’’خیالستان کی سیر‘‘ کائناتسوچ کی گزرگاہ ۔سوچ کا راستہ کہکشاؤں تک

کامیاب زندگی کے لیے ماضی کی تلخیوں کو بھلانا چاہیے

نعیم جاوید، دمام، سعودی عرب

مثبت خیال کی طاقت سے جب گونج جو Negative Eco سے اٹی ہے اس کو ہم Mute کرتے ہیں تو وحشتوں کی یہ چیخ و پکار یکا یک روح کی نغمگی میں بدل جاتی ہے۔یہاں سے Positive Thought کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے کیونکہFlip side of signature strength کا دوسر ایقینی رخ طاقت ہے۔مثبت خیال کو حاصل کرنے کے لیے تین محاذوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس سے مثبت طاقت اپنے وجود میں اکھٹا ہوتی ہے اور اس کو فروغ ملتا ہے۔ جس کے لیے اچھا مشاہدہ، مباحثہ اور مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ دنیا میں سینکڑوں سائنس دانوں نے انہی تینوں ذرایع سے دنیا کو سجا دیا۔James Watt نے چائے کی کیتلی سے نکلتی بھاپ کو اپنے مشاہدے سے Steam Engine میں تبدیل کردیا۔ اس موضوع پر علامہ اقبالؔ نے تو پورا نصابِ زندگی پیش کردیا۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
ہیں تیرے تصر ف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک یہ خاموش فضائیں
آیئنہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
’’ پوری کائنات خیال کی گزرگاہ اور امکانات لیے آپ کے مثبت خیالات کا انتظار کررہی ہے۔ تاکہ سوچ کا راستہ کہکشاؤں کی سڑک تک جائے‘‘۔ایسے میں کسی گزرے ہوئے خیال کوسینت سینت کررکھنے والے تو گزرے زمانوں میں بسر کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
ہمارے بد مست خیالات ہمیں کبھی ماضی میں قید کردیتے ہیں اور کبھی مستقبل کے مفروضوں کو یقین کا درجہ دے دیتے ہیں۔ انجام کار ہم لمحہ موجود کے امکانات سے جڑی کوششوں سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے خیالات کو کباڑیے کی دکان نہ بننے دیں ورنہ مردہ آرزؤں کی بدبو ہمارے وجود کو مچھلی مارکٹ میں پھیلی بدبو میں تبدیل کردے گی۔وقت سے جڑے ہمارے ذہنی پڑاو کے ایک ایک مرحلے کو دیکھیں۔ماضی پرست خیال شخص ایسا ہے جیسے کسی ہائی وے کی سمت اپنی گاڑی ریورس میں چلارہاہو۔ الٹی رفتار سے حادثہ کایقین ہوتا ہے۔ ماضی پرست کے ذہن میں ایک مردہ خانہ رہتا ہے جس کی وہ ہر دم حفاظت کرتا ہے۔ اس مردے کے قریب زخموں کاRegisterرکھا رہتا ہے جس میں وہ تمام زخم پوری تفصیل کے ساتھ درج رہتے ہیں۔ جب کہ ہر واقعہ الگ ہوتا ہے۔گزرا ہوا لمحہ اپنی سرگرمی کے ساتھ اپنا کام دکھا کر جاچکا ہوتا ہے۔ ہم صرف یاد وں کے سرد خانے میں اسے زندہ رکھتے ہیں۔ ماضی میں جینے میں حسرتیں ساتھ ہوتیں ہیں۔ماضی یا مستقل برا نہیں ہوتا لیکن اکثر واقعات کے سبب لوگ ذہنی طور پر آثارقدیمہ کا میوزیم لگتے ہیں۔کبھی تو ایک چائے کے چمچے کی نغمگی یا محبت سے رکھے ہاتھ کی گرمی تک یاد آجاتی ہے۔لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یادوں کے البم سے پرانے حادثوں کی تصویریں مٹادیں۔ جیسے ہم تصویر کشی کے بعد صرف اچھی تصویریں رکھتے ہیں۔ماضی کے مدفن میں بڑے بڑے اہرام ہوتے ہیں اور ان میں اکثر لاشیں ملتیں ہیں۔ وہ بھی حنوط زدہ جو ممکن ہو دور سے رنگین نظرآئیں لیکن قریب سے دیکھو تو مردہ ہوتیں ہیں۔ جس سے عبرت تو حاصل کی جاتی ہے ندرت نہیں۔
مردوں کو جلانے والے بھی ان کی راکھ کو ان کی یادوں کے ساتھ سیراب کردیتے ہیں۔ اس کو ڈھوئے ہوئے نہیں رہتے۔ جو لوگ اپنے ماضی کے دکھڑوں سے پٹی د استان دنیا کو سناتے پھرتے ہیں۔ انہیں وراثت میں کہانیاں ، فرضی قصے ہی ملتے ہیں۔لومڑی کے وعظوں میں جنتوں کے چٹخاروں کی بشارت پر غبی چرند پرند ہی اعتبار کرتے ہیں۔ان کے اس چکر سے بچنا چاہیے ان کے دل دھوکے میں دھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔
ماضی اپنی گاڑی میں لگے اس شیشہ کی طرح ہے جس کا مقصد پیچھے کے احوال پر نظر رکھنا اور اس کی روشنی میں موجودہ منظر یا راستہ میں احتیاط برتنا اور آنے والے امکانی خطروں سے باخبر رہنا ہے۔ ماضی کے تمام درد اوردکھوں سے نجات چاہتے ہوں تو معا ف کرنا ہوگا۔صرف اوروں کی سفاکیوں کو نہیں بلکہ اپنی حماقتوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔ایسا کرتے ہی تم ماضی کی قید سے آزاد ہوجاوگے یعنی ایک اعلان معافی ایک قید سے رہائی کا پروانہ ہوتا ہے۔ورنہ ماضی میں جینے والوں کے ساتھ حسرتیں یا ندامتیں ہوتی ہیں۔
ہماری ذہنی بے گھری کا حال یہ ہے کہ ہم مایوس کن ماضی، حیران زدہ حال اور مبہم مستقبل میں جیتے ہیں۔ ’’حال ‘‘کا پرسکون پڑاو چھوڑ کر ماضی کے محلات یاکھنڈرات میں یا مستقبل کے خدشات یا خطرات میں بھٹکتے رہتے ہیں۔اسی سبب و قت کے آئینہ پر گرد بیٹھ جاتی ہے۔پاس کا ہر لمحہ دھواں دھواں نظرآتا ہے۔ زندگی جیسے بہکا ہوا آئینہ ہو۔اس کی مثال برف بیچنے والے سے بھی دی جاسکتی ہے جس کی پوری دولت برف کے کاروبار میں لگ چکی ہے اور وہ اس کو پگھلتے ہوئے دیکھتا ہے اور کوشش بھی نہیں کرتا کہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ ایک طرفہ ایک رخی مستقبلیت زندگی کو عذابوں میں ڈال دیتی ہے۔ انہیں الجھنیں ہی راس آتی ہیں۔نامعلوم سے خدشات نئے اقدامات کو روک دیتے ہیں۔ امید کی روشنی میں چلنے کے بجائے بے یقینی کے ساتھ رک رک کے چلتے ہیں۔ ذہن غیرموجود غاروں سے ‘ وادیوں سے لرزتا ہے۔جب کہ دل حال کے پَل میں پُل بناتا ہے اور مستقبل میں جست لگاتا ہے۔
ماضی گزیدہ لوگ تو جیسے یادوں کے گھنے جنگل میں اپنے ترکش کے گمشدہ تیروں کو تلاش کرنے میں اپنے پہلو سے لمحہ موجود کی حسین گھڑیوں کوسیتا کی طرح گنوا آتے ہیں۔ بعد میں اتفاقاً وہ حسین گھڑی میسر آبھی جائے تو اس پر یقین نہیں کرتے ۔ اس کو اپنی پرانی غفلت کے سبب ایک تازہ ترین شک کے تحت کھودیتے ہیں۔یا آگ سے گزار دیتے ہیں۔
برے خیالات کے ساتھ ہم کیا کریں:
چاہے بات کسی زمانے کی ہو خوابوں کی کل قیمت نتائج پر ہوتی ہے۔ہمیشہ اچھے خیالات کی دھوپ سے الجھن کا کُہرا چھٹ جاتا ہے۔بُرے خیال کو بھلے عمل سے زدوکوب کرو۔ ستھرے قدموں سے انہیں روندا کرو۔ برے خیال تو سانپ ہوتے ہیں جو ہر ایک سر میں سرسراتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارے وجود کے جنگل میں پاکیزہ خیالات کی خوشبووں میں پلتے ہیں جیسے صندل سے لپٹے ہوئے سنپولے۔انہی برے خیالات کے سبب ذہن حوصلوں کا زہر دے کر ہلاک کرتا ہے۔ پھر ہم مردہ حوصلوں کا پلنددہ ڈھوئے ڈھوئے پھرتے ہیں۔اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کا ایک وداعی جشن ذہن کے رنگ منج پر منائیں۔اس کو وداع کریں۔ اورخود سے کہیں کہ وہ دیکھو دیکھو۔مجھے ڈرانے ، سہمانے والے وسوسوں کا جلوس جارہا ہے۔ہاں وہ دیکھو میری مایوسیوں کا قافلہ گزر رہا ہے۔ہاں ہاں وہ دیکھو مجھے اداس کرنے والا شہر بدر ہورہا ہے وغیرہ۔اپنے برے خیالات کو بدترین کرداروں کا نام دو۔ ان نئے ناموں کو سنتے ہی آپ کو اس کی رائے پر ہنسی آئے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے برے خیالات کو رسوا کن نام دینے سے اس کی توانائی ذہن سے چھٹ جاتی ہے۔ خیالات سے بچنے کا ایک اور طریقہ ہے کہ آنکھ بندکر کے یہ سوچیں کا ایک بڑا سا غبارہ آپ نے بھرا اس میں گیاس کی جگہ یہ ناکارہ خیالات بھر کر اس کو فضاوں میں چھوڑ دیا۔ جب ہاتھ سے ڈور چھوٹی تو پھر اس سے تعلق بھی چھوٹا۔ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ برے خیال کو تفصیل سے لکھ کر اس کاغذ کو جلا کر پانی سے سیراب بھی کردو۔ ایک اور طریقہ ہے برے خیال کو خط میں لکھ کر اسے شیطان کے نام اپنے تصور سے پوسٹ کردو ہے۔اس ذہنی کیفیت کہ ساتھ کرنا کہ آپ نے شیطان کو اس کی چیز لوٹا دی۔ اس کے منہ پر مار دیا۔اس کو اپنے ذہن سے دھتکار دیا۔ذہن کے گلستان سے برے خیال کے کانٹے چھٹتے ہی ذہن جنت کا باغیچہ بن جاتا ہے۔ جس میں ہر سمت سے نیکی کی خوشبو کا راج ہوجاتا ہے۔

 

***

 ماضی اپنی گاڑی میں لگے اس شیشہ کی طرح ہے جس کا مقصد پیچھے کے احوال پر نظر رکھنا اور اس کی روشنی میں موجودہ منظر یا راستہ میں احتیاط برتنا اور آنے والے امکانی خطروں سے باخبر رہنا ہے۔ ماضی کے تمام درد اوردکھوں سے نجات چاہتے ہوں تو معا ف کرنا ہوگا۔صرف اوروں کی سفاکیوں کو نہیں بلکہ اپنی حماقتوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔ایسا کرتے ہی تم ماضی کی قید سے آزاد ہوجاوگے یعنی ایک اعلان معافی ایک قید سے رہائی کا پروانہ ہوتا ہے۔ورنہ ماضی میں جینے والوں کے ساتھ حسرتیں یا ندامتیں ہوتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021