھنو میں پارٹی کی ایک اہم نشست میں ریاستی صدر سوتنتر دیو سنگھ نے ارکان اسمبلی کو زبان پر لگام دینے کی تلقین کی۔ اس نشست کے اندر پائے جانے والے اضطراب کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہےاجئے سنگھ شرکت کی خاطر لکھنو توپہنچے مگر حاضر ہونے کی ہمت نہیں کرسکے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ اب یہ معاملہ رفع دفع نہیں ہوا۔ وہاں موجود ارکان اسمبلی نے خیال پیش کیا کہ اب ترائی کے علاقہ میں بی جے پی کی دال آسانی سے نہیں گلے گی ۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا علاقہ نہیں ہے بلکہ اس میں 16 پارلیمانی حلقہ جات ہیں اور ان میں 13 پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی یعنی یہ اس کا گڑھ ہے۔ ان پارلیمانی حلقوں میں اسمبلی کے حلقوں کی تعداد تقریباً 5 گنا بڑھ جائے گی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آشیش مشرا کو پانچ دن بعد کرائم برانچ کےدفتر میں پیش ہونے کی زحمت دی گئی اس کے باوجود وہ وقت مقررہ پر حاضر نہیں ہوا۔ پولیس نے آشیش مشرا کے موبائل فون کو ٹریک کیا تو پتہ چلا کہ وہ کبھی یو پی نیپال بارڈر پر گوریفنٹا کے پاس تھا تھا تو کبھی اتراکھنڈ کے باجپورہ میں پایا جاتا تھا۔
در بدر بھاگتے پھرنے والا آشیش گرفتاری سے دو دن قبل گھرسے غائب ہوگیا ۔ ملک کا وزیر مملکت برائے داخلہ اپنے نورِ نظر کے بیمار ہونے کا گریہ کرتے رہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آخر وہ گھر یا اسپتال کے بجائے کیوں بھاگتا پھر رہا ہے۔ آشیش مشرا کا فرار ہوجانا ’چور کی داڑھی میں تنکا ‘ کے مترادف ہے۔ پولیس کے رویہ پر سپریم کورٹ نے گہری ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا، ملزمین کے خلاف فوری طور پر کارروائی کریں۔چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی پر مشتمل بنچ نے چار کسانوں سمیت آٹھ لوگوں کی ہلاکت کو ’وحشیانہ قتل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی مکمل حساسیت اور سنجیدگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے فوری طور پر جانچ کی جائے۔ اس تشدد میں اگر مسلمان مظلوم بھی ہوتے تو یوگی سرکار خوب پُھرتی دکھاتی مگر خود اپنی پارٹی کےمرکزی وزیر کےخلاف ان کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔
لکھیم پور کھیری تشدد معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ عدالت کو اس پر سخت موقف اختیار کرنا پڑا اسی لیے بادلِ ناخواستہ کلیدی ملزم اور مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا ٹینی کا بیٹا آشیش مشرا ساتویں دن منہ پر رومال باندھ کر پیچھے کے دروازے سے کرائم برانچ میں حاضر ہوا۔ اس کی حفاظت کے لیے پولیس تھانے میں سخت حفاظتی انتظامات کرکے اسے چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے چپہ چپہ پر پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے تھے۔ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اجے مشرا ٹینی کی گینگ کے لوگ اپنے چہیتے مونو بھیا کو چھڑا کر لے جاتے۔ ان کی بڑی تعداد نےاپنی عقیدت کا اظہار کرنے کی خاطر بی جے پی کے دفتر پر جمع ہوکر آشیش مشرا کے حق میں نعرے لگا ئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو دنگل میں تھا جبکہ موقع واردات پر دہشت گرد تھے۔ اس طرح کسانوں پر دہشت گردی کا الزام لگادیا گیا ۔
اس موقع پر اپنے حامیوں کو سمجھانے بجھانے کی خاطر خود وزیر مملکت اجئے مشرا کو جھروکے میں آکر کہنا پڑا کہ بیٹاتفتیش کی خاطر کرائم برانچ گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہے اگر ہوئی تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ یعنی وزیر موصوف اور پارٹی مظلوم کسانوں کی نہیں بلکہ ان کے قاتلوں کی ہمنوا ہے۔ اپنا یہ کریہہ چہرہ چھپانے کی خاطرریاستی سرکار اب تک تین مرتبہ انٹرنیٹ کی سہولت معطل کرچکی ہے۔8 اکتوبر سے قبل 5 اور 3 اکتوبر کو بھی یوگی سرکار ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹنے کی مذموم حرکت کرچکی ہے لیکن یوگی اور اجئے کی حمایت بھی آشیش مشرا کو جیل جانے سے نہیں بچا سکی اور بالآخر اسے جیل کی ہوا کھانی ہی پڑی۔ آشیش اور اس کے والد کہہ رہے ہیں کہ وہ جائے واردات پر موجود ہی نہیں تھا مگر اسے قتل، حادثے سے موت ، مجرمانہ سازش اور لاپروائی سے گاڑی چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ یہ الزام اس بات کی تردید کرتا کہ وہ جائے واردات کے بجائے دنگل میں تھا۔ آشیش کو گرفتار کرنے کی اصل وجہ عوام اور عدلیہ کا دباؤہے۔ اتر پردیش کی یوگی پولیس کا الزام ہے کہ آشیش نے تفتیش میں تعاون نہیں کیا اور کچھ سوالات کے جواب نہیں دے سکا ہے اسی لیے اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
کرائم برانچ میں آشیش کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا گیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طبی معائنہ کے لیے اس کو اسپتال لے جانے کے بجائے ڈاکٹر کو اس کی خدمت میں حاضر کیا گیا ۔ تفتیش تو صرف 12 گھنٹے چلی مگر اس دوران 14 مرتبہ چائے ناشتہ اندر گیا۔ اس دوران نہ صرف آشیش کا وکیل اودھیش سنگھ بلکہ وزیر موصوف کا نمائندہ اروند سنگھ سنجے بھی غیر جانبدارانہ تفتیش کی دھجیاں اڑانے کی خاطر وہاں موجود تھے۔ وہ لوگ کیا کررہے تھے یہ جگ ظاہر ہے مگر اس کے باوجود آشیش کا جیل جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ دھاندلی کی جو حد ہوتی ہے وہ اس کے آگے جا چکا تھا۔ اس گرفتاری میں اتنی تاخیر کی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ یہ ایسے وزیر مملکت کا چشم وچراغ ہے جو امورِ داخلہ کے لیے ذمہ دار ہے۔ دوسرے یہ معاملہ ایک ایسے صوبے میں پیش آیا جہاں قانون کے بجائے جنگل راج ہے۔آشیش کی گرفتاری میں تاخیرکی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس دوران 10 حلف نامہ اور 13 ویڈیوز جمع کرکے اس کی مدد سے آشیش کو بچانے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام رہی ۔
لکھیم پور کےلوگوں کا کہنا ہے کہ کسانوں کو کچلنے والی گاڑی کے پیچھے والی گاڑی میں وہ بذاتِ خود موجود تھا ۔ وزیر اور اس کے بیٹے نے اس حقیقت کا انکار تو کیا مگر ثابت نہیں کرپائے۔ ایس آئی ٹی کے 6 افسروں نے اس سے چالیس سوالات پوچھے کہ موقع واردات کے دوران وہ کہاں تھا لیکن وہ اطمینان بخش جواب نہیں دے سکا ۔ پولیس ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کی سانسیں اٹک رہی تھیں ۔ اس کے چہرے پر خوف ظاہر ہورہا تھا نیز شام 5 بجے جب گرفتاری کے آثار روشن ہوگئے تو اس کے چہرے کی رنگت بھی اڑ گئی ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ ظالم دراصل کس قدر بزدل ہوتے ہیں۔ وہ بے قصوروں و کمزوروں کی جان لینے میں تو بہت بہادری دکھاتے ہیں لیکن مختصر ہی سہی جیل میں وقت گزارنے کی نوبت آتی ہے تو ان کی ہوا نکل جاتی ہے۔ بی جے پی نے پہلے تو ایک ظالم کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کی مگر جب اس میں ناکام رہی تو اب گرفتاری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ لیکن اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل ان 15 سوالوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے جن کے سبب آشیش مشرا جیل میں چکی پیس رہا ہے۔
پہلا سوال: ’تشدد کے وقت تم کہاں تھے‘؟
جواب ’دنگل میں‘۔
دوسرا سوال: ’ بظاہر تم جائے واردات پر تھے تو تمہارے قافلے میں کتنی گاڑیاں تھیں‘؟
’میں دنگل میں ہی تھا۔ پتہ نہیں قافلے میں کون کارکن تھے‘
’تمہاری گاڑی میں کون کون تھے‘؟
’ڈرائیور ہری اوم تھا ۔ اس کے ساتھ اور کون تھا نہیں معلوم‘۔
’جس گاڑی میں تم تھے وہ کس کی تھی‘؟
’ سار میری تھی۔ میں اس میں نہیں تھا ۔ (بیزاری سے) ایک بات کتنی بار پوچھیں گے‘؟
پھر پوچھا گیا ’گاڑی میں تم کدھر بیٹھے تھے اور گاڑی کون چلا رہا تھا‘؟
’ مجھے نہیں معلوم ، میں نہیں تھا بس‘۔اب اگر وہ تھا ہی نہیں تو معلوم نہیں کا کیا مطلب؟
اگلا سوال’ جب تمہاری گاڑی جائے واردات پر پہنچی تو مجمع کتنا تھا‘؟
’آپ لاکھ بار پوچھ لیجیےہم ایک ہی جواب دیں گےجائے واردات پر ہم موجود نہیں تھے‘ ’وہاں کیا ہوا ‘۔’کچھ نہیں پتہ۔ معلومات بعد میں ملیں‘۔
یہ جواب درست ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسانوں کو کس بنیاد پر دہشت گرد کہا جارہا ہے؟ یہ جوابات بی جے پی کی جانب سے پھیلائے جانے والا جھوٹ کہ کسان نہیں فسادی تھے، کی نفی کرتے ہیں ۔
اگلا سوال ’ بھیڑ سڑک پر کیا کررہی تھی کیا تمہاری گاڑی کو روک رہی تھی‘؟
’پتہ نہیں‘ ۔
’جب پہلا آدمی گاڑی سے ٹکرایا تو گاڑی کو کیوں نہیں روکا‘؟
میں ہوتا تو روکتا۔ جب تھا ہی نہیں تو کیسے روکتا۔ ڈرائیور نے ایسا کن حالات میں کیا پتہ نہیں ۔
اب اگلا دلچسپ سوال دیکھیں
‏تمہارے پاس لائسنس والا اسلحہ ہے یا نہیں؟ تمہارے ساتھ گاڑی میں کس کس کے پاس لائسنس والا ہتھیار تھا۔
جواب: نہیں پتہ۔
کیا یہ بات قابل فہم ہے کہ انسان کو یہ پتہ نہ ہو کہ اس کے پاس ہتھیار ہے یا نہیں یا اس کے پاس اس کا لائسنس ہے یا نہیں؟ شاید وکیلوں کو اس سوال کی توقع نہیں تھی اس لیے اسے اس کا جواب نہیں سُجھایا اور ملزم لاجواب ہوگیا۔
فائرنگ کی آواز گاڑیوں سے کیسے آرہی تھی؟
جواب: ہمیں نہیں معلوم ۔ بار بار ایک ہی سوال کیوں پوچھ رہے ہیں آپ لوگ؟
جائے واردات کی ویڈیوز تو تمہاری موجودگی ثابت کرتی ہیں؟
وہ تمام ویڈیوز غلط ہیں۔ میں جو ویڈیو دے رہا ہوں وہ صحیح ہے۔ جب وہ وہاں نہیں تھا تو سوال یہ ہے کہ یہ ویڈیو کہاں سے آئی اور ایک غلط اور دوسرے کے درست ہونے کی بنیاد کیا ہے؟
سوال: اگر تم وہاں موجود نہیں تھے تو ایف آئی آر کے بعد روپوش کیوں ہوگئے اور نوٹس کے بعد بھی کیوں نہیں حاضر ہوئے؟
میں دلی میں تھا پہلا جھوٹ۔ دوسرا میڈیا سے رابطے میں تھا۔ تیسرا نوٹس کی اطلاع تاخیر سے ملی۔ یعنی ساری دنیا کو اطلاع مل گئی۔ چوتھا جھوٹ یہ کہ طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس کی تردید سرکاری ڈاکٹر نے کردی ورنہ وہ جیل جانے کے بجائے اسپتال جاتا۔
آخری تین سوالات نے آشیش کی جیل یاترا پر مہر لگا دی۔ تم کس بنیا دپر دعویٰ کرتے ہو کہ جائے واردات پر نہیں تھے؟
دنگل اور گاوں والوں کی ویڈیو اور حلف نامہ کی بنیاد پر۔ آپ جانچ کرلیں تو سچائی سامنے آجائے گی کہ میں گاوں میں تھا ۔
آخری مشکل سوال یہ تھا کہ تمہارے دعویٰ اور پیش کردہ ثبوتوں پر پولیس کیوں بھروسہ کرے؟ جبکہ تم نے اب تک کوئی تعاون ہی نہیں کیا؟
اس سوال نے گویا گرفتاری طے کردی اب اس کا یہ جواب سامنے آیا کہ پولیس نے جیسے ہی بلایا میں حاضر ہوگیا۔ یہ بات غلط ہے۔ اول 6 دن بعد بلایا گیا اور وہ ساتویں دن حاضر ہوا۔ یہ بھی کہا گیا کہ جب بھی میرے تعاون کی ضرورت پڑے گی تعاون کروں گا۔ قتل جیسے سنگین الزامات میں بھی اگر تعاون کی یقین دہانی پر لوگوں کو چھوڑ دیا جائے تو جیل کا بوجھ بہت گھٹ جائے گا لیکن یہ سہولت صرف وزیر کے بیٹے تک کیوں محدود ہو؟ جبکہ وہ خود کہہ رہا ہے کہ میں ایک رہنما بیٹا اور تاجر ہوں، یعنی وہ شواہد کو مٹا سکتا ہے اس لیے اس کی ضمانت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ آشیش نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ مجرم نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی ۔ وہ یا اس کے والد بلکہ وزیر اعلیٰ بھی نہیں کرسکتے۔
اس معاملے میں انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ پر دباو بنانے کی خاطر سنیکت کسان مورچہ نے اس سال دسہرہ کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے پتلے جلانے کا اعلان کیا ہے۔ کسان مورچہ نے الزام لگایا کہ لکھیم پور واقعہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت رونما ہوا ، لہٰذا اجئے مشرا کو برطرف کر کے بیٹے آشیش مشرا مونو کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ ان میں سے ایک مطالبہ پورا ہوگیا دوسرا باقی ہے۔ اس کے علاوہ 12 اکتوبر کو کسانوں کی استھی نکالنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ کلش اتر پردیش کے ہر ضلع میں جائے گا اور دوسری ریاستوں میں بھی کلش یاترا نکالی جائے گی نیز 18 اکتوبر کو پورے ملک میں ریل روکو مہم پروگرام اور 26 اکتوبر کو لکھنؤ میں ایک مہا پنچایت منعقدکرنے کا اعلان بھی کیا گیا ۔
لکھیم پور تشدد کے بعدبھارتیہ کسان یونین اُگرہن کے سربراہ جوگندر سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت نے تحریک کو بدنام کرنے کی تمام کوششیں کیں لیکن ناکام رہی۔ ایک اور کسان رہنما درشن پال کا الزام ہے کہ 25ستمبر کواجئے مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے نتیجے میں 3 اکتوبر کو تشدد برپا کیا گیا تاکہ ملک بھر میں خوف و ہراس کا ماحول بنایا جا ئےلیکن وہ بھی ناکام ہوگیا ۔ کسان رہنما حنان ملا نے الزام لگایا کہ جہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے وہ آر ایس ایس کے ساتھ مل کر تشدد کو بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان الزامات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی نے دلی میں اسی حکمت عملی پر عمل کر کے فساد برپا کروایا تھا ۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے ’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘ کا اشتعال انگیز نعرہ لگایا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی رہنما کپل مشرا نے سی اے اے مظاہرین کو ہٹانے کی کھلے عام دھمکی دی تھی ۔
اجئے مشرا میں یہ دونوں صفات جمع ہو گئی ہیں ۔ وہ مرکزی وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ مشرا بھی ہیں۔ انہوں نے بھی چند روز قبل منٹوں میں کسانوں کو سبق سکھانے کی دھمکی دی اور یاد دلایا کہ وہ رکن اسمبلی یا پارلیمان بننے سے قبل کیا تھے یعنی دبنگائی کرتے تھے۔ دلی میں فساد کے بعد فسادیوں کے بجائے الٹا حکومت کے خلاف برسرِ پیکار نوجوانوں اور طلبا کو گرفتار کرلیا گیا ۔ اس طرح سی اے اے کی تحریک کو توڑ کر نوجوان مسلم اقلیت کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ لکھیم پور میں سکھ اقلیت نشانے پر ہے ۔ ان کے مظاہرے کو بہانہ بناکر کسانوں پر ظلم کرنے کے بعد خود انہیں کو فسادی اور دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے ۔ اس طرح گویا دلی ماڈل کو دُہرایا گیا ہے لیکن اس طرح نہ سی اے اے کے خلاف مزاحمت ختم ہوگی اور نہ کسانوں کی تحریک رکے گی بلکہ بہت ممکن ہے کہ یہ سیل رواں اس فسطائی حکومت کو لے ڈوبے۔
غرق ہوتے جہاز دیکھے ہیں
سیل وقت رواں سمجھتا ہوں
***

 

***

 لکھیم پور کھیری تشدد معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ عدالت کو اس پر سخت موقف اختیار کرنا پڑا اسی لیے بادلِ ناخواستہ کلیدی ملزم اور مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا ٹینی کا بیٹا آشیش مشرا ساتویں دن منہ پر رومال باندھ کر پیچھے کے دروازے سے کرائم برانچ میں حاضر ہوا۔ اس کی حفاظت کے لیے پولیس تھانے میں سخت حفاظتی انتظامات کرکے اسے چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے چپہ چپہ پر پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے تھے۔ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اجے مشرا ٹینی کی گینگ کے لوگ اپنے چہیتے مونو بھیا کو چھڑا کر لے جاتے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021