’’خیالستان کی سیر‘‘

انسان، خیالات کے اطراف اٹھائی گئی اونچی فصیلوں کا قیدی ہے

نعیم جاوید

یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُو الْاَلْبَابِ (2:269)
‏’’وہ (اللہ) جس کو چاہتا ہے سمجھ دے دیتا ہے، اور جسے سمجھ دی گئی تو اسے بڑی خوبی ملی، اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں‘‘۔
حکمت اساس نکتہ جس روپ میں آئے وہ ’’خیال‘‘ کی دنیا کا سفیر ہو گا۔ وہی حکمت ماٰب خیال جب اقدامات سے جڑ جائے تو حیات کا حسن پوری آب و تاب سے ہماری دنیا میں اتر جاتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ بنیادی طور پر خیال کیا ہے؟ کیا خیال کی اکہری شکل و صورت کو ٹٹولنا ممکن ہے ؟ کیا خیال باندھا جا سکتا ہے؟ ویسے خیال کہتے کسے ہیں؟۔ کیا ہے جو باہر سے اندر گھس آکر ہنگامہ کرتا ہے ؟ یا اندر سے باہر ہمارے پانچوں حواس کی سواری یا پالکی میں سیر کو نکلتا ہے؟ کیا Thought dynamics کو سمجھنا ضروری ہے؟ کیا یہ موضوع آسان ہے؟ میں کہتا ہوں کہ ہاں! اس موضوع کا پہلے سرسری تعارف بہت ضروری ہے۔ گہرائی میں اُتریں تو پھر ڈھیر سارے موتیوں کی دولت ملے گی۔ لیکن سرسری تعارف کے بغیر گزارہ نا ممکن ہے۔ یہ ایک ایسی ذہنی سرگرمی ہے جو ایک رائے تراشتی ہے۔نیوران دماغ کی راہ داریوں پر کیمیکل جاری کرتے ہیں جسے neurotransmitter نیورو ٹرانسمیٹر کہا جاتا ہے جو دیگر نیوران میں یہ بجلی کے سگنل تیار کرتے ہیں۔ بجلی کے اشارے ہزاروں نیوران میں لہر کی طرح پھیلتے ہیں، یہ سرگرمی سوچنے کی صورت گری کرتی ہے۔neurological pathwayکی شاہ راہ پر کئی Trillion نیوران خیال کی تخلیق، پرورش، تحفظ، توسیع، ترتیب میں جٹے رہتے ہیں۔ جب نیوران فائر ہوتے ہیں تو خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر خیال حقیقت نہیں ہوتا۔ ہر توہّم صداقت نہیں بنتی۔ لیکن خیال کے خدو خال یا بدن ٹٹولیں تو ہماری ہار،جیت کے بڑے رازچھپے رہتے ہیں۔کیوں کہ ہم اکثر ایک خیال کے فاصلے پر ہار چکے ہوتے ہیں۔ یا اپنائے ہوئے خیال کی قربت سے جیت جاتے ہیں۔
ہم اپنے خیالستان کے ایسے سرپھرے بادشاہ ہیں جو کبھی بلاجواز اپنے ہی سپاہی کو پھانسی دے دیتے ہیں۔ ہم اپنی دنیا کی ایسی ماں ہیں جو اپنے ہی بچہ کو مار ڈالتی ہے۔ جیسے ٹال مٹول کا بہانہ ایک خیال ہی تو ہے جس کے ہم اکثر تھوک کے تاجر بنے رہتے ہیں۔ ہم اپنے آوارہ خیالات کی جھڑتی لینے سے پہلے اکبر الہٰ آبادی کے شعر کی اوٹ میں ایک شکست خوردہ ذہنیت کے خیال سے لطف اٹھاتے ہیں۔
ہوگیا فیل امتحانوں میں
اب ارادہ ہے بدمعاشی کا
اس کا مطلب یہ ہے کہThought بھی صحت افزا یا بیماری فروغ ، Toxic اور Thought virus ہوتا ہے ۔ تو پھر آج خیال کی گتھی سلجھا نا ضروری ہوگیا۔ ہم برے Thought کو misguided missile مان کر چلتے ہیں۔اس لیے کہ ہمیں آج سے خیال کی فوجی اور جنگی مشقیں کرنے میدان میں اترنا ہے ۔
ہماری پیدائش سے پہلےDynamics,Family ، Word Dynamics, Social Dynamics سب کچھ زمین کی بستی پر طئے ہو چکا تھا۔ اس لیے ہر نو مولود کو اس دنیا میں Thought dynamics سیکھنا اور سیکھ کر یہ جگ جیتنا بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم Universe میں رہتے ہیں۔ یونی یعنی ایک ورس یعنی گیت۔ ہم سب ایک ہیں۔ ایکائی میں جڑے ہوئے۔
اگر ہم Thought dynamics کو سمجھ سکیں تو Dynamics of Learning سمجھ سکیں گے۔خیال سے کمال اور لازوال بننے تک کا سفر آسان ہوجائے گا اور بہترین Life skills سیکھ سکیں گے۔ کیوں کہ خیال جو بظاہر نظر نہیں آتا ہے ۔ یہ ہوا WIND کی طر ح ہوتا ہے۔۔جیسے ہوا کا اثر درختوں اور پورے ماحول پر اثر۔ وہی جو بظاہر یہ نظر نہیں آتا ہے لیکن ہوا ہے تو سب کچھ ہے۔اسی طرح خیال بھی ہمارے بدن پر ہوا کی طرح اثر انداز رہتا ہے۔ psychosomatic کی پوری دنیا یعنی خیال کا بدن پر اثر ہونے والی بات جیسے مسرتیں، افکار، امراض اور مہمات سب خیال کی دنیا کے سبب ہے۔
اس اصول کے تحت ہمارا پاوں نہیں خیال چلتا ہے۔ ہمارے جسم سے تصورات کی صورت گری ہوتی ہے۔ بلکہ پوری کائنات یہ چاہتی ہے کہ ہمارے خیالات میں رنگ بھر دے۔ کہتے ہیں کہ پورا ماحول بلکہ پوری کائنات آپ کو پڑھ رہی ہے۔ آپ کی تلاوت کر رہی ہے۔
بس آپ اپنی ذات کو پڑھیں اور سمجھیں۔ حسن فطرت کی ساری توانائیاں ہمارے اور آپ کے خیال کے آگے بچھی جاتی ہیں۔ زمین کی چھاتی سے قوت ثقل آپ کو تھامے ہوئے ہے۔ ہوائیں آپ کی سانسیں ترتیب دینے میں جٹی ہوئی ہیں۔ آہٹیں ایک beat Rythmic میں آپ کے دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہیں۔ اس لیے اقبالؔ کہتے ہیں۔ ؎
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کے مومن
‏قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
ہم سب خیال بلکہ خام خیالی کے سبب دکھ ،درد کا دھندہ کرتے ہیں، بھئے کا بیوپار کرتے ہیں۔خسارے کا خزانہ سینتے ہوئے ہیں۔
غلط فہمیوں کا غرور، توہمات کی تجارت، مایوسی کی مستی اور لعنتوں کی لت و لذت میں لت پت رہتے ہیں۔ اپنے کسی نہ کسی خیال کے سبب ہم پر اپنی رائے کا نشہ بہت گہرا ہوتا ہے۔ جس کا مقابلہ کسی بھی شراب و حشیش سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ شراب کا نشہ کچھ دیر بعد اتر جاتا ہے لیکن اپنی رائے کا نشہ کسی بھی ترشی سے نہیں اترتا۔ اگر وہ غلط ہو تو خود کو برباد کرنے تک نہیں چھوڑتا۔ ہم سب نشے میں ہیں۔ چلتے پھرتے شراب خانے۔ ہمارے شانوں پر ہم سر نہیں بلکہ پورا میکدہ یا مٹکا اٹھائے ہوئے گھومتے ہیں۔ پرانے خیالات کا گھڑا۔ درد سے لذت اٹھاتے ہیں خیالات۔ ہم اپنے ذہن میں ٹارچر سیل چلاتے ہیں۔ تعذیب خانے آباد کرتے ہیں۔ جس میں لوگوں کو گھیر کر لاتے ہیں۔ وہاں ہم اپنے خیال سے لوگوں کو اذیت دیتے ہیں۔ جہاں ہمارے اپنے چاہنے والے بھی چیخ اٹھتے ہیں۔ اس ٹارچر سیل میں کبھی ماں کو گھسیٹ کر لایا جاتا ہے۔ کبھی بوڑھے باپ کو کھدیڑا، کبھی بھائی کی گردن دبوچ لی، کبھی بہن کو داغا،کبھی اپنی بچوں کی کھال کھینچی، کبھی کسی دوست کو دہشت زدہ کیا۔ کبھی کسی بزنز پارٹنر کو جھٹکے دیے۔ یہ کیسی دہشت گردی ہے جس کا ہمیں نہ علم نہ احساس نہ دکھ ہوتا ہے۔ ہم اپنے خیال کی اطراف اٹھائی گئی اونچی فصیلوں کے قیدی ہیں۔ اس قید خانے میں ہمارے بدن کو روٹی، سونے کو بستر، ہوا، پانی سب ملتا ہے لیکن ہم خیال کے قیدی تنہائی کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
ہم درد سے چیخ بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ قید نہیں بلکہ اپنی پسندیدہ خود سپردگی ہے ۔ایسی قید سے رہائی ضروری ہے۔خیال کو ہم نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ خیال ایسے اڑتے ہوئے objects ہیں جو کہیں فضا سے نکل کر ہمارے سر سے ٹکرا کر ہمیں پاش پاش کرسکتے ہیں۔ ہم خیال کے سبب بدن میں برپا تناو کی جنگ میں اپنے وجود کو کاٹ کاٹ کر کھورہے ہیں۔ یعنی خیال اتنا شدید ہوا کہ وہ بدن کا روگ بن گیا ۔ پھر وہی روگ ہم سے اپنا بدن مانگتا ہے۔ کبھی دل ،کبھی جگر، کبھی آنکھ، کبھی گردہ اور یہی خیال جب باہر کی دنیا میں ہلچل مچاتا ہے تو کبھی دوست، کبھی ہمسفر، کبھی جماعت، کبھی ملک، کبھی سارا جہاں ہم سے کٹ جاتا ہے۔ اور کبھی یوں بھی کہ جو میرے خیال کے ہم راہ رہیں وہ میرے ’’دوست‘‘ جو میرے خیال سے الگ رہیں ’’دشمن‘‘ چاہے ہمارے ساتھ جو کچھ ممکن ہو بہتری کردے لیکن وہ مخالف ٹھیرایا جائے گا۔اسی سبب ہم صداقت سے صرف ایک خیال کے فاصلے پررہتے ہیں۔اس کا ایک سادہ سا حل یہ ہے کہ جب جب کوئی ’’سوال‘‘ شخص یا شخصیت بن جائے تو جواب مشکل رہتا ہے اس لیے پہلے سوال کو خود سے الگ کرو۔ کیوں کہ یہ خیال رہے کہ ’’آپ کو درد ہے۔آپ درد نہیں‘‘۔
ذہن کی جنگاہ میں وحشی پالتو خیالات کے ہاتھوں ہم روز مرتے ہیں اور خود کو شہید گردانتے ہیں۔ جب کہ یہ تو خود کشی کی راہ ہے۔ یہ خیالات اتنے وحشی ہیں کہ اگر لوگوں کو ہمارے ذہن کے ننگے خیالات کے بارے میں پتہ چلا تو وہ ہمیں دیکھتے ہی گولی مار دیں گے۔ لیکن ہم لوگوں سے چھپا کر ایسے وحشی خیالات کی لت کا نشہ کرتے ہیں۔ خیال ہی جنت کا دریچہ ہے اور خیال ہی جہنم زار ہے۔ جانے ایسے کتنے وسوسے ہیں جو ہمیں سکھ چین کی جنت سے گھسیٹ کر باہر کھینچ لاتے ہیں۔ہم لوگ دن کے اجالوں میں اپنے خیالات کی تاریکی میں گھرے رہتے ہیں۔گہری بنیادوں میں دھنسا ہر غم خیال ہی کے سبب ہوتا ہے۔ اس لیے بدلے ہوئے ذہن سے زیادہ کوئی شئے قیمتی نہیں۔خیال کو سمجھنا ہوگا تاکہ ہمارا حال بہتر ہوسکے پھر سارے احوال بہتر ہوں گے۔
[email protected]
***

 

***

 خیال ہی جنت کا دریچہ ہے اور خیال ہی جہنم زار ہے۔ جانے ایسے کتنے وسوسے ہیں جو ہمیں سکھ چین کی جنت سے گھسیٹ کر باہر کھینچ لاتے ہیں۔ہم لوگ دن کے اجالوں میں اپنے خیالات کی تاریکی میں گھرے رہتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021