داغؔ دہلوی کے حقیقی جانشین : نوحؔ ناروی

موضوعات عشق کے نئے علاقوں کی سیر کرانے والا شاعر

ابوالحسن علی بھٹکلی

نوحؔ ناروی اردو کے ایک ممتاز شاعر تھے جنہیں فصیح الملک داغؔ دہلوی مرحوم سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ وہ داغ دہلوی کے مشہور و معروف شاگرد تھے۔
وہ یکم شوال مطابق 18 ستمبر 1879 کورائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام مولوی عبدالمجید تھا۔جب ان کی عمر چار سال کی تھی تو والد کا انتقال ہو گیا۔ نوحؔ صاحب نے نارے کی ایک مشہور شخصیت حافظ قدرت علی سے قرآن پڑھا۔پھر فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ اکثر میر نجف علی صاحب نجفؔ کے پاس پڑھنے جاتے تھے ان کے یہاں بیشتر شعر و شاعری کا چرچا رہتا تھا کبھی کبھی لوگ کلام سننے اور اصلاح لینے کے لیے آ جاتے تھے۔ ایک رات انہوں نے نئی زمین مین غزل کہی اور صبح کو جب نوحؔ صاحب سبق پڑھنے کو گئے تو نہیں معلوم کیا سمجھ کر انہوں نے ان کو وہ غزل سنائی چونکہ غزل لاجواب تھی اس کے سننے سے ان کے دل پر خاص اثر ہوا اور مکان پر آ کر یہ سوچنے لگے کہ اگر میں یہ شعر کہنا چاہوں تو کیا نہیں کہہ سکتا ہوں؟ طبیعت نے جواب دیا کہ ممکن ہے ناممکن نہیں۔ بس اسی دن سے یہ شعر کہنے لگے اور سب سے پہلے ان کی زبان سے یہ مطلع نکلا۔
کیوں جائے بار بار نہ قاتل کے سامنے
پھرتی ہے شکل موت کی بسمل کے سامنے
یوں دو تین دن میں غزل پوری کر لی۔ اسی طرح رفتہ رفتہ دس بارہ غزلیں ہو گئیں مگر لحاظ کے سبب سے یہ میر صاحب کی خدمت میں نہ پیش کر سکے نہ اس کا ذکر کسی سے کیا۔منشی اکبرؔ حسین اکبرؔ ناروی نے ایک بار نوح ناروی سے کلام سن کر بے ساختہ کہا کہ سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ابتدا میں اکثر شعر لوگ ناموزوں کہہ جاتے ہیں مگر ان شعروں میں کوئی نا موزوں نہیں ہاں غلطیاں ضرور ہیں جو اصلاح سے درست ہو جائیں گی۔ ایک دن انہوں نے ڈرتے ڈرتے ایک غزل اصلاح کے لیے نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی کی خدمت میں بھیجی۔ جب یہ غزل اصلاح ہو کر واپس آ گئی تو نوحؔ صاحب داغؔ دہلوی کے شاگرد ہو گئے ۔ جب حضرت داغؔ سے اصلاح لیتے ہوئے نوحؔ صاحب کو دو تین سال ہو گئے اور بہت سی باتیں شاعری کے متعلق انہیں معلوم ہو چکیں رات دن استاد کے دوا دین کے سامنے رہنے لگے اور فرصت کے وقت بیش تر اشعار پر نگاہ ڈالی جانے لگی۔ اپنی زبان کو بہتر کرنے کے لیے انہوں نے داغ کے تمام مجموعہ کلام جیسے ’ گل زار داغؔ، آفتابِ داغؔ، فریادِ داغؔ اور مہتاب داغؔ کو زبانی یاد کرنا شروع کر دیا۔ پھر ان میں داغ سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔ اور والدہ کی اجازت لیے بغیر وہ استاد حضرت داغؔ کے درِ دولت پرپہنچ گئے۔ یہاں ان کی والدہ اپنے اکلوتے کے گم ہوجانے سے بہت پریشان ہوئیں۔متعدد اخباروں میں گم شدگی کی اطلاعات شائع ہوئیں لیکن جب داغ تک اس بات کی اطلاع پہنچی تو نوح صاحب نے استاذ سے روانگی کی اجازت مانگی۔
اس کے بعد پھر کچھ دنوں بعد اپنی والدہ صاحبہ سے اجازت لے کر نہایت اطمینان کے ساتھ نوح ناروی دکن آئے ا ور یہاں پر اصول وضوابط اور تغیر وتبدل سے ترقی شعر یہ سب باتیں روز بروز ذہن نشین ہونے لگیں اور معلومات میں بھی وسعت پیدا ہوئی۔
جب قیام کو بہت دن ہو گئے تو نوحؔ صاحب کی والدہ نے ان کی طلبی میں خطوط بھیجنے شروع کر دیے اگرچہ حضرت داغؔ کی پر لطف حضوری ایسی نہ تھی جس کی قدر یہ نہ کرتے لیکن مجبور ہو کر انہوں نے استاد سے اجازت چاہی۔ کئی بار کہنے سنے سے بمشکل اس شرط پر راضی ہوئے کہ جلد واپس آنا مگر اس اجازت کو بھی کئی ہفتے گزر گئے نہ یہ آنا چاہتے تھے نہ انہیں منظور تھا۔ آخر کار جب یہ یقین ہو گیا کہ ان کے اعزا اور بالخصوص ان کی والدہ سخت متردد اور پریشان ہیں تو روانگی سے پہلے کے اہتمام سے تصویریں کھچوائیں اور کچھ تحفے تحائف دے کر روانہ کیا۔ روانگی کے وقت یہ کب خیال تھا کہ اب استاد سے دوبارہ ملاقات نہ ہو گی اور آئندہ کے ارمان سب خاک میں مل جائیں گے اور یہ صحبتیں ہمیشہ کے لیے خواب وخیال ہو جائیں گی۔داغؔ دہلوی کے انتقال کے بعد ان کی جانشینی کو لے کر کافی جھگڑے تھے۔ بالآخر یہ طئے پایا کہ جانشینی کسی ایک کو نہیں بلکہ قابل اور مستحق شاگردوں کو جانشین قرار دیتے ہوئے اسناد پیش کیے گئے، جن میں اول نام نوح ناروی کا رہا۔داغؔ کے شاگرد تقریباً چار سو سے زیادہ ہیں۔ جن میں سے اکثر میں سے خود صاحب دیوان و صاحب تلامذہ تھے۔ نوح ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے تخلص کو اپنی شاعری کی صورت گری میں بہت جگہ دی ہے ۔ ’سفینہ نوح ، طوفان نوح ، اعجاز نوح ، وغیرہ ان کے مجموعہ کلام ہیں۔ نوحؔ کی شاعری میں جگہ جگہ طوفان اور اس کے متعلقات کا ذکر بھی ملتا ہے ۔ نوحؔ ناروی کی وفات 10 اکتوبر 1962 میں ہوئی۔ذیل میں ان کے کلام کے نمونے پیش کیے جا رہے ہیں ۔
منتخب کلام
جفا و رشک کے سہنے کے قابل ہو نہیں سکتا
مرا دل ہو بھی،ہوسکتا ہے ترا دل ہو نہیں سکتا
عزیزِ خلق بننے کو وفا کی بھی ضرورت ہے
فقط پہلو میں ہونے سے کوئی دل ہو نہیں سکتا
وفا سے اس کو مطلب ہے جفا سے واسطہ اس کو
جنابِ نوحؔ کا دل آپ کا دل ہو نہیں سکتا

دل میں ارمان بھی ہے شوق بھی ہے ذوق بھی ہے
اس بھرے گھر کو وہ کیا خانہ ویراں سمجھا
خوف سے دوسرے دیوان کی غزلیں نہ پڑھیں
نوحؔ طوفان کو وہ نوحؔ کا طوفاں سمجھا

سوال وصل پہ عذر وصال کر بیٹھے
وہ کس خیال سے ایسا خیال کر بیٹھے
اب آؤ مان بھی جاؤ جو کچھ ہوا وہ ہوا
ذرا سی بات کا اتنا ملال کر بیٹھے

محفل میں تیری آ کے یوں بے آبرو ہوئے
پہلے تھے آپ، آپ سے تم ،تم سے تو، ہوئے

بزمِ سوز و ساز میں یہ بھی ہے دل سوزی کوئی
سیکڑوں پروانے جل جائیں کریں پروانہ ہم

غم ہو یا عیش جیتے جی تک ہے
زندگی شغلِ زندگی تک ہے
خوب رو ہو گا کیا کوئی ایسا
آپ کی بات آپ ہی تک ہے
تیر نکلے ہوئے زمانہ ہوا
زخم دل میں مگر ابھی تک ہے
حضرتَ داغؔ دہلوی کی زباں
حضرتِ نوحؔ ناروی تک ہے

طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہ
دو اشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں

آپ جن کے قریب ہوتے یں
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں
ظلم سہہ کر جو اف نہیں کرتے
ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں
***

 

***

 داغؔ دہلوی کے انتقال کے بعد ان کی جانشینی کو لے کر کافی جھگڑے تھے۔ بالآخر یہ طئے پایا کہ جانشینی کسی ایک کو نہیں بلکہ قابل اور مستحق شاگردوں کو جانشین قرار دیتے ہوئے اسناد پیش کیے گئے، جن میں اول نام نوح ناروی کا رہا۔داغؔ کے شاگرد تقریباً چار سو سے زیادہ ہیں۔ جن میں سے اکثر میں سے خود صاحب دیوان و صاحب تلامذہ تھے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021